کوا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا !

ناعمہ عزیز

لائبریرین
میرے ساتھ بڑا عجیب مسئلہ ہے کہ جب کوئی بات مل جائے اس کی کھال اتارنے کو تیار ہو جاتی ہوں ، اور جب تک اسکی کھال نا اتر جائے مجھے چین نہیں آتا، مختصر الفاظ میں یہ کہ جب تک اپنے اندر کا اُبال باہر نا نکا ل لوںٕ مجھے وہ سوچ تنگ کرتی ہی رہتی ہے۔ میں نے سوچا تھا کہ جب تک امتحان نہیں ہو جاتے میں کچھ نہیں لکھوں گی ، نا کچھ سوچوں گی ،
مزے کی بات یہ ہو ئی کہ رات کو خواب میں بھی میں یہ کہتی رہی ہوں کہ
Excess of everything is bad.
اب اسکی بھی وضاحت کرتی چلوں ، دراصل ہر چیز کی زیاتی بُری ہو تی ہے اس کا تعلق بھی میرے موضوع سے ہے،!


اب یہ معاملہ ہی لے لیں کہ دو دن پہلے کی با ت ہے کہ میری دوست نے میرےسامنے اپنے تین چار سال کے بھانجے کو اس لئے ڈانٹ دیا کہ وہ پنجابی بول رہا تھا ، میں نے کہا ، کوئی بات نہیں بول رہا ہے تو بولنے دو ، اتنی اچھی لگ رہی اس کی انداز میں پنجابی ، اور ویسے بھی پنجابی ایک زبان ہے ،اور جتنا مزہ پنجابی میں ہے اتنا اور کسی زبان میں نہیں ،
آپ میری بات سے اتفاق کریں گے کہ اردو بولتے ہو ئے ذرا تکلف آجاتا ہے ، اور انگلش ایسی تو اس قدر تکلفانہ زبان ہے کہ میرے تو بول بول کر منہ میں درد ہو جاتا ہے !


میں یہ سمجھتی ہوں کہ نا کبھی بھی کچھ ایک انسان کی وجہ سے نہیں ہو تا ، آپ دیکھیں کہ بات پورے ملک کی ہے ، اور پورا ملک کسی ایک انسان کے غلط فیصلوں کی وجہ سے تھوڑی برباد ہو سکتا ہے ؟ جیسے ایک انسان کی بربادی کے پیچھے صرف اس کا اپنا ہی ہاتھ نہیں ہوتا بلکہ بہت سے لوگ جو اس کے اردگرد ہوتے ہیں ، اس سے وابسطہ ہوتے ہیں ، سب مل کر اسے تباہ و برباد کرتے ہیں ،
اسی طرح اگر ہم جائزہ لیتے ہیں تو ہم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ ہم آج بھی ایک غلام قوم ہیں ، ہماری تہذیب و روایات ہمار ی تاریخ ، ثقافت کو ہم سب نے خود مل کر ختم کیا ہے ، آپ دیکھیں کہ ہمارا قومی لباس شلوار قمیض ہے لیکن آپ دیکھیں کہ کوئی بھی شلوار قمیض پہننا پسند نہیں کرتا ، ہر نئے فیشن کی پیروی کرنا ثواب کا کام سمجھا جاتا ہے ، پہلے پی ٹی وی ایک ایسا چینل تھا جس کو سب کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا جاسکتا تھا لیکن اب پی ٹی وی والوں پر بھی مغرب کا رنگ چڑھ آیا ہے!
دراصل ہمارے ساتھ ایک بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم اصول پسند لوگ نہیں ہے ، کم ازکم ایک ملک میں رہنے والے باشندوں کو اپنی تہذیب و ثقافت اور روایات پر سمجھوتانہیں کرنا چاہئے ، ایران اور چین جیسے ملکوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ،
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ چین کے وزیراعظم تھے شاید جن سے ایک کانفرنس میں سوال کیا گیا کہ آپ انگلش میں کیوں نہیں جواب دیتے
تو انہوں نے جواب دیا
" کیا چین کی اپنی زبان نہیں"؟
اور یہ پڑھ کر مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ بیان سے باہر ہے!
ہمارے یہاں تو تعلیم کا معیار ہی ایسا بنا دیا گیا ہے کہ بیکن میں اعلیٰ درجے کی تعلیم دی جاتی ہے، ایجو کیٹرز میں ذرا درجہ اس سے نیچے ہے اور اس سے جیسے جیسے پرائیویٹ سکول نیچے آتے جاتے ہیں ، درجہ اتنا ہی کم ہوتا جاتا ہے ،
اور جب آتے ہیں آپ گورنمنٹ سکولوں کی طرف تو میں نے اکثریت یہی دیکھی ہے کہ پرائمری اور مڈل لیول کے سکولوں میں تعلیم کا معیار بہت گر چکا ہے ! ظاہر ہے غریبوں کے بچے گورنمنٹ سکولوں میں پڑھتے ہیں اس لئے ہمارے یہاں زیادہ تر وہ ہی بچے لائق فائق کہلائے جاتے ہیں جو سب سے اعلیٰ درجے انگلش فر فر بولتے ہیں اور وہ ہیں امیر طبقے کی اولاد!
آپ حیران ہو ں گے کہ میری دوست بتاتی ہے کہ میرے بھتیجے مجھ سےپو چھتے ہیں کہ پھوپھو بیلون کو اردو میں کیا کہتے ہیں ؟؟
امیر طبقہ زیادہ تر اپنے بچوں کو انگریزی بولتا دیکھ کر ہی خوش ہوتاہے ، مجھے یہ نہیں سمجھ آتا کہ ہم آج تک کیوں اپنے ذہنوں کو آزادنہیں کروا پائے ! انگلش بولنا کوئی ثواب کا کام تو نہیں ؟ آپ ہی بتائیے کہ پنجابی بولنے میں کیا گناہ ہے ؟؟ اگر بچہ پنجابی بولتا ہے تو بُرا کیوں سمجھا جاتا ہے ؟
میں یہ نہیں کہتی ہوں کہ آپ انگریزی نا سیکھیں میں خود انگریزی ادب میں ماسٹرز کر رہی ہوں ، اچھی چیز انسان کو جہاں سے بھی ملے اسے اپنا لینی چاہئے لیکن ایسا نا ہو کہ
" کو ا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا "
پنجابی کی اپنی کی ایک اہمیت ہے ، اپنا ایک مقام ہے ، یہ اتنے مزے کی زبان ہے کہ میں اکثر کہا کرتی ہوں کہ آپ اگر اس کو متبادل ڈھونڈیں تو آپ کو کہیں نہیں ملے گا ،آپ دیکھیں کہ اگر ہم انگریزی کو اتنا زیادہ بولیں گے تو پنجابی کا تو نام و نشان مٹ جائے گا نا ! اور ہمیں تو فخر کرنا چاہئے کہ ہمیں اردو اور انگلش کے علاوہ اور بھی زبانیں آتی ہیں ۔
خیر دیکھئے ، غور کرئیے ، اپنی شناخت کو مت کھویں ، اپنا آپ ختم کرکے دوسروں کا رنگ مت چڑھائیں خود پر ، ورنہ ایک روز ایسا آئے گا کہ یہ سب چھوٹی چھوٹی چیزیں ختم ہو کر رہ جائیں گی ۔
 

شمشاد

لائبریرین
بہت اچھا لکھا ہے ناعمہ۔ یہ صحیح ہے کہ ہم اپنی ثقافت کو بھولتے جا رہے ہیں اور دوسروں کی ثقافت اپنا کر بڑا فخر محسوس کرتے ہیں۔
لیکن اپنی ثقافت کو چھوڑنے میں قصور بھی تو ہمارا اپنا ہی ہے اس لیے کسی کو دوش دینا بے سود ہے۔ ہم نے اپنا وقار خود کھویا ہے۔

اس پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے اور بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ مزید پھر کسی وقت لکھوں گا۔
 

پپو

محفلین
عام طور پر لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہیں پنجابی تو اپنی گھر کی زبان ہے آ ہی جائے گی مگر اردو اور انگلش کے لیے کوشش کرنی پڑتی ہے
 

ساجد

محفلین
ناعمہ ، بہت اچھا لکھا ہے۔ پنجابی اور پھر فیصل آباد کی ہو تو سنتے ہی طبیعت ہشاش بشاش ہو جاتی ہے۔ افسوس کہ میں فیصل آبادی ہونے کے باوجود اس لہجے پر عبور نہیں رکھتا۔
 

زونی

محفلین
ناعمہ آپ نے بہت اچھے موضوع پہ لکھا ھے ،،،اصل میں ہم بہ حیثیت قوم انگریزوں اور ان کی زبان سے بہت زیادہ متاثر ہیں اسکی ایک وجہ تو یہ ھے کہ ہم برطانوی کالونی رہے ہیں اور دوسرے وجہ یہ کہ ہمیں خود پہ اعتماد نہیں ھے ،،،اسی وجہ سے ہم نے اپنے تعلیمی نظام کو بہت سے حصوں میں تقسیم کر رکھا ھے جہاں اردو اور انگلش میڈیم نے قوم کو درجات میں تقسیم کر دیا ھے ،،،انگریزی زبان سیکھنے میں بلکہ کوئی بھی زبان سیکھنے میں کوئی برائی نہیں لیکن اس کیلئے یہ ضروری نہیں کہ اپنی زبان کو کمتر سمجھا جائے اور اسے سمجھنے اور سیکھنے میں شرمندگی محسوس ہو ۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
ناعمہ ، بہت اچھا لکھا ہے۔ پنجابی اور پھر فیصل آباد کی ہو تو سنتے ہی طبیعت ہشاش بشاش ہو جاتی ہے۔ افسوس کہ میں فیصل آبادی ہونے کے باوجود اس لہجے پر عبور نہیں رکھتا۔

میں نے سوچا تھا کہ میں یہ مضمون تحریر پنجابی میں ہی لکھتی ہوں لالہ لیکن دراصل صبح سے بجلی ایک گھنٹہ آتی ہے ایک گھنٹہ جاتی ہے ، اور میرا ذہن کاغذ پر نہیں چلتا ، ایم ایس ورڈ پر ہی چلتا ہے اس لئے نہیں لکھ پائی :laugh:
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
عام طور پر لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہیں پنجابی تو اپنی گھر کی زبان ہے آ ہی جائے گی مگر اردو اور انگلش کے لیے کوشش کرنی پڑتی ہے

لالہ بات صرف سیکھنے کی ہو تو اور بات ہوتی ہے لیکن یہاں تو باقاعدہ طور پر اس کو ناپسند کیا جاتا ہے ، اور زونی اپیا نے ٹھیک کہا کہ شرمندگی محسوس کی جاتی ہے ، والدین خود منع کرتے ہیں کہ ہمارے بچوں کے سامنے پنجابی بالکل نا بولی جائے۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
بہت اچھا لکھا ہے ناعمہ۔ یہ صحیح ہے کہ ہم اپنی ثقافت کو بھولتے جا رہے ہیں اور دوسروں کی ثقافت اپنا کر بڑا فخر محسوس کرتے ہیں۔
لیکن اپنی ثقافت کو چھوڑنے میں قصور بھی تو ہمارا اپنا ہی ہے اس لیے کسی کو دوش دینا بے سود ہے۔ ہم نے اپنا وقار خود کھویا ہے۔

اس پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے اور بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ مزید پھر کسی وقت لکھوں گا۔

بالکل ٹھیک کہا لالہ آپ نے ، کسی کا بھی قصور نہیں ہے ہمارا اپنا قصور ہے۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
ناعمہ آپ نے بہت اچھے موضوع پہ لکھا ھے ،،،اصل میں ہم بہ حیثیت قوم انگریزوں اور ان کی زبان سے بہت زیادہ متاثر ہیں اسکی ایک وجہ تو یہ ھے کہ ہم برطانوی کالونی رہے ہیں اور دوسرے وجہ یہ کہ ہمیں خود پہ اعتماد نہیں ھے ،،،اسی وجہ سے ہم نے اپنے تعلیمی نظام کو بہت سے حصوں میں تقسیم کر رکھا ھے جہاں اردو اور انگلش میڈیم نے قوم کو درجات میں تقسیم کر دیا ھے ،،،انگریزی زبان سیکھنے میں بلکہ کوئی بھی زبان سیکھنے میں کوئی برائی نہیں لیکن اس کیلئے یہ ضروری نہیں کہ اپنی زبان کو کمتر سمجھا جائے اور اسے سمجھنے اور سیکھنے میں شرمندگی محسوس ہو ۔

متفق :music:
 

فرحت کیانی

لائبریرین
بہت اہم رویے کی طرف اشارہ کیا ہے ناعمہ۔ میں اس کو احساسِ کمتری سے جوڑتی ہوں۔ وہی بات کہ ہم لوگ شدت کے مارے ہوئے لوگ ہیں۔ زبان کی بات ہو یا پہننے اوڑھنے کی، ہمیں اپنے گال لال کرنے ہی ہیں۔
 
فل زمانہ ھمارا یہ بہت بڑا المیہ بن چکا ھے کہ مادری زبان پر انگریزی کو فوقیت دے رہیں ہیں۔ کوشیش یہ ہوتی ھے کہ بچہ سکول انگریزی میں داخل ھو اور فرفر انٍگریزی بولے ۔

بہت عمدہ کالم ۔۔ ھل من مذید
 

ساجد

محفلین
منتظمین کرام ، دھاگے کے عنوان کی "چال" درست فرما دیں۔ ناعمہ نے تو اسے واقعی "ہنس" کی چال بنا دیا ہے:) ۔
صحیح ضرب المثل کچھ یوں ہے 'کوا چلا ہنس کی چال،اپنی بھی بھول گیا'۔
 

پپو

محفلین
لالہ بات صرف سیکھنے کی ہو تو اور بات ہوتی ہے لیکن یہاں تو باقاعدہ طور پر اس کو ناپسند کیا جاتا ہے ، اور زونی اپیا نے ٹھیک کہا کہ شرمندگی محسوس کی جاتی ہے ، والدین خود منع کرتے ہیں کہ ہمارے بچوں کے سامنے پنجابی بالکل نا بولی جائے۔
بالک درست فرمایا یہ اندر کے احساس کمتری کو دلاسہ دینے والی بات ہے ایڑھیاں وہی اُٹھائے گا جس کا قد پست ہوگا
 

یوسف-2

محفلین
اپنی مادری اور قومی زبان سے دوری نے یہ دن دکھائے ہیں کہ میرے کئی پنجابی اور پشتو اسپیکنگ دوستوں کے بچے پنجابی اور پشتو بولنے سے ہی قاصر ہیں۔ پھر جب یہی بچے ”بڑے“ ہوکر ”کمیونیکیشن گیپ“ کی وجہ سے اپنے والدین اور مادر وطن کو کسمپرسی کی حالت مین چھوڑ کر ”فرار“ ہوجاتے ہیں تب پتہ چلتا ہے کہ آج جو کانٹوں کی جو فصل کاٹ رہے ہیں، اسے ہم ہی نے تو بویا تھا۔ ایک اہم موضوع پر ایک اچھی تحریر ہے۔ ہمیں اس طرح کی ”یاد دہانیاں“ کراتے رہنا چاہئے۔
 
Top