کوئی امید بر نہیں آتی ۔ غالب (مختلف گلوکار)

فاتح

لائبریرین
کوئی امید بر نہیں آتی ۔ مختلف گلوکار
نور جہاں


بیگم اختر

عابدہ پروین

ملکہ پکھراج

شاہدہ پروین

حامد علی خان

راحت ملتانیکر

آخر میں ان حضرت کے ہاتھوں اس غزل کی بربادی پر ماتم بھی کر لیجیے۔ اس ویڈیو میں حاضرین کے درمیان نصیر الدین شاہ کو حالتِ سوگ میں ہکا بکا بیٹھے دیکھ کر اندازہ لگا رہا ہوں کہ وہ واقعی صاحبِ ذوق شخص ہے جس کی طبعِ نفیس پر یقیناً یہ ستم گراں گزر رہا ہو گا۔
راحت علی خان ۔ حصہ اول

راحت علی خان ۔ حصہ دوم

نوٹ: جس قدر ٹیگز لگانے کی مجھے اجازت ہے اس قدر لگائے دے رہا ہوں جب کہ باقی گلوکاروں کے ناموں کے ٹیگز لگانے کی آپ احباب سے درخواست ہے۔ درج ذیل ٹیگز لگانے کا ارادہ تھا:
غالب، نور جہاں، بیگم اختر، عابدہ پروین، ملکہ پکھراج، شاہدہ پروین، حامد علی خان، راحت ملتانیکر، راحت علی خان

کوئی امّید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی

موت کا ایک دین معیّن ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی

جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی

ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی

کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں
میری آواز گر نہیں آتی

داغِ دل گر نظر نہیں آتا
بُو بھی، اے چارہ گر، نہیں آتی

ہم وہاں ہیں جہاں سے، ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی

مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی

کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی
(مرزا اسد اللہ خان غالبؔ)
 
Top