کن سے لگائے بیٹھے تھے چاہت کی آس لوگ - رؤف خلش

عندلیب

محفلین
غزل
(رؤف خلش / حیدرآباد دکن)​

کن سے لگائے بیٹھے تھے چاہت کی آس لوگ
خود میں بکھر بکھر گئے آخر اداس لوگ

ملتی ہیں قربتیں تو ملو پَر الگ رہو !
ہوتے بہت ہیں دور جو رہتے ہیں پاس لوگ


کچھ لوگ تھے جو چاندنی بن کر جیا کئے
اب تو نکالنے لگے دل کی بھڑاس لوگ


جلتے گھروں کی آگ ہے جلتے گھروں کی آگ
کیوں کر رہے ہیں روشنیوں کا قیاس لوگ

پوشاک والے جذب کریں کیا ہَوا کے لمس
پہچان موسموں کی بنے بے لباس لوگ

بڑھتی ہی جا رہی ہے یہ بجھتی نہیں کبھی !
لوگوں کی پیاس "صحرا" ہے ، "صحرا" کی پیاس لوگ

ان کا جہاں الگ ہے ہمارا جہاں الگ
سادہ دلوں کو اب کہاں آتے ہیں راس لوگ


امن و اَماں کے شہر کا یہ حال ہے خلش
سڑکوں پہ اوڑھے پھرتے ہیں خوف و ہراس لوگ
 

رانا

محفلین
ملتی ہیں قربتیں تو ملو پَر الگ رہو !
ہوتے بہت ہیں دور جو رہتے ہیں پاس لوگ

جلتے گھروں کی آگ ہے جلتے گھروں کی آگ
کیوں کر رہے ہیں روشنیوں کا قیاس لوگ

پوشاک والے جذب کریں کیا ہَوا کے لمس
پہچان موسموں کی بنے بے لباس لوگ

واہ ۔ بہت ہی خوبصورت غزل ہے۔ شکریہ شریک محفل کرنے کا۔
 
Top