کل پھر اک آدمی کو شیرنی نے قتل کیا

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہہہ
بہت خوبصورت نظم
شیرنی کا استعارہ حالات حاضرہ پر ہر جہت سے جوڑنے کی کوشش مگر ناکام رہا ۔۔۔۔۔
باقی مجموعی طور پر نظم مکمل اور قاری پر اک اچھوتا تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہے ۔
بہت سی دعاؤں بھری داد محترم سید بھائی
 

قیصرانی

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہہہ
بہت خوبصورت نظم
شیرنی کا استعارہ حالات حاضرہ پر ہر جہت سے جوڑنے کی کوشش مگر ناکام رہا ۔۔۔ ۔۔
باقی مجموعی طور پر نظم مکمل اور قاری پر اک اچھوتا تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہے ۔
بہت سی دعاؤں بھری داد محترم سید بھائی
شیرنی کی جگہ دہشت گرد، انسان کی جگہ حکمران طبقہ اور ہرنیوں کی جگہ عوام الناس :)
 

سید ذیشان

محفلین
:)
واہہہہہہہہہہہہہ
بہت خوبصورت نظم
شیرنی کا استعارہ حالات حاضرہ پر ہر جہت سے جوڑنے کی کوشش مگر ناکام رہا ۔۔۔ ۔۔
باقی مجموعی طور پر نظم مکمل اور قاری پر اک اچھوتا تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہے ۔
بہت سی دعاؤں بھری داد محترم سید بھائی
بہت عمدہ بھائی جان
مجھے نایاب بھیا جی کی بات سے اتفاق ہے
دونوں بھائیوں کی پسندیدگی کا شکریہ۔

نایاب بھائی اوپر قیصرانی بھائی نے مختصر مگر جامع جواب لکھ دیا ہے۔ تھوڑا سا اس میں اضافہ کروں گا کہ شیرنی درندگی اور سفاکی کے لئے استعارہ ہے جس کو انسان اور ہرن ”سزا“ اور ”قہرِ خدا“ کے ناموں سے پکارتے ہیں۔ باقی اس میں انسانوں میں موجود طبقاتی تقسیم (امیر غریب، حکمران رعایا وغیرہ) کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ کہ کس طرح کچھ طبقوں کا خون ارزان ہے۔ اور دشمن کی پہچان ہوتے ہوئے بھی الگ الگ ڈبوں میں خود کو بند کر رکھا ہے۔ :)
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
بچپن میں کافی شوق ہوتا تھا اس طرح کی کہانیاں پڑھنے کا۔ جسیم خان کا نام ذہن میں نہیں آ رہا شائد پڑھے ہوں گے۔ نیٹ پر تو نہیں ہیں ان کی کہانیاں؟
کافی پرانا اخباری سلسلہ تھا ۔محمد جسیم خان کے نام سے شاید مڈویک وغیرہ میں چھپا کرتا تھا ۔ اب تو مجھے بھی یاد نہیں تفصیلات۔
یہاں کہیں کہیں کسی دھاگے میں بھی ذکر ملتا ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
ترمیم شدہ نظم حاظر ہے:

کل پھر اک اور بشر شیرنی نے مار دیا
شہرِ آدم میں بپا حشر کا کہرام ہوا!
نقش ہر آنکھ میں تھی خوفِ اجل کی تصویر
دامِ اوہام سے باہر نہ نکلتی تقریر
مسجد و دیر کا رخ کرنے لگے پیر و جواں
خستہ مندر کا بھی اندر ہوا مشعل سے عیاں
فکرِ فردا میں تو مشغول ہوئے دنیا پرست
یاد آنے لگا دیں داروں کو میثاقِ الست

یا الٰہی! یہ عذابِ غم و حسرت کیوں کر؟
ہم نے کیا جرم کیا؟ ایسی سزا کیوں ہم پر؟
دشت میں تب تھا بپا ایک نرالہ منظر!
ہرنیاں خوش تھیں کہ اس بار پھر انسان مرا
چلو اک دن کو سہی، قہرِ خدا ہم سے ٹلا
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
فکرِ فردا میں سب مشغول ہوئے دنیا پرست۔
میرے خیال میں یہاں ب کو دیگر علت کے حروف کی طرح گرانا یا دبانانامناسب ہے بلکہ جائز حد میں نہ ہوگا ۔
اک دن کو سہی۔۔۔ سے زیادہ بہتر۔۔۔ اک دن ہی سہی۔ہو سکتا ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
فکرِ فردا میں سب مشغول ہوئے دنیا پرست۔
میرے خیال میں یہاں ب کو دیگر علت کے حروف کی طرح گرانا یا دبانانامناسب ہے بلکہ جائز حد میں نہ ہوگا ۔
اک دن کو سہی۔۔۔ سے زیادہ بہتر۔۔۔ اک دن ہی سہی۔ہو سکتا ہے۔
فکرِ فردا میں سب مشغول ہوئے دنیا پرست

اوپس۔ معلوم نہیں یہ کیسے ہو گیا۔ اس کی تدوین کرتا ہوں۔

مجھے ہی کی نسبت کو زیادہ بہتر لگتا ہے اس صورت حال میں۔ :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
فکرِ فردا میں سب مشغول ہوئے دنیا پرست
اوپس۔ معلوم نہیں یہ کیسے ہو گیا۔ اس کی تدوین کرتا ہوں۔
مجھے ہی کی نسبت کو زیادہ بہتر لگتا ہے اس صورت حال میں۔ :)
جیسے آپ چاہیں :) ۔۔۔ یہ تو پبلک فورم ہے چناں چہ آپ کچھ بھی ایکسپیکٹ کر سکتے ہیں،
۔البتہ۔ ب ۔والا معاملہ سیرئس تھا ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
:)


دونوں بھائیوں کی پسندیدگی کا شکریہ۔

نایاب بھائی اوپر قیصرانی بھائی نے مختصر مگر جامع جواب لکھ دیا ہے۔ تھوڑا سا اس میں اضافہ کروں گا کہ شیرنی درندگی اور سفاکی کے لئے استعارہ ہے جس کو انسان اور ہرن ”سزا“ اور ”قہرِ خدا“ کے ناموں سے پکارتے ہیں۔ باقی اس میں انسانوں میں موجود طبقاتی تقسیم (امیر غریب، حکمران رعایا وغیرہ) کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ کہ کس طرح کچھ طبقوں کا خون ارزان ہے۔ اور دشمن کی پہچان ہوتے ہوئے بھی الگ الگ ڈبوں میں خود کو بند کر رکھا ہے۔ :)
ایک اور درستگی کر دوں، کاربٹ کے الفاظ میں ہی کہ:
جس شخص نے سب سے پہلے شیر کے لئے سفاک اور درندے کا لفظ استعمال کیا تھا، اس نے اس شاندار جانور کی شہرت کو ہمیشہ کے لئے گہنا دیا تھا۔ اگر شیر واقعی ایسا ہوتا تو ہر روز لاکھوں افراد، جو جنگل میں کام کرنے جاتے ہیں (کاربٹ کے وقت میں) میں سے روزانہ ہزاروں افراد واپس نہ لوٹتے کہ شیروں کا نوالہ بن جاتے :)
 

قیصرانی

لائبریرین
جسیم خان کے شکاری سلسلے بھی کسی نے پڑھے ہیں ؟
جسیم خان کے سلسلے پڑھے ہیں اور انہیں درجہ دوم کے شکاریوں میں شمار کرتا ہوں کہ مجھے ان کی داستانوں پر پوری طرح اعتبار نہیں ہے کہ انہوں نے کبھی اپنے استعمال کے ہتھیاروں کی مناسب تفصیل نہیں بتائی۔ دوسرا مافوق الفطرت چیزیں بھی درمیان میں لاتے رہے ہیں (درازندہ کے قلعے میں ان کے بنگلے کے بیڈ روم سے ان کا رات کو سائے کے اشارے پر نکلنا، چھپکلی نما پری وغیرہ کا انہیں اور ان کا اسے گھورنا، وغیرہ) جس کی وجہ سے بطور شکاری مجھے ان کی فطرت کچھ کمزور لگی ہے۔ ایک شکاری کے لئے یہ ایک کمزوری ہے۔ کیننتھ اینڈرسن کو بھی میں اسی وجہ سے زیادہ مستند شکاری نہیں مانتا (اس کے علاوہ یہ بھی اہم عنصر ہے کہ کیننتھ اینڈرسن پیشہ ور شکاری تھا)
 

قیصرانی

لائبریرین
ترمیم شدہ نظم حاظر ہے:

کل پھر اک اور بشر شیرنی نے مار دیا
شہرِ آدم میں بپا حشر کا کہرام ہوا!
نقش ہر آنکھ میں تھی خوفِ اجل کی تصویر
دامِ اوہام سے باہر نہ نکلتی تقریر
مسجد و دیر کا رخ کرنے لگے پیر و جواں
خستہ مندر کا بھی اندر ہوا مشعل سے عیاں
فکرِ فردا میں تو مشغول ہوئے دنیا پرست
یاد آنے لگا دیں داروں کو میثاقِ الست

یا الٰہی! یہ عذابِ غم و حسرت کیوں کر؟
ہم نے کیا جرم کیا؟ ایسی سزا کیوں ہم پر؟
دشت میں تب تھا بپا ایک نرالہ منظر!
ہرنیاں خوش تھیں کہ اس بار پھر انسان مرا
چلو اک دن کو سہی، قہرِ خدا ہم سے ٹلا
شیرنی کی جگہ درندہ یا آدم خور لکھ دیں تو شکاری اعتبار سے بات واضح ہو جائے گی (اور شاعری کا مقصد بھی لگے ہاتھوں فوت ہو جائے گا)
 

سید ذیشان

محفلین
ایک اور درستگی کر دوں، کاربٹ کے الفاظ میں ہی کہ:
جس شخص نے سب سے پہلے شیر کے لئے سفاک اور درندے کا لفظ استعمال کیا تھا، اس نے اس شاندار جانور کی شہرت کو ہمیشہ کے لئے گہنا دیا تھا۔ اگر شیر واقعی ایسا ہوتا تو ہر روز لاکھوں افراد، جو جنگل میں کام کرنے جاتے ہیں (کاربٹ کے وقت میں) میں سے روزانہ ہزاروں افراد واپس نہ لوٹتے کہ شیروں کا نوالہ بن جاتے :)

ظاہری بات ہے کہ شیر کو درندہ اس نظم کے context میں کہا گیا ہے۔ یہ کوئی جنرل سٹیٹمنٹ نہیں ہے۔ کیونکہ شیروں سے کہیں زیادہ انسان جانوروں کا خون کرتے ہیں تو انسان تو پھر شیروں سے زیادہ درندے ہوئے :)
 

سید ذیشان

محفلین
شیرنی کی جگہ درندہ یا آدم خور لکھ دیں تو شکاری اعتبار سے بات واضح ہو جائے گی (اور شاعری کا مقصد بھی لگے ہاتھوں فوت ہو جائے گا)

آدم خور کا ذکر عنوان میں کر دوں تو کیسا رہے گا؟

آدم خورشیرنی کا تازہ شکار
(ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے طبقات اور تضادات پر ایک تبصرہ)
 

قیصرانی

لائبریرین
آدم خور کا ذکر عنوان میں کر دوں تو کیسا رہے گا؟

آدم خورشیرنی کا تازہ شکار
(ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے طبقات اور تضادات پر ایک تبصرہ)
ایک سوال پوچھوں سید بادشاہ؟ ہر حال میں درندے کی مادہ نے ہی موضوع شعر بننا ہے؟ :)
 
Top