کل پھر اک آدمی کو شیرنی نے قتل کیا

سید ذیشان

محفلین
کل پھر اک آدمی کو شیرنی نے قتل کیا
ہوا کہرام بپا آدمی کی بستی میں
ثبت ہر آنکھ میں تھے خوفِ قضا کے ہی نقوش
لہرِ اوہام بھی لرزاں ہر اک آہٹ میں تھی
مسجد و دیر کا رخ کرنے لگے پیر و جواں
خستہ مندر کا بھی در مدتوں کے بعد کھلا
یا الٰہی یہ عذابِ غم و حسرت کیوں کر؟
ہم نے کیا جرم کیا؟ ایسی سزا کیوں ہم پر؟
دشت میں تھا اسی دم ایک عجب سا منظر
ہرنیاں خوش تھیں چلو آج پھر انسان مرا
چلو اک دن کو سہی قہرِ خدا ہم سے ٹلا
 
آخری تدوین:
کل پھر اک آدمی کو شیرنی نے قتل کیا
ہوا کہرام بپا آدمی کی بستی میں
ثبت ہر آنکھ میں تھے خوفِ قضا کے ہی نقوش
لہرِ اوہام بھی لرزاں ہر اک آہٹ میں تھی
مسجد و دیر کا رخ کرنے لگے پیر و جواں
خستہ مندر کا بھی در مدتوں کے بعد کھلا
یا الٰہی یہ عذابِ غم و حسرت کیوں کر؟
ہم نے کیا جرم کیا؟ ایسی سزا کیوں ہم پر؟
دشت میں تھا اسی دم ایک عجب سا ہی سماں
ہرنیاں خوش تھیں چلو آج پھر انسان مرا
چلو اک دن کو سہی قہرِ خدا ہم سے ٹلا
بہت عمدہ،
ذیشان بھائی شاعر کون ہیں؟؎
 

بھلکڑ

لائبریرین
واہ بھائی !بہت خوب!
الفاظ کی خوبصورتی ایسی ہے کہ ناسمجھ کہ منہ سے بلا اختیار واہ نکلا ! :)
 

قیصرانی

لائبریرین
کل پھر اک آدمی کو شیرنی نے قتل کیا
ہوا کہرام بپا آدمی کی بستی میں
ثبت ہر آنکھ میں تھے خوفِ قضا کے ہی نقوش
لہرِ اوہام بھی لرزاں ہر اک آہٹ میں تھی
مسجد و دیر کا رخ کرنے لگے پیر و جواں
خستہ مندر کا بھی در مدتوں کے بعد کھلا
یا الٰہی یہ عذابِ غم و حسرت کیوں کر؟
ہم نے کیا جرم کیا؟ ایسی سزا کیوں ہم پر؟
دشت میں تھا اسی دم ایک عجب سا ہی سماں
ہرنیاں خوش تھیں چلو آج پھر انسان مرا
چلو اک دن کو سہی قہرِ خدا ہم سے ٹلا
یہ وضاحت کر دوں کہ آج کل کے دور میں تو نہیں لیکن چند دہائیاں قبل تک کسی درندے کے آدم خور ہونے کا مسئلہ واقعی بہت سنگین ہوتا تھا۔ دور دراز کے علاقوں میں جہاں یہ واقعات ہوتے، تو یہ اکا دکا واقعات نہیں ہوتے تھے بلکہ آدم خوری کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا اور علاقے کے لوگوں کے پاس مناسب ہتھیار بھی نہیں ہوتے تھے۔ اگر آدم خور شیر ہوتا تو دن کو زیادہ خطرہ رہتا اور اگر تیندوا آدم خور بنتا تو پھر رات کو خطرہ بڑھ جاتا۔ بسا اوقات ہزاروں افراد کے روز مرہ کے معمول میں خلل پیدا ہو جاتا اور کسی بھی ہنگامی صورت حال میں جیسا کہ ہسپتال وغیرہ جانا بھی ممکن نہ رہتا۔ ایسی صورتحال میں اکثر مذہبی پیشوا اپنے اپنے مذہب کے مطابق چڑھاوے، نذرانے اور دیگر تحائف وغیرہ لے کر آدم خوروں سے بچاؤ یا ان کو ختم کرنے کے دعوے کرتے تھے۔ چڑھاوؤں میں نقدی اور اجناس سے لے کر انسانی بچے کی قربانی تک شامل ہوسکتی تھی
برادرم سید ذیشان نے بہت عمدگی سے یہ احساسات قلمبند فرمائے ہیں۔ توجہ فرمائیے اس مصرعے پر
کل پھر اک آدمی کو شیرنی نے قتل کیا
پسِ نوشت: یہاں قتل کی بجائے ہلاک کا لفظ بہتر رہتا کیونکہ قتل اور ہلاکت میں فرق ہے
 

سید ذیشان

محفلین
یہ وضاحت کر دوں کہ آج کل کے دور میں تو نہیں لیکن چند دہائیاں قبل تک کسی درندے کے آدم خور ہونے کا مسئلہ واقعی بہت سنگین ہوتا تھا۔ دور دراز کے علاقوں میں جہاں یہ واقعات ہوتے، تو یہ اکا دکا واقعات نہیں ہوتے تھے بلکہ آدم خوری کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا اور علاقے کے لوگوں کے پاس مناسب ہتھیار بھی نہیں ہوتے تھے۔ اگر آدم خور شیر ہوتا تو دن کو زیادہ خطرہ رہتا اور اگر تیندوا آدم خور بنتا تو پھر رات کو خطرہ بڑھ جاتا۔ بسا اوقات ہزاروں افراد کے روز مرہ کے معمول میں خلل پیدا ہو جاتا اور کسی بھی ہنگامی صورت حال میں جیسا کہ ہسپتال وغیرہ جانا بھی ممکن نہ رہتا۔ ایسی صورتحال میں اکثر مذہبی پیشوا اپنے اپنے مذہب کے مطابق چڑھاوے، نذرانے اور دیگر تحائف وغیرہ لے کر آدم خوروں سے بچاؤ یا ان کو ختم کرنے کے دعوے کرتے تھے۔ چڑھاوؤں میں نقدی اور اجناس سے لے کر انسانی بچے کی قربانی تک شامل ہوسکتی تھی
برادرم سید ذیشان نے بہت عمدگی سے یہ احساسات قلمبند فرمائے ہیں۔ توجہ فرمائیے اس مصرعے پر

قیصرانی بھائی وضاحت فرمانے کا شکریہ۔ :)
 

سید ذیشان

محفلین
پسِ نوشت: یہاں قتل کی بجائے ہلاک کا لفظ بہتر رہتا کیونکہ قتل اور ہلاکت میں فرق ہے

یہ کہانی اصل میں تو آدم خور شیرنی کی ہے لیکن اس کو حالات حاضرہ پر ایک تبصرہ بھی سمجھ سکتے ہیں۔ اسی لئے قتل کا لفظ استعمال کیا ہے۔ :)
 
Top