کلیاتِ اسمٰعیل۔ ص 241 تا 250

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 233

کرتا ہے آدمی کو یہ شیوہ ذلیل و خوار
رستے کو راستی کے نہ زنہار چھوڑنا
ہوتا ہے راستی ہی سے انسان رستگار
جو بات تھی صلاح کی وہ ہم نے دی بتا
آئندہ اپنے فعل کا ہے تم کو اختیار

(15) بخیلی اور فضولی ؂1

اری بخیلی! اور اے فضولی! تمھارا دونوں کا مُنہ ہو کالا
گناہ گاری کے تم ہو چشمے۔ تمھیں سے نکلیں خراب رسمیں
تمھہں نے دم بھر میں سب گنوایا تمھیں نے سب خاک میں ملایا
کمانے والوں نے جو کمایا بصد مشقت کئی برس میں
نہ مال و دولت کے فائدوں ہی سے کر کے محروم تم نے چھوڑا
بنایا بد عہد اور بے دیں۔ کھلائیں جھوٹی ہزار قسمیں
لگا کے حرص و طمع کا پھندا۔ سکھایا خود مطلبی کا دھندا
بنایا حق تلفیوں کا بندہ۔ پھنسا کے تم نے ہوا ہوس میں
ہوئی بخیلوں کی کیا بُری گت نہ پاسِ عزت نہ کچھ حمیّت
نہ حوصلہ ہی رہا نہ ہمّت۔ نہیں ہے فرق اُن میں اور مگس میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
؂1۔ مرتبہ 1893ء



----------------------------------------------------------

ص 234

لُٹا کے دولت کو اپنی مُسرِف۔ ہوئے ہیں کیا کیا ذلیل احمق
کہ جیسے بے بال و پر کی چڑیا اسیر ہو گوشۂ قفس میں


(16) کاشتکاری

گنجِ زر خاک سے اُگلوایا
کیمیا شغلِ کاشتکاری ہے
کر چُکا جب کسان اپنا کام
پھر خدا سے امیدواری ہے
آفتِ ارضی و سماوی سے
ہے نگہباں۔ تو فضلِ باری ہے
نہیں حاصل پہ دسترس نہ سہی
بیج بُونا تو اختیاری ہے
وقت ضائع نہ کت۔ اگیتی بو
سینچ لے کھیت نہر جاری ہے
جوت۔ بو۔ سینچ۔ پھر توکّل کر
نہ کیا کُچھ تو شرمساری ہے
سرسری ساگ پات کو مت جان
اِس پہ تو زندگی ہماری ہے
جڑ۔ تنہ۔ ڈال۔ پات۔ پھل اور پھول
دستِ قدرت کی نقش کاری ہے
اپنی قُوت سے قُوت حاصل کر
مُفت خواری حرام خواری ہے
کاہلی سے گھٹا نہ پیداوار
یہ تو بَڑھیا گناہگاری ہے
اپنے اوپر ستم روا مت رکھ
واجب اپنی بھی حق گُزاری ہے
بیل سے پڑھ جفاکشی کا سبق
کُچھ اگر تجھ میں ہوشیاری ہے
کام میں کَھپ رہا ہے بیچارہ
ناشتا ہے نہ کچھ نہاری ہے
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 235

رات کاٹی جہاں سمائے سینگ
عیش و عشرت پہ لات ماری ہے
تھک گیا تو زمین پہ بیٹھ گیا
کس قدر مشقِ خاکساری ہے
بیل ہے پر نہیں کسی کا دبیل
کرتا اوروں کی غمگُساری ہے
صبر و محنت کی یہ کڑی منزل
اُس کو ہلکی ہے تجھ کو بھاری ہے
دیکھ چوپایہ سے نہ بازی ہار
تیری ہمت اگر کراری ہے
کُچھ نہ کُچھ کام کر۔ اگر تجھ کو
آدمیّت کی پاسداری ہے

(17) کاشتکاری ؂1

جو تُو نے غفلت میں وقت کھویا۔ نہ کھیت جوتا۔ نہ بیج بویا
تو ایسی ڈوبی ہوئی اسامی سے کوئی حاصل بٹائے گا کیا؟
رہے گا یہ کھیت ہاتھ اُس کے۔ جو ہَل سے کُشتی لڑے گا دن بھر
جو ہار بیٹھے گا اپنی ہمت۔ تو وہ زمیں کو اُٹھائے گا کیا؟
خوراک و پوشاک کے ذخیرے دبے پڑے ہیں زمیں کے اندر
جو کر کے محنت نہ کھود لے گا۔ تو خاک پہنیگا۔ کھائے گا کیا؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
؂1۔ مرتبہ 1897ء
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 236
(18 ) قرض ؂1
دامِ بلا ہے قرض پھنسے اور ہوئے شکار
ہے پاسِ آبرو۔ تو رہو ہوشیار تم
کنیاتے ہی رہو گے سدا قرض خواہ کو
اِس ننگ و عار کو نہ کرو اِختیار تم
دیکھو! یہ قرضِ وعدہ خلافی نہ دے سکھا
ہو جاؤ گے جہان میں بے اعتبار تم
جب تک وبالِ جان نہ جانو گے قرض کو
ہر گز نہ بن سکو گے کفایت شعار تم
گر دُرِّ شاہوار ملے کوڑیوں کے مول
زنہار بھول کر بھی نہ لینا اُدھار تم
مقروض ہو گئے تو پیادہ سے ہو بتر
مانا کہ رکھتے ہو فرسِ راہوار تم
غالب کہ ریل پر بھی ہو قطع سفر محال
جو قرض کے ٹکٹ سے ہوئے ہو سوار تم
کشتیٔ نوح پر بھی چڑھے گر بطورِ قرض
مُجھ کو یہ خوف ہے کہ نہ پہونچو گے پار تم
مقروض کی نہیں ہے زمانہ میں آبرو
یوں اپنے دل میں بات بناؤ ہزار تم
تم جانتے ہو گرچہ بُرا سود خوار کو
ہے اصل یہ۔ کہ بن گئے بے سود۔ خوار تم
وہ بندۂ درم سہی اُس کا غلام کون؟
اپنے ہی دل میں سوچ لو اپنا وقار تم
پھر ہو سکے گا کوئی بھی افسوں نہ کارگر
لقمہ کو قرض کے نہ کرو زہر مار تم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
؂1۔ مرتبہ 1893ء

-------------------------------------------------------------------------------
ص 237

(19) سب سے زیادہ بدنصیب کون؟
اُس سے دنیا میں نہیں کوئی زیادہ بدبخت
جو نہ دانا ہو۔ نہ داناؤں کا مانے کہنا
آج آفت سے بچی جان۔ تو کل خیر نہیں
ایسے نادان کا مشکل ہے سلامت رہنا

(20) ہمّت

گھوڑ دوڑ میں کودائی کی بازی تھی ایک دن
تازی پے کوئی۔ ترکی پے اپنے سوار تھا
جو ہِچکچا کے رہ گیا۔ سو رہ گیا ادھر
جس نے لگائی ایڑ وہ خندق پار تھا

(21) اپنے فعل پر پشیمانی
پیش آئے جو مصیبت پڑتی ہے سو بھگتنی
رہتی ہے یوں تسلی۔ مرضی یہی تھی رب کی
پر اپنے گوتکوں سے آتی ہے جو مصیبت
ہوتی ہے ساتھ اُس کے شرمندگی غضب کی

(22) معافی میں سرور ہے
نادموں کی خطا معاف کرو
ہے معافی میں لذّت اور سرور
اپنے دل میں ذرا کرو انصاف
کون ہے جو ہے بے خطا و قصور
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص 239-242 (ٹائپنگ: نایاب)

ص (٢٣٨)

(٢٣) انتقام ۔ علاج خطا ہے

جو انتقام نہ لینے سے ہو خطا افزوں
تو یہ تماری خطا ہے جو انتقام نہ لو
وہ کام جس سے کہ اوروں کو فائدہ پہنچے
تم اس کے کرنے سے زنہار ہاتھ تھام نہ لو
جو انتقام سے منظور ہو خوشی اپنی
تو ایسے کام کا تم بھول کے بھی نام نہ لو

(٢٤) خطا کو خطا نہ جاننا ہلاکت ہے

ہے بیمار تو ۔ لیک بچنے کے قابل
گر اپنی خطا کو خطا جانتا ہے
مگر ایسے نادان کا کیا ٹھکانا
جو درد ہی کو دوا جانتا ہے
برا مانتا ہے جو سمجھائے کوئی
برائی کو اپنی بھلا جانتا ہے
وہ انجام کو روئے گا سر پکڑ کر
نہیں اس میں دھوکا خدا جانتا ہے

(٢٥) ہر کام میں کمال اچھا ہے

کوئی پیشہ ہو زراعت یا تجارت یا کہ علم
چاہیئے انسان کو پیدا کرے اس میں کمال
کاہلوں کی عمر بڑھ جاتی ہے خود کر لو حساب
با ہنر کا ایک دن اور بے ہنر کا ایک سال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ص (٢٣٩)

(٢٦) دوراندیشی
جنھیں دی ہے خدا نے عقل دانا
ہے ان کو آج ہی سے فکر کل کی
مسافر چل پڑا جو آخر شب
تو ہو جاتی ہے منزل اس کی ہلکی


(٢٧) بدی کے عوض میں نیکی کرنا


ہر ایک جانور کا یہی خاصہ ہے
بدی کے عوض میں بدی کی تو کیا کی
ہے البتہ وہ شخص انسان کامل
جفا کے مقابل میں جس نے وفا کی

(٢٨) قول و فعل میں مطابقت چاہئیے

دیرینہ رسم و راہ سے قطع نظر کرو
برتاؤ آج کل کے زمانہ کے اور ہیں
دل شرق میں پڑا ہے پہ کہتے ہیں غرب کی
کھانے کے دانت اور دکھانے کے اور ہیں

(٢٩) دل کی یک سوئی خلوت ہے

اگر دل گرفتار ہے مخمصوں میں
تو خلوت بھی بازار سے کم نہیں ہے
مگر جس کے دل کو ہے یک سوئی حاصل
تو وہ انجمن میں بھی خلوت نشیں ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص (٢٤٠)

غزلیات

(الف)

تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا
کیسی زمیں بنائی ؛ کیا آسماں بنایا ؛
پانوں تلے بچھایا کیا خوب فرش خاکی
اور سر پہ لاجوردی اک سائباں بنایا
مٹی سے بیل بو نٹے کیا خوش نما اگائے ؛
پہنا کے سبز خلعت ان کو جواں بنایا
خوش رنگ اور خوشبو گل پھول ہیں کھلائے
اس خاک کے کھنڈر کو کیا گلستاں بنایا
میوے لگائے کیا کیا خوش ذائقہ رسیلے
چکھنے سے جن کے مجھ کو شیریں دہان بنایا
سورج سے ہم نے پائی گرمی بھی روشنی بھی
کیا خوب چشمہ تو نے اے مہرباں بنایا
سورج بنا کے تو نے رونق جہاں کو بخشی
رہنے کو یہ ہمارے اچھا مکاں بنایا
پیاسی زمیں کے منہ میں مینھ کا چوایا پانی
اور بادلوں کو تو نے مینھ کا نشاں بنایا
یہ پیاری پیاری چڑیاں پھرتی ہیں جو چہکتی
قدرت نے تیری ان کو تسبیح خواں بنایا
تنکے اٹھا اٹھا کر لائیں کہاں کہاں سے
کس خوبصورتی سے پھر آشیاں بنایا
اونچی اڑیں ہوا میں بچوں کو پر نہ بھولیں
ان بے پروں کا ان کو روزی رساں بنایا
کیا دودھ دینے والی گائیں بنائیں تو نے
چڑھنے کو میرے گھوڑا کیا خوش عناں بنایا
رحمت سے تیری کیا کیا ہیں نعمتیں میسر
ان نعمتوں کا مجکو ہے قدرداں بنایا
آب رواں کے اندر مچھلی بنائی تو نے
مچھلی کے تیرنے کو آب رواں بنایا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ص (٢٤١ )

ہر چیز سے ہے تیری کاری گری ٹپکتی
یہ کارخانہ تو نے کب رائے گاں بنایا

(٢)

علیک السلام اے شفیع البرایا
اولعزم تجھ سا نہ آئے نہ آیا
علیک السلام اے امیں الہی
کہا جو خدا نے وہ تو نے سنایا
علیک السلام اے رفیع المدارج
کسی نے نہیں تیرے رتبے کو پایا
علیک السلام اے ستودہ خصائل
فدا خلق پر تیرے اپنا پرایا
علیک السلام اے جمیل الشمائل
جواد و رؤف و کریم السجایا
علیک السلام اے امان دو عالم
ترا دامن لطف ہے سب پہ چھایا
علیک السلام اے جمال معنی
نہ تھا تیرے جسم مطہر کا سایا
علیک السلام اے محب غریباں
ترے حلم نے بار امت اٹھایا
علیک السلام اے ترا نور اقدس
ہے سلطان اور جملہ عالم رعایا
علیک السلام اے تجھے ذات حق نے
جو اول بنایا ۔ تو آخر دکھایا
علیک السلام اے شہنشاہ وحدت
کہ توحید کا تو نے سکہ بٹھایا
علیک السلام اے طبیب نہانی
دلوں میں جو تھے روگ سب کو مٹایا
علیک السلام اے شفائے مجسم
عجب تو نے صحت کا نسخہ پلایا
علیک السلام اے سوار سبک رو
کسی نے تری گرد رہ کو نہ پایا
علیک السلام اے رسالت پناہی
خدا کا ہمیں تو نے رستہ بتایا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ص (٢٤٢)

علیک السلام اے ہدایت کے مرکز
تجھے حق نے انسان کامل بنایا
درود و سلام و صلوۃ و تحیت
یہ لایا ہے حامد تحف اور ہدایا ؂(١)

٣
تمھارے تیر میں انداز تھا نظر کا سا
ہر ایک دل کا ہے نقشہ مرے جگر کا سا
رقیب سر بھی پٹکتے تو میں نہ ہلتا کاش
ملا نہ بخت مجھے تیرے سنگ در کا سا
فروغ رخ یہ نظر میں سما گیا یک بار
کہ شام ہی سے مرا حال ہے سحر کا سا
سر اس غبار کا دامان شہسوار پہ ہے
ملا فرشتہ کو رتبہ کہاں بشر کا سا
پیام مرگ سے لیتا ہوں میں شگون وصال
گماں ہے تیر پہ بھی مرغ نامہ بر کا سا
کسی کی برق تبسم جو دل میں کوند گئی
تو چشم تر کا ہوا حال ابر تر کا سا

٤


ذرہ ذرہ حیرتی ہے مہر پر تنویر کا
بے خودی آئینہ ہے ہنگامہ تکبیر کا
بیٹھ ہی جاتی ہے دل میں گو دمجھ میں کچھ نہ آئے
میں تو دیوانہ ہوں اس کی دل ربا تقریر کا
ہے مسلم ناز یکتائی اسے ہر رنگ میں
ضلوہ نقش آفریں خاکہ ہو جس تصویر کا
توڑ اصنام ہوا اور دل کو ویرانہ بنا
ہے یہی سنگ بنا اس کعبہ کی تعمیر کا
حیف وہ سائل کہ کچھ دے کر جسے رخصت کیا
واے وہ نالہ صلہ جس کو ملا تاثیر کا
عیب پوشی کو ہمیشہ کام فرمایا کئے
کشتہ الطاف ہوں یاران بے تدبیر کا
-----------------------------------------------
؂(١) یہ سلام محمد حامد جوان مرگ فرزند مصنف کی فرمائیش سے لکھا گیا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top