فرحت کیانی
لائبریرین
ص 233
کرتا ہے آدمی کو یہ شیوہ ذلیل و خوار
رستے کو راستی کے نہ زنہار چھوڑنا
ہوتا ہے راستی ہی سے انسان رستگار
جو بات تھی صلاح کی وہ ہم نے دی بتا
آئندہ اپنے فعل کا ہے تم کو اختیار
(15) بخیلی اور فضولی 1
اری بخیلی! اور اے فضولی! تمھارا دونوں کا مُنہ ہو کالا
گناہ گاری کے تم ہو چشمے۔ تمھیں سے نکلیں خراب رسمیں
تمھہں نے دم بھر میں سب گنوایا تمھیں نے سب خاک میں ملایا
کمانے والوں نے جو کمایا بصد مشقت کئی برس میں
نہ مال و دولت کے فائدوں ہی سے کر کے محروم تم نے چھوڑا
بنایا بد عہد اور بے دیں۔ کھلائیں جھوٹی ہزار قسمیں
لگا کے حرص و طمع کا پھندا۔ سکھایا خود مطلبی کا دھندا
بنایا حق تلفیوں کا بندہ۔ پھنسا کے تم نے ہوا ہوس میں
ہوئی بخیلوں کی کیا بُری گت نہ پاسِ عزت نہ کچھ حمیّت
نہ حوصلہ ہی رہا نہ ہمّت۔ نہیں ہے فرق اُن میں اور مگس میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ مرتبہ 1893ء
----------------------------------------------------------
ص 234
لُٹا کے دولت کو اپنی مُسرِف۔ ہوئے ہیں کیا کیا ذلیل احمق
کہ جیسے بے بال و پر کی چڑیا اسیر ہو گوشۂ قفس میں
(16) کاشتکاری
گنجِ زر خاک سے اُگلوایا
کیمیا شغلِ کاشتکاری ہے
کر چُکا جب کسان اپنا کام
پھر خدا سے امیدواری ہے
آفتِ ارضی و سماوی سے
ہے نگہباں۔ تو فضلِ باری ہے
نہیں حاصل پہ دسترس نہ سہی
بیج بُونا تو اختیاری ہے
وقت ضائع نہ کت۔ اگیتی بو
سینچ لے کھیت نہر جاری ہے
جوت۔ بو۔ سینچ۔ پھر توکّل کر
نہ کیا کُچھ تو شرمساری ہے
سرسری ساگ پات کو مت جان
اِس پہ تو زندگی ہماری ہے
جڑ۔ تنہ۔ ڈال۔ پات۔ پھل اور پھول
دستِ قدرت کی نقش کاری ہے
اپنی قُوت سے قُوت حاصل کر
مُفت خواری حرام خواری ہے
کاہلی سے گھٹا نہ پیداوار
یہ تو بَڑھیا گناہگاری ہے
اپنے اوپر ستم روا مت رکھ
واجب اپنی بھی حق گُزاری ہے
بیل سے پڑھ جفاکشی کا سبق
کُچھ اگر تجھ میں ہوشیاری ہے
کام میں کَھپ رہا ہے بیچارہ
ناشتا ہے نہ کچھ نہاری ہے
کرتا ہے آدمی کو یہ شیوہ ذلیل و خوار
رستے کو راستی کے نہ زنہار چھوڑنا
ہوتا ہے راستی ہی سے انسان رستگار
جو بات تھی صلاح کی وہ ہم نے دی بتا
آئندہ اپنے فعل کا ہے تم کو اختیار
(15) بخیلی اور فضولی 1
اری بخیلی! اور اے فضولی! تمھارا دونوں کا مُنہ ہو کالا
گناہ گاری کے تم ہو چشمے۔ تمھیں سے نکلیں خراب رسمیں
تمھہں نے دم بھر میں سب گنوایا تمھیں نے سب خاک میں ملایا
کمانے والوں نے جو کمایا بصد مشقت کئی برس میں
نہ مال و دولت کے فائدوں ہی سے کر کے محروم تم نے چھوڑا
بنایا بد عہد اور بے دیں۔ کھلائیں جھوٹی ہزار قسمیں
لگا کے حرص و طمع کا پھندا۔ سکھایا خود مطلبی کا دھندا
بنایا حق تلفیوں کا بندہ۔ پھنسا کے تم نے ہوا ہوس میں
ہوئی بخیلوں کی کیا بُری گت نہ پاسِ عزت نہ کچھ حمیّت
نہ حوصلہ ہی رہا نہ ہمّت۔ نہیں ہے فرق اُن میں اور مگس میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ مرتبہ 1893ء
----------------------------------------------------------
ص 234
لُٹا کے دولت کو اپنی مُسرِف۔ ہوئے ہیں کیا کیا ذلیل احمق
کہ جیسے بے بال و پر کی چڑیا اسیر ہو گوشۂ قفس میں
(16) کاشتکاری
گنجِ زر خاک سے اُگلوایا
کیمیا شغلِ کاشتکاری ہے
کر چُکا جب کسان اپنا کام
پھر خدا سے امیدواری ہے
آفتِ ارضی و سماوی سے
ہے نگہباں۔ تو فضلِ باری ہے
نہیں حاصل پہ دسترس نہ سہی
بیج بُونا تو اختیاری ہے
وقت ضائع نہ کت۔ اگیتی بو
سینچ لے کھیت نہر جاری ہے
جوت۔ بو۔ سینچ۔ پھر توکّل کر
نہ کیا کُچھ تو شرمساری ہے
سرسری ساگ پات کو مت جان
اِس پہ تو زندگی ہماری ہے
جڑ۔ تنہ۔ ڈال۔ پات۔ پھل اور پھول
دستِ قدرت کی نقش کاری ہے
اپنی قُوت سے قُوت حاصل کر
مُفت خواری حرام خواری ہے
کاہلی سے گھٹا نہ پیداوار
یہ تو بَڑھیا گناہگاری ہے
اپنے اوپر ستم روا مت رکھ
واجب اپنی بھی حق گُزاری ہے
بیل سے پڑھ جفاکشی کا سبق
کُچھ اگر تجھ میں ہوشیاری ہے
کام میں کَھپ رہا ہے بیچارہ
ناشتا ہے نہ کچھ نہاری ہے