کلامِ تازہ آپ کی محبتوں کی نذر

غزل

حال سے بے حال کرنے لگ گئیں
خواہشیں پامال کرنے لگ گئیں

دھوپ میں بیٹھی ہوئی عمریں کئی
ذکرِ مال و سال کرنے لگ گئیں

کیسے کیسے ذائقے رخصت ہوئے
لذتیں ہڑتال کرنے لگ گئیں

چاہتا تھا اُن سے حالِ دل کہوں
وہ کسی کو کال کرنے لگ گئیں

کچھ ہوائیں جان کر مجھ کو چراغ
پرسشِ احوال کرنے لگ گئیں

نیند سے بیدار آنکھیں جب ہوئیں
دور مایا جال کرنے لگ گئیں

دل سے اٹھیں کچھ تمنائیں سخنؔ
شکوئہ اعمال کرنے لگ گئیں

عبدالوہاب سخن
 

الف عین

لائبریرین
معاف کرنا ردیف پسند نہیں آئی۔ لگیں ہی محاورے کے لحاظ سے درست ہے۔
مایا جال کو فعل بنانا بھی عجیب ہے
 
معاف کرنا ردیف پسند نہیں آئی۔ لگیں ہی محاورے کے لحاظ سے درست ہے۔
مایا جال کو فعل بنانا بھی عجیب ہے
شکریہ الف عین صاحب ۔۔۔ردیف کے بارے میں مزید دوستوں سے روشنی ڈالنے کی گزارش ہے۔۔۔
مایا جال بطور فعل استعمال نہیں کیا ہے۔۔۔'دور‘ مایا جال کرنے۔۔۔ ”دور“۔۔۔۔۔۔۔۔ کرنے“ کی رعایت سے ہے اآیا ہے یہاں۔
 
Top