عبدالوہاب سخن
محفلین
غزل
حال سے بے حال کرنے لگ گئیں
خواہشیں پامال کرنے لگ گئیں
دھوپ میں بیٹھی ہوئی عمریں کئی
ذکرِ مال و سال کرنے لگ گئیں
کیسے کیسے ذائقے رخصت ہوئے
لذتیں ہڑتال کرنے لگ گئیں
چاہتا تھا اُن سے حالِ دل کہوں
وہ کسی کو کال کرنے لگ گئیں
کچھ ہوائیں جان کر مجھ کو چراغ
پرسشِ احوال کرنے لگ گئیں
نیند سے بیدار آنکھیں جب ہوئیں
دور مایا جال کرنے لگ گئیں
دل سے اٹھیں کچھ تمنائیں سخنؔ
شکوئہ اعمال کرنے لگ گئیں
عبدالوہاب سخن
حال سے بے حال کرنے لگ گئیں
خواہشیں پامال کرنے لگ گئیں
دھوپ میں بیٹھی ہوئی عمریں کئی
ذکرِ مال و سال کرنے لگ گئیں
کیسے کیسے ذائقے رخصت ہوئے
لذتیں ہڑتال کرنے لگ گئیں
چاہتا تھا اُن سے حالِ دل کہوں
وہ کسی کو کال کرنے لگ گئیں
کچھ ہوائیں جان کر مجھ کو چراغ
پرسشِ احوال کرنے لگ گئیں
نیند سے بیدار آنکھیں جب ہوئیں
دور مایا جال کرنے لگ گئیں
دل سے اٹھیں کچھ تمنائیں سخنؔ
شکوئہ اعمال کرنے لگ گئیں
عبدالوہاب سخن