کشمکش کی اس گھڑی میں کریں تو کیا کریں؟؟؟؟؟؟؟؟؟

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
زندگی میں اکثر اوقات ایسے مراحل سامنے آتے ہیں کہ آپ کے دل و دماغ میں اک جنگ سی برپا ہوجاتی ہے ۔۔۔
فیصلہ کرنا بے حد دشوار ہوجاتا ہے ۔۔۔
دل اپنی طرف کھینچتا ہے
دماغ کی اپنی رٹ ہوتی ہے ۔۔۔
اک کشمکش !
کریں تو کیا کریں!:thinking2:
فیصلہ دل سے کریں یا دماغ سے ؟
آکر کس کو ترجیح دینی چاہئے ؟؟
یہی میرا سوال ہے آپ سے
فیصلہ کرتے ہوئے دل کی بات مانیں یا دماغ کی؟
 

نایاب

لائبریرین
دل کی خواہش کو دماغ کے ترازو پر تولو ۔۔۔۔
دل عشق کا مارا اور دماغ عقل کا حامل ۔
دل تو پگلا دیوانہ چاند کی چاندنی کو دیکھے تو کھیلن کو مانگے چاند ۔
یہ جانے مانے بنا کہ ہمارے ہاتھ میں اتنی وسعت ہی کہاں کہ چاند سما جائے ۔
اور دماغ کہتا ہے کہ چاند کبھی ہمارے ہاتھ میں سما نہیں سکتا اس لیئے اس کی خواہش فضول ہے ۔
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
دل کی خواہش کو دماغ کے ترازو پر تولو ۔۔۔ ۔
دل عشق کا مارا اور دماغ عقل کا حامل ۔
دل تو پگلا دیوانہ چاند کی چاندنی کو دیکھے تو کھیلن کو مانگے چاند ۔
یہ جانے مانے بنا کہ ہمارے ہاتھ میں اتنی وسعت ہی کہاں کہ چاند سما جائے ۔
اور دماغ کہتا ہے کہ چاند کبھی ہمارے ہاتھ میں سما نہیں سکتا اس لیئے اس کی خواہش فضول ہے ۔
لیکن بھیا !
کبھی تو ہمیں سود و زیاں کے دائرے سے نکل کر بھی سوچنا پڑتا ہے
فیصلہ کرنا پڑتا ہے
دنیا میں بڑے بڑے کام تو جنون نے کیئے عقل تو کھڑی دیکھتی رہ گئی
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل کھڑی ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
 

نایاب

لائبریرین
لیکن بھیا !
کبھی تو ہمیں سود و زیاں کے دائرے سے نکل کر بھی سوچنا پڑتا ہے
فیصلہ کرنا پڑتا ہے
دنیا میں بڑے بڑے کام تو جنون نے کیئے عقل تو کھڑی دیکھتی رہ گئی
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل کھڑی ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
میری بہنا
سودوزیاں سے جو بے نیاز ہوتے ہیں وہ مجذوب و مجنون کہلاتے ہیں ۔
سودوزیاں کے دائرے سے باہر نکلنا اس وقت ضروری ہوتا ہے ۔
جب بات ہماری ذات کے بجائے کسی دوسری ذات کی ہو ۔
اگر ہم اپنی ذات کے لیئے سودوزیاں کے دائرے سے باہر نکلیں گے تو فقط " خود غرضی " ہو گی
اور یہ جو " عشق بے خطر کود پڑا تھا آتش نمرود میں "
یہ " عشق " " عقل " پر ہی استوار تھا ۔
اور جو " عقل " حیران کھڑی تھی وہ تماشا دیکھنے والوں کی تھی ۔
لیکن کودنے والے کی عقل نے اسے یہ یقین محکم عطا کر دیا تھا کہ
یہ آگ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ۔
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
میری بہنا
سودوزیاں سے جو بے نیاز ہوتے ہیں وہ مجذوب و مجنون کہلاتے ہیں ۔
سودوزیاں کے دائرے سے باہر نکلنا اس وقت ضروری ہوتا ہے ۔
جب بات ہماری ذات کے بجائے کسی دوسری ذات کی ہو ۔
اگر ہم اپنی ذات کے لیئے سودوزیاں کے دائرے سے باہر نکلیں گے تو فقط " خود غرضی " ہو گی
اور یہ جو " عشق بے خطر کود پڑا تھا آتش نمرود میں "
یہ " عشق " " عقل " پر ہی استوار تھا ۔
اور جو " عقل " حیران کھڑی تھی وہ تماشا دیکھنے والوں کی تھی ۔
لیکن کودنے والے کی عقل نے اسے یہ یقین محکم عطا کر دیا تھا کہ
یہ آگ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ۔
یہی وضاحت تو سننا چاہ رہی تھا میں آپ سے:happy:
 

شمشاد

لائبریرین
فیصلہ کرتے ہوئے دماغ کا ہی مشورہ ماننا چاہیے۔
دل تو پاگل ہے، یہ تو کچھ بھی کہہ دے گا۔
چاہے اکیلے ہوں مشورہ ضرور کریں بھلے ہی دیوار سے مشورہ کر لیں۔
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
ایسی کشمکش کی گھڑی ہو یا کوئی سا بھی مسئلہ۔۔۔
فیصلہ کرنا ہو یا فیصلہ لاگو کرنا ۔۔۔
سب سے آسان اور ًحفوظ راستہ یہ ہے کہ اللہ تعالی سے مدد لی جائے،سوچا جائے کہ یہاں ان کی رضا کیا ہے ۔۔۔۔
لیجئے جواب حاضر ہو جائے گا!
اب چاہے جواب دل کے مطابق ہے یا دماغ کے بے دھڑک عمل کیا جا سکتا ہے غلطی کا گمان ہی نہیں۔۔۔
اللہ تعالی نے آپ کی رہنمائی کی اس پر دل لاکھ انکار کرے فیصلہ عقل کا ہونا چاہیئے
اللہ تعالی نے دل کے حق میں فیصلہ دیا اس پر عقل لاکھ شور مچائے فیصلہ دل کا ہی ہونا چاہیئے
بے حد آسان !
مجھے اللہ جی پر پھر پیار کیوں نہ آئے ان کی رحمتوں سے میرا پور پور بھیگا جائے!
 

ظفری

لائبریرین
یہ ٹھیک ہے کہ انسان کی زندگی میں ایسے بے تحاشہ لمحات آتے ہیں کہ وہ بے بس ہوجاتا ہے ۔ اور دیکھا جائے تو زندگی اسی طرح کے فیصلوں کا ہی نام ہے ۔ جہاں ہم اپنی زندگی میں ہر وقت کوئی نہ کوئی فیصلہ کر رہے ہوتے ہیں ۔ جیسے فیصلوں کی نوعیت ہوگی ۔ وہاں عقل اور جذبات ( دل ) بھی اپنا کردار اسی دائرے میں ادا کرتے نظر آئیں گے ۔ کبھی عقل اپنے کسی فیصلے کی صداقت پر فخر کرتی نظر آئے گی تو کبھی دل ( جذبات) اپنے کسی فیصلے کے جانبداری پر افسردہ نظر آئے گا ۔ بظاہر تو یہ ایک تضاد لگتا ہے مگر عقل اللہ کی طرف سے ودیعت کردہ وہ پیمانہ ہے جو فیصلوں میں سب سے پہلے ایک تصور سامنے لاکر رکھ دیتا ہے ۔ اور دل اس پر گواہی دیتا ہے ۔ گویا دل اس پر مہر ثبت کردیتا ہے ۔ اگر کسی معاملے پر دل و دماغ کے مابین کسی طور کوئی کشمکش چل رہی ہے تو صاف ظاہر ہے کہ معاملے کا تصور صحیح طور پر واضع نہیں ہے ۔
 

نیلم

محفلین
میں بھی آپ سے اتفاق کرتی ہوں سسٹر .میرے دماغ میں بھی یہ ہی سوچ آئی تھی.اپنا کوئی بھی فیصلہ نہ دل سے کرنا چاہیے نہ دماغ سے بلکہ اللہ کے فیصلوں کے تابع کرنا چاہیے .ہمارہ دل ہمارہ دماغ اور ہمارہ نفس ہمارے تعابع ہونا چاہیے نہ کے ہم اُن کے تابع ہو.کیونکہ ایک مسلمان ہونے کی حثیت سے ہمارہ ہر عمل آخرت کے لیے ہوتاہے.اور آخرت میں آپ اللہ سے یہ نہیں کہہ سکے گہیں کہ میں نے یہ فیصلہ دل کی بات مان کے کیا تھا یا دماغ کے راستے پہ چلا تھا یا فلاں شخص کی باتوں میں آ کے میں نے یہ فیصلہ کیا تھا.اسی لیے سسٹر جو بھی فیصلہ کرنا وہ ایسا ہو کہ بظاہر اُس میں کوئی فائدہ بے شک نہ ہو.لیکن سکون ضرور ہو.
ہم سب باتیں تو بہت اچھی کر لیتے ہیں لیکن عمل میں زیرو ہوتے ہیں.اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق دے.
ایسی کشمکش کی گھڑی ہو یا کوئی سا بھی مسئلہ۔۔۔
فیصلہ کرنا ہو یا فیصلہ لاگو کرنا ۔۔۔
سب سے آسان اور ًحفوظ راستہ یہ ہے کہ اللہ تعالی سے مدد لی جائے،سوچا جائے کہ یہاں ان کی رضا کیا ہے ۔۔۔ ۔
لیجئے جواب حاضر ہو جائے گا!
اب چاہے جواب دل کے مطابق ہے یا دماغ کے بے دھڑک عمل کیا جا سکتا ہے غلطی کا گمان ہی نہیں۔۔۔
اللہ تعالی نے آپ کی رہنمائی کی اس پر دل لاکھ انکار کرے فیصلہ عقل کا ہونا چاہیئے
اللہ تعالی نے دل کے حق میں فیصلہ دیا اس پر عقل لاکھ شور مچائے فیصلہ دل کا ہی ہونا چاہیئے
بے حد آسان !
مجھے اللہ جی پر پھر پیار کیوں نہ آئے ان کی رحمتوں سے میرا پور پور بھیگا جائے!
ایسی کشمکش کی گھڑی ہو یا کوئی سا بھی مسئلہ۔۔۔
فیصلہ کرنا ہو یا فیصلہ لاگو کرنا ۔۔۔
سب سے آسان اور ًحفوظ راستہ یہ ہے کہ اللہ تعالی سے مدد لی جائے،سوچا جائے کہ یہاں ان کی رضا کیا ہے ۔۔۔ ۔
لیجئے جواب حاضر ہو جائے گا!
اب چاہے جواب دل کے مطابق ہے یا دماغ کے بے دھڑک عمل کیا جا سکتا ہے غلطی کا گمان ہی نہیں۔۔۔
اللہ تعالی نے آپ کی رہنمائی کی اس پر دل لاکھ انکار کرے فیصلہ عقل کا ہونا چاہیئے
اللہ تعالی نے دل کے حق میں فیصلہ دیا اس پر عقل لاکھ شور مچائے فیصلہ دل کا ہی ہونا چاہیئے
بے حد آسان !
مجھے اللہ جی پر پھر پیار کیوں نہ آئے ان کی رحمتوں سے میرا پور پور بھیگا جائے!
 

S. H. Naqvi

محفلین
تو ہر دو سسٹرز گزارش ہےکہ آخر فیصلہ تو دماغ سے ہی ہوا نا، اللہ سے رجوع کرنے اور غور فکر کرنے کے لیے دماغ ہی تحریک دیتا ہے دل تو بس جذباتی ہوتا ہے، سوچ بچار نہیں کرتا، مچل جاتا ہے کہ جو ہرا ہرا نظر آ رہا ہے، کرنا وہی چاہیے۔ تو ثابت ہوا کہ ایسے مواقع پر دل کے بجائے دماغ کو استعمال کرنا چاہیے تا کہ بعد میں پچھتاوا نہ ہو۔محفلین، ویسے برسبییل تذکرہ یہ تو بتائیے، اگر ٹینشن کا تعلق دماغ سے ہے تو لوگوں کو ہارٹ اٹیک کیوں ہوتا ہے؟ اور اور اگر عشق کا تعلق دل سے ہے تو لوگ عشق میں پاگل کیوں ہو جاتے ہیں۔۔۔۔!:rolleyes:
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
عقل ہمیشہ صحیح راہ نہیں سجھاتی،کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دل بہت اچھی بات کر رہا ھوتا ہے لیکن عقل ہمیں بندشوں میں گھیر کر پابند کر دیتی ہے
مثلا کہیں کسی کی مدد کا موقع ہو اور وہاں آ پ کی ذات کو نقصان پہنچنے کا بھی اندیشہ ہو تو بلاشبہ عقل کہے گی بھاگ نکلو! یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا،لیکن ایسے ہی موقع پر دل کہے گا کسی کو مصیبت میں چھوڑ جانا بہت کم ہمتی کی بات ہے ۔۔
عقل بھی ہمیشہ ٹھیک بات نہیں کرتی ۔۔۔بات گھوم پھر کر وہیں آجاتی ہے کہ دل ہو یا عقل یہ جب اللہ کی مرضی کے تابع رہیں گے تو صحیح راہ سجھائیں گے ورنہ دونوں میں سے کوئی بھی غلط بات کہہ سکتا ہے ۔۔۔
ٹینشن کا اثر دل پر براہ راست پڑتا ہے صرف دماغ پر نہیں ۔۔۔بلکہ کہنا یہ چاہیئے کہ ہمارا ایک دماغ ہمارے دل میں بھی موجود ہے اسی لیئے تو ہم اکثر کہتے ہیں دل یہ سوچ رہا تھا
عشق کا تعلق بھی صرف دل سے نہیں ہے ،دل کا دماغ پاگل ہوتا ہے توعقل کیسے بے کل نہ ہوگی وہ اس وقت دل کے تابع ہو جاتی ہے ۔
 

نایاب

لائبریرین
ع عقل عیار سو بھیس بدل لیتی ہے
د دل دیوانہ دیتا اک ہی دہائی ہے ۔
نیت دل سے ہوتی ہے ۔ عمل دماغ کے سمجھانے سے
عشق دل کو گرفتار بلا کرہی دیتا ہے عقل لاکھ سمجھائے بھی
 

زبیر مرزا

محفلین
کبھی جنوں خرد کے مقابل ہوتا ہے تو جیت دل کے فیصلے کی ہوتی :)
سارے فیصلے دماغ کے نہیں ہوتے کہ وہ تو نفع نقصان دیکھ کر فیصلے صادر کرتا ہے
جبکہ دل تو آگ کے دریا پار کرادیتا ہے - بیخودی کے سامان کی سیرکرادیتا ہے دل تاجرنہیں ہوتا
اس کی دنیا میں فیصلے لمحوں میں ہوتے ہیں اور حتمی بھی :)
لہذا یہ ممکن ہی نہیں کہ سب فیصلے دماغ کے ہوں کچھ اختیار دل کے پاس بھی ہیں جن کا اُسے استعمال کرلینے دینا چاہیے
 

نایاب

لائبریرین
دل دریا سمندروں ڈونگے کو دلاں دیا ں جانے ہوووووووووو
عہد جنوں چل نکلتا ہے چھوڑ کر اک حسین یادگارآنکھوں میں
 
Top