کسی ہاتھ کو تھامنا چاہتا ہوں

نوید اکرم

محفلین
کسی ہاتھ کو تھامنا چاہتا ہوں
اسے تھامے چلنا سدا چاہتا ہوں

مکمل نہیں ہوں، کمی سی ہے کوئی
کرے کوئی پُر یہ خلا، چاہتا ہوں

میں عاشق نہیں تھا، میں واللہ نہیں تھا
اسے مل کے اب میں ہوا چاہتا ہوں

محبت ہے جس سے بے پایاں مجھ کو
رفاقت میں اس کی سدا چاہتا ہوں

ہمیشہ دِکھی ہے جو چادر میں لپٹی
اسے باہوں میں بے ردا چاہتا ہوں

جو آنکھیں ہیں اس کی ستاروں کے جیسی
وہ آنکھیں سدا دیکھنا چاہتا ہوں

رسیلے جو لب ہیں گلابوں کے جیسے
وہ پیارے سے لب چومنا چاہتا ہوں

مرا دل اسی کی امانت ہے, اب میں
اس دل میں اپنی جگہ چاہتا ہوں

وہ چاہے کرے نہ ذرا بھی توجہ
اسے میں تو حد سے سوا چاہتا ہوں

وہ چاہت ہے میری، محبت ہے میری
کرے بہتری اب خدا، چاہتا ہوں

جو ہو نعمتِ جاوداں میری خاطر
میں ایسا صنم باوفا چاہتا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
کسی ہاتھ کو تھامنا چاہتا ہوں
اسے تھامے چلنا سدا چاہتا ہوں
÷÷دوسرا مصرع رواں نہیں۔ دوسرا کہو

مکمل نہیں ہوں، کمی سی ہے کوئی
کرے کوئی پُر یہ خلا، چاہتا ہوں
÷÷ کوئی پر کرے یہ خلا
بہتر ہو گا۔

میں عاشق نہیں تھا، میں واللہ نہیں تھا
اسے مل کے اب میں ہوا چاہتا ہوں
۔۔اسے مل کے یا ’اس سے‘ مل کے؟ دونوں میں فرق ہے۔یوں شاید بہتر ہو
میں عاشق تو واللہ ہر گز نہیں تھا
مگر اس سے مل کر ہوا چاہتا ہوں

محبت ہے جس سے بے پایاں مجھ کو
رفاقت میں اس کی سدا چاہتا ہوں
۔۔شعر نہیں بن سکا۔ ’بے پایاں‘ کا ’بپایا‘ تقطیع ہونا بھی غلط ہے۔

ہمیشہ دِکھی ہے جو چادر میں لپٹی
اسے باہوں میں بے ردا چاہتا ہوں
۔۔۔عامیانہ شعر ہے ’دکھی ہے‘ فصیح نہیں
ہمیشہ جو چادر میں لپٹی ملی ہے
بہتر مصرع ہو گا، اگر شعر رکھنا ہی چاہو تو۔۔۔۔

جو آنکھیں ہیں اس کی ستاروں کے جیسی
وہ آنکھیں سدا دیکھنا چاہتا ہوں
۔۔خیال کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔

رسیلے جو لب ہیں گلابوں کے جیسے
وہ پیارے سے لب چومنا چاہتا ہوں
÷÷ یہ بھی عامیانہ ہے اگرچہ درست ہے۔ دونوں مصرعوں میں لب کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، ایک جگہ ہونٹ آ سکے تو بہتر ہو

مرا دل اسی کی امانت ہے, اب میں
اس دل میں اپنی جگہ چاہتا ہوں
۔۔یہ بھی خیال واضح نہیں ہوا۔ پہلے اور دوسرے مصرع میں ربط کی کمی کی وجہ سے،

وہ چاہے کرے نہ ذرا بھی توجہ
اسے میں تو حد سے سوا چاہتا ہوں
۔۔’کرے نہ‘ ’کرے نا‘ تقطیع ہوتا ہے، جو غلط ہے۔
وہ چاہے نہ ہو ملتفت میری جانب
کیا جا سکتا ہے

وہ چاہت ہے میری، محبت ہے میری
کرے بہتری اب خدا، چاہتا ہوں
۔۔دو لکت ہے، دونوں مصرعوں میں ربط نہیں محسوس ہو رہا۔

جو ہو نعمتِ جاوداں میری خاطر
میں ایسا صنم باوفا چاہتا ہوں
÷’سنم‘ کا عامیانہ لفظ سے اجتناب کیا جائے تو بہتر ہے۔
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
ایک اچھی کوشش۔ ( میں خود مشقی شاعر ہوں تو اس سے زیادہ تو کچھ نہیں کہہ سکتا )۔ استاد محترم الف عین کی تاکید کے مطابق تصحیح کلام میں مزید نکھار کا باعث بنے گی۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
کسی ہاتھ کو تھامنا چاہتا ہوں
اسے تھامے چلنا سدا چاہتا ہوں
÷÷دوسرا مصرع رواں نہیں۔ دوسرا کہو

مکمل نہیں ہوں، کمی سی ہے کوئی
کرے کوئی پُر یہ خلا، چاہتا ہوں
÷÷ کوئی پر کرے یہ خلا
بہتر ہو گا۔

میں عاشق نہیں تھا، میں واللہ نہیں تھا
اسے مل کے اب میں ہوا چاہتا ہوں
۔۔اسے مل کے یا ’اس سے‘ مل کے؟ دونوں میں فرق ہے۔یوں شاید بہتر ہو
میں عاشق تو واللہ ہر گز نہیں تھا
مگر اس سے مل کر ہوا چاہتا ہوں

محبت ہے جس سے بے پایاں مجھ کو
رفاقت میں اس کی سدا چاہتا ہوں
۔۔شعر نہیں بن سکا۔ ’بے پایاں‘ کا ’بپایا‘ تقطیع ہونا بھی غلط ہے۔

ہمیشہ دِکھی ہے جو چادر میں لپٹی
اسے باہوں میں بے ردا چاہتا ہوں
۔۔۔عامیانہ شعر ہے ’دکھی ہے‘ فصیح نہیں
ہمیشہ جو چادر میں لپٹی ملی ہے
بہتر مصرع ہو گا، اگر شعر رکھنا ہی چاہو تو۔۔۔۔

جو آنکھیں ہیں اس کی ستاروں کے جیسی
وہ آنکھیں سدا دیکھنا چاہتا ہوں
۔۔خیال کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔

رسیلے جو لب ہیں گلابوں کے جیسے
وہ پیارے سے لب چومنا چاہتا ہوں
÷÷ یہ بھی عامیانہ ہے اگرچہ درست ہے۔ دونوں مصرعوں میں لب کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، ایک جگہ ہونٹ آ سکے تو بہتر ہو

مرا دل اسی کی امانت ہے, اب میں
اس دل میں اپنی جگہ چاہتا ہوں
۔۔یہ بھی خیال واضح نہیں ہوا۔ پہلے اور دوسرے مصرع میں ربط کی کمی کی وجہ سے،

وہ چاہے کرے نہ ذرا بھی توجہ
اسے میں تو حد سے سوا چاہتا ہوں
۔۔’کرے نہ‘ ’کرے نا‘ تقطیع ہوتا ہے، جو غلط ہے۔
وہ چاہے نہ ہو ملتفت میری جانب
کیا جا سکتا ہے

وہ چاہت ہے میری، محبت ہے میری
کرے بہتری اب خدا، چاہتا ہوں
۔۔دو لکت ہے، دونوں مصرعوں میں ربط نہیں محسوس ہو رہا۔

جو ہو نعمتِ جاوداں میری خاطر
میں ایسا صنم باوفا چاہتا ہوں
÷’سنم‘ کا عامیانہ لفظ سے اجتناب کیا جائے تو بہتر ہے۔


جزاک اللہ خیر استاد محترم۔ بہت کچھ سیکھنے کو ملا! :) :)
 

نوید اکرم

محفلین
اسے مل کے یا ’اس سے‘ مل کے؟ دونوں میں فرق ہے
"اسے مل کے" اور "اس سے مل کے" میں کیا فرق ہے؟ وضاحت کر دیں تو نوازش ہو گی۔
۔۔’کرے نہ‘ ’کرے نا‘ تقطیع ہوتا ہے، جو غلط ہے۔
میرا مشاہدہ ہے کہ عام بول چال میں لفظ "نہ" کو کبھی کبھی ہم لمبا کر کے بھی بول دیتے ہیں۔ کیا شاعری میں یہ گنجائش بالکل موجود نہیں ہے کہ "نہ" کو لمبا کر کے بولا جائے یعنی اس کو ہجائے کوتاہ کی بجائے ہجائے بلند باندھا جائے؟ میرے ناقص علم کے مطابق لفظ "کہ"کو ہجائے کوتاہ اور ہجائے بلند دونوں طرح سے باندھا جا سکتا ہے تاہم اس کو ہجائے بلند باندھنا مستحسن نہیں ہے۔ کیا "نہ" کو بھی "کہ" کا مقام حاصل نہیں ہونا چاہئے کہ اسے ہجائے کوتاہ اور ہجائے بلند دونوں طرح سے باندھنے کی اجازت ہو لیکن بہتر یہی ہو کہ اسے ہجائے کوتاہ باندھا جائے؟؟؟
 
"اسے مل کے" اور "اس سے مل کے" میں کیا فرق ہے؟ وضاحت کر دیں تو نوازش ہو گی۔
کسی استاد کا سرِ دست کوئی شعر یاد نہیں آرہا کہ، پیش کر سکوں ،
اس کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے دو مصرے دیکھے جا سکتے ہیں۔
ع۔ مجھے مل گیا نیا رازداں اسے مل گئی نئی بات ایک

دوسری مثال کے لیے میر کے دو شعر دیکھیں۔

میر اس سے نہ مل آہ کہ ڈرتے ہیں مبادا
بیباک ہے وہ شوخ کہیں مار نہ ڈالے
 

الف عین

لائبریرین
مثال کے لئے میاں نذیر کا شکریہ۔ اس سے ثابت ہوا کہ ’اسے مل‘ میں کسی بے جان چیز کی بات کی جاتی ہے۔ ’اس سے‘ میں کسی شخص، جان دار کی بات کی جا رہی ہے۔
میں ذاتی طور پر ’کہ‘ اور ’نہ‘ کو ایک ہی طرح خیال کرتا ہوں، اور دونوں کو ہجائے بلند کی جگہ کوتاہ پسند کرتا ہوں۔ کچھ الفاظ بدلنے سے شاید یہ درست کیا جا سکتا ہے
 
Top