کسی گہرے نشے سے زندگانی لُوٹ جاتی ہیں: غزل برائے اصلاح

برہنہ پاؤں چلنا پڑ گیا پُر خار صحرا میں
محبت کے سفر میں جوتیاں تو ٹوٹ جاتی ہیں
۔۔۔ پہلا مصرع خوب، دوسرا کمزور ہے ۔۔۔
محبت کے سفر میں ہڈیاں بھی ٹوٹ جاتی ہیں ۔۔۔ کیسا رہے گا؟ آپ بھی بتائیے، محترم الف عین صاحب بھی مشورہ دیں۔۔

بڑا ہوتا ہے کتنی جلدی یہ انسان بچے سے
ہوں چاہے جتنی پختہ عادتیں سب چھوٹ جاتی ہیں
۔۔۔ یہ شعر مجھے انسانی فطرت کے خلاف لگ رہا ہے، انسان کی کچھ پختہ عادتیں یا بہت سی پختہ عادتیں چھوٹ جائیں یا بدل جائیں، یہ تو ممکن ہے، ساری عادتیں نہیں چھوٹتیں۔۔۔
غلط لگے تو اصلاح فرمائیے گا ۔۔


جہاں سے ہو گزر تیرا ، جہاں بیٹھا رہا ہو تو
وہاں سوکھے ہوئے پیڑوں سے شاخیں پھوٹ جاتی ہیں
۔۔۔ کیا ضروری ہے کہ آپ جس کی تعریف فرما رہے ہیں، وہ جہاں جہاں سے بھی گزرے، وہاں سوکھے ہوئے پیڑ ہی پائے جاتے ہوں؟ کبھی تو وہ سر سبز باغوں اور گلستانوں سے بھی گزرا ہوگا؟
ایک صورت یہ بھی دیکھئے:
کہیں اس کے چلے آنے سے گل کھلتے ہیں صحرا میں
کہیں سوکھے ہوئے پیڑوں سے شاخیں پھوٹ جاتی ہیں
۔۔۔

نہیں رہتا کوئی رشتہ یہاں مضبوط میری جان
یوں جلدی آج کل کی دوستیاں کیوں ٹوٹ جاتی ہیں
۔۔۔ پہلے مصرعے میں روانی بہتر کرنے کے لیے جان کو جاں کر لیجئے ۔۔۔
دوسرے مصرعے میں یوں کی جگہ کہ کا مقام ہے۔۔ اس کے علاوہ پہلا مصرع ایک بات پورے یقین سے بیان کرتا ہے کہ کوئی رشتہ یہاں مضبوط رہتا ہی نہیں، دوسرے مصرعے میں وہی یقین ٹوٹتا دکھائی دیتا ہے جب آپ سوال کرتے ہیں کہ کیوں ٹوٹتی ہیں دوستیاں؟ تو میرے خیال میں یہاں بھی کوئی یقینی بات آنی چاہئے، سوال نہیں۔

کبھی تو راستہ بھی بھول جاتا ہے مجھے عمران
کبھی منزل کو جاتی گاڑیاں سب چھوٹ جاتی ہیں
۔۔۔ پہلے مصرعے میں مسئلہ بھی اور بھول کا آپس میں ٹکرانا ہے، اور تو شاید کچھ نہیں ۔۔۔ پھر بھی یہ ملاحظہ کر لیجئے گا:
کبھی عمران میں رستہ بھلا دیتا ہوں منزل کا
کبھی منزل کو پانے کی امیدیں چھوٹ جاتی ہیں
۔۔ گاڑیاں مجھے بری لگ رہی تھیں، ویسے بھی آپ کے ہم نام وزیر اعظم پاکستان نے ان پر ٹیکس بہت زیادہ لگا دیا تھا، میں افورڈ نہیں کرسکا ۔۔۔جو اچھا لگے اپنا لیجئے گا۔۔
یہ شعر یوں کر دیا ہے
نہیں رہتا کوئی رشتہ یہاں مضبوط ، پل بھر میں
یہاں سالوں پرانی دوستیاں بھی ٹوٹ جاتی ہیں
یا پہلا مصرعہ ویسے رہنے دیا جائے؟
نہیں رہتا کوئی رشتہ یہاں مضبوط میری جاں
یہاں سالوں پرانی دوستیاں بھی ٹوٹ جاتی ہیں
 

عظیم

محفلین
مطلع کے قوافی اگر درست مان بھی لئے جائیں تو مطلب کیا نکلتا ہے؟ مجھ پر تو واضح نہیں ہوا!
دوسرے شعر کے دوسرے مصرع میں اگر 'تو' استعمال کریں گے تو 'ٹوٹ ہی جاتی' کے الفاظ درکار ہوں گے۔ بہتر ہو گا کہ پہلے مصرع میں 'پڑتا' کا ہی متبادل سوچیں
تیسرے شعر میں 'جلدی' کی ی کا اسقاط بھی میرے دیکھنے سے رہ گیا تھا، یہ بھی اچھا نہیں لگ رہا۔
چوتھے شعر میں 'تو' پر پیش لگائیں کہ کنفیوژن پیدا ہوتی ہے

نہیں رہتا کوئی رشتہ یہاں مضبوط ، پل بھر میں
یہاں سالوں پرانی دوستیاں بھی ٹوٹ جاتی ہیں
۔۔۔۔ 'دوستیاں' اب بھی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کس طرح وزن میں لا رہے ہیں؟

مقطع کے دونوں مصرعوں میں بھی تقریباً ایک سی بات لگتی ہے۔ پہلے میں کسی خاص جگہ کا ذکر ہو اور دوسرے میں اس طرف کو جاتی گاڑیاں چھوٹنے کی بات ہو تو بات بنے گی
 
مطلع کے قوافی اگر درست مان بھی لئے جائیں تو مطلب کیا نکلتا ہے؟ مجھ پر تو واضح نہیں ہوا!
دوسرے شعر کے دوسرے مصرع میں اگر 'تو' استعمال کریں گے تو 'ٹوٹ ہی جاتی' کے الفاظ درکار ہوں گے۔ بہتر ہو گا کہ پہلے مصرع میں 'پڑتا' کا ہی متبادل سوچیں
تیسرے شعر میں 'جلدی' کی ی کا اسقاط بھی میرے دیکھنے سے رہ گیا تھا، یہ بھی اچھا نہیں لگ رہا۔
چوتھے شعر میں 'تو' پر پیش لگائیں کہ کنفیوژن پیدا ہوتی ہے

نہیں رہتا کوئی رشتہ یہاں مضبوط ، پل بھر میں
یہاں سالوں پرانی دوستیاں بھی ٹوٹ جاتی ہیں
۔۔۔۔ 'دوستیاں' اب بھی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کس طرح وزن میں لا رہے ہیں؟

مقطع کے دونوں مصرعوں میں بھی تقریباً ایک سی بات لگتی ہے۔ پہلے میں کسی خاص جگہ کا ذکر ہو اور دوسرے میں اس طرف کو جاتی گاڑیاں چھوٹنے کی بات ہو تو بات بنے گی
دوستیاں میں س ساکت ہے جس طرح دوست میں س ساکت ہے۔۔۔ ن غنہ کی طرح اس کی واضح آواز ادا نہیں ہوتی اس لئے تقطیع میں شمار نہیں کیا۔۔۔ باقی اشعار کو بھی دیکھتے ہیں ان شاءاللہ بہتر صورت نکل آئے گی۔۔۔ سر اعجاز عبید صاحب کی بھی رائے لے لیتے ہیں۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
مطلع تو میری سمجھ سے بھی باہر ہے، نہ جانے کیوں اسے فائنل سمجھ کر مراسلے کا عنوان بنا دیا گیا۔ حیاتی کے بے معنی لفظ کی جگہ زندگانی کرنے پر بھی سمجھ نہیں سکا۔
محض دوست میں س کو تقطیع میں شامل نہیں کیا جاتا، لیکن دوستی میں نہیں۔ اصول یہ ہے کہ آخر کے دو متسل ساکن حروف میں ایک ہی گنا جاتا ہے، دوستی یا دوستیاں میں دو درمیانی ساکن حروف نہیں، ت پر زیر ہے۔
لوٹ اور روٹھ صوتی قافیہ کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے۔
پوری غزل تو اس صفحے پر نہیں۔ ہاں، جوتیاں تک ٹوٹ جاتی ہیں، ایک متبادل ہو سکتا ہے
 
مطلع تو میری سمجھ سے بھی باہر ہے، نہ جانے کیوں اسے فائنل سمجھ کر مراسلے کا عنوان بنا دیا گیا۔ حیاتی کے بے معنی لفظ کی جگہ زندگانی کرنے پر بھی سمجھ نہیں سکا۔
محض دوست میں س کو تقطیع میں شامل نہیں کیا جاتا، لیکن دوستی میں نہیں۔ اصول یہ ہے کہ آخر کے دو متسل ساکن حروف میں ایک ہی گنا جاتا ہے، دوستی یا دوستیاں میں دو درمیانی ساکن حروف نہیں، ت پر زیر ہے۔
لوٹ اور روٹھ صوتی قافیہ کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے۔
پوری غزل تو اس صفحے پر نہیں۔ ہاں، جوتیاں تک ٹوٹ جاتی ہیں، ایک متبادل ہو سکتا ہے
بہت شکریہ سر۔۔۔
دوستیاں کے متبادل یاریاں کر سکتے ہیں مگر لفظ بازاری لگ رہا ہے آپکی کیا رائے ہے؟؟؟
کیا
کسی گہرے نشے سے تن بدن تک لوٹ جاتی ہیں
یا
کوئی گہرا نشہ دے کر یہ سب کچھ لوٹ جاتی ہیں
یہ وقتی چاہتیں بیزار ہو کر روٹھ جاتی ہیں
یہ مصرعہ درست ہے؟؟؟
یا کوئی دوسرا متبادل لیا جائے۔۔۔
 
سر الف عین عظیم شاہد شاہنواز محمد خلیل الرحمٰن صاحبان اب کچھ بہتری ہے؟؟؟

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
کوئی گہرا نشہ دے کر سبھی کچھ لوٹ جاتی ہیں
یا
کسی گہرے نشے سے جب سبھی کچھ لُوٹ جاتی ہیں
تو وقتی چاہتیں بیزار ہو کر روٹھ جاتی ہیں

برہنہ پاؤں چلنا پڑ گیا پُر خار صحرا میں
محبت کے سفر میں جوتیاں تک ٹوٹ جاتی ہیں

ترے بدلے ہوئے تیور مجھے جوں یاد آتے ہیں
نہ جانے کیوں مرے ہاتھوں سے چیزیں چھوٹ جاتی ہیں

مجھے مایوس ہونے پر کہیں ، تُو لوٹ آئے گا
تری یادیں ہمیشہ بول کر یہ جھوٹ جاتی ہیں

کہیں اس کے چلے آنے سے گل کھلتے ہیں صحرا میں
کہیں سوکھے ہوئے پیڑوں سے شاخیں پھوٹ جاتی ہیں

نظر آتا ہے پانی ہر طرف پیاسے کو صحرا میں
سرابوں کے سفر میں ہڈیاں بھی ٹوٹ جاتی ہیں

نہیں ممکن ، مقدر ساتھ دے ہر بار الفت میں
یہاں لوگوں کی اچھی قسمتیں بھی پھوٹ جاتی ہیں

ترے گھر کا کبھی رستہ بھلا دیتا ہوں بھولے سے
کبھی تو تجھکو پانے کی امیدیں چھوٹ جاتی ہیں

نہیں رہتا کوئی رشتہ یہاں مضبوط ، پل بھر میں
جہاں سالوں پرانی یاریاں جب ٹوٹ جاتی ہیں

کبھی میری جگہ پر بیٹھ جاتا ہے کوئی عمران
کبھی منزل کو جاتی گاڑیاں سب چھوٹ جاتی ہیں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
کوئی گہرا نشہ دے کر سبھی کچھ لوٹ جاتی ہیں
یا
کسی گہرے نشے سے جب سبھی کچھ لُوٹ جاتی ہیں
تو وقتی چاہتیں بیزار ہو کر روٹھ جاتی ہیں
۔۔۔۔ پہلا مصرع 'دے کر' کے ساتھ بہتر ہے۔ اگر کہیں جو لایا جائے تو مزید بہتر ہو سکتا ہے
مثلاً کوئی گہرا نشہ دے کر جو سب کچھ لوٹ جاتی ہیں
لیکن دوسرا واضح نہیں ہے۔ بیزار کس سے؟ اور روٹھتی بھی کس سے ہیں؟

برہنہ پاؤں چلنا پڑ گیا پُر خار صحرا میں
محبت کے سفر میں جوتیاں تک ٹوٹ جاتی ہیں

ترے بدلے ہوئے تیور مجھے جوں یاد آتے ہیں
نہ جانے کیوں مرے ہاتھوں سے چیزیں چھوٹ جاتی ہیں
۔۔۔۔ جوں کی جگہ جو بہتر لگتا ہے۔ یا 'جب'

مجھے مایوس ہونے پر کہیں ، تُو لوٹ آئے گا
تری یادیں ہمیشہ بول کر یہ جھوٹ جاتی ہیں

کہیں اس کے چلے آنے سے گل کھلتے ہیں صحرا میں
کہیں سوکھے ہوئے پیڑوں سے شاخیں پھوٹ جاتی ہیں

نظر آتا ہے پانی ہر طرف پیاسے کو صحرا میں
سرابوں کے سفر میں ہڈیاں بھی ٹوٹ جاتی ہیں
۔۔۔۔ 'بھی' بھرتی کا لگتا ہے۔ اسکے علاوہ پہلے سے ربط نہیں سمجھ آ رہا

نہیں ممکن ، مقدر ساتھ دے ہر بار الفت میں
یہاں لوگوں کی اچھی قسمتیں بھی پھوٹ جاتی ہیں
۔۔۔۔ 'بھی' کی جگہ 'تک' لایا تو جا سکتا ہے مگر ایک اشعار میں بہتر ہو گا۔ پہلے بھی قافیہ سے پہلے ایک بار استعمال ہوا ہے۔ کچھ اورلا سکیں تو بہت بہتر ہے

ترے گھر کا کبھی رستہ بھلا دیتا ہوں بھولے سے
کبھی تو تجھکو پانے کی امیدیں چھوٹ جاتی ہیں
۔۔۔ بھولے سے؟ دوسرے کا پہلے سے ربط کیا ہے؟ اور معنی کیا نکلتے ہیں یہ بھی سمجھ نہیں آ رہا

نہیں رہتا کوئی رشتہ یہاں مضبوط ، پل بھر میں
جہاں سالوں پرانی یاریاں جب ٹوٹ جاتی ہیں
۔۔۔۔ 'یہاں' اور 'پل بھر' کے الفاظ ہٹا کر اگر 'دنیا، جہان' وغیرہ لے آیا جائے تو بہتر رہے گا
دوسرے میں 'یہاں' لے آئیں 'جہاں' کی جگہ۔ اور 'سالوں' کی جگہ صدیوں استعمال کیا جا سکتا ہے

کبھی میری جگہ پر بیٹھ جاتا ہے کوئی عمران
کبھی منزل کو جاتی گاڑیاں سب چھوٹ جاتی ہیں
۔۔۔ آپ کی جھہ پر آپ کی 'سیٹ' مراد ہے تو یہ بات واضح نہیں
 
کوئی گہرا نشہ دے کر سبھی کچھ لوٹ جاتی ہیں
یا
کسی گہرے نشے سے جب سبھی کچھ لُوٹ جاتی ہیں
تو وقتی چاہتیں بیزار ہو کر روٹھ جاتی ہیں
۔۔۔۔ پہلا مصرع 'دے کر' کے ساتھ بہتر ہے۔ اگر کہیں جو لایا جائے تو مزید بہتر ہو سکتا ہے
مثلاً کوئی گہرا نشہ دے کر جو سب کچھ لوٹ جاتی ہیں
لیکن دوسرا واضح نہیں ہے۔ بیزار کس سے؟ اور روٹھتی بھی کس سے ہیں؟

برہنہ پاؤں چلنا پڑ گیا پُر خار صحرا میں
محبت کے سفر میں جوتیاں تک ٹوٹ جاتی ہیں

ترے بدلے ہوئے تیور مجھے جوں یاد آتے ہیں
نہ جانے کیوں مرے ہاتھوں سے چیزیں چھوٹ جاتی ہیں
۔۔۔۔ جوں کی جگہ جو بہتر لگتا ہے۔ یا 'جب'

مجھے مایوس ہونے پر کہیں ، تُو لوٹ آئے گا
تری یادیں ہمیشہ بول کر یہ جھوٹ جاتی ہیں

کہیں اس کے چلے آنے سے گل کھلتے ہیں صحرا میں
کہیں سوکھے ہوئے پیڑوں سے شاخیں پھوٹ جاتی ہیں

نظر آتا ہے پانی ہر طرف پیاسے کو صحرا میں
سرابوں کے سفر میں ہڈیاں بھی ٹوٹ جاتی ہیں
۔۔۔۔ 'بھی' بھرتی کا لگتا ہے۔ اسکے علاوہ پہلے سے ربط نہیں سمجھ آ رہا

نہیں ممکن ، مقدر ساتھ دے ہر بار الفت میں
یہاں لوگوں کی اچھی قسمتیں بھی پھوٹ جاتی ہیں
۔۔۔۔ 'بھی' کی جگہ 'تک' لایا تو جا سکتا ہے مگر ایک اشعار میں بہتر ہو گا۔ پہلے بھی قافیہ سے پہلے ایک بار استعمال ہوا ہے۔ کچھ اورلا سکیں تو بہت بہتر ہے

ترے گھر کا کبھی رستہ بھلا دیتا ہوں بھولے سے
کبھی تو تجھکو پانے کی امیدیں چھوٹ جاتی ہیں
۔۔۔ بھولے سے؟ دوسرے کا پہلے سے ربط کیا ہے؟ اور معنی کیا نکلتے ہیں یہ بھی سمجھ نہیں آ رہا

نہیں رہتا کوئی رشتہ یہاں مضبوط ، پل بھر میں
جہاں سالوں پرانی یاریاں جب ٹوٹ جاتی ہیں
۔۔۔۔ 'یہاں' اور 'پل بھر' کے الفاظ ہٹا کر اگر 'دنیا، جہان' وغیرہ لے آیا جائے تو بہتر رہے گا
دوسرے میں 'یہاں' لے آئیں 'جہاں' کی جگہ۔ اور 'سالوں' کی جگہ صدیوں استعمال کیا جا سکتا ہے

کبھی میری جگہ پر بیٹھ جاتا ہے کوئی عمران
کبھی منزل کو جاتی گاڑیاں سب چھوٹ جاتی ہیں
۔۔۔ آپ کی جھہ پر آپ کی 'سیٹ' مراد ہے تو یہ بات واضح نہیں
سر جلدی میں کچھ اشعار ہی درست کر پایا ہوں فوتگی ہو گئی گاؤں جا رہا ہوں۔۔۔ باقی اشعار شام کو ان شاءاللہ بہتر کروں گا۔۔۔

کوئی گہرا نشہ دے کر جو سب کچھ لوٹ جاتی ہیں
تو ہم سے چاہتیں بیزار ہو کر روٹھ جاتی ہیں

ترے بدلے ہوئے تیور مجھے جب یاد آتے ہیں
نہ جانے کیوں مرے ہاتھوں سے چیزیں چھوٹ جاتی ہیں

نہیں ممکن ، مقدر ساتھ دے ہر بار الفت میں
یہاں لوگوں کی اچھی قسمتیں تک پھوٹ جاتی ہیں

ترے گھر کا کبھی رستہ بدل دیتا ہوں بھولے سے
کبھی تجھ تک پہچنے کی امیدیں چھوٹ جاتی ہیں
 

الف عین

لائبریرین
مطلع تو اب بھی میری ناقص عقل میں نہیں آ سکا
ترے گھر کا کبھی رستہ بدل دیتا ہوں بھولے سے
کبھی تجھ تک پہچنے کی امیدیں چھوٹ جاتی ہیں
... کبھی یہ اور کبھی وہ جیسے بیانیہ میں دونوں باتیں متضاد یا کم از کم مختلف ہونی چاہیے ۔ رستہ بھول جانا اور منزل تک نہ پہنچنا تقریباً ایک ہی بات ہے
رستہ بدل دینا یا رستہ بھلا دینے کے مجہول بیان سے یہ مصرع سادہ اور صاف ہے
کبھی میں راستہ ہی بھول جاتا ہوں ترے گھر کا
لیکن دوسرا مصرع بدلنے کی ضرورت ہے
باقی اشعار درست ہو گئے ہیں عظیم کے مشوروں کے بعد
 
مطلع تو اب بھی میری ناقص عقل میں نہیں آ سکا
ترے گھر کا کبھی رستہ بدل دیتا ہوں بھولے سے
کبھی تجھ تک پہچنے کی امیدیں چھوٹ جاتی ہیں
... کبھی یہ اور کبھی وہ جیسے بیانیہ میں دونوں باتیں متضاد یا کم از کم مختلف ہونی چاہیے ۔ رستہ بھول جانا اور منزل تک نہ پہنچنا تقریباً ایک ہی بات ہے
رستہ بدل دینا یا رستہ بھلا دینے کے مجہول بیان سے یہ مصرع سادہ اور صاف ہے
کبھی میں راستہ ہی بھول جاتا ہوں ترے گھر کا
لیکن دوسرا مصرع بدلنے کی ضرورت ہے
باقی اشعار درست ہو گئے ہیں عظیم کے مشوروں کے بعد
مطلع میں سر آپ ہی کچھ مدد کریں میں تو جیسے دائرے میں گھوم رہا ہوں جہاں سے چلتا ہوں وہیں آ جاتا ہوں۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
مطلع میں لوٹ جانا کا قافیہ چھوڑ دو۔ لوٹ لینا درست
محاورہ ہے، لوٹ جاتا یوں بھی غلط ہے
مفہومِ سمجھ سکوں تو کچھ مشورہ دوں، ورنہ تب تک بغیر مطلع کے ہی رہنے دو
 
مطلع میں لوٹ جانا کا قافیہ چھوڑ دو۔ لوٹ لینا درست
محاورہ ہے، لوٹ جاتا یوں بھی غلط ہے
مفہومِ سمجھ سکوں تو کچھ مشورہ دوں، ورنہ تب تک بغیر مطلع کے ہی رہنے دو
کیا اب سر کچھ بہتری ہے؟؟؟

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن

ہمیشہ کی طرح جب سب امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں
تو ہم سے چاہتیں بیزار ہو کر روٹھ جاتی ہیں

مجھے مایوس ہونے پر کہیں ، تُو لوٹ آئے گا
تری یادیں ہمیشہ بول کر یہ جھوٹ جاتی ہیں

برہنہ پاؤں چلنا پڑ گیا پُر خار صحرا میں
محبت کے سفر میں جوتیاں تک ٹوٹ جاتی ہیں

ترے بدلے ہوئے تیور مجھے جب یاد آتے ہیں
نہ جانے کیوں مرے ہاتھوں سے چیزیں چھوٹ جاتی ہیں

کہیں اس کے چلے آنے سے گل کھلتے ہیں صحرا میں
کہیں سوکھے ہوئے پیڑوں سے شاخیں پھوٹ جاتی ہیں

نہیں ممکن ، مقدر ساتھ دے ہر بار الفت میں
یہاں لوگوں کی اچھی قسمتیں تک پھوٹ جاتی ہیں

سنو رہتا نہیں رشتہ کوئی مضبوط دنیا میں
یہاں برسوں پرانی یاریاں بھی ٹوٹ جاتی ہیں

ہمیشہ دیر سے باہر نکلتا ہوں جو میں عمران
مری منزل کو جاتی گاڑیاں سب چھوٹ جاتی ہیں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
مطلع کے دوسرے مصرعہ میں چاہتیں بیزار کیوں ہو رہی ہیں اس کی سمجھ نہیں آ رہی۔
مقطع کے بھی الفاظ بدلنے کی ضرورت ہے۔ 'باہر نکلنا' کی بجائے 'گھر سے نکلنا' بہتر ہو گا
اور دوسرے میں
'مری' کو ہٹا کر کسی طرح 'تو' لایا جائے تو بہتر ہو سکتا ہے
باقی مجھے درست لگتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
مزید یہ کہ
سنو رہتا نہیں رشتہ کوئی....
سنو لفظ بھرتی کا ہے، اس کی جگہ 'کبھی' استعمال کیا جا سکتا ہے
 
مزید یہ کہ
سنو رہتا نہیں رشتہ کوئی....
سنو لفظ بھرتی کا ہے، اس کی جگہ 'کبھی' استعمال کیا جا سکتا ہے
اگر سر مطلع اس طرح کر دیا جائے تو کیا بہتر ہو گا؟؟؟

محبت کو نبھانے کی امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں
تو ہم سے چاہتیں بیزار ہو کر روٹھ جاتی ہیں

یا

جو رشتوں کو نبھانے کی امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں
تو ہم سے چاہتیں بیزار ہو کر روٹھ جاتی ہیں

(چاہتوں کے بیزار ہونے یا روٹھنے کی وجہ محبت یا رشتوں کو نہ نبھانا ہے)
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
محبت کو نبھانے کی امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں
تو ہم سے چاہتیں بیزار ہو کر روٹھ جاتی ہیں
ہی بہتر ہے لیکن چاہتیں کیوں بیزار ہو سکتی ہیں، یہ تم کو ہر جگہ واضح کرنا پڑے گا!
مختصر یہ کہ بیانیہ پسند نہیں آیا لیکن جب تک دوسرا مطلع نہ کہ سکو، اسے قبول کیا جا سکتا ہے۔ مطلع کی تکنیکی مجبوری کی وجہ سے اکثر اعتراضات کو بخش دیا جاتا ہے
 
مطلع کے دوسرے مصرعہ میں چاہتیں بیزار کیوں ہو رہی ہیں اس کی سمجھ نہیں آ رہی۔
مقطع کے بھی الفاظ بدلنے کی ضرورت ہے۔ 'باہر نکلنا' کی بجائے 'گھر سے نکلنا' بہتر ہو گا
اور دوسرے میں
'مری' کو ہٹا کر کسی طرح 'تو' لایا جائے تو بہتر ہو سکتا ہے
باقی مجھے درست لگتے ہیں
مقطع
ہمیشہ دیر سے گھر سے نکلتا ہوں جو میں عمران
تبھی منزل کو جاتی گاڑیاں سب چھوٹ جاتی ہیں
یا
تو ہی منزل کو جاتی گاڑیاں سب چھوٹ جاتی ہیں
 
سر الف عین اب کچھ بہتر ہے؟؟؟

محبت کو نبھانے کی امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں
کیوں ہم سے چاہتیں بیزار ہو کر روٹھ جاتی ہیں

مجھے مایوس ہونے پر کہیں ، تُو لوٹ آئے گا
تری یادیں ہمیشہ بول کر یہ جھوٹ جاتی ہیں

برہنہ پاؤں چلنا پڑ گیا پُر خار صحرا میں
محبت کے سفر میں جوتیاں تک ٹوٹ جاتی ہیں

ترے بدلے ہوئے تیور مجھے جب یاد آتے ہیں
نہ جانے کیوں مرے ہاتھوں سے چیزیں چھوٹ جاتی ہیں

کہیں اس کے چلے آنے سے گل کھلتے ہیں صحرا میں
کہیں سوکھے ہوئے پیڑوں سے شاخیں پھوٹ جاتی ہیں

نہیں ممکن ، مقدر ساتھ دے ہر بار الفت میں
یہاں لوگوں کی اچھی قسمتیں تک پھوٹ جاتی ہیں

کبھی رہتا نہیں رشتہ کوئی مضبوط دنیا میں
یہاں برسوں پرانی یاریاں بھی ٹوٹ جاتی ہیں

ہمیشہ دیر سے گھر سے نکلتا ہوں جو میں عمران
مری منزل کو جاتی گاڑیاں سب چھوٹ جاتی ہیں
 
Top