کسی پہ اعتبار کا کر کے یہ صلہ پایا

کسی پہ اعتبار کا کر کے یہ صلہ پایا
کہ اپنے رنج کا چرچہ ہر اک جگہ پایا

میں اس کے سحر کے اثر میں ہوش کهو بیٹھی
جگی تو دل کو اس کے پہلو میں لٹا پایا

تڑپ رہا تها میرے دل میں آرزو بن کے
زباں پہ آیا تو اسکو بهی اک گلہ پایا
 
صلہ کو ”صلا“ اور ”گلہ“ کو ”گلا“ بنانا مجبوری میں تو جائز ہے مگر یہاں آپ نے قافیہ ہی انہی کو ٹھہرا دیا جو میری ذاتی رائے میں غلط ہے۔
البتہ مطلعے میں اگر ایک مصرعے میں کسی اصلی ”الف“ کو قافیہ ٹھہرایا جائے تو یہ سقم رفع ہو جائے۔

علاوہ اس کے:
پہلے شعر میں پہلا مصرع اور
دوسرے شعر کے دونوں مصرعے بے وزن ہیں۔
 
بہت شکریہ!

صلہ کو ”صلا“ اور ”گلہ“ کو ”گلا“ بنانا مجبوری میں تو جائز ہے مگر یہاں آپ نے قافیہ ہی انہی کو ٹھہرا دیا جو میری ذاتی رائے میں غلط ہے۔
البتہ مطلعے میں اگر ایک مصرعے میں کسی اصلی ”الف“ کو قافیہ ٹھہرایا جائے تو یہ سقم رفع ہو جائے۔

علاوہ اس کے:
پہلے شعر میں پہلا مصرع اور
دوسرے شعر کے دونوں مصرعے بے وزن ہیں۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
کسی پہ اعتبار کا کر کے یہ صلہ پایا
کہ اپنے رنج کا چرچہ ہر اک جگہ پایا

سارہ بشارت گیلانی ۔۔۔ میرے خیال میں اس کی کافی اصلاح آپ نے کر لی ہوگی، وہ بھی یہاں پوسٹ کیجئے گا اور پہلے شعر کے لیے میں ایک مشورہ دے رہا ہوں، اس کے وزن کے لیے مزمل شیخ بسمل ہمیں بتائیں گے کہ وہ درست ہے یا نہیں۔
کسی پہ اعتبار کرکے یہ صلہ پایا
کہ اپنے رنج کا چرچا ہر ایک جاپایا
۔۔۔۔ اب ’’جا‘‘ کا استعمال یہاں بے جا ہے یا بجا، یہ آپ دونوں اہل نظر دیکھئے۔۔۔
 
کسی پہ اعتبار کا کر کے یہ صلہ پایا
کہ اپنے رنج کا چرچہ ہر اک جگہ پایا

سارہ بشارت گیلانی ۔۔۔ میرے خیال میں اس کی کافی اصلاح آپ نے کر لی ہوگی، وہ بھی یہاں پوسٹ کیجئے گا اور پہلے شعر کے لیے میں ایک مشورہ دے رہا ہوں، اس کے وزن کے لیے مزمل شیخ بسمل ہمیں بتائیں گے کہ وہ درست ہے یا نہیں۔
کسی پہ اعتبار کرکے یہ صلہ پایا
کہ اپنے رنج کا چرچا ہر ایک جاپایا
۔۔۔ ۔ اب ’’جا‘‘ کا استعمال یہاں بے جا ہے یا بجا، یہ آپ دونوں اہل نظر دیکھئے۔۔۔

شاہد۔
دو باتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ قافیہ اب بھی درست نہیں ہے جیسے میں نے اوپر کہا۔ دوسرا یہ کہ وزن میں بھی نہیں۔
یہ وزن ایسے ہے:
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن۔

اسی وزن میں ایک خوبصورت غزل نما گانا سنیں۔:)

اب قافیہ کا مسئلہ یہ ہے ایک اصلی الف اور ہائے مختفی کو قافیہ کرنا درست ہے مگر دونوں ہائے مختفی کو الف کا قائم مقام بنا کر قافیہ کرنا غلط ہے۔
مثلاً اگر صلہ کا قافیہ ”بہا“، ”رہا“ یا ”صبا“ وغیرہ کردیں تو پوری غزل کے قوافی درست ہوجائینگے۔
 

الف عین

لائبریرین
کسی پہ اعتبار کا کر کے یہ صلہ پایا
کہ اپنے رنج کا چرچہ ہر اک جگہ پایا
//بھروسہ کر کے کسی پر یہی صلہ پایا
کہ اپنے درد/رنج/ عشق کا ہی ذکر جا بجا پایا

میں اس کے سحر کے اثر میں ہوش کهو بیٹھی
جگی تو دل کو اس کے پہلو میں لٹا پایا
//لٹا پایا اچھی زبان نہیں، لیتا ہوا پایا درست ہو گا۔ بحر کے حساب سے یوں ہو سکتا ہے
میں اس کے سحر میں تھی ہوش گم، جو جاگی میں
اسی کے پہلو میں دل کو پڑا ہوا پایا

تڑپ رہا تها میرے دل میں آرزو بن کے
زباں پہ آیا تو اسکو بهی اک گلہ پایا
//دوسرا مصرع یوں واضح ہو سکتا ہے
زباں پہ جب مری آیا، تو اک گلہ پایا
 

اسد قریشی

محفلین
قبلہ اعجاز صاحب کی اصلاحات کے بعد گنجائش تو نہیں رہتی، لیکن سوچا کہ ایک مشورہ ہمارا بھی صحیح۔

یہ اعتبار کا ہم نے یہاں صلہ پایا
کہ اپنے رنج کا چرچہ ہی جابجا پایا
میں اُس کے سحر میں کھوئی تو ہوش کھو بیٹھی
جو خواب ٹوٹا تو پھر شہرِ دل فنا پایا
 
Top