کسی دن ملیں گے! (نصیر احمد ناصر)

غدیر زھرا

لائبریرین
کسی دن مِلیں گے
عروضی زمانوں سے باہر
شبِ استعارہ منائیں گے
تمثیل حُسنِ ازل کی
کسی صد مثالی جبیں میں، حسیں میں تلاشیں گے
لفظوں کے اثقال سے
معنویت کو آزاد کر دیں گے
ابہام آلودہ دنیا سے نکلیں گے
ویراں ستاروں پہ رقصِ بلاغت کریں گے
کوئی ایسا پیکر تراشیں گے
جو کائناتی تصور سے بھی ماورا ہو
کسی خواب آمیز مجہول دن کو علامت بنا کر
محبت کی نثری حلاوت چکھیں گے،
حقیقت لکھیں گے
ابھی تک تو بس ایک مِیٹر ہے، رُوں رُوں ہے
جس میں زمانوں کی رَو بہہ رہی ہے
یہی کہہ رہی ہے
فقط مَیں ہی مَیں ہوں کوئی تُو نہیں ہے
سنو شش جہاتو! کوئی ساتویں سُو نہیں ہے
نہ منزل نہ رستہ نہ کوئی سفر ہے
ہر اک سمت "لا" کا گزر ہے
ہر اک شے کا اپنا تناظر ہے، اپنی نظر ہے
کوئی کتنا اصلی ہے، نقلی ہے کس کو خبر ہے، مگر ہے
ہر اک شیڈ کی اپنی چَھب ہے، دِکھاوٹ ہے
جیسے دھنک ایک آبی شجر ہے
جڑیں جس کی بادل کے اندر ہیں
بادل سمندر کا بیٹا ہے
جس کا پہاڑوں پہ گھر ہے
زمینے ! ترے کینوس پر
زمانوں کی پینٹنگ بناتے بناتے کبھی تھک گئے تو
ہم اُس گھر میں جائیں گے مہمان بن کر
یگوں تک رہیں گے
نہائیں گے رنگوں میں، غسلِ صباحت کریں گے
ابھی دورِ تخلیق جاری ہے پیہم
ابھی ایک سرمستی طاری ہے ہر دَم
ابھی مجھ کو فرصت نہیں ہے
ابھی نظم مجھ کو لکھے جا رہی ہے
فعولن فعولن فعولن فعولن
مِلیں گے کسی دن مِلیں گے
فراغت ہوئی تو
خدا سے بھی، تجھ سے بھی
دونوں جہانوں سے باہر مِلیں گے
کسی دن عروضی زمانوں سے باہر مِلیں گے !!
-
نصیر احمد ناصر
 
کسی دن مِلیں گے
عروضی زمانوں سے باہر
شبِ استعارہ منائیں گے
تمثیل حُسنِ ازل کی
کسی صد مثالی جبیں میں، حسیں میں تلاشیں گے
لفظوں کے اثقال سے
معنویت کو آزاد کر دیں گے
ابہام آلودہ دنیا سے نکلیں گے
ویراں ستاروں پہ رقصِ بلاغت کریں گے
کوئی ایسا پیکر تراشیں گے
جو کائناتی تصور سے بھی ماورا ہو
کسی خواب آمیز مجہول دن کو علامت بنا کر
محبت کی نثری حلاوت چکھیں گے،
حقیقت لکھیں گے
ابھی تک تو بس ایک مِیٹر ہے، رُوں رُوں ہے
جس میں زمانوں کی رَو بہہ رہی ہے
یہی کہہ رہی ہے
فقط مَیں ہی مَیں ہوں کوئی تُو نہیں ہے
سنو شش جہاتو! کوئی ساتویں سُو نہیں ہے
نہ منزل نہ رستہ نہ کوئی سفر ہے
ہر اک سمت "لا" کا گزر ہے
ہر اک شے کا اپنا تناظر ہے، اپنی نظر ہے
کوئی کتنا اصلی ہے، نقلی ہے کس کو خبر ہے، مگر ہے
ہر اک شیڈ کی اپنی چَھب ہے، دِکھاوٹ ہے
جیسے دھنک ایک آبی شجر ہے
جڑیں جس کی بادل کے اندر ہیں
بادل سمندر کا بیٹا ہے
جس کا پہاڑوں پہ گھر ہے
زمینے ! ترے کینوس پر
زمانوں کی پینٹنگ بناتے بناتے کبھی تھک گئے تو
ہم اُس گھر میں جائیں گے مہمان بن کر
یگوں تک رہیں گے
نہائیں گے رنگوں میں، غسلِ صباحت کریں گے
ابھی دورِ تخلیق جاری ہے پیہم
ابھی ایک سرمستی طاری ہے ہر دَم
ابھی مجھ کو فرصت نہیں ہے
ابھی نظم مجھ کو لکھے جا رہی ہے
فعولن فعولن فعولن فعولن
مِلیں گے کسی دن مِلیں گے
فراغت ہوئی تو
خدا سے بھی، تجھ سے بھی
دونوں جہانوں سے باہر مِلیں گے
کسی دن عروضی زمانوں سے باہر مِلیں گے !!
-
نصیر احمد ناصر
کیا کہنے۔ بہت خوبصورت !
 
Top