کسوٹی #24

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
بابا گورو نانک دیو جی کا مقام

شیخوپورہ کے نواح میں گوردوارہ "سچا سودا" واقع ہے، جو سکھ مذہب کے بانی بابا گورو نانک دیو جی سے منسوب ہے۔ یہ ایک مقدس مقام ہے اور سکھ یاتری یہاں حاضری دیتے ہیں۔
گرونانک کے والد نے گرو نانک کو سودا بیچنے کے لیے بھیجا، لیکن انہوں نے وہ رقم بھوکے فقیروں کو کھانا کھلانے میں لگا دی۔اس عمل کو "سچا سودا" کہا گیا، یعنی "سچی تجارت"، کیونکہ گرو نانک نے سمجھایا کہ اصل منافع خدمت اور بھلائی میں ہے، نہ کہ پیسے جمع کرنے میں۔
یہاں ہر سال بیساکھی کے موقع پر خصوصی تقریبات اور یاترا ہوتی ہے، جس میں دنیا بھر سے سکھ زائرین شریک ہوتے ہیں۔لنگر کا خصوصی انتظام ہوتا ہے۔ جہاں ہر مذہب اور ذات کا شخص کھانا کھا سکتا ہے۔
 
شیخوپورہ میں مذہبی نوعیت کی جگہ کونسی ہوسکتی ہے؟
چیٹ جی کا جواب

شیخوپورہ میں مذہبی نوعیت کی کئی اہم جگہیں موجود ہیں۔ یہاں چند معروف مذہبی مقامات کی فہرست دی جا رہی ہے:

1. ہیرو والی درگاہ

یہ ایک مشہور صوفی بزرگ کی درگاہ ہے جہاں زائرین روحانی سکون کے لیے آتے ہیں۔ یہ درگاہ میلوں اور عرس کے موقع پر خاص طور پر آباد رہتی ہے۔

2. درگاہ حضرت شاہ جمال قادری

یہ بزرگ صوفی سلسلے سے تعلق رکھتے تھے، اور ان کی درگاہ پر بھی سالانہ عرس منعقد ہوتا ہے۔

3. جامع مسجد شہزادہ

شیخوپورہ کی مرکزی بڑی مساجد میں سے ہے۔ مذہبی اجتماعات اور نماز جمعہ کے لیے مشہور ہے۔

4. بابا گورو نانک دیو جی کا مقام (ایمن آباد کے قریب، نارووال روڈ)

شیخوپورہ کے نواح میں گوردوارہ "سچا سودا" واقع ہے، جو سکھ مذہب کے بانی بابا گورو نانک دیو جی سے منسوب ہے۔ یہ ایک مقدس مقام ہے اور سکھ یاتری یہاں حاضری دیتے ہیں۔

5. دیگر چھوٹے دربار اور امام بارگاہیں

شیخوپورہ میں شیعہ کمیونٹی کی کئی امام بارگاہیں ہیں جیسے "امام بارگاہ قصرِ سکینہ" اور دیگر کئی مذہبی مراکز۔

اگر آپ نے کسی خاص جگہ کی طرف اشارہ کیا ہے (جیسے کوئی کسوٹی یا پہیلی ہو)، تو براہ کرم تھوڑا مزید اشارہ دیں جیسے:

کیا وہ اسلامی، سکھ، یا کسی اور مذہب سے متعلق ہے؟

وہاں کسی بزرگ یا واقعے سے نسبت ہے؟

کیا وہ مقام شیخوپورہ شہر میں ہے یا مضافات میں؟


میں اسی حساب سے بہتر اندازہ لگا سکوں گا۔
میں تو بھائی بغیر عینک اور بغیر ایکسٹرا ٹیب کے ، ایک آنکھ بند کر کے کھیسی کے اندر سے فون یوز کر رہی ہوں۔ 😁
 
تہاڈیاں توپاں دا رخ اک دن مٹی تھلے مڑ جانا !

زیک دا کج آکھ نہیں سکدے لیکن ہلے تک دی رپورٹس دے مطابق میرا تے یاز دا وی پروگرام ایہی ہے۔ کہیڑا تسی کلے ای مرنا اے خان وی بھی تو روز مرتے ہیں کسی نہ کسی پر۔
 
گرونانک کے والد نے گرو نانک کو سودا بیچنے کے لیے بھیجا، لیکن انہوں نے وہ رقم بھوکے فقیروں کو کھانا کھلانے میں لگا دی۔اس عمل کو "سچا سودا" کہا گیا، یعنی "سچی تجارت"، کیونکہ گرو نانک نے سمجھایا کہ اصل منافع خدمت اور بھلائی میں ہے، نہ کہ پیسے جمع کرنے میں۔
یہاں ہر سال بیساکھی کے موقع پر خصوصی تقریبات اور یاترا ہوتی ہے، جس میں دنیا بھر سے سکھ زائرین شریک ہوتے ہیں۔لنگر کا خصوصی انتظام ہوتا ہے۔ جہاں ہر مذہب اور ذات کا شخص کھانا کھا سکتا ہے۔
تسی کتھوں دے او!
 

اے خان

محفلین
اے خان بھائی آپ "ہاڑ" میں تشریف لائے بہت حسین و جمیل "سردارنیاں" تشریف لاتی ہیں ویسے تو آپکے قریب حسن ابدال میں بھی چکر لگاتی ہیں لیکن یہاں پر ذرا کھلا ڈھلا ماحول ہوتا ہے۔ اور گردوارے کے سابقہ گرو سے ہماری علیک سلیک بھی تھی نئے والے سے کبھی ملاقات نہ ہوئی۔
ہاڑ تو شروع ہے بلکہ ختم ہونے والا ہے
میں نے ان کے ساتھ بھنگڑہ ڈالنا ہے
 
ہاڑ تو شروع ہے بلکہ ختم ہونے والا ہے
میں نے ان کے ساتھ بھنگڑہ ڈالنا ہے
ہاڑ نہیں یار وساکھ کہنا تھا ابھی ترمیم کی ہے۔
وہ تو دلجیت کا گانا یاد آ گیا تھا کہ "ہاڑ دی دھپے وی دل ریندا ٹھردا" تو جلدی میں ہاڑ لکھ گیا۔
 
ٹرین ٹو پاکستان نہیں پڑھی کیا اسمیں بھی ذکر ہے۔ تقسیم ہند کے وقت شیخوپورہ،گوجرانوالہ علاقے کا مرکزی کیمپ تھا ۔
مشرف کے دور میں جب گردوارے کی تعمیر نو کی گئی تو یہاں سے بہت سارے کڑے برآمد ہوئے جنکی وجہ کا اندازہ آپ کر سکتے ہیں۔

ناول کی ایک اور بات یہ ہے کہ اس میں دونوں طرف سے فسادات کا ذکر کیا گیا ہے۔ اگرچہ مسلمانوں کی طرف تھوڑا جھکاؤ زیادہ رہا ہے لیکن سکھوں کے رویوں پر بھی کافی روشنی ڈالی گئی ہے۔ کتاب کے اس پہلو کا نتیجہ یہ ہے کہ مجھے پہلی دفعہ معلوم ہوا کہ سچا سودا،شیخوپورہ میں بھی سکھوں کا قتل کیا گیا تھا۔ حالانکہ میں نے جب سے ہوش سنبھالی اسی علاقے میں رہا ہوں۔ سچا سودا کے گردوارے کی خستہ حالی کو خود دیکھا ہے۔(اب گردوارا بہت بہتر حالت میں ہے۔اور یہاں کے سکھ گرو بہت نفیس آدمی ہے۔) لیکن کبھی اس بات پر غور نہیں کیا تھا اور نا ہی معلوم تھا کہ ہمارے بڑوں نے بھی بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے تھے۔ایسے ہی واقعات راولپنڈی،گوجرانوالہ،ملتان،خیبر پختوانخوہ اور دیگر علاقوں میں بھی ہوئے۔لیکن موجودہ طور کی اوسط عمر کا بڑا حصہ گزارنے کے باجود ان باتوں اور واقعات سے نابلد رہا ہوں۔یوں یہ کتاب تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھلاتی ہے جسکو دیکھنے کی ہمیں اشد ضرورت ہے۔

 
Top