علی سردار جعفری کرشمہ

فہد اشرف

محفلین
کرشمہ

مرے لہو میں جو توریت کا ترنم ہے
مری رگوں میں جو یہ زمزمہ زبور کا ہے
یہ سب یہود و نصاریٰ کے خوں کی لہریں ہیں
مچل رہی ہیں جو میرے لہو کی گنگا میں

میں سانس لیتا ہوں جن پھیپھڑوں کی جنبش سے
کسی مغنئ آتش نفس نے بخشے ہیں
جواں ہے مصحفِ یزداں کا لحن داؤدی

کسی کی نرگسی آنکھوں کا نرگسی پردہ
مری نظر کو عطا کر رہا ہے بینائی
طلوعِ مہر کی ہیں نقش کاریاں کیا کیا
مہ و نجوم کی ہیں جلوہ واریاں کیا کیا
زمیں سے تا بہ فلک رقص میں ہیں لیلائیں
شگفتہ صورتِ گل ہر طرف تمنائیں

خدا کا شکر ادا جب زبان کرتی ہے
تو دل تڑپتا ہے ایک ایسی کافرہ کے لئے
خدا بھی میری طرح جس کو پیار کرتا ہے
ہو جس میں نازِ یحب الجمال کا نغمہ
وہ سر سے پاؤں تلک ماہ و سال کا نغمہ
جلال ہجر و شکوہِ وصال کا نغمہ
جہانِ عشق میں تفریقِ اسم و ذات نہیں
جہانِ حسن میں تفریقِ ہند و پاک نہیں
سوا گلوں کے گریباں کسی کا چاک نہیں
یہ عالمِ بشری احترام کا عالم
تمام تر ہے درود و سلام کا عالم
نفس نفس میں مرے زمزمہ محبت کا
مرا وجود قصیدہ بشر کی عظمت کا
یہ سب کرشمہ ہے انسانیت کی وحدت کا
مری رگوں میں جو توریت کا ترنم ہے
مری نفس میں جو یہ زمزمہ زبور کا ہے
 
مدیر کی آخری تدوین:

فہد اشرف

محفلین
محمد تابش صدیقی بھائی محمد خلیل الرحمٰن صاحب ذرا ذیل کی تصویر کی مدد سے اس نظم میں ضروری تبدیلیاں کر دیں خاص کر بند بند تو الگ ہی کر دیں۔ شکریہ
IMG_20171122_202853.png
 
آخری تدوین:

فہد اشرف

محفلین
تدوین کردی ہے جناب!

کرشمہ

مرے لہو میں جو توریت کا ترنم ہے
مری رگوں میں جو یہ زمزمہ زبور کا ہے
یہ سب یہود و نصاریٰ کے خوں کی لہریں ہیں
مچل رہی ہیں جو میرے لہو کی گنگا میں

میں سانس لیتا ہوں جن پھیپھڑوں کی جنبش سے
کسی مغنئ آتش نفس نے بخشے ہیں
جواں ہے مصحفِ یزداں کا لحن داؤدی

کسی کی نرگسی آنکھوں کا نرگسی پردہ
مری نظر کو عطا کر رہا ہے بینائی

نگاہِ شوق کی ہیں بے قراریاں کیا کیا
طلوعِ مہر کی ہیں نقش کاریاں کیا کیا
مہ و نجوم کی ہیں جلوہ واریاں کیا کیا
زمیں سے تا بہ فلک رقص میں ہیں لیلائیں
شگفتہ صورتِ گل ہر طرف تمنائیں

خدا کا شکر ادا جب زبان کرتی ہے
تو دل تڑپتا ہے
اک ایسی کافرہ کے لئے
خدا بھی میری طرح جس کو پیار کرتا ہے

وہ جسمِ نازِ یحب الجمال کا نغمہ
وہ سر سے پاؤں تلک ماہ و سال کا نغمہ

جلال ہجر و شکوہِ وصال کا نغمہ
جہانِ عشق میں تفریقِ اسم و ذات نہیں
جہانِ حسن میں تفریقِ ہند و پاک نہیں
سوا گلوں کے گریباں کسی کا چاک نہیں
یہ عالمِ بشری احترام کا عالم
تمام تر ہے درود و سلام کا عالم
نفس نفس میں مرے زمزمہ محبت کا
مرا وجود قصیدہ بشر کی عظمت کا
یہ سب کرشمہ ہے انسانیت کی وحدت کا
مری رگوں میں جو توریت کا ترنم ہے
مری نفس میں جو یہ زمزمہ زبور کا ہے
یہ جو لال رنگ سے ہم نے درستگی کی ہے وہ اصل مراسلے میں بھی کر دیں۔:)
 
Top