کرسمس کا تہوار اور مبارکباد -- کس کھاتے میں ؟؟

فرسان

محفلین
(تنبيه)
القول الأول من الفتاوى الكبرى (ومن أقبح البدع ........إلخ) ليس هو للهيتمي وإنما حكاه عن بعض المتأخرين وليس هو له.

(تصحيح)
يه الهيتمي كا ابنا قول نهين (ومن أقبح البدع ........إلخ)) بلكه ان كي كتاب مين ايك اور فقيه كا هےِ
 

نایاب

لائبریرین
آپ كو رجوع كرنا چاهيے كيونكه

قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْںا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ (سورة الممتحنة)

(ترجمه بالمعنى) تم ميں حضرت ابراهيم عليه السلام اور ان كے صحابه كے اس فعل ميں بهترين اسوه هے جب انھوں نے اپني قوم سے كها كه هم تم سے بيزار هيں يهاں تك كه تم صرف ايك الله پر ايمان لے آؤ.

قسم بالله ميں بھي نصارى سے بيزار هوں اور ان كو كرسمس (wish/greet) نهيں كرتا.
كيا آپ بيزار هيں قرآن كے حكم پر؟
السلام علیکم
میرے محترم بھائی آپ نے سورت الممتحنہ کی جن آیات سے استدلال پیش کیا ہے ۔
کیا یہ آیات " نصاری " کے افعال بارے ہیں ۔۔۔۔؟
اور کیا سرخ کشیدہ ترجمہ بھی اس آیت کے ترجمے میں شامل ہے ۔۔۔۔؟
 
یہاں جتنے بھی حوالے دئے گئے ہیں فقہ کی کتب سے، میں انکے حوالے سے ایک بات کہوں گا اور اسکے بعد میری طرف سے اس بحث کا اختتام ہے۔۔
بار بار کتاب الذمہ کا حوالہ آرہا ہے، مجھے یہ بتائیے کہ آجکل کے زمانے میں ذمی کون ہے؟
یہ جوپوری دنیا کے کروڑوں مسلمان یورپی ممالک، کینیڈا اور امریکہ وغیرہ میں قیام پذیر ہیں کیا ان پر کتاب الذمہ کے احکامات کا اطلاق کرنا عقلمندی ہوگی؟۔۔۔جب وہ ماحول اور وہ صورتحال ہی نہیں رہی، تو اب پرانی کتابوں سے فقہاء کی یہ تحقیقات ، دل پہلانے کو یا اپنی علمیت ثابت کرنے کو تو پیش کی جاسکتی ہیں لیکن پریکٹیکل لائف میں بعینہ اسی طرح نافذ نہیں کی جاسکتیں کیونکہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔
آپکے اسکالرز بھی جب دعوتِ دین کیلئے باہر نکلتے ہیں تو جن مجمعوں سے خطاب کرتے ہیں ان میں السلام علیکم کہہ کر اپنی بات شروع کرتے ہیں۔۔۔لیڈیز اینڈ جینٹلمیں۔۔السلام علیکم۔۔۔جبکہ آپکے فقہاء کا یہ کہنا ہے کہ جس مجمعے میں مسلم اور غیر مسلم مکس ہوں وہاں السلام علیٰ من اتبع الہدیٰ کہا جائے۔۔۔اور وہ احکامات جو اسلام کی عزت اور کفر کی ذلت کو ظاہر کرنے کیلئے فقہاء نے مستنبط کئے ہیں (یعنی ذمیون کو مخصوص پٹی اپنے لباس پر لگانی ہوگی، مخصوص لباس پہننا ہوگا) وہ سب بھی اس زمانے میں اپنی validity کھو چکے ہیں۔۔۔لیکن دینی مدرسوں کے طلباء شاید اپنے اپنے مدرسے کی لائبریری میں بیٹھے باہر کی دنیا سے یکسر کٹے ہوئے ہیں۔
دین کے دو پہلو ہیں۔ ایک وہ جو ناقابلِ تغیر ہے، حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک اس دین میں کوئی تبدیلی نہیں واقع ہوئی اور اسی ایک دین کوسب انبیاء نے انسانیت کی طرف پیش کیا اور وہ یہی ہے کہ اللہ پر، یومِ آخر پر، انبیاء و رسل پر، الہامی کتب پر، فرشتوں پر ایمان لایا جائے اور قضا و قدر کو منجانب اللہ سمجھا جائے، ۔۔۔۔باقی جتنی باتیں ہیں وہCircumstancesکے تبدیل ہونے سے تبدیل ہوسکتی ہیں۔ کبھی مکی زندگی ہے تو کبھی مدنی۔
والسلام۔۔۔
 

متلاشی

محفلین
اگر آپ کا اعتراض یہ ہے کہ قرآن کی آیت میں لفظ greeting کیوں نہیں آیاتو معذرت ، ورنہ عام محاورے میں کسی کو سلام کہنا یا سلام بھیجنا greetings میں ہی شمار ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ کسی روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عیسائی کرسمس مناتے تھے، تو ضرور شئیر کیجئے ۔ اس میں دیر کس بات کی۔
میرے محترم دعویٰ آپ نے کیا ہے ۔۔۔۔ اس لئے اپنے دعویٰ کو سچ ثابت کرنے کیلئے دلائل بھی آپ ہی دیں گے ۔۔۔!
 

فرسان

محفلین
گذشته روز ايك آيت ميں املا كي غلطي ره گئي تھي.
الله مجھے معاف فرمائے. آمين

ساتھ هي ترجمه بالمعنى اختصار كے ساتھ كيا گيا تھا.

پوري آيت مع ترجمه يه هے.

قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ (سورة الممتحنة: الآية 4)

تمهارے لئے حضرت ابراهيم ميں اور ان كے صحابه ميں اسوه هے جبكه ان سب نے اپني قوم سے برملا كهه ديا كه هم تم سے اور جن جن كي تم الله كے سوا عبادت كرتے هو ان سب سے بالكل بيزار هيں. هم تمهارے عقائد كے منكر هيں اورجب تك تم الله كي وحدانيت پر ايمان نه لاؤهم ميں تم ميں هميشه كے ليے بغض و عداوت ظاهر هو گئي.
 

فرسان

محفلین
اگر كسي كو فقه كا حواله پسند نهيں تو وه سنت كے حوالاجات په غور كرے.

قرآن كا حواله بھي هے.

اگر قرآن كا حواله بھى مشكوك هو تو (السلام على من اتبع الهدى)

يه حوالاجات صرف غزنوي كيلئے نهيں بلكه هر اهل نظر كے لئے هيں. اهل دل كے لئے حوالاجات بشرط زندگي آ جائيں گے إن شاء الله.

حجت كا اتمام هوچكا والحمد لله.
 

فرسان

محفلین
کیا یہ آیات " نصاری " کے افعال بارے ہیں ۔۔۔ ۔؟

يه هر اس قوم كيلئے هيں جو كفر ميں مبتلا هو والعياذ بالله۔
اور کیا سرخ کشیدہ ترجمہ بھی اس آیت کے ترجمے میں شامل ہے ۔۔۔ ۔؟
جي نهيں۔ پورا ترجمه دوباره ديا گیا ہے۔
 

فرسان

محفلین
أحمد ديدات ايك بهترين اسكالر صرف السلام على من اتبع الهدى كهتے۔

كيونكه حضور صلى الله عليه وسلم كي سنت هے۔

اور كافر كو سلام كرنے ميں پہل كي اجازت آقا صلى الله عليه وسلم نے نہیں دي۔

عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا تبدءوا اليهود ولا النصارى بالسلام، فإذا لقيتم أحدهم في طريق، فاضطروه إلى أضيقه»(بخاري كي حديث هے.)

اسلام كل بھی الله كا تھا اور آج بھي۔

هماري نفس پرستی يا (I think so) كا نهيں۔
 

فرسان

محفلین
الله هميں قرآن اور سنت پہ عمل كي توفيق عطا فرمائے۔

اور دين ميں خواهش اور هوس سے رائے زني كرنے سے بچاے۔

اگر کسی صاحب کا کوئي شبهه باقي هو تو وه اهل علم سے رابطه كرے۔

في الحقيقت يه هماري بے بسي اور غلامي كي باقيات ميں سے ہے كه دوسروں كے بجائے اپنوں سے بیزار ہیں۔
 

فرسان

محفلین
الحمد لله كه مجھے علميت جھاڑنے کا کوئي فائده نهيں ہوگا

يه اتنے دلائل صرف اس لئے ديے كه شايد كسي كا بھلا هو جائے

عاقل كو دلائل كي زيادتي سے اپنی غلطي كا احساس هو جاتا هے
 

رانا

محفلین
اگر تمام مراسلے محفل کے ایک ہی ڈیفالٹ فونٹ میں ہوں تو زیادہ بہتر رہے گا۔ دوسرے فونٹ پر نظر پڑتے ہی عجیب سی ذہنی کوفت کا احساس ہوتا ہے۔ ایسا مراسلہ اگر ایک دو سطری ہو تو بندہ پھر بھی پڑھ لیتا ہے لیکن ذرا بھی تفصیلی مراسلہ ہو تو پورا پڑھنے کی طرف طبعیت ہی مائل نہیں ہوتی۔
 
حوالوں کے انبار سے بات کی تفہیم نہیں ہوتی صرف یہ فائدہ ہوتا ہے کہ۔۔ "دیکھو جی میں یہ بات اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا، فلاں کتاب میں فلاں صفحے پر فلاں صاحب نے یہ بات کہی تھی۔ میں تو اسے آپ تک پہنچا رہا ہوں"۔۔۔۔
میرا نقطہ نظر فقط یہ ہے کہ:
1- جب آپکے فتوے سے بھی ثابت ہوگیا کہ کافر کو(اور ایک نہیں بلکہ ساٹھ) تبلیغِ دین یا اسی قسم کی دوسری مصلحت کے تحت مسجد میں داخل ہونے، اور اپنے طریقے کے مطابق باطل معبودوں کی عبادت کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔
2- اور جس دین نے یہ اجازت دی، وہی دین یہ بھی اجازت دے رہا ہے کہ یہود یت اور عیسائیت پر قائم عورت (یعنی کتابیہ) سے نکاح کیا جاسکتا ہے، بچے پیدا کیئے جاسکتے ہیں۔
تو پھر بھائی، اسی دین میں کسی عیسائی کو اللہ کے ایک پیغمبر کی پیدائش کی مبارکباد دینے میں کیا قیامت نازل ہوجائے گی؟۔۔۔یعنی آپ عیسائی عورت سے شادی کرسکتے ہیں، لیکن اسکو سلام نہیں کرسکتے۔۔۔عجیب Harmony ہے۔۔۔۔
اگر اس عورت کو سلام کرنے سے، یا اسکو حضرت عیسیٰ کی پیدائش پر مبارکباد دینے سے دھرم بھرشٹ ہوتا ہے تو اسکے ساتھ ازدواجی تعلق قائم کرنے سے کیوں نہیں ہوتا؟
پھر دوبارہ عرض کروں گا کہ دین اللہ کا ہے، فقہاء کا نہیں۔
اور جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے جس میں یہود ی یا نصرانی کو سلام میں ابتداء نہ کرنے اور راستے میں آمنا سامنا ہونے پر اسے تنگی سے گزرنے پر مجبور کرنے کا حکم دیا جارہا ہے۔۔تو شائد اسکا تعلق حربی کافر سے یا ان کافرین سے ہے جو اسلام کے ساتھ نفرت اور دشمنی کا اظہار کرتے ہوں۔ واللہ اعلم بالصواب
 
آخر میں ایک اور بات عرض کردوں کہ مشرکین کی جن عیدوں کا یہاں ذکر کیا گیا ہے ان کی دو قسمیں ہیں؛
1- پہلی وہ جو صرف انہی کے ساتھ اور انکے مخصوص مشرکانہ عقیدے کے ساتھ مخصوص ہو، اور جس میں مسلمانوں کا کوئی حصہ نہ ہو۔ مثلاّ ایسٹرEaster۔۔یہ ایسا تہوار ہے کہ اس میں مسلمانوں کے ساتھ کوئی چیز بھی Common نہیں۔۔۔کیونکہ عیسائیوں کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوصلیب دئے جانے کے بعد Easter کے دن دوبارہ زندہ کیا گیا۔۔۔اور اس میں مسلمانوں کے عقیدے کی صریحاّ مخالفت ہے۔ دوسری مثال بت پرستوں کے پوجا پاٹھ والے تہوار ہیں۔ اس میں بھی مسلمانوں کے عقیدے کی کوئی چیز common نہیں ہے۔۔بیشک ان عیدوں کی مبارکباد نہیں دینی چاہئیے کیونکہ اس میں مسلمانوں کے عقیدے کی کوئی چیز common نہیں۔
2- دوسری قسم وہ ہے جسکا تعلق ان امور سے ہے جو مسلمانوں کے ساتھ commonہیں۔ مثلاّ حضرت موسیٰ علیہ السلام مسلمانوں کے برگزیدہ نبی ہیں۔ اگر انہیں 10 محرم کو فرعون کے مقابلے میں فتحِ عظیم دی گئی تو اس میں مسلمانوں کیلئے بھی خوشی کی بات ہے۔چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "نحن احٖقّ بموسیٰ منھم"۔۔۔یعنی حضرت موسیٰ پر ہمارا ان یہودیوں کی نسبت زیادہ حق ہے۔۔چنانچہ 10 محرم کو مسلمانوں نے بھی روزہ رکھا۔ رہی بات مشابہت کی، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مشابہت دور کرنے کے واسطے 9 محرم کو بھی روزہ رکھنے کا امر فرمایا۔۔۔یہی بات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی خوشی منانے کے حوالے سے کہی جاسکتی ہے کہ نحن احقّ بعیسیٰ منھم۔۔۔ہمارا حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ان عیسائیوں کی نسبت زیادہ حق ہے۔۔چنانچہ اگر وہ خوش ہوتے ہیں تو آپکو ان سے زیادہ خوش ہونا چاہئیے، رہی بات مشابہت کی تو مشابہت نہ کریں، سانتا کلاز نہ بنیں، کرسمس ٹری نہ بنائیں، عیسائیوں والے دیگر ناجائز کام جو وہ اس خوشی کے اظہار کیلئے کرتے ہیں نہ کریں۔۔کون کہہ رہا ہے یہ سب کرنے کو :)
واللہ اعلم بالصواب۔۔۔
 

فرسان

محفلین
اختلا ف نهيں كه زمانه بدل چكا هے. مگر يه نويد بھي ليتے جائيں كه زمانے كي كايا ايك بار پھر پلٹے گي.

اس كو وهي پلٹيں گے جنهيں اپنے دين وروايات پر كامل بھروسه هے.

وه جو اپنے پيارے نبي صلى الله عليه وسلم كي ايك سنت كے لئے پورے زمانے سے ٹكر لے جاتے هيں. زمانه بھلے انهيں برا كهے مگر وه هر كڑوي بات اور هر طوفان .....الله كي خاطر........سنت كي خاطر ..... اپنے سينوں پر سهتے هيں.

جو زمانه بدلنے پر سنت ترك نهيں كرتے بلكه صرف سنت كي خاطرزمانے كي مهار موڑنے كا دم ركھتے هيں.

كيا آپ ان ميں سے بنيں گے؟

عن أبي هريرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، أنه قال: " لا يزال لهذا الأمر - أو على هذا الأمر - عصابة على الحق، ولا يضرهم خلاف من خالفهم، حتى يأتيهم أمر الله "

مسند أحمد (8274) البزار (3320- كشف الأستار) ، واللالكائي في "أصول الاعتقاد" (171) وابن راهويه في "مسنده" (455) ابن ماجه (7) وأخرج الطبراني في "مسند الشاميين" (1563) و (2496) وأخرج أبو يعلى (6417)

يه سات كتب حديث كا حواله هے.
يعني كه اس دين ميں هميشه ايسے مسلمان رهيں گے جو حق پر رهيں گے اور لوگوں كي مخالفت كے باوجود انهيں كوئي نقصان نهيں هوگا يهاں تك كه الله كا امر آن پهنچے.

ايك اور حديث ميں هے :

عن بكر بن زرعة الخولاني، قال: سمعت أبا عنبة الخولاني يقول: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: " لا يزال الله عز وجل يغرس في هذا الدين بغرس يستعملهم في طاعته.

(مفهوم) يعني كه الله تعالى اپنے دين كي حفاظت كيلئے امت ميں ايسے لوگوں كو پيدا فرماتے رهتے هيں جو الله كي اطاعت كرتے رهتے هيں.

محترم قاري ! كيا آپ ان ميں سے بنيں گے؟
 

فرسان

محفلین
كيا همارے فقهاء ويسے هي هيں جيسا كه هماري ان سے بدگمانياں هيں؟


بالكل نهيں. الله اپنے دين كو لاوارث نهيں چھوڑتے.

عن أبي هريرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، أنه قال: " لا يزال لهذا الأمر - أو على هذا الأمر - عصابة على الحق، ولا يضرهم خلاف من خالفهم، حتى يأتيهم أمر الله "

مسند أحمد (8274) البزار (3320- كشف الأستار) ، واللالكائي في "أصول الاعتقاد" (171) وابن راهويه في "مسنده" (455) ابن ماجه (7) وأخرج الطبراني في "مسند الشاميين" (1563) و (2496) وأخرج أبو يعلى (6417)

يه سات كتب حديث كا حواله هے.
يعني كه اس دين ميں هميشه ايسے مسلمان رهيں گے جو حق پر رهيں گے اور لوگوں كي مخالفت كے باوجود انهيں كوئي نقصان نهيں هوگا يهاں تك كه الله كا امر آن پهنچے.

ايك اور حديث ميں هے :

عن بكر بن زرعة الخولاني، قال: سمعت أبا عنبة الخولاني يقول: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: " لا يزال الله عز وجل يغرس في هذا الدين بغرس يستعملهم في طاعته.

(مفهوم) يعني كه الله تعالى اپنے دين كي حفاظت كيلئے امت ميں ايسے لوگوں كو پيدا فرماتے رهتے هيں جو الله كي اطاعت كرتے رهتے هيں.

ايك اور حديث ميں هے كه

«إن الله يبعث لهذه الأمة على رأس كل مائة سنة من يجدد لها دينها».

أخرجه أبو داود (4291) وأبو عمرو الداني في " الفتن " (45 / 1) والحاكم (4 / 522) والبيهقي في " معرفة السں والآثار " (ص 52) والخطيب في " التاريخ " (2 / 61) والهروي في " ذم الكلام " (ق 111 / 2)

(مفهوم هى ترجمه نهيں) يعني هر صدي كے سرے پر الله ايك مجدد بھيجتے هيں.

لهذا اهل الإسلام بالكل اطمينان ركھيں اپنے دين پر اور اپنے فقهاء پر اور اپنے تاريخي ورثے پر.
 

فرسان

محفلین
كيا مسلمان كسي غير مسلم كے ساتھ حسن سلوك سے پيش آ سكتا هے؟
جواب: هميں قرآن هي سے هدايت ليني چاهئے اور اسي كا تابع رهنا هے.

الله فرماتے هيں : لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (سورة الممتحنة الآية 8

(ترجمه) جن لوگوں نے تم سے دين ميں لڑائي نهيں لڑي اور تمهيں جلاوطن نهيں كيا ان كے ساتھ سلوك واحسان كرنے اور منصفانه بھلے برتاؤ كرنے سے الله تعالى تمهيں نهيں روكتا بلكه الله تعالى تو انصاف كرنے والوں سے محبت كرتا هے.(ترجمه ختم هوا)

اسي طرح اگر محلے ميں كوئي غير مسلم بيمار هو جائے اور وه مسلمانوں سے بغض ركھنے والا نه هو تو اس كي عيادت كرني چاهيے. يه بهت اچھا كام هے.

محلے ميں كوئي غير مسلم خاتون هوں يا بزرگ جو گھر كا سودا سلف لا نه سكيں تو انكي مدد كرني چاهيے اور جهاں هم اپنے گھر كے لئے اشياء خريديں وهاں ان كا بھي خيال ركھيں.

اسي طرح مسلمان پوليس پر بھي يه واجب هے كه هر غير مسلم شهري كي جان ومال كي ايسے هي حفاظت كي جائے جيسے مسلمان كي.

مگر يه كه هم ان كي عيدوں ميں جا كر سر نكاليں يا مبارك باديں ديں يا تحفے تحائف ديں تو يه صريح طور پر الله اور الله كے حبيب صلى الله عليه وسلم كے حكم كي مخالفت هے.
دلائل مفصل طور پر دئے جا چكے هيں.
 

فرسان

محفلین
همارے فقهاء ميں سے ايك امام اوزاعي گزرے هيں جو دمشق ميں دوسري صدي هجري ميں فوت هوئے. آپ بھي امام مالك، شافعي، احمد بن حنبل، ليث بن سعد، سفيان ثوري ، ابو حنيفه اور ديگر آئمه كي طرح مجتهد مطلق تھے. جب وفات هوئي تو شهر كے يهود ونصارى كي هر آنكھ پر نم تھي. آپ ان كے دلعزيز اور محبوب تھے. كيوں؟ ظاهر هے اپنے حسن سلوك كي وجه سے.

دمشق هي كے الشيخ تقي الدين الحراني كا واقعه هے. جب تاتاري مسلمانوں پر ٹوٹے اور قيدي بنا كر لے گئے تو تقي الدين تاتاريوں كے حاكم سے جا ٹكرائے اور كها كه وه شهر كے باشندے آزاد كردے. تاتاري صاحب بھي شايد همارے فقهاء كو صحيح طرح جانتے نه تھے لهذا كهنے لگا كه مسلمان لے جاؤ اور ذمي (يهود ونصارى) چھوڑ جاؤ. اس جليل القدر فقيه نے كها كه بالكل نهيں. وه بھي ميري ايسي هي ذمه داري هيں جيسے مسلمان. اور اس طرح ذمي بھي آزاد كروا لائے. ياد رهے كه اس واقعه سے كم وبيش 50 سال پهلے اسي شهر ميں انهي يهود ونصارى نے مسلمانوں اور مساجد كے خلاف وه هنگامه آرائي كي تھي كه مسلمان سهم گيے تھے. ايسا اس لئے هوا كه منگولوں نے بغداد پر حمله كيا اور ان كافروں نے يه سمجھا كه بس مسلمان اب ختم هو جائيں گے. مزے كي بات كه يھي ذميوں كو چھرانے والے اسس كے سخت خلاف تھے كه كافر كو اس كي عيد كي مبارك باد دي جائے اور انھوں نے اس كي پر زور مخالفت كي اور بهت كچھ لكھا. آج دنيا ان كو "ابن تيميه" كے نام سے جانتي هے.

اور كئي واقعات بھي مل جائيں گے آپ كو ان شاء الله.

ثابت هوا كه
1. فقهاء صرف گفتار كے نهيں بلكه كردار كے بھي غازي تھے.
2. وه تنگ نظر بالكل نه تھى، اسي لئے ذميوں كے ليے حاكم سے جا ٹكرائے.
3.فقهاء نے يه نه ديكھا كه ان ذميوں نے 50 سال پهلے همارے ساتھ كيا كيا تھا اور هم ان كو نه چھرائيں. بلكه اسلام كے حكم په عمل كيا.
4.مسلمانوں كے فقهاء كے غير ميلم سے حسن سلوك كے باوجودجب اسلام كا يه حكم هے كھ ان كو عيد كي مبارك باد نهيں ديني تو انھوں نے اسي كا حكم ديا.
5. فقهاء كے خلاف تمام بكواس غلط فهمي پر مبني هے.
6. جن فقهاء كي توهين هو رهي تھي وهي سراپا علم و عمل هيں.

(جواب برئے جواب داغنے والے خبردار) كوئي صاحب ماضي قريب كے فسادات كو بنياد بنا كر ميري پوسٹ كا جواب دينے كي جسارت نه كريں. ميں فقهاء كي بات كر رها هوں اور فسادات كرنے والوں ميں كوئي فقيه تو كيا فقه كا صحيح طرح نام لينا والا بھي نهيں هوتا اور نه ملك كے علماء ان مظالم كي حوصله افزائي كرتے هيں. ان فسادات ميں ملوث وه لوگ هوتے هيں جو فقهاء سے دور اپنے مفتي خود هوتے هيں. اپني عقل كي اور اپنے دل كي مانتے هيں اور الله كي رحمت كا بهانه بنا كر گناه كرتے هيں. اور الله كي قهاريت كو آواز ديتے هيں. كيونكه اگر الله كي قهاريت لوگوں كے دلوں سے غائب هونے لگے تو الله اسے تازه ركھنے كے لئے دكھا ديا كرتى هيں.
 

فرسان

محفلین
حوالاجات قرآن كي آيات اور صحابه كے اقوال سے هيں۔ جو كسي تاويل كے متحمل نهيں هيں۔

جوابا آپ ايك بھی قديم مجتهد يا فقيه كا فتوى نهيں لا سكےِ
 
Top