عزیز ہم وطنو!
کراچی کے مکینوں!
اپنے حالات پر نظر ڈالئے!
اور اپنے اعمال درست کیجئے!
ذرا سوچئے ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
یہ برکت والا شہر کیوں ڈوب رہا ہے؟

یہ ایسا برکت والا شہر ہے جہاں سے نہ صرف اس کے اپنے مکینوں کی بلکہ پورے پاکستان کی روزی روٹی جڑی ہوئی ہے، آج تباہی کے دہانے پر کیوں آگیا ہے؟ پانچ چھہ مہینوں تک کورونا کی وبا کی وجہ کر اس شہر کی تجارت تباہ ہوئی، روزگار کے مواقعے ختم ہوئے، بے شمار لوگ بے روزگار ہوئے پھر ساتھ ہی اب طوفانِ نوح کی طرح پورے شہر کو پانی کے عذاب نے گھیرا ہوا ہے۔ تجارتی منڈیوں میں، گوداموں میں، چھوٹے بڑے دوکانوں، کارخانوں اور شاپنگ سینٹروں میں پانی داخل ہو کر اربوں روپے کا مال تجارت خاک میں ملا چکا ہے جس کی وجہ کر لوگ کوڑیوں کے محتاج ہونے کے درپے ہیں۔ رہائشی علاقوں میں بھی پانی داخل ہوکر لوگوں کے مال و اسباب کو تباہ و برباد کر چکا ہے۔

ذرا سوچئے! بے شک یہ ہمارے اپنے ہی اعمال کے پھل ہیں۔

یہ بڑا بابرکت شہر ہے لیکن اس کی برکتیں آہستہ آہستہ معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ ایک وقت تھا کہ اس شہر میں خالی ہاتھ آنے والا محنت کش آدمی تین سے پانچ سال میں اپنی ذاتی مکان بنا لیتا تھا۔ لیکن اب تو کوئی ساری زندگی کما کر بھی شاید ہی بنا پائے۔

اس شہر پر ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جب اس پر خوف کا راج تھا۔ میں اس وقت بھی لکھا تھا کہ کسی شہر پر خوف کا طاری ہونا کسی بڑے عذاب آنے کا پیش خیمہ ہوتا ہے تو اگر لوگوں نے توبہ استغفار نہ کیا اور یہ خوف کا بادل نہ چھٹا تو بڑا عذاب آئے گا۔ پھر لوگوں نے دعائیں کی اور حکمرانوں نے اس شہر پر توجہ دی تو خوف کا بادل کی جگہ اللہ کی رحمت سے امن و امان سایہ واپس آ گیا۔

ذرا سوچئے! اس شہر سے اللہ کی رحمتیں اور برکتیں کیوں روٹھتی جارہی ہیں؟
بے شک یہ ہمارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے، جس کی وجہ کر آج اس شہر کا یہ حال ہے۔
جب مسلمانوں کے ملک و معاشرے میں حکم الٰہی کی پامالی ہوگی تو اللہ تعالٰی تو ناراض ہوگا ہی
اور عذاب تو آئے گا ہی۔

اس شہر کی تمام تر برکتوں کے باوجود یہاں کی اکثریت اپنی حلال روزی کو بھی حرام بنا لیتی ہے، ظاہر ہے پھر اس شہر سے روزگار کے مواقعے تو ختم ہوں گے ہی اور جب حلال روزی کو بھی حرام بنایا جائے گا تو اس میں برکت کہاں سے ہوگی؟

جھوٹ بولنا یہاں عام ہے۔ کرپشن کا دور دورہ ہے اور رشوت کے بغیر یہاں کوئی کام نہیں ہوتا پھر اس شہر سے اللہ کی برکتیں کیوں نہ روٹھے؟

کہتے ہیں کہ ’’جس ملک کا منصف ہی ناانصافی کرنے لگے وہاں آسمان سے انصاف آنے کا انتظار کرو‘‘، اللہ نہ کرے کہ یہاں ایسا ہو۔ لیکن یہاں کی عدالتوں کے باہر دو دو سو روپے میں جھوٹی گواہی دینے واے بیٹھے رہتے ہیں۔

یہاں بے شمار لوگ سرکاری اداروں میں ملازم ہیں جبکہ کام کہیں اور کرتے ہیں اور دو دو تین تین جگہوں سے تنخواہیں لیتے ہیں، بعض کام نہ کرنے کی تنخواہ اور کام کرنے کی رشوت لیتے ہیں۔ پھر ایسی تنخواہوں میں برکت کیسے ہو؟

چوری، ڈکیتی اور اسٹریٹ کرائم یہاں کی پہچان بن گئی ہے۔ یہاں کے تاجر ملاوٹ، چوربازاری، ذخیرہ اندوزی کرنے میں طاق ہیں اور اسے تجارتی فن قرار دیتے ہیں اور خوب کماتے ہیں۔ اسی لئے قانونِ فطرت کو بھی چیلنج کرتے ہوئے دوپہر کے دو بجے صبح کرتے ہیں۔

یہاں کے اساتذہ کلاسوں میں پڑھانے کی بجائے مختلف فنکشن کے بہانے زیادہ سے زیادہ مال کمانے میں لگے رہتے ہیں۔ اساتذہ جو کہ قوم کے معمار ہوتے ہیں، جب وہی کرپٹ ہوجائیں تو قوم صالح بننے کی بجائے کرپٹ ہی بنے گی اور کرپٹ ہی کہلائے گی۔ اس لئے آج پاکستانی قوم ساری دنیا میں کرپٹ ہی کہلاتی ہے۔

معالجوں کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے، حد سے زیادہ فیس وصول کرنے کے باوجود مختلف لیب ٹیسٹ اور مہنگی دواؤں کے جال میں مریض کو پھنسا کر ناجائز کمائی کرنا کوئی ان سے سکیھے۔

یہاں کی کنسٹرکشن کمپنیاں اور بلڈرز مافیا سیمنٹ کی جگہ بجری، کرش کی جگہ مٹی اور سریا کے بغیر تعمیرات کرنے کا فن جانتی ہیں اور خوب کرپشن کرتی ہیں پھر بھی بلڈنگ نہ گرے اور سڑکیں نہ ٹوٹیں بس خیر ہے۔

یہاں اگر حکمران کرپٹ ہیں تو عوام بھی معصوم نہیں اور عوام تو ان ہی کرپٹ لوگوں سے بنتی ہے۔ یہاں دیواروں سے زیادہ لوگوں کو چونا لگایا جاتا ہے اور ملاوٹ کرکے ہر چیز پیش کی جاتی ہے۔ یہاں دودھ میں بھی ملاوٹ ہے اور پانی میں بھی۔ یہاں اخلاص میں بھی ملاوٹ ہے اور عبادات میں بھی۔ یہاں قبر پرستی، شرک و بدعات اور رسومات اکثریت کی عبادات ہیں۔ یہاں ایک اللہ کی عبادات کرنے والے کم ہی ہیں جبکہ ایک رسول ﷺ کی اطاعت کی بجائے اکابر پرستی میں لوگ مگن ہیں اور فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔

اس شہر کا نوحہ ہم کہاں تک لکھیں؟ نوحہ لکھنے کا وقت نہیں ہے۔
بلکہ توبہ و استغفار کرنے کا اور اپنے اعمال درست کرنے کا وقت ہے،
جلد از جلد توبہ و استغفار کیجئے، اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی طرف پلٹ آئیے۔

ہر بندہ اپنے اعمال پر غور کرے، جو جن گناہوں اور کرپشن میں مبتلا ہے ان سے توبہ کرے، اللہ سے معافی مانگے اور آئندہ ان گناہوں سے بچنے کا پختہ اردہ کرے۔

اللہ کی جو نافرمانیاں من جملہ قوم ہو رہی ہیں ان پر سب مل کر اللہ سے معافی مانگی جائیں۔ مساجد میں صلوۃ التوبہ کا اہتمام کیا جائے۔ لوگوں کے دلوں میں اللہ کا خوف بٹھایا جائے۔ توحید و رسالت کی روشنی سے لوگوں کے دلوں کو منور کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ شرک و بدعات اور خرافات و رسومات سے عوام الناس کو نکال کر ایک اللہ کی عبادت میں لگایا جائے۔ اکابر پرستی اور فرقہ پرستی جیسی شرک اکبر سے اس عوام الناس کو نکالنے کی سعی کی جائے اور اکابر کی بجائے ایک نبی ﷺ کی اطاعت میں لوگوں کو متحد کی جائے۔

اللہ پر توکل کرنا سکھایا جائے۔ لوگوں کو اللہ اور اللہ کے نبی ﷺ سے سچی محبت اور صحیح اطاعت کرنا سکھایا جائے۔ لوگوں کو قیامت کی ہولناکیوں سے آگاہ کیا جائے اور آخرت کی حساب و کتاب، جزا و سزا اور جنت و جہنم کے بارے صحیح عقیدے دیئے جائیں تاکہ لوگوں کے دلوں میں اللہ کے سامنے پیش ہونے کا خوف پیدا ہو۔

جدید ٹیکنولوجی کی مثال دیتے ہوئے لوگوں کو سمجھایا جائے کہ تمہاری ہر نیک و بد عمل کی ویڈیوز بن رہی ہے، جن کی بنیاد پر تمہارا حساب لیا جائے گا اور تم اسے جھٹلا نہ سکوگے، لہذا کرپشن اور حرام خوری کرنے سے پہلے سوچ لو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے اور تمہارے اعمال کی ویڈیوز فرشتے بنا رہے ہیں۔ آج جو کرپشن اور گناہیں تم کر رہے ہو اس وجہ کر تمہیں لامحدد مدت کیلئے جہنم میں رہنا پڑے گا۔ اسی طرح حلال کمانے کی برکت، اس پر ثواب اور جنت کی ہمیشہ کی عیش و عشرت کی زندگی کے بارے میں لوگوں کو آگاہ جائے۔
اور وہ اللہ جو آسمان میں ہے اسے راضی کیا جائے،
کیونکہ پانی آسمان سے آیا ہے اور آسمان والا ہی اس سے نجات دے سکتا ہے۔

اے اللہ سبحانہ و تعالٰی! اس شہر کراچی پر رحم کیجئے۔ اے اللہ! بارش کی وجہ کر اس شہر پر جو پریشانیاں آئی ہیں وہ ہمارے اعمال کا ہی نتیجہ ہے۔ اے اللہ ہم سب توبہ کرتے ہیں معفی مانگتے ہیں ہمیں معاف کر دیجئے۔ پانی جو جمع ہوگیا ہے اسے زمین میں اتار دیجئے اور ہواؤں میں اڑا دیجئے۔ جو لوگ پانی جمع ہونے کی وجہ کر پریشان ہیں ان کی پریشانی کو دور فرما دیجئے۔ آمین

اے اللہ! اس شہر سے پورے پاکستان کی معیشت جڑی ہوئی ہے، اس شہر کو تباہ ہونے سے بچا لیجئے۔ اس شہر کو امن کا گہوارہ بنا دیجے، اس شہر پر اپنی برکتیں اور رحمتیں نازل کیجئے۔ آمین

اے اللہ! بے شک ہم اس شہر کے لوگ گناہ گار اور کرپٹ ہیں لیکن آپ تو غفور الرحیم ہے، دلوں کو پھیرنے والے ہیں۔ اے اللہ! ہمارے دلوں کو اپنی اور اپنے رسول ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری میں لگا دیجئے۔ اے اللہ بے شک آپ اس پر قادر ہے۔ آمین۔

اے اللہ! اس شہر میں آپ کے بعض نیک اور اچھے بندے بھی ہیں جن کی دعائیں آپ قبول کرتے ہیں، اے اللہ! شہر کیلئے ہماری اور ان اچھے لوگوں کی دعائیں قبول کر لیجئے۔ ۔
تحریر: #محمد_اجمل_خان
۔
 

سیما علی

لائبریرین
عزیز ہم وطنو!
کراچی کے مکینوں!
اپنے حالات پر نظر ڈالئے!
اور اپنے اعمال درست کیجئے!
ذرا سوچئے ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
یہ برکت والا شہر کیوں ڈوب رہا ہے؟

یہ ایسا برکت والا شہر ہے جہاں سے نہ صرف اس کے اپنے مکینوں کی بلکہ پورے پاکستان کی روزی روٹی جڑی ہوئی ہے، آج تباہی کے دہانے پر کیوں آگیا ہے؟ پانچ چھہ مہینوں تک کورونا کی وبا کی وجہ کر اس شہر کی تجارت تباہ ہوئی، روزگار کے مواقعے ختم ہوئے، بے شمار لوگ بے روزگار ہوئے پھر ساتھ ہی اب طوفانِ نوح کی طرح پورے شہر کو پانی کے عذاب نے گھیرا ہوا ہے۔ تجارتی منڈیوں میں، گوداموں میں، چھوٹے بڑے دوکانوں، کارخانوں اور شاپنگ سینٹروں میں پانی داخل ہو کر اربوں روپے کا مال تجارت خاک میں ملا چکا ہے جس کی وجہ کر لوگ کوڑیوں کے محتاج ہونے کے درپے ہیں۔ رہائشی علاقوں میں بھی پانی داخل ہوکر لوگوں کے مال و اسباب کو تباہ و برباد کر چکا ہے۔

ذرا سوچئے! بے شک یہ ہمارے اپنے ہی اعمال کے پھل ہیں۔

یہ بڑا بابرکت شہر ہے لیکن اس کی برکتیں آہستہ آہستہ معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ ایک وقت تھا کہ اس شہر میں خالی ہاتھ آنے والا محنت کش آدمی تین سے پانچ سال میں اپنی ذاتی مکان بنا لیتا تھا۔ لیکن اب تو کوئی ساری زندگی کما کر بھی شاید ہی بنا پائے۔

اس شہر پر ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جب اس پر خوف کا راج تھا۔ میں اس وقت بھی لکھا تھا کہ کسی شہر پر خوف کا طاری ہونا کسی بڑے عذاب آنے کا پیش خیمہ ہوتا ہے تو اگر لوگوں نے توبہ استغفار نہ کیا اور یہ خوف کا بادل نہ چھٹا تو بڑا عذاب آئے گا۔ پھر لوگوں نے دعائیں کی اور حکمرانوں نے اس شہر پر توجہ دی تو خوف کا بادل کی جگہ اللہ کی رحمت سے امن و امان سایہ واپس آ گیا۔

ذرا سوچئے! اس شہر سے اللہ کی رحمتیں اور برکتیں کیوں روٹھتی جارہی ہیں؟
بے شک یہ ہمارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے، جس کی وجہ کر آج اس شہر کا یہ حال ہے۔
جب مسلمانوں کے ملک و معاشرے میں حکم الٰہی کی پامالی ہوگی تو اللہ تعالٰی تو ناراض ہوگا ہی
اور عذاب تو آئے گا ہی۔

اس شہر کی تمام تر برکتوں کے باوجود یہاں کی اکثریت اپنی حلال روزی کو بھی حرام بنا لیتی ہے، ظاہر ہے پھر اس شہر سے روزگار کے مواقعے تو ختم ہوں گے ہی اور جب حلال روزی کو بھی حرام بنایا جائے گا تو اس میں برکت کہاں سے ہوگی؟

جھوٹ بولنا یہاں عام ہے۔ کرپشن کا دور دورہ ہے اور رشوت کے بغیر یہاں کوئی کام نہیں ہوتا پھر اس شہر سے اللہ کی برکتیں کیوں نہ روٹھے؟

کہتے ہیں کہ ’’جس ملک کا منصف ہی ناانصافی کرنے لگے وہاں آسمان سے انصاف آنے کا انتظار کرو‘‘، اللہ نہ کرے کہ یہاں ایسا ہو۔ لیکن یہاں کی عدالتوں کے باہر دو دو سو روپے میں جھوٹی گواہی دینے واے بیٹھے رہتے ہیں۔

یہاں بے شمار لوگ سرکاری اداروں میں ملازم ہیں جبکہ کام کہیں اور کرتے ہیں اور دو دو تین تین جگہوں سے تنخواہیں لیتے ہیں، بعض کام نہ کرنے کی تنخواہ اور کام کرنے کی رشوت لیتے ہیں۔ پھر ایسی تنخواہوں میں برکت کیسے ہو؟

چوری، ڈکیتی اور اسٹریٹ کرائم یہاں کی پہچان بن گئی ہے۔ یہاں کے تاجر ملاوٹ، چوربازاری، ذخیرہ اندوزی کرنے میں طاق ہیں اور اسے تجارتی فن قرار دیتے ہیں اور خوب کماتے ہیں۔ اسی لئے قانونِ فطرت کو بھی چیلنج کرتے ہوئے دوپہر کے دو بجے صبح کرتے ہیں۔

یہاں کے اساتذہ کلاسوں میں پڑھانے کی بجائے مختلف فنکشن کے بہانے زیادہ سے زیادہ مال کمانے میں لگے رہتے ہیں۔ اساتذہ جو کہ قوم کے معمار ہوتے ہیں، جب وہی کرپٹ ہوجائیں تو قوم صالح بننے کی بجائے کرپٹ ہی بنے گی اور کرپٹ ہی کہلائے گی۔ اس لئے آج پاکستانی قوم ساری دنیا میں کرپٹ ہی کہلاتی ہے۔

معالجوں کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے، حد سے زیادہ فیس وصول کرنے کے باوجود مختلف لیب ٹیسٹ اور مہنگی دواؤں کے جال میں مریض کو پھنسا کر ناجائز کمائی کرنا کوئی ان سے سکیھے۔

یہاں کی کنسٹرکشن کمپنیاں اور بلڈرز مافیا سیمنٹ کی جگہ بجری، کرش کی جگہ مٹی اور سریا کے بغیر تعمیرات کرنے کا فن جانتی ہیں اور خوب کرپشن کرتی ہیں پھر بھی بلڈنگ نہ گرے اور سڑکیں نہ ٹوٹیں بس خیر ہے۔

یہاں اگر حکمران کرپٹ ہیں تو عوام بھی معصوم نہیں اور عوام تو ان ہی کرپٹ لوگوں سے بنتی ہے۔ یہاں دیواروں سے زیادہ لوگوں کو چونا لگایا جاتا ہے اور ملاوٹ کرکے ہر چیز پیش کی جاتی ہے۔ یہاں دودھ میں بھی ملاوٹ ہے اور پانی میں بھی۔ یہاں اخلاص میں بھی ملاوٹ ہے اور عبادات میں بھی۔ یہاں قبر پرستی، شرک و بدعات اور رسومات اکثریت کی عبادات ہیں۔ یہاں ایک اللہ کی عبادات کرنے والے کم ہی ہیں جبکہ ایک رسول ﷺ کی اطاعت کی بجائے اکابر پرستی میں لوگ مگن ہیں اور فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔

اس شہر کا نوحہ ہم کہاں تک لکھیں؟ نوحہ لکھنے کا وقت نہیں ہے۔
بلکہ توبہ و استغفار کرنے کا اور اپنے اعمال درست کرنے کا وقت ہے،
جلد از جلد توبہ و استغفار کیجئے، اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی طرف پلٹ آئیے۔

ہر بندہ اپنے اعمال پر غور کرے، جو جن گناہوں اور کرپشن میں مبتلا ہے ان سے توبہ کرے، اللہ سے معافی مانگے اور آئندہ ان گناہوں سے بچنے کا پختہ اردہ کرے۔

اللہ کی جو نافرمانیاں من جملہ قوم ہو رہی ہیں ان پر سب مل کر اللہ سے معافی مانگی جائیں۔ مساجد میں صلوۃ التوبہ کا اہتمام کیا جائے۔ لوگوں کے دلوں میں اللہ کا خوف بٹھایا جائے۔ توحید و رسالت کی روشنی سے لوگوں کے دلوں کو منور کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ شرک و بدعات اور خرافات و رسومات سے عوام الناس کو نکال کر ایک اللہ کی عبادت میں لگایا جائے۔ اکابر پرستی اور فرقہ پرستی جیسی شرک اکبر سے اس عوام الناس کو نکالنے کی سعی کی جائے اور اکابر کی بجائے ایک نبی ﷺ کی اطاعت میں لوگوں کو متحد کی جائے۔

اللہ پر توکل کرنا سکھایا جائے۔ لوگوں کو اللہ اور اللہ کے نبی ﷺ سے سچی محبت اور صحیح اطاعت کرنا سکھایا جائے۔ لوگوں کو قیامت کی ہولناکیوں سے آگاہ کیا جائے اور آخرت کی حساب و کتاب، جزا و سزا اور جنت و جہنم کے بارے صحیح عقیدے دیئے جائیں تاکہ لوگوں کے دلوں میں اللہ کے سامنے پیش ہونے کا خوف پیدا ہو۔

جدید ٹیکنولوجی کی مثال دیتے ہوئے لوگوں کو سمجھایا جائے کہ تمہاری ہر نیک و بد عمل کی ویڈیوز بن رہی ہے، جن کی بنیاد پر تمہارا حساب لیا جائے گا اور تم اسے جھٹلا نہ سکوگے، لہذا کرپشن اور حرام خوری کرنے سے پہلے سوچ لو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے اور تمہارے اعمال کی ویڈیوز فرشتے بنا رہے ہیں۔ آج جو کرپشن اور گناہیں تم کر رہے ہو اس وجہ کر تمہیں لامحدد مدت کیلئے جہنم میں رہنا پڑے گا۔ اسی طرح حلال کمانے کی برکت، اس پر ثواب اور جنت کی ہمیشہ کی عیش و عشرت کی زندگی کے بارے میں لوگوں کو آگاہ جائے۔
اور وہ اللہ جو آسمان میں ہے اسے راضی کیا جائے،
کیونکہ پانی آسمان سے آیا ہے اور آسمان والا ہی اس سے نجات دے سکتا ہے۔

اے اللہ سبحانہ و تعالٰی! اس شہر کراچی پر رحم کیجئے۔ اے اللہ! بارش کی وجہ کر اس شہر پر جو پریشانیاں آئی ہیں وہ ہمارے اعمال کا ہی نتیجہ ہے۔ اے اللہ ہم سب توبہ کرتے ہیں معفی مانگتے ہیں ہمیں معاف کر دیجئے۔ پانی جو جمع ہوگیا ہے اسے زمین میں اتار دیجئے اور ہواؤں میں اڑا دیجئے۔ جو لوگ پانی جمع ہونے کی وجہ کر پریشان ہیں ان کی پریشانی کو دور فرما دیجئے۔ آمین

اے اللہ! اس شہر سے پورے پاکستان کی معیشت جڑی ہوئی ہے، اس شہر کو تباہ ہونے سے بچا لیجئے۔ اس شہر کو امن کا گہوارہ بنا دیجے، اس شہر پر اپنی برکتیں اور رحمتیں نازل کیجئے۔ آمین

اے اللہ! بے شک ہم اس شہر کے لوگ گناہ گار اور کرپٹ ہیں لیکن آپ تو غفور الرحیم ہے، دلوں کو پھیرنے والے ہیں۔ اے اللہ! ہمارے دلوں کو اپنی اور اپنے رسول ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری میں لگا دیجئے۔ اے اللہ بے شک آپ اس پر قادر ہے۔ آمین۔

اے اللہ! اس شہر میں آپ کے بعض نیک اور اچھے بندے بھی ہیں جن کی دعائیں آپ قبول کرتے ہیں، اے اللہ! شہر کیلئے ہماری اور ان اچھے لوگوں کی دعائیں قبول کر لیجئے۔ ۔
تحریر: #محمد_اجمل_خان
۔
آمین الہی آمین
 
Top