کراچی میں امن؟ توبہ! توبہ!

یوسف-2

محفلین
کراچی کے مسئلے کی تشخیص وزیر داخلہ چوہدری نثار نے بالکل درست کی ہے۔ اتفاق سے عدلیہ یہی تشخیص پہلے ہی کر چکی ہے اور عوام تو اس سے بھی پہلے علامتیں دیکھ کر مرض کو ٹھیک ٹھیک پہچان چکے تھے۔
چوہدری نثا ر نے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ کپتان بنیں ، رینجرز آپریشن کے لئے تیار ہے لیکن پھر یہ نہ کہا جائے کہ یہ میراہے، یہ تیرا ہے۔ بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز کی اکثریت سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتی ہے، ضرورت صرف ان کے خلاف کارروائی کی ہے۔ اس تشخیص میں کوئی نئی بات نہیں۔ وزیر داخلہ کے پاس تو بہت معلومات ہیں لیکن بے شمار دوسرے لوگ بھی جو وزیر داخلہ نہیں ہیں، وہ سب جانتے ہیں جو وزیر داخلہ نے بتایا ہے اور عدالت بھی یہی کہتی رہی ہے اور رینجرز کے سربراہ کا بیان بھی یہی تھا کہ کراچی میں جتنے بھی ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خور اور قبضہ گروپ ہیں، سب کے سب ’’سیاسی ‘‘ ہیں۔

یہ ٹارگٹ کلر بھتہ خور اور قبضہ گروپ عام دنوں میں دس پندرہ اور خاص دنوں میں بیس پچیس لاشیں روزانہ گراتے ہیں۔ لیکن چونکہ یہ لوگ سیاسی ہیں اس لئے پاکستان کی کوئی جماعت، کوئی حکمران، کوئی اخبار، کوئی ٹی وی انہیں دہشت گرد نہیں کہتا۔ یعنی دہشت گرد صرف وہی ہے جو غیر سیاسی ہو یاجس نے پگڑی پہن رکھی ہو۔ مسئلہ حل کرنا ہے تو مرض کو نام بھی دینا ہوگا ورنہ نسخہ کہیں نہ کہیں ضرور غلط ہو جائے گا اور اس مرض کا نام ہے دہشت گردی۔ جو بھی لوگوں کو مارے، چاہے بم سے ،چاہے گرنیڈسے ،چاہے بندوق سے، چاہے ٹارچر سیلوں میں لے جا کر وہ دہشت گرد ہے۔ لیکن کوئی نہ کوئی مجبوری ضرور ہے کہ کوئی بھی کراچی میں جاری دہشت گردی کو دہشت گردی نہیں کہتا، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے پیشہ ورانہ نام دیتا ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ کو کیپٹن بنانے کی تجویز بہت اچھی ہے اور وہ بن بھی جائیں گے کیونکہ بربنائے عہدہ آپریشن ٹیم کا کیپٹن بننا انہی کے حصے میں آتا ہے لیکن ان کی کپتانی ان کی اپنی پارٹی ناکام بنا دے گی۔ اس لئے کہ کراچی کے دہشت گردوں میں زیادہ نہیں تو20 فیصد کے لگ بھگ انہی کے پارٹی کے لوگ ملوث ہیں۔ یہ دراصل پارٹی کا ذیلی گروپ ہیں اور انہیں ’’لیاری گینگز‘‘ کہا جاتا ہے۔ کسی سیاسی پارٹی کے ذیلی گروپ کا نام ’’گینگز‘‘ ہو، ایسا صرف پاکستان میں ہوتا ہے۔

20فیصد یہ ہے تو20فیصد پر اے این پی کا کنٹرول ہے۔ باقی60فیصد ’’بڑے بھائی ‘‘ کا حصہ ہے۔ کچھ ہی برس پہلے بڑے بھائی کا حصہ سو فیصد تھا۔ اور آج کل بڑے بھائی غصہ غصہ رہتے ہیں تو اس کی وجہ یہی بتائی جاتی ہے کہ ان کا حصہ سو فیصد سے کم ہو کر60فیصد کیوں رہ گیا، یہ ان کی حق تلفی ہے اور حق تلفی پر برہمی بھی تو حق پرستی ہے۔ یہ معمہ بہت سے لوگوں سے حل نہیں ہو رہا کہ60فیصد حصے والے فوجی آپریشن کا مطالبہ کیوں کر رہے ہیں خاص طور سے اگر پچھلے زمانے کو دیکھا جائے کہ یہ60فیصد والے ہی تھے جو کراچی میں فوجی آپریشن کے سخت مخالف تھے۔ انہیں یہ ’’خوش امیدی‘‘ کیوں ہے کہ فوج صرف40فیصد والوں کی دھنائی کرے گی،60فیصد کو صاف چھوڑ دے گی؟ ظاہر ہے، معمے کا حل اتنا سادہ نہیں، آپریشن کے مطالبے کے پیچھے محض یہ خوش امیدی نہیں ہو سکتی۔ ماجرا کچھ وہی لگتا ہے کہ فوج کو وزیرستان اور بلوچستان کے بعد کراچی میں بھی پھنسا دو، پھر جنوبی پنجاب میں دہشت گردی بڑھا کر وہاں بھی الجھا دو تاکہ سرحدوں کی گلیاں موہن پیارے کے لئے سنجی ہو جائیں۔

ایک سوال اور بھی ہے۔ پہلے تو کسی قسم کے آپریشن کا فیصلہ ہونا ہی کافی مشکل لگتا ہے۔ ہوتے ہوتے دیر ہوجائے گی لیکن ہوگیا تو پھر کیا ہوگا؟ کراچی میں ایک دو آپریشن پہلے بھی ہوئے، ان میں حصّہ لینے والے سارے اہلکار چن چن کر ہلاک کر دیئے گئے اور قانون نافذ کرنے والے بے شمار کانوں میں سے کسی ایک پر بھی جوں تک نہیں رینگی۔ ایک حل تو یہ ہے کہ اس بار جو آپریشن کرے، اس ٹیم کے تمام ارکان کا بعد میں کراچی سے تبادلہ کر دیا جائے۔
لیکن یہ تو سب شیخ چلّی کا خواب ہے۔ کراچی میں امن؟ توبہ توبہ۔ کراچی میں کیا ہونا ہے اور بلوچستان میں کیا نہیں ہونا ہے، ایسے سارے فیصلے پاکستان میں نہیں ہوتے، کسی اوراستھان میں ہوتے ہیں، نواز شریف نے کراچی کی صورتحال کا نوٹس لے لیا ہے تویہ ان کی سادگی ہے اور سادگی بہت اچھی بات ہے چنانچہ نواز شریف بھی اچھے ہیں۔ بس اتنا کافی ہے،باقی کراچی کے پرنالے وہیں رہیں گے۔

تحریر:عبداللہ طارق سہیل، روزنامہ نئی بات 30 اگست 2013
 

یوسف-2

محفلین
کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کے متحدہ کے مطالبے کاکسی بھی جماعت نے کھلے دل سے خیرمقدم نہیں کیا ہے۔ پیپلز پارٹی، نواز لیگ، تحریک انصاف نے اس مطالبے کو مسترد کیا ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ ایم کیو ایم ایک بار پھرسیاسی طور پر تنہاہو گئی ہے لیکن دراصل ایسا نہیں۔اتنا بڑا فیصلہ کسی حکمت عملی سے خالی نہیں۔ کراچی میں فوج کے استعمال کی مخالف متحدہ نے اپنے قیام کے بعد پہلی مرتبہ کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کی بات کی ہے جبکہ اس مطالبے کا وفاق نے باقاعدہ نوٹس لیا ہے۔

کراچی میں آپریشن یا اس کا مطالبہ کوئی نئی بات نہیں نواز شریف کے پہلے دور میں کراچی میں فوج طلب کی گئی تھی۔یہ آپریشن آئی بی کے سربراہ ریٹائرڈ برگیڈیئر امتیاز کے ہوم ورک کے بعد شروع کیا گیا تھا۔ اس آپریشن کے دوران ایم کیو ایم میں دو دھڑے پیدا ہوئے اور حقیقی کے نام سے نیا دھڑا وجود میں آیا۔ الطاف حسین لندن چلے گئے۔جہاں سے ان کی ابتک واپسی نہیں ہو سکی ہے۔ نواز شریف پر جب یک طرفہ آپریشن کا الزام آیا تو انہوں نے ڈاکوؤں کے نام پر آپریشن کا دائرہ اندرون سندھ تک وسیع کیا۔یوں سندھ کے شہری خواہ دیہی آبادی اس کے خلاف ہوگئی۔ نواز دور کے آپریشن کے دوران ٹارچر سیلوں کا ’’ انکشاف‘‘ ہوا اور جناح پور سکینڈل سامنے آیا۔ ان کی حکومت ختم ہونے کے بعد بینظیر بھٹو حکومت میں آئی تو انہوں نے بھی آپریشن کے اس تسلسل کو جاری رکھا۔اور ریٹائرڈ جنرل نصیراللہ بابر نے اس آپریشن کی کمان سنبھالی۔جب محترمہ کی حکومت کے بعد نواز شریف کی حکومت آئی تو انہوں نے آپریشن سے توبہ کر لی۔

بعد میں مشرف اور پیپلز پارٹی کے دور میں ایم کیو ایم سارا عرصہ اقتدار میں رہی۔ یعنی 1999ء سے 2013 ء تک ایم کیو ایم کو کراچی کے حوالے سے سیاسی، انتظامی اور معاشی حوالے سے تمام تر اختیارات حاصل تھے۔ یہاں تک کہ صوبائی حکومت ان اختیارات میں مداخلت کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ایک دور میں ایم کیو ایم کے پاس صوبائی محکمہ داخلہ کا قلمدان بھی رہا ہے۔مگر پھر یہ بات آئی گئی ہوگئی۔ پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں جب ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھیں تو اے این پی نے کراچی میں فوج طلب کرکے اس شہر کو ہتھیاروں سے پاک کرنے کا مطالبہ کیا۔ایم کیو ایم نے اس مطالبے کی مخالفت کی۔
نومبر 2012 ء میں ایسے حالات پیدا ہوئے اور تمام سیاسی جماعتوں نے بشمول مذہبی جماعتوں کے شہر کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ حالات اور واقعات سے ایسا لگ رہا تھا کہ کل تک فوج کراچی کو اپنی تحویل میں لے لے گی۔ مگر اس موقعہ پر آرمی چیف نے کہا کہ کراچی میں فوج نہیں طلب کی جائے گی۔ تب نواز لیگ حزب مخالف میں تھی اور حزب مخالف کے رہنما نثار علی خان نے کہا تھا کہ اگر یہ آپریشن کیا گیا تو فوج کراچی کی تنگ گلیوں میں پھنس جاے گی۔

2008ء کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی نے واضح اکثریت کے باوجود ایم کیو ایم کو صوبائی اور وفاقی حکومت میں حصے دار بنایا جواز یہ دیا گیا کہ ایسا کر کے ہم نے کراچی کا امن خرید کیا ہے۔ لیکن کراچی کو یہ امن نہ بینظیر بھٹو، نواز شریف اور مشرف کے دور حکومت میں ملا اور نہ ہی پیپلز پارٹی کی اس نئی خریداری کے بعد۔

ٹارگیٹ کلنگز، دہشتگردی،اغوا، اسٹریٹ کرائم، بھتہ خوری اور بدامنی عروج پر رہیں ایم کیو ایم نے حکومت میں رہتے یہ مطالبہ نہیں کیاحالانکہ کل بھی آج جیسے ہی حالات تھے۔ اس کی معنی تجزیہ نگار یہ نکال رہے ہیں کہ ایم کیو ایم اگر صوبائی حکومت میں شریک ہے ، کراچی کے میونسپل ادارے اس کے پاس ہیں تو سب اچھا ہے، اگر اس کو اختیارات نہیں، تو یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ کراچی کو فوج کے حوالے کیا جائے۔ یہ مطالبہ اس لیے بھی عجیب لگتا ہے تعجب کی بات ہے کہ اس جماعت نے ووٹروں کی تصدیق اور عام انتخابات میں پولنگ سٹیشن کے اندر فوج کی تعیناتی کی مخالفت کی تھی۔

پیپلز پارٹی کا خیال ہے کہ سندھ اسمبلی نے بلدیاتی قانون اور صوبے میں یونیورسٹیاں گورنر کے بجائے وزیر اعلیٰ کے ماتحت کے قوانین پاس کئے توان بلوں پر دستخط کرنے کے بجائے ایم کیو ایم کے گورنرعشرت العباد چھٹی پر چلے گئے۔ ایم کیو ایم دراصل مشرف والا بلدیاتی نظام نافذ کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے لیکن بات اس سے آگے کی لگتی ہے۔

ادھرسپریم کورٹ میں زیر سماعت کراچی میں بدامنی کا کیس اب آخری مراحل میں ہے۔اس کیس کی پہلے کی شنوائیوں پر چیف جسٹس کے ریمارکس بھی ریکارڈ پر ہیں جن میں انہوں نے خاصی چیزیں کہی ہیں۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ ایم کیو ایم نے عدلیہ کے فیصلے کی پیش بندی کے طور پر وہ فوج طلب کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
ایم کیو ایم کی ترجیح یہ ہے کہ وہ صوبے کے بجائے وفاق میں حکومت میں شامل ہو، مگر نواز شریف فی الحال ایسی کوئی گیم کھیلنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ کیونکہ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ان دو بڑی پارٹیوں نے ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔وزیراعظم نے گھوٹکی کے دورے سے پہلے صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کی تھی، اس ملاقات کے بعد سندھ حکومت نے وزیر اعظم کو فل پروٹوکول دیا۔
اب اگر ’’ ایک دوسرے کے مینڈیٹ کے احترام‘‘ کا سلسلہ جاری رہتاہے اور ایم کیو ایم حکومت سے باہر رہتی ہے تو ایم کیو ایم کے لیے مسئلہ ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ایم کیو ایم نہ سندھ میں نہ وفاق میں حکومت میں ہے۔ جبکہ بلدیاتی انتخابات کا منظر نامہ یہ بتاتا ہے کہ اسے شاید پہلے کی طرح اجارہ داری کی حد تک بالادستی حاصل نہ ہو۔ اس صورتحال میں عام شہری مختلف کاموں کے حوالے سے حکومت سے رجوع کرے گا۔ یوں اگر کراچی کے شہریوں کے لیے دوسرا دروازہ کھل گیا تو اسے بند کرنا مشکل ہو جائے گا۔

ایک چیز ضرور ہوئی ہے کہ ایم کیو ایم کے اس مطالبے نے وفاق کے لیے سہولت اور پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے لیے مشکل پیدا کردی ہے کہ وفاق کو صوبے میں مداخلت کا موقعہ مل رہااگر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے فوج طلب کرنے کی مخالفت کی ہے مگر بال سندھ حکومت کی کورٹ میں پھینکا ہے ۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس تین ستمبر کو کراچی میں طلب کیا جائے گا۔یوں سندھ حکومت پر دباؤ بڑھ جائے گا۔ یا تو صوبائی دارلحکومت میں امن قائم کرے یا پھر مرکز سے کسی انتہائی فیصلے کا انتظار کرے۔اس سے سیاسی مارکیٹ کی ان خبروں کو تقویت ملتی ہے کہ آصف علی زرداری کے ایوان صدر خالی کرنے کے بعدنواز لیگ سندھ میں اپنی پسند کی حکومت قائم کرنا چاہے گی۔

نواز شریف کوئٹہ شہر کو فوج کے حوالے کرنے کے لیے تیار نہیں وہ کراچی کے لیے کیسے ایسا فیصلہ کر لیں گے؟ اور یہ بھی کہ فوج نے جب 2012ء میں ایسا نہیں کیا، ووٹر فہرستوں کی تصدیق اور عام انتخابات میں پولنگ سٹیشنوں نے اندر تعیناتی سے خود کو دور رکھا وہ اب ایسا کیوں کرے گی۔ ویسے بھی وفاق صوبائی حکومت کی درخواست پر فوج بھیج سکتا ہے۔ مگر ایسا پیپلز پارٹی نہیں کرے گی۔ اس کے لیے وفاق کو گورنر راج نافذ کرنا پڑا گا۔ لیکن یہ کام نواز شریف نہیں کریگا۔

نواز شریف کے لیے یہ بھی مشکل ہے کہ ان کی حکومت کو ابھی بمشکل تین ماہ ہوئے ہیں اور اس مختصر مدت کے اندر ہی وہ ایک صوبے میں فوج کو بھیجے اور سیاسی عدم استحکام کو دعوت دے۔وہ جانتے ہیں کہ سیاسی عدم استحکام کے زلزلے کا مرکزبھلے کراچی ہو لیکن اس کے جھٹکے اسلام آباد میں بھی محسوس کئے جائیں گے۔
سہیل سانگی کا کالم: روزنامہ نئی بات 30 اگست 2013
 

یوسف-2

محفلین
8-30-2013_7247_1.gif
 

یوسف-2

محفلین
اگر سابقہ ادوار حکومت میں کراچی میں ”غائب شدہ“ 19 ہزار کنٹینرز کے ذریعہ مبینہ ”مہاجر ری پبلکن آرمی“ کو جدید ترین اسلحہ فراہم کیا گیا ہے پھر تو اس آرمی کا نہ پولس مقابلہ کرسکتی ہے، نہ رینجرز اور نہ ہی پاکستان آرمی۔ اس آرمی کو جب بھی ”گو اہیڈ“ کا سگنل ملا، فری پورٹ ریاست ”جناح پور“ کے قیام کو کوئی نہیں روک سکتا۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
حیران اور پریشان ہوں کہ ان بدترین حالات میں کیا کوئی انسانی سوچ امن قائم کر سکے گی۔۔۔ اب تو کوئی معجزہ ہی کراچی بشمول پاکستان کو بچا سکتا ہے۔۔ :(
 

حسینی

محفلین
کراچی کا امن ایک خواب بن چکا ہے۔۔۔ اگر ہماری ریاست تمام سیاسی وابستگیوں سے بالا ہو کر مخلصانہ امن کی کوشش کرے تو یہ کوئی نا ممکن بات نہیں ہے۔۔۔ کام یقینا مشکل ہے۔۔
لیکن بات خلوص کی ہے۔۔۔ اگر مخلص ہو تو ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔۔
ایم کیو ایم نے فوج کے آنے کا مطالبہ تو کر دیا ہے۔۔۔ لیکن اگر فوج آگئی تو سب سے زیادہ یہی روتی ہوئی نظر آئی گی۔
 

یوسف-2

محفلین
مرد بن کے ڈٹنا چاہیے ۔ ۔ ۔ (پُر مزاح)
بھائی یہ والا حصہ پُر مزاح ہے اسی لئے اسے الگ کرکے ریٹنگ دی ہے۔:)
جنرل صاحب اگر ”مرد“ ہوتے تو اپنے بیان یا موقف پر قائم رہتے نا۔:)
اور اگر موصوف جنرل کی یونیفارم میں بھی ”مرد“ نہیں ہیں تو پھر اب ”مرد“ کیسے ”بن“ سکتے ہیں۔:)
اور جب مرد “بن“ ہی نہیں سکتے تو ”ڈٹ“ کیسے سکتے ہیں :)
کیا آپ کے پاس کوئی نسخہ ہے، یونیفارم والے جنرل کو مرد ”بنانے“ کا :)
 

شمشاد

لائبریرین
اس حمام میں سب کے سب ننگے ہیں۔
کوئی بھی کچھ نہیں کرے گا۔ اگر کرے گا تو صرف اور صرف اپنے مفاد کے لیے کرے گا۔
 

کاشفی

محفلین
اے اللہ اگر یہ ظالم انسانیت سوز اعمال سے باز نہیں آتے تو انہیں نیست ونابود فرما دے۔آمین

آمین ثم آمین
اللہ رب العزت مہاجروں کی نسل کشی کرنے والوں کو نیست و نابود ان ہی کے لوگوں کے ذریعے کر میرے مولا۔ آمین ثم آمین
 

کاشفی

محفلین
اگر سابقہ ادوار حکومت میں کراچی میں ”غائب شدہ“ 19 ہزار کنٹینرز کے ذریعہ مبینہ ”مہاجر ری پبلکن آرمی“ کو جدید ترین اسلحہ فراہم کیا گیا ہے پھر تو اس آرمی کا نہ پولس مقابلہ کرسکتی ہے، نہ رینجرز اور نہ ہی پاکستان آرمی۔ اس آرمی کو جب بھی ”گو اہیڈ“ کا سگنل ملا، فری پورٹ ریاست ”جناح پور“ کے قیام کو کوئی نہیں روک سکتا۔
کراچی کا امن ایک خواب بن چکا ہے۔۔۔ اگر ہماری ریاست تمام سیاسی وابستگیوں سے بالا ہو کر مخلصانہ امن کی کوشش کرے تو یہ کوئی نا ممکن بات نہیں ہے۔۔۔ کام یقینا مشکل ہے۔۔
لیکن بات خلوص کی ہے۔۔۔ اگر مخلص ہو تو ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔۔
ایم کیو ایم نے فوج کے آنے کا مطالبہ تو کر دیا ہے۔۔۔ لیکن اگر فوج آگئی تو سب سے زیادہ یہی روتی ہوئی نظر آئی گی۔

مہاجروں سے بغص اور تعصب رکھنے والے لوگ کبھی بھی نہیں سدھر سکتے۔۔

جناح پور کا الزام لگانے والا 17 سال بعد میڈیا میں آکر خود ہی معافی مانگ کر ندامت کا اظہار کرچکا ہے۔ لیکن منافقین، فرقہ واریت پھیلانے والے، فسادی، اسلام کا لبادہ اُڑھ کر معصوم اور مظلوم لوگوں کو بیوقوف بنانے والے لوگوں کو ان کا معافی مانگنا نظر نہیں آتا۔۔وہ اب تک ایم کیو ایم ، مہاجروں اور کراچی والوں پر جناح پور بنانے کا الزام لگاتے پھرتے ہیں۔۔

حسب عادت سترہ سال بعد کوئی جرنیل ٹی وی پرآکر کہے گا کہ "مہاجر ریپبلکن آرمی" اسٹیبلشمنٹ کا ایک شوشہ تھا جس کا سہارا لے کر ایم کیو ایم کو مٹانا تھا ۔۔ وضاحت بھی آجائے گی اور ہونے والے جانی و مالی نقصان پر معافی بھی مانگ لی جائے گی مگر اس کے لیئے مجھے سترہ سال کا طویل عرصہ انتظار کرنا پڑے گا، جب تک یا تو میں بوڑھا ہوچکا ہوں گا یا پھر ۔۔۔ ۔۔ !!! ۔

لیکن اللہ رب العزت بہترین انصاف کرے گا۔۔ آج نہیں تو کل۔کل نہیں تو آخرت میں۔
`
فوج آئے گی تو کون کون روئے گا ۔ اس کا اندازہ تو اُسی وقت ہوگا۔
 
آخری تدوین:

کاشفی

محفلین
ڈی جی رینجرز کا پہلے کراچی کے امن کی بحالی میں مشکوک کردار اور اب پاک فوج کو بھی گھسیٹ لیا۔ انکی ذاتی حیثیت کو مقتدرا قوتوں کو دیکھنا چاہیے۔
ڈی جی رینجرز نے ایک ایسے معاملے پر بیان بازی کیوں کی جبکہ انھیں یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ کنٹینرز کی نگرانی پاکستان آرمی کرتی ہے اور کسٹم حکام اسے کلیرنس دیتے ہیں۔
دی جی رینجرز کو یہ بات یقیننا" معلوم ہوگی کہ کنٹینرز گمشدگی کا معاملہ اتنا حساس تھا کہ اسکی رپورٹ شعیب سڈل کمیشن نے شائع بھی کی لیکن حساس اداروں کی کھلی غفلت کے ثبوت ملنے کے باوجود اسے شائع نہ کیا جاسکا۔
ڈی جی رینجرز نے آخر 4 سال کے بعد اس حساس معاملے کو جس سے فوج کے ادارے کی بدنامی ہوتی ہے کو آخر میڈیا کی زینت کیوں بنوایا۔ پھر اگر یہ غلطی سے ہوگیا تو خاموش میسیج میڈیا کو کیوں نہیں بھجوایا گیا کہ اس معاملے کو مزید نہ اُچھالا جائے ۔

 
Top