کتابچۂ لطائف و مزاحیہ تحاریر (بلا تبصرہ - احباب صرف اپنا تاثر دیں۔ شکریہ)

شعیب گناترا

لائبریرین
ایک مرد ہی دوسرے مرد کی فطرت جانتا ہے۔
مثال کے طور پر؛
گاہک: مجھے ایک لیڈیز سوٹ چاہئیے۔
دوکاندار: بیگم کے لیے چاہئے یا پھر کوئی اچھا سا دکھاؤں؟
 

شعیب گناترا

لائبریرین
فرانس میں ایک خچر کی قبر پر کتبہ لگا ہوا تھا؛
میگی کی یاد میں، جس نے اپنی زندگی میں دو کرنلوں، چار میجروں، دس کپتانوں، بیالیس سارجنٹوں اور چار سو انتالیس دیگر فوجیوں کو دو لتیا جمائیں اور جب آخر میں اس نے ایک بم کو دولتی جھاڑی تو اس کی موت واقع ہو گئی۔
 

شعیب گناترا

لائبریرین
ایک آدمی کی ایک ٹانگ نیلی ہوگئی تو وہ حکیم صاحب کے پاس گیا۔

حکیم صاحب: بھئی معلوم ہوتا ہے زہر پھیل گیا ہے، ٹانگ کاٹنی پڑے گی۔

اور ٹانگ کاٹ دی۔

کچھ دنوں بعد اس شخص کی دوسری ٹانگ بھی نیلی ہو گئی۔

حکیم صاحب نے دوسری ٹانگ بھی کاٹ دی اور پلاسٹک کی ٹانگیں لگا دیں۔

کچھ دنوں بعد پلاسٹک کی ٹانگیں بھی نیلی ہو گئیں تو وہ شخص پھر حکیم کے پاس گیا۔

حکیم صاحب: تمہاری بیماری اب سمجھ میں آ گئی ہے۔

تمہاری دھوتی کا رنگ اترتا ہے۔
 
آخری تدوین:

شعیب گناترا

لائبریرین
بے روزگاری سے تنگ آ کر ایک نوجوان نے چڑیا گھر میں ملازمت کر لی۔ اس کی ڈیوٹی تھی کہ مقررہ اوقات میں ریچھ کی کھال پہن کر پنجرے میں بیٹھا رہے۔

ریچھ کے پنجرے کے ساتھ شیر کا پنجرہ تھا۔ دونوں پنجروں کے درمیان ایک دروازہ تھا۔ ایک دن اتفاق سے وہ دروازہ کھلا رہ گیا اور شیر ریچھ کے پنجرے میں آگیا۔

اب یہ ڈر گیا اور چلانے لگا:
”بچاؤ!... بچاؤ!... شیر... شیر...“

شیر جلدی سے اپنا منہ اس کے کان کے قریب کر کے بولا:
”ابے چپ کر، خود تو نوکری سے نکلے گا مجھے بھی نکلوائے گا۔“
 

شعیب گناترا

لائبریرین
ایک امریکی کراچی آیا اور اپنی منزل مقصود پر پہنچنے کیلئے ایک ٹیکسی میں بیٹھا۔

راستے میں قائداعظم کا مزار نظر آیا تو اس نے ڈرائیور سے پوچھا؛ یہ مزار کتنے دنوں میں بنا؟

ڈرائیور: ایک ماہ میں۔

امریکی: اگر یہ ہمارے ملک میں ہوتا تو دو ہفتوں میں بن جاتا.

تھوڑا آگے جانے کے بعد اسٹیٹ لائف کی بلڈنگ نظر آئی تو پھر پوچھا؛ یہ بلڈنگ کتنے دنوں میں بنی؟

ڈرائیور: دو ہفتوں میں.

امریکی: اگر یہ ہمارے ملک میں ہوتی تو تین دن میں ہی بن جاتی۔

کچھ دیر بعد وہ حبیب بینک پلازہ کے قریب سے گزرے تو امریکی نے پوچھا؛ یہ بلڈنگ کتنے دنوں میں بنی؟

ڈرائیور: پتہ نہیں صبح تو نہیں تھی۔
 

شعیب گناترا

لائبریرین
ایک نشئی کا باپ فوت ہوگیا، لوگ اس کی وفات پر اکٹھا ہونا شروع ہوگئے، وقت گزرتا رہا یہاں تک کہ جنازہ تیار ہوگیا مگر بیٹا نہ جانے کہاں غائب تھا، محلے داروں نے کچھ لوگوں کو دوڑایا کہ جا کر اس خبیث نشئی کو تلاش کرکے لاؤ۔

تلاش کرتے کرتے آخر کار ایک نوجوان نے اسے قبرستان میں نشہ کرتے دیکھ لیا اور اسے کہنے لگا؛ ”شرم کرو یار... ادھر تمہارا باپ مر گیا ہے اور تم یہاں نشہ کر کے بیٹھے ہو؟ چلوجلدی سے گھر چلو اور اپنے باپ کی آخری رسومات ادا کرو۔

نشئی صاحب گرتے پڑتے گھر واپس آئے، ابا کو سپرد خاک کیا اور پھر غائب ہوگئے، ادھر مرگ والے گھر میں جیسے جیسے کسی کو پتہ چلتا وہ تعزیت کے لیئے آتا لیکن بیٹا غائب تھا اس لیئے تعزیت کس سے کی جاتی؟

چنانچہ محلے داروں نے ایک مرتبہ پھر اس کی تلاش شروع کی اور اسے پھر پکڑ لیا اور اسے شرم دلانے کی خاطر کہا: ”تمہارا باپ مر گیا ہے اور تم یہاں نشہ کر کے پڑے ہو؟ چلوگھر، ہم تمہیں لینے آئے ہیں۔“

نشئی نے نشے سے مغلوب آنکھیں تھوڑی سی کھولیں اور بولا: ”ہیں! ابا فیر مرگیا؟“
 
آخری تدوین:

شعیب گناترا

لائبریرین
میاں بیوی بستر پر لیٹے سونے کی تیاری کر رہے تھے۔ اچانک بیوی بولی؛

بیوی: سنو! کیا تم میرے مرنے کے بعد دوسری شادی کر لو گے؟

شوہر: نہیں‌بیگم، تمہیں پتہ ہے میں تم سے کتنا پیار کرتا ہوں، میں دوسری شادی نہیں کرونگا۔

بیوی: لیکن تم اتنی لمبی زندگی تنہا بھی تو نہیں‌گذار سکتے، شادی تو تمہیں کرنا ہو گی۔

شوہر: دیکھا جائے گا، اگر ضروری ہوا تو کر لوں گا۔

بیوی (دکھ بھری آواز میں): کیا تم واقعی دوسری شادی کر لو گے؟

شوہر: بیگم! ابھی تم خود ہی تو زور دے رہی تھی۔

بیوی: اچھا کیا تم اسے اسی گھر میں لاؤ گے؟

شوہر: ہاں، میرا خیال ہے ہمارا گھر کافی بڑا ہے اور اسے یہیں رہنا ہو گا۔

بیوی: کیا تم اسے اسی کمرے میں رکھو گے؟

شوہر: ہاں کیونکہ یہی تو ہمارا بیڈ روم ہے۔

بیوی: کیا وہ اسی بیڈ پر سوئے گی؟

شوہر: بھئی بیگم ظاہر ہے اور کہاں سوئے گی۔

بیوی: اچھا کیا وہ میری جیولری استعمال کرے گی؟

شوہر: نہیں اس جیولری سے تمہاری سہانی یادیں وابستہ ہیں، وہ یہ استعمال نہیں کرسکے گی۔

بیوی: اور میرے کپڑے؟

شوہر: پیاری بیگم! اگر مجھے شادی کرنا ہوئی تو وہ کپڑے بھی خود ہی لے کر آئے گی۔

بیوی: اور کیا وہ میری گاڑی بھی استعمال کرے گی؟

شوہر: نہیں، اسے گاڑی چلانا نہیں آتی، بہت دفعہ بولا لیکن وہ سیکھنا ہی نہیں چاہتی۔

بیوی: کیا!!!؟؟؟

شوہر: اوہ شِٹ!
 

شعیب گناترا

لائبریرین
ایک آدمی کافی دیر سے کھڑے کھڑے چابی سے اپنا کان کھجا رہا تھا۔

ایک پاگل اسے غور سے دیکھتے ہوئے بولا؛ ”بھائی صاحب، آپ اسٹارٹ نہیں ہو رہے تو میں دھکا لگا دوں؟“
 

شعیب گناترا

لائبریرین
ایک عورت نجومی کے پاس گئی اور اپنا ہاتھ دکھایا۔

نجومی نے ہاتھ دیکھ کر کہا؛ ”افسوس ناک خبر ہے۔ آپ جلد ہی بیوہ ہو جائیں گی۔“

عورت غصے سے بولی؛ ”گھامڑ وہ تو مجھے بھی معلوم ہے، تم یہ بتاؤ کہ میں بچ جاؤں گی یا پکڑی جاؤں گی!؟“
 

شعیب گناترا

لائبریرین
بیوی نے نئی موبائل سم لی اور سوچا کہ شوہر کو سرپرائز دوں۔ اس نے کچن میں جا کر شوہر کو فون کیا۔

بیوی: ہیلو ڈارلنگ!

شوہر نے ہلکی آواز میں جواب دیا؛
”تم بعد میں فون کرنا ابھی کمینی کچن میں ہے۔“
 

شعیب گناترا

لائبریرین
پرانا بدلا

ایک خرگوش بم لے کر چڑیا گھر میں گھس گیا اور آواز لگائی؛ ”تم سب کے پاس ایک منٹ ہے یہاں سے نکلنے کے لیے!“

کچھوا بولا: ”واہ کمینے واہ! سیدھی طرح کہہ نا کہ میں ہی ٹارگٹ ہوں۔“
 

شعیب گناترا

لائبریرین
پائلٹ کنٹرول روم سے بات کرتے ہوئے؛
یہ J-327 ہے، میں پاکستانی سرحد سے 50 میل دور 16000 فٹ کی بلندی پر ہوں، میرے پاس فیول ختم ہوگیا ہے، کیا کروں۔۔۔ اوور

کنٹرول روم؛
کلمہ پڑھ لے سوہنیڑیا۔۔۔ تیل ایتھے وی کوئی نئی، تے اُتوں بتی وی جانڑ آلی آ، تنُوں ائیرپورٹ وی نئی دِسنا۔۔۔ اوور
 

شعیب گناترا

لائبریرین
ایک شخص نے مولوی سے پوچھا؛ اگر نماز پڑھتے ہوئے شیر آ جائے تو کیا نماز جاری رکھنی چاہئیے؟

مولوی صاحب: اگر وضو باقی رہے تو جاری رکھ سکتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

شعیب گناترا

لائبریرین
ایک خبطی طالب علم ٹوہ لینے کی خاطر استاد سے پوچھتا ہے: "ماسٹر جی لوگ اردو انگریزی میں بات کرتے ہیں۔ حساب میں کیوں نہیں؟

استاد نے جواب دیا: "چار سو بیس کی اولاد، زیادہ تین پانچ مت کر، نو دو گیارہ ہو جا ورنہ پانچ سات دھر دوں گا، چھ کے چھتیس نظر آئیں گے اور بتیس کے بتیس باہر آجائیں گے۔

طالب علم اس ضربِ شدت سے اپنے دماغ میں جمع، تفریق کردہ خبطی خیالات کو تقسیم کرنے لگا۔
 

شعیب گناترا

لائبریرین
ﺍﯾﮏ ﻣﻌﻠﻢ ﻧﮯ ﺷﺎﮔﺮﺩ ﮐﻮ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﮐﯽ ﮐﮧ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﺑﻔﺼﺎﺣﺖ ﻭ ﺑﻼﻏﺖ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ۔ ﻃﺎﻟﺒﻌﻠﻤﻮﮞ ﻧﮯ ﺗﺎﺋﯿﺪ ﮐﯽ۔ ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺯ ﭼﻠﻢ ﮐﯽ ﭼﻨﮕﺎﺭﯼ ﻣﻌﻠﻢ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﯽ ﭘﮕﮍﯼ ﭘﺮ ﺟﺎ ﭘﮍﯼ۔ ﺷﺎﮔﺮﺩ ﻧﮯ ﺍﻃﻼﻉ ﮐﯽ؛

"ﺟﻨﺎﺏ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﺻﺎﺣﺐ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻭ ﻣﻘﺘﺪﺍﻧﺎ ﻗﺒﻠﮧ ﻭ ﮐﻌﺒﮧ ﺍﻡ ﺣﻀﻮﺭ ﮐﯽ ﺩﺳﺘﺎﺭ ﻋﻈﻤﺖ ﺁﺛﺎﺭ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺍﺧﮕﺮ ﻧﺎﮨﻨﺠﺎﺭ ﺷﺮﺭ ﺑﺎﺭ ﺁﺗﺸﮑﺪﮦﺀ ﭼﻠﻢ ﺳﮯ ﭘﺮﻭﺍﺯ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺷﻌﻠﮧ ﺍﻓﮕﻦ ﮨﮯ۔ "

ﺍﺱ ﻋﺮﺻﮧ ﻣﯿﮟ ﻣﻌﻠﻢ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﯽ ﻧﺼﻒ ﭘﮕﮍﯼ ﺟﻞ ﮔﺌﯽ۔ ﻣﻌﻠﻢ ﺻﺎﺣﺐ ﻓﺮﻣﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ؛ "ﺧﻮﺩ ﮐﺮﺩﮦ ﺭﺍ ﻋﻼﺟﮯ ﻧﯿﺴﺖ۔ "

(یعنی: ﺍﭘﻨﮯ ﮐﺌﮯ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻋﻼﺝ ﻧﮩﯿﮟ۔)
 

شعیب گناترا

لائبریرین
ایک آدمی تلوار لئے مسجد میں گیا اور آواز لگائی؛ "آپ میں کوئی سچا مسلمان ہے؟"

ایک بزرگ بولے، "میں ہوں"-

آدمی ان کو باہر لے گیا اور انکے قدموں میں بکرا ذبح کیا، پھر دوبارہ مسجد میں داخل ہوا، تلوار سے خون ٹپک رہا تھا، لوگ گھبرا گئے۔

وہ بولا؛ "اور کوئی سچا مسلمان ہے؟"

کسی نے آواز لگائی، "مولوی صاحب ہیں"۔

مولوی گھبرا کر بولا؛ "بکواس کر رہا ہے یہ الو، میں تو اعلان کروانے آیا تھا کہ پرسوں سے کیبل نہیں آرہی"۔
 

شعیب گناترا

لائبریرین
ایک مرتبہ مُلّا نصرالدین کو خطبہ دینے کی دعوت دی گئی۔ مگر ملا اس خطبہ کے لیے دل سے راضی نہیں تھے۔

خیر، ممبر پہ کھڑے ہوکر ملا نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے پوچھا؛ "کیا آپ جانتے ہیں کہ میں اپنے خطبہ میں کیا کہنے والا ہوں؟"

لوگوں نے جواب دیا؛ "نہیں"۔

ملا نے کہا؛ "میں ان لوگوں سے خطاب کرنا نہیں چاہتا، جو یہ تک نہیں جانتے کہ میں کیا کہنے والا ہوں"، یہ کہتے ہوئے ملا وہاں سے رخصت ہوگئے۔

لوگ تعجب میں پڑگئے، دوسرے ہفتے پھر ملا کو خطبے کے لیے طلب کیا گیا۔ اس مرتبہ ملا نے منبر پر کھڑے ہو کر پھر یہی سوال کیا، تو لوگوں نے جواب میں "ہاں" کہا۔

ملا نصرالدین نے کہا؛ "اچھا، آپ جانتے ہیں کہ میں کیا کہنے والا ہوں، تو میں اپنا قیمتی وقت برباد کرنا نہیں چاہتا"، اور پھر نکل پڑے۔

اس بار لوگ تذبذب میں پڑ گئے اور فیصلہ کیا کہ ملا کو پھر سے خطبے کے لئے مدعو کیا جائے۔ تیسرے ہفتے ملا پھر تشریف لائے، حزبِ معمول وہی سوال پوچھا۔

اس بار لوگ تیار تھے کہ جواب میں کیا کہنا ہے، نصف لوگوں نے کہا "ہاں" تو بقیہ لوگوں نے "نہیں" کہا۔

"وہ لوگ جو یہ جانتے ہیں کہ میں کیا کہنے والا ہوں، بقیہ لوگوں کو بتادیں" یہ کہہ کر ملا لوٹ گئے۔
 

شعیب گناترا

لائبریرین
میں لڑکیوں کی ڈرائیونگ کے ہرگز خلاف نہیں لیکن ایکسیڈنٹ کے خطرے کے وقت بریک کی جگہ چیخ مارنا کہاں کا انصاف ہے؟
 

شعیب گناترا

لائبریرین
ڈاکٹر (زخمی سے): جب تم نے دیکھ لیا کہ ایک خاتون گاڑی چلا رہی ہیں تو سڑک سے ہٹ کیوں نہیں گئے؟
زخمی: کون سی سڑک؟ میں تو باغ میں لیٹا ہوا تھا۔
 
آخری تدوین:
Top