کتب خانے کتابوں کی بیرون وطن منتقلی ، ایک لمحہ فکریہ

تلمیذ

لائبریرین
وائے قسمت ، کہ وطن عزیز میں یہ وقت بھی ہمیں دیکھنا تھا۔آج کے روزنامہ 'جہان پاکستان' میں مطبوعہ ڈاکٹرسید جعفر احمد کے کالم کا ربط دے رہا ہوں، پڑھئے اور سر دھنئے:

http://www.jehanpakistan.com/E-Paper/khi/310113/openlink.asp?ddir=310113&im=p11-03.jpg

احباب کی آرا کاانتظار رہے گا۔ قیصرانی جی سے گذارش ہے کہ وقت نکال کر مندرجہ ذیل احباب گرامی کو ٹیگ کر دیں۔ مجھ سے بوجوہ یہ کام نہیں ہو پا رہا۔ پیشگی نوازش۔
جناب محمد وارث، راشد اشرف، الف عین، نبیل ، حسان خان، التباس ، نایاب ، شمشاد ، دوست ، انیس الرحمن، سید زبیر، نیرنگ خیال، عاطف بٹ، /USER]، [USER=4580]محمد خلیل الرحمٰن،محمد امین[/USER] ، یوسف-2 ، محمد یعقوب آسی، شاکر القادری، الف نظامی ، فرخ منظور، ساجد ، پردیسی ، و دیگر شائقین کتب
 

راشد اشرف

محفلین
Mon, Oct 8, 2012 at 1:13 PM
یہ وہ تاریخ اور وقت ہے جب ڈاکٹر معین الدین عقیل نے فقیر کو ایک ای میل میں وہ مضمون بھیجا جو اس وقت تک غیر مطبوعہ تھا (بعد ازاں جنگ اور الحمراء وغیرہ میں شائع ہوا) اور جس کا ذکر اوپر درج لنک پر موجود کالم کے مصنف نے کیا ہے۔ ان کا موقف بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اسے ابھی ابھی اسکرابڈ پر شامل کیا ہے کہ بھائی نبیل نے ہمیں یہ آسان راستہ جو دکھا دیا ہے۔ سچ پوچھیے تو یہ خبر سن کر ابتدا میں افسوس ہوا تھا لیکن ڈاکٹر صاحب کے مضمون کے بغور مطالعے کے بعد صورت حال واضح ہوگئی۔

 

راشد اشرف

محفلین
مندرجہ ذیل سوال و جواب بھی ملاحظہ کیجیے:

ڈاکٹر صاحب
بہت شکریہ جناب۔
اسے پڑھ چکا ہوں، پہلے آپ کی ارسال کردہ پی ڈی ایف اور ان پیج میں اور بعد ازاں معراج جامی صاحب کے شائع کردہ کتابچے کی صورت۔
نہ صرف خود پڑھا بلکہ 12 ہزار لوگوں کو پڑھوایا بھی۔ آپ کا موقف اپنی جگہ درست ہے۔ ایک سوال یہ کیا جارہا ہے کہ کیا ٹوکیو یونیورسٹی والے ان کتابوں کو ڈیجیٹائز کرسکیں گے ?
راشد
-----------

عزیزم
اس کتابچے میں لکھ چکاہوں کہ ایک سال میں اس ذخیرے کا کیٹیلاگ بنے گا، جس کے لیے ۳ افراد مقرر کردیے گئے ہیں جو فنی نوعیت کایہ کام کریں گے۔ یہ ایک سال کے بعد اون لائن ہوگا۔ پحر اگلے دوسال کے عرصے میں ۱۹۵۰ء تک کی اردو کتابیں اسکین کرکے اون لائن کی جائیں گی اس کے بعد ایک سال میں جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی ثقافت اور تاریخ سے متعلق انگریزی کتابیں (۱۹۵۰ء تک) ۔ اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
اس وقت میرے پیش نظر اس کتابچے کا دوسرا ایڈیشن پیش نظر ہے جس میں دوست احباب اور بزرگوں کے مثبت منفی ردِعمل کو یکجا کرناچاہتاہوں۔ میرے فیصلے پر صرف دو افراد نے تحفظات یا منفی ردعمل پیش کیاہے۔

عقیل
 

پردیسی

محفلین
جہاں تک بات ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب کی ہے تو انہوں بہت سی کتابیں اردو کے فروغ کے لئے جاپان کی اردو اکیڈمی کو دی ہیں جو کہ انہوں نے بخوشی دی ہیں اور ان کتابوں کو لینے کی فرمائش جاپان والوں نے کی تھی۔۔
میرے علم میں ایسی کوئی بات نہیں کہ انہوں نے اپنا پورا کتب خانہ ہی نذر کر دیا ہو ۔
باقی رہی بات کتب خانوں کی ہجرت کی۔۔کہ شفٹ ہو رہی ہیں۔۔ایسا بالکل بھی نہیں ہے
 
ڈاکٹر معین الدین عقیل کا کتب خانہ یا کچھ کتابیں جاپان کیوں کر منتقل ہوئیں، اس معاملے پر واقفانِ حال کے مابین تبادلہء خیال اور تبادلہء اطلاعات جاری ہے۔ ادھر ڈاکٹر سید جعفر احمد کا لم بھی ’’جاری ہے‘‘۔ ایسے میں میرے جیسا بے خبر شخص کیا کہہ سکتا ہے۔

کتاب اور مطالعہ کے حوالے سے کچھ اور زخم ضرور تازہ ہوئے ہیں۔ ان کا ذکر کسی اور وقت پر موقوف، کہ یہ جو معاملہ چل رہا ہے اس میں خلل واقع نہ ہو۔

بہت آداب۔
 

عاطف بٹ

محفلین
سر، بےحد ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے یاد رکھا۔
ڈاکٹر معین الدین عقیل کا کتابچہ میں عدمِ فرصت کے باعث ابھی نہیں پڑھ پایا اور یقینآ اسے پڑھ کر ہی ان کے مؤقف سے متعلق کوئی بات کی جاسکتی مگر میں یہ بتانا چاہوں گا کہ جی سی یونیورسٹی لاہور کی لائبریری پاکستان بھر میں ایک ایسے نمونہ کتب خانے کی حیثیت رکھتی ہے جس کے معیار کا اعتراف بین الاقوامی سطح پر کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر وحید قریشی، ڈاکٹر عبادت بریلوی اور ڈاکٹر سہیل احمد خاں سمیت ایسے کئی معروف محقق، نقاد اور ادیب ہیں جن کے ہزاروں کتابوں پر مشتمل کتب خانے مذکورہ لائبریری کو دیئے گئے ہیں اور وہاں جس اہتمام کے ساتھ ان کتابوں کو رکھا گیا اور جس طرح ان تک طالبان و مشتاقانِ علم کی رسائی کو ممکن بنایا گیا ہے وہ اپنی جگہ فقیدالمثال ہے۔ یہ بات بھی خالی از دلچسپی نہ ہوگی کہ منٹو کا ٹائپ رائٹر، ڈاکٹر عبدالسلام کا نوبیل انعام اور نقوش والے محمد طفیل صاحب کو مختلف ادیبوں، شاعروں اور نقادوں کی جانب سے موصول ہونے والے ہزاروں خطوط بھی اسی لائبریری میں محفوظ ہیں۔ یونیورسٹی کے شعبہء اردو میں مذکورہ خطوط کے حوالے سے تحقیقی کام کیا جارہا ہے اور یہ تمام خطوط ڈیجیٹل صورت میں بھی دستیاب ہیں، جن کی ایک مکمل نقل اس ناچیز کے پاس بھی محفوظ ہے۔ علاوہ ازیں، لائبریری مذکور میں کتابوں کو ڈیجیٹل صورت میں لانے کے وسیع منصوبے پر بھی کام جاری ہے۔ یہ لائبریری پاکستان کا وہ واحد کتب خانہ ہے جہاں بصارت سے محروم طلبہ کے لئے کتابوں کے ایک بڑے ذخیرے کو بریل کی صورت میں منتقل کیا گیا ہے۔
 

سید زبیر

محفلین
قابل صد احترا م تلمیذصاحب! بہت شکریہ ٹیگ کرنےکا،​
محترم معین الدین عقیل صاحب میرے محسنوں میں سے ایک ہیں ،نہایت با اصول انسان ، محنتی ہر دم متحرک رہنے والی شخصیت ، بین الاقوامی اسلای ینیورسٹی میں کلیہ زبان و ادب کے ڈین تھے مگر اپنی اصول پسندی میں سخت گیری کی وجہ سے اسلام آباد میں اپنی لابی نہ بناسکے ۔ آج کل آسفورڈ یونیورسٹی پریس کورنگی میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔ ستر سے زائد عمر ہوگی مگر جوانوں جیسے حوصلہ اور ہمت ہے اللہ انہیں سلامت رکھے ۔​
اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں تو سر ! ہر کام مشیت ایزوی ہے ۔ ہم انسانوں کو ایک کردار اس دنیا کے اسٹیج پر ادا کرنا ہوتا ہے اور یہ کردار میرے خالق نے میری تخلیق کے وقت ہی تفویض کردیا تھا ۔ میں نے اپنے مولا سے یہ نہیں کہا تھا کہ مجھے دنیا میں اس کردار کے لیے بھیجے ۔ یہ خالق ہی کا کام ہے ۔ علم کی کتابیں جاپان چلی گئیں ۔ جاء ماتم ہے ۔ کبھی مسلمانوں کے کتب خانے پوری دنیا کی توجہ کے مرکز تھے ۔ ۔ سر ! دریا کو کسی نے نہیں بتایا کہ سمندر میں جانا ہے وہ مشیت ایزوی کے مطابق خود رستہ تلاش کر کے پہاڑوں ، صحراؤں سے رستہ بناتا ہوا سمندر ہی میں گرتا ہے ۔ علم کی کتابیں بھی علم کے چاہنے والوں کے پاس ایسے ہی چلی گئیں ۔ میں نے ان کے پاس چند مخطوطے دیکھے تھے نہایت ہی قیمتی اور نادر ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہماری بد نصیب ہے کہ ہم اپنے دانشوروں کی کتابوں سے مستفیذ نہیں ہو رہے ۔ پیر و مرشد علامہ اقبال ؒ کے پاس جب پہلا خط انگلستان سے اس لیے آیا کہ وہ ان کے کلام کا انگریزی میں ترجمہ کرنا چاہتے ہیں تو علامہ ؒ رو پڑے کہ جس قوم کے لیے میں نے یہ کلام لکھا وہ اس اس سے بے خبر ہے اور اغیار اس کا ترجمہ کرکے اپنی قوم کو بتا رہے ہیں۔ لا تقنطو من رحمت اللہ​
 

تلمیذ

لائبریرین
جناب سید زبیر صاحب، افسوس تو مجھے بھی ہوا تھا یہ کالم پڑھ کر، لیکن نجیب صاحب (پردیسی) کی مندرجہ بالا پوسٹ نے کچھ حوصلہ بندھایا ہے۔ یہ پڑھ کر خوشی ہوئی کہ آپ نے بھی اس قابل ہستی کے ساتھ کچھ وقت گزارا ہے۔ کند ہم جنس باہم جنس پرواز!
پردیسی
 

فرخ منظور

لائبریرین
معلوم نہیں کیا وجوہات ہوں گی کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ کتب جاپان بھجوائیں۔ لیکن ایک بات تو یقینی ہے کہ وہاں یہ کتابیں زیادہ محفوظ رہیں گی اور ہو سکتا ہے جاپان والے ان کتب کو ڈیجیٹائز کر کے رفاہِ عامہ کے لئے نیٹ پر رکھ دیں۔ مجھے تو یہ خبر سن کر بجائے افسوس کے خوشی ہوئی ہے۔ :)
 
سید زبیر کہتے ہیں:
پیر و مرشد علامہ اقبال ؒ کے پاس جب پہلا خط انگلستان سے اس لیے آیا کہ وہ ان کے کلام کا انگریزی میں ترجمہ کرنا چاہتے ہیں تو علامہ ؒ رو پڑے کہ جس قوم کے لیے میں نے یہ کلام لکھا وہ اس اس سے بے خبر ہے اور اغیار اس کا ترجمہ کرکے اپنی قوم کو بتا رہے ہیں۔

میں نے جو زخم تازہ ہونے کی بات کی تھی، یہ ہے وہ بات!
اور اس سے بہت قریبی تعلق ہے اس بات کا جو علامہ صاحب نے جوابِ شکوہ میں کی ہے۔
ع: راہ دکھلائیں کسے رہروِ منزل ہی نہیں

بہت ممنون ہوں، آپ کا جناب سید زبیر صاحب۔
 
Top