کتابوں کا اتوار بازار- 8 اپریل 2012-بیان مولانا عبدالسلام نیازی کا

Rashid Ashraf

محفلین
اتوار بازار کا ہفتہ وار پھیرا اب احباب کی ملاقات کا دوسرا نام بن گیا ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے مل کر خوش ہوتے ہیں۔ کتاب کسی ایک کو مل جائے تو اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ دوسرے اس سے محروم رہ جاتے ہیں۔ بھائی چارے کی کیسی کیسی مثالیں چشم فلک نے اس بازار میں دیکھی ہیں۔
گزشتہ اتوار ملنے والی کتاب "ناصر کاظمی-ایک دھیان" ہمارے کرم فرما جناب قیصر کریم کو ملی تھی، انہوں نے ہمیں سونپ دی کہ پہلے آپ پڑھ لیجیے اور اسکین کرکے محفوظ بھی کرلیجیے۔ ان کے توسط سے کتنے ہی دوستوں نے یہ دلچسپ کتاب پڑھی۔
دو روز قبل شاہد احمد دہلوی کے دلی کی نابغہ روزگار شخصیٰت مولانا عبدالسلام نیازی پر لکھے خاکے کی طلب ہوئی، اور اتفاق دیکھیے کہ شاہد دہلوی کی کتاب اجڑا دیار ایک ایسے کتب فروش کے پاس کتابوں کے ڈھیر میں پڑی ملی جہاں "ہر مال بیس روپیہ" کی آوازیں لگائی جارہی تھیں۔مولانا عبدالسلام نیازی کا خاکہ کتاب مذکورہ میں موجود ہے، مولانا کی ایک نادر تصویر بھی کتاب میں شامل ہے، اس سے قبل ہمیں مولانا کی کوئی تصویر دیکھنے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ روڑہ دلی کا ہو اور مولانا کے تذکرے کے بغیر آگے بڑھ جائے ، یہ ناممکن ہے۔
شاہد دہلوی کے علاوہ اخلاق احمد دہلوی نے بھی اپنی خودنوشت ’یادوں کا سفر‘میں مولانا عبدالسلام نیازی کا ذکر کیا ہے۔
نوعمری کا زمانہ تھا، اخلاق احمد دہلوی اپنے والد کے ہمراہ مولانا کے پاس پڑھنے کی غرض سے تھر تھر کانپتے ہوئے پہنچے۔ لطف کی بات یہ تھی کہ ان کے والد بھی خوف سے کانپ رہے تھے۔ بقول اخلاق دہلوی یہ وہ بزرگ تھے جن کے سامنے مفتی اعظم ہند مولوی کفایت اللہ کا پتہ بھی پانی ہوتا تھا ۔

سراکبر حیدری نظام حیدرآباد کا کوئی پیغام لے کر مولانا سے ملاقات کی خاطر ان کے مکان کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے کہ مولانا کی پاٹ دار آواز آئی
کون ہے ؟
اکبر حیدری نے اپنا نام اور مقام بتایا۔
مولانا نے جواب دیا: بس، آپ کی خدمت میں مولوی عبدالسلام کے کوٹھے کی یہ تین سیڑھیاں ہی لکھی تھیں۔ چوتھی سیڑھی پر قدم نہ رکھنا اور اپنے رئیس سے کہنا کہ اگر اس کی ساری دولت ایک پلڑے میں ترازو کے رکھ دی جائے اور دوسرے حصے میں ہمارے جسم کا کوئی رواں ، تو ترازو کا یہ پلڑا زمین پر لٹکا رہے گا اور پہلا پلڑا معلق رہے گا۔ خدا خوش رکھے۔۔خدا خوش رکھے۔
سر اکبر حیدری مایوس واپس لوٹ گئے!
کچھ ایسا ہی اخلاق احمد دہلوی کے ساتھ بھی ہوا۔
مولانا عبدالسلام نیازی نے اخلاق دہلوی کے والد سے پوچھا ۔اچھا، خدا خوش رکھے، تو یہ وہی صاحبزادے ہیں آپ کے جو مفتی صاحب سے فقہ پڑھنے میں ان کا ناطقہ بند اور قافیہ تنگ کرتے رہے ۔ یہ کہہ کر مولانا نے اخلاق دہلوی کی جانب دیکھا اور کہا: خدا آپ کو علم کا پہاڑ بنا دے، ماشاءاللہ، خدا خوش رکھے ۔بس جائیے اور اپنے والد کو بھی اپنے ساتھ لے جائیے۔
ایسی کیا بات تھی کہ ایک عالم مولانا سے ملاقات کا متمنی رہتا تھا۔ جوش ملیح آبادی نے بھی یادوں کی برات میں مولانا عبدالسلام نیازی کا ذکر کیا ہے۔
" وہ مشرقی علوم کے حرف آخر انسان اور شہنشاہ تھے۔ قران، حدیث، منطق، حکمت، تصوف، عروض، معنی و بیان، علم الکلام، تاریخ، تفسیر، لغت، لسانی فوائد، ادب اور شاعری کے امام تھے۔ جید عالم ہونے کے باوجود علمائے سو کے تشابہ سے بچنے کے لیے انہوں نے داڑھی مونچھ کا صفایا کردیا تھا۔ وہ تصوف و حسن پرستی کے متوالے، اور اپنے عہد شباب میں تمام اولیائے ہند کے مزارات کے چکر لگاتے، اور اپنی محبوبہ کو ساتھ لے کر تمام عرسوں میں شریک ہوا کرتے تھے۔ لیکن زندگی کے آخری ایام میں وہ اس قدر سختی کہ ساتھ خلوت پسند اور خودنشیں ہوگئے تھے کہ تقریبا بائیس برس کی مدت میں، وہ اپنے دہلی کے ترکمان دروازے کی پتلی سی گلی کے بالا خانے سے کبھی ایک بار بھی نیچے نہیں اترے تھے۔ ""
اپنی اس متشددانہ طبیعت کی بنا پر مولانا کے رویے بھی اسی جیسے ہوگئے تھے۔ جوش اکثر ان سے ملاقات کے لیے جایا کرتے تھے، مولانا نے جوش کو حکم دے رکھا تھا کہ خبردار! جب تک کہ کوئی شخص حسین یا عالم نہ ہو، میرے پاس ہرگز مت لے کر آنا۔ جوش ایک مرتبہ اپنے ہمراہ ساغر نظامی کو لے گئے۔ مولانا خوش ہوئے اور فرمایا:
"اچھی چیز لائے ہو "
جوش ملیح آبادی نے مولانا عبدالسلام نیازی کے بیان میں جو باتیں مذکورہ بالا بیان کے علاوہ لکھی ہیں وہ اس قابل نہیں ہیں کہ یہاں نقل کی جاسکیں ۔ ۔ "خوف فساد خلق" کا خدشہ لاحق ہے۔ جن احباب کو یقیں نہ آئے، یادوں کی برات کا مطالعہ کرلیں۔
ایک مرتبہ جوش مولانا عبدالسلام نیازی کے پاس بیٹھے تھے۔ ایک وردی پوش نے آکر کہا کہ نیچے ہزہائی نیس فلاں فلاں کھڑے ہوئے ہیں۔ آپ اجازت دیں تو حاضر ہوں۔
مولانا نے کہا کہ اگر وہ میرے سامنے آکر یہ کہیں کہ میرے تاج سے عبدالسلام کی جوتی اونچی ہے تو شوق سے آئیں ورنہ گاڑی بڑھا دیں۔
"ہزہائی نیس" سمجھدار تھے، اوپر آئے اور مولانا کے پاس بیٹھ کر نہایت ادب سے باتیں کیا کیے۔
حیدرآباد کے وزیر تعلیم نواب مہدی یار جنگ، مولانا کے کوٹھے سے نیچے اتر رہے تھے کہ جوش سے ملاقات ہوئی۔ جوش نے کہا حضرت خیریت، آپ یہاں۔
نواب صاحب نے کہا کہ خواجہ حسن نظامی نے مجھے مولانا عبدالسلام نیازی کے پاس بھیج کر ذلیل کروا دیا۔ جوش حیران ہوکر سیڑھیاں چڑھے اور مولانا سے قصہ دریافت کیا۔ مولانا کا جواب ملاحظہ کیجیے:
" مہدی یار جنگ نے جب مجھ سے یہ کہا کہ میں آپ کو حضور نظام سے ملواؤں گا، آپ میرے ساتھ حیدرآباد چلیے، وہ آپ کا وظیفہ مقرر کردیں گے تو میرا ناریل چٹخ گیا اور میں نے اسے کہا کہ آپ کے نزدیک کیا یہ بات ممکن ہے کہ میں اس جاہل نظام کے سامنے، اپنی وجاہت علمی کی کمر میں، ذلت کی پیٹی باندھ کر جاؤں اور اس مسخرے کو خداوند نعمت اور اپنے آپ کو فدوی کہوں ? "
جوش نے اس کے بعد جو کچھ لکھا ہے اسے یہاں نقل کرنے کی تاب راقم میں نہیں ہے۔
یہ جرات تو ڈاکٹر خلیق انجم بھی نہیں کرسکے جنہوں نے 2008 میں خاکوں کی کتاب "مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا" میں مولانا عبدالسلام نیازی کا خاکہ لکھا تھا۔
خلیق انجم لکھتے ہیں کہ اس کے بعد مولانا نے نظام حیدرآباد کی شان میں کو قصیدہ پڑھا میں اسے یہاں نقل نہیں کرسکتا، آپ خود ہی یادوں کی برات میں پڑھ لیجیے۔ (مولانا عبدالسلام نیازی ، صفحہ 208، مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا، انجمن ترقی اردو ہند)
خلیق انجم کے تحریر کردہ خاکے میں کئی دلچسپ باتیں ہیں۔ ہم نے بین السطور جوش ملیح آبادی کی یادوں کی برات میں درج خاکے سے یہ اقتباس نقل کیا تھا کہ:
"وہ تصوف و حسن پرستی کے متوالے، اور اپنے عہد شباب میں تمام اولیائے ہند کے مزارات کے چکر لگاتے، اور اپنی محبوبہ کو ساتھ لے کر تمام عرسوں میں شریک ہوا کرتے تھے۔ "
خلیق انجم کی تحریر سے اس پر مزید روشنی پڑتی ہے، وہ لکھتے ہیں:
" جے پور کی دو "گانے والیاں" تھیں، ببو اور گوہر۔ مولانا ان دونوں کے گانے کے مداح اور اور حسن کے شیدائی تھے۔ جے پور کی ایک اور گانے والی تھیں، اس کا نام بے نظیر تھا، مولانا کو ان سے عشق تھا۔ اکثر مزاروں پر اس محبوبہ کے ساتھ جاتے تھے، جوش نے یادوں کی برات میں اسی کا ذکر کیا ہے۔"" (صفحہ 203)
مولانا عبدالسلام نیازی کو ایک مرتبہ ہندو مذہب کے مطالعے کا شوق ہوا۔ اس موضوع ہر بہت سی کتابیں پڑھیں لیکن تسلی نہیں ہوئی۔ بلاآخر ہندؤں کا بھیس بدل ہری دوار کی راہ لی، بارہ برس ہری دوار، لکشمی جھولا اور رشی کیش میں رہے۔ ہندو سادھوں کی طرح سمادھی لگاتے تھے۔ ایک روز انہیں خیال آیا کہ مجھے اتنے برس ہوچکے ہیں ان لوگوں کے ساتھ رہتے رہتے، اب تک نہیں پہچان سکے کہ میں مسلمان ہوں، جب یہ لوگ مجھے نہیں پہچان سکے تو خدا کو کیا پہچانیں گے ?
اسی شام کو مولانا جنگل سے گزر رہے تھے۔ جھٹ پٹے کا وقت تھا۔ دیکھا کہ سادھو سامنے سے چلا آرہا ہے۔ اس جنگل میں سادھو کو دیکھ کر مولانا حیرت میں پڑ گئے اور ایک درخت کی آڑ میں چھپ گئے۔ جب وہ آگے نکل گیا تو مولانا اس کے پیچھے چلے، تھوڑی دور پر ایک جھونپڑی تھی۔ سادھو اس جھونپڑی میں چلا گیا۔ مولانا باہر چُھپے کھڑے رہے۔ انہیں پھر یہ خیال آیا کہ جب یہ لوگ مجھے نہیں پہچانتے تو خدا کو کیا پہچانیں گے۔ اچانک جھونپڑی میں سے سادھو کی آواز آئی، عبدالسلام! چھپو نہیں، آجاؤ۔ مولانا اپنا نام سن کر خائف ہوگئے اور بے اختیار ان کے قدم اس جانب اٹھ گئے۔ جھونپڑی میں داخل ہوئے تو سادھو نے کہا کہ تم بے وجہ پریشان ہورہے ہو، ہم نے دس گیارہ سال پہلے جب تمہیں دیکھا تھا، اسی وقت پہچان گئے تھے۔ ہمارا مشورہ ہے کہ تم دہلی واپس چلے جاؤ، وہاں خلق خدا کی زیادہ خدمت کرسکو گے۔​
مولانا دہلی واپس لوٹ گئے!​
 

Rashid Ashraf

محفلین
حصہ دوم:

مولانا کا مزاج ایسا تھا کہ اچھے اچھوں کو بے طرح جھڑک دیا کرتے تھے۔ ایک عالم ان کے پاس اکتساب علم کے حصول کی غرض سے آنے کا خواہشمند رہتا تھا۔ مسائل دریافت کرنے والے اس پر مستزاد۔

ایک صاحب حج سے واپس آئے تو مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ کسی نے مولانا کو پہلے ہی بتادیا تھا کہ ان صاحب کی دو غیر شادہ شدہ لڑکیاں گھر بیٹھی ہیں، بہت کم آمدنی ہے پھر بھی قرض لے کر حج پر گئے ہیں۔ یہ سن کر مولانا بھڑک ہی تو گئے۔
"آپ اتنے دن بعد حج سے واپس کیوں آئے ہیں ? " مولانا نے اس صاحب سے دریافت کیا
وہ صاحب بولے: " حضرت، جب شمع جل رہی ہو تو پروانہ اندھیرے کی طرف کیسے جائے "
مولانا بپھر گئے، ضبط کھو بیٹھے، ڈپٹ کر کہا : " سالے! تو یوں کروں، اس کا مطلب ہے کہ ہم اندھیرے میں رہتے ہیں، تُو قرض لے کر روشنی میں گیا تھا
نکل یہاں سے تیری ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔""
وہ صاحب جوتیاں چھوڑ کر بھاگے۔
--------
تقسیم ہند کے بعد مولانا عبدالسلام نیازی کے کئی دوست پاکستان چلے گئے۔ جوش ملیح آبادی جانے سے پہلے ان سے ملنے گئے لیکن اس مرتبہ مولانا نے انہیں بھی بے نقط کی سنائیں۔ دلی کا یہ روڑہ گھر تک محدود ہوکر رہ گیا۔ بلاآخر 30 جون 1966 کو چند دن بیمار رہنے کے بعد انتقال کرگئے۔

اتوار بازار سے ملنے والی کتابوں کی تفصیل یہ ہے:
اجڑا دیارشاہد احمد دہلوی
ناشر: مکتبہ دانیال، کراچی
سن اشاعت: 1981 دوسری بار (اشاعت اول: 1961 )
صفحات: 432
غبار خاطرابو الکلام آزاد
مرتبہ: مالک رام
ناشر: ساہیتہ اکیڈمی دہلی
سن اشاعت: 1981
صفحات: 435
کتاب زیست
خودنوشت
الحاج محمد زبیر
ناشر: ایجوکیشنل پریس کراچی
سن اشاعت: مئی 1982
صفحات: 352
خشک چشمے کے کنارے
مجموعہ مضامین
ناصر کاظمی
ناشر: مکتبہ خیال، لاہور
سن اشاعت: مارچ 1982
صفحات: 184
 

Rashid Ashraf

محفلین
اجڑا دیار میں شاہد دہلوی نے اس دلی کی معاشرتی اور تہذیبی جھلکیاں پیش کی ہیں جو 1947 تک قائم تھی۔ فہرست مضامین یہ ہے:
ایک چراغ گل ہوگیا، نگاہ اولیں، دلی کے چٹخارے، دلی کے دل والے، دلی کی گرمی، فالیز کی سیر، باغ کی سیر، قطب صاحب کی سیر، پھول والوں کی سیر، چوک کی بہار، شام کی چہل پہل، چٹور پن، دلی کے حوصلہ مند غریب، دلی والوں کے شوق، رہن سہن کی ایک جھلک، بھانڈ اور ۔۔۔۔۔۔۔۔، دلی کا ایک شریف گھرانہ، دلی کی ایک پرانی حویلی، دلی کے چند گیت، روزہ کشائی، میٹھی عید، سلونی عید، بسنت کی بہار، سترھویں کی سیر، راگ رنگ کی ایک رات، دلی کا آخری تاجدار، شاہ جہانی دیگ کی کھرچن اور دلی کا غسل خونیں۔
 
یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ نےبھی 1921 ء اور پھر 1925 ، 1926 میں جب وہ الجمعیۃ کے ایڈیٹر تھے ، مولانا نیازی سے معقولات کی تحصیل کی تھی۔ مولانا مودودی نے ایک دو جگہ مولانا نیازی کے متعلق کلمات خیر ادا فرمائے ہیں ۔ ملاحظہ کیجئے گفتار و افکار از عاصم نعمانی اور ایک خط بنام شفیق احمد بریلوی ۔ مولانا کہتے ہیں کہ انھوں نے بچپن میں جب وہ دہلی میں تھے تو کچھ عرصہ مولانا نیازی سے عربی بھی پڑھی تھی ۔چونکہ مولانا نیازی کے مولانا مودودی سے اچھے مراسم تھے، اس لیے مولانا مودودی کی بہت عزت کرتے تھے اور انھیں "سید بادشاہ " کہہ کر پکارتے تھے ۔ باقی باتیں آپ خود پڑھیں تو مزہ آئے گا ۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
بہت شکریہ راشد۔ مولانا عبدالسلام نیازی کے متعلق پڑھ کر بہت لطف آیا۔ یوسفی صاحب نے ان کے متعلق لکھا تھا کہ وہ داغ کے مداح رہے تھے اور داغ کے عشقیہ شعر سن کر سبحان اللہ کہہ کر سجدے میں چلے جاتے تھے۔ :) میرے بہنوئی کے گھر کسی زمانے میں مولانا عبدالسلام نیازی کی تصویر دیوار پر آویزاں تھی۔ ان کے تایا سید ابو طاہر جعفری کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ مولانا عبدالسلام نیازی کے خلیفہ تھے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
 
یاد آیا کہ شاہد احمد دہلوی کی ایک اور کتاب بزم خوش نفساں میں بھی مولانا نیازی کا تذکرہ ہے ۔ اگر آپ میں سے کسی نے اس میں شامل خاکہ بھی پڑھ رکھا ہے تو کیا یہ دونوں ایک ہی تحریریں ہیں یا اجڑا دیار والی تحریر مختلف ہے ؟؟؟ ۔ میں نے بزم خوش نفساں والی تحریر پڑھ رکھی ہے ۔
 

Rashid Ashraf

محفلین
بزم خوش نفساں میرے پاس نہیں ہے
اجڑا دیار میں موجود تذکرے کے آخر میں دلی کے فسادات کے دوران ایک سکھ کا ذکر ہے کہ "کرپان لے کر مولانا پر لپکا تھا، مولانا نے ڈانٹ پلائی، اس پر ایسی دہشت طاری ہوئی کہ کرپان ہاتھ سے گر پڑیاور وہ سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ گیا۔"
 
ہاں بالکل ۔ یہ خوش نفساں میں بھی ہے ۔ لیکن اس مضمون میں ان کی تاریخ وفات کی صراحت نہیں ۔ اوپر جو تاریخ وفات دی گئی ہے ، وہ کہاں سے اخذکردہ ہے ؟
 

Rashid Ashraf

محفلین
30 جون 1966 مولانا نیازی کی تاریخ وفات خلیق انجم صاحب کی خاکوں پر مشتمل کتاب "مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا" میں موجود مولانا نیازی کے خاکے سے اخذ کی گئی ہے اور صد فیصد درست ہے۔ جوش، شاہد دہلوی اور اخلاق دہلوی میں سے کسی نے ان کی تاریخ وفات اپنے مضامین (خؤدنوشت) میں درج نہیں کی۔
 

Rashid Ashraf

محفلین
ہاشمی صاحب
کاش کہ ان کتابوں کے انٹرنیٹ لنکس دستیاب ہوتے، البتہ اس کام کے کیے جانے میں کاپی رائٹس کی پاسدادی کی دشواری لاحق ہے۔
حال ہی میں میرے ایک کرم فرما دلی گئے تھے، وہاں سے 150 کتابیں لائے ہیں، انہی سے لے کر فوٹو کاپی کروائی ہے۔ یہ 2008 میں شائع ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ خاکوں کی ایک اور کتاب بھی ملی ہے، یہ اسلم پرویز کی کتاب ہے جو خلیق صاحب کے بہنوئی ہیں (یا شاید سالے ہیں)
 
Top