غالب کب سے ہُوں۔ کیا بتاؤں جہانِ خراب میں۔ غالب کی ایک غزل

مغزل

محفلین
جی جی ، دارصل کوئی قید ہوجاتا ہے تو اس کی جا پر کرنے کو بھی کوئی ہوتا ہے نا۔رمضان میں
 

مغزل

محفلین
چلو بھئی کسی بہانے ہماری بہنا کے ہونٹو ں پر مسکراہٹ تو کھیلی ، سدا سلامت رہو
 
بہت خوب
میں آج یہ غزل شئر کرنے کو تھا۔سوچا پہلے چیک کر لوں کہ کسی اور نے شئر نہ کی ہو۔
لیکن یہاں تو پہلے سے بہت کچھ پوسٹ کیا جا چکا ہے۔
بہت بہت شکریہ
 

محمد خان

محفلین
آفت آہنگ ہے کچھ نالۂ بلبل ورنہ

پھول ہنس ہنس کے گلستاں میں فنا ہو جاتا



کاش ناقدر نہ ہوتا ترا اندازِ خرام

میں غبارِ سرِ دامانِ فنا ہو جاتا



یک شبہ فرصتِ ہستی ہے اک آئینۂ غم

رنگِ گل کاش! گلستاں کی ہَوا ہو جاتا



مستقل مرکزِ غم پہ ہی نہیں تھے ورنہ

ہم کو اندازۂ آئینِ فنا ہو جاتا



دستِ قدرت ہے مرا خشت بہ دیوارِ فنا

گر فنا بھی نہ میں ہوتا تو فنا ہو جاتا



حیرت اندوزیِ اربابِ حقیقت مت پوچھ

جلوہ اک روز تو آئینہ نما ہو جاتا

مرزا غالب۔۔۔۔۔
 
Top