اختر شیرانی کبھی کچھ، کبھی کچھ ۔ اختر شیرانی

فرخ منظور

لائبریرین
کبھی کچھ، کبھی کچھ

کبھی سوچتا ہوں کہ تلوار اُٹھاؤں
سپاہی بنوں اور میداں میں پہنچوں
اور اعدائے ملّت کو نیچا دِکھاؤں
میں شیروں کی صورت نیستاں میں پہنچوں

کبھی سوچتا ہوں کہ شاعر بنوں میں
تڑپ اُٹھے دنیا ، وہ اشعار لکھوں
قلم کی خدائی کا ساحر بنوں میں
ہو شرمندہ فطرت وہ اسرار لکھوں

کبھی سوچتا ہوں کہ بن کر مصوّر
بناؤں وہ تصویر خونِ جگر سے
کہ آ جائے پردے سے چھن کر تصوّر
زمانے کو حیرت ہو جس کے اثر سے

کبھی سوچتا ہوں نواگر بنوں میں
فضا کو نواؤں سے معمور کر دوں
جہانِ غنا کا پیمبر بنوں میں
خدائی کو نغموں سے مسحور کر دوں

کبھی سوچتا ہوں کہ سب کچھ بنوں میں
نہ تھا پہلے کچھ لیکن اب کچھ بنوں میں
(اختر شیرانی، شہرود)​
 
Top