کبوتربازی کا انوکھاعالمی مقابلہ

آپ نے کرکٹ، فٹ بال اور ہاکی کےعالمی مقابلوں کے بارے میں تو ضرور سنا ہوگا لیکن اب ایک انوکھے ورلڈ کپ کے بارے میں سنئے۔ یہ ہے”کبوتروں کا عالمی کپ“جو آج سے 2دن بعد یعنی 3 جون کوہونے جارہا ہے۔ یہ ورلڈ کپ ہوگا شاعر مشرق کے شہر سیالکوٹ میں۔

نجی ٹی وی چینل ’اے آر وائی نیوز‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق کبوتروں کے اس ورلڈ کپ میں ایک دو نہیں پورے 15ممالک کے کبوتربازحصہ لیں گے۔ ان ممالک میں پاکستان ،بھارت ، برطانیہ، ناروے، فلپائن، یونان، ڈنمارک، اٹلی، سعودی عرب، بحرین، ابوظہبی، کویت، کینیڈا اور امریکہ شامل ہیں۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقابلہ ہوگا۔ اور وہ بھی اپنی مد د آپ کے تحت۔

مقابلے کو فتح کرنے کاطریقہ یہ ہے کہ جس کبوترباز کا کبوتر سب سے اونچی اڑان بھرتے ہوئے مقررہ فاصلہ سب سے کم وقت میں طے کرے گا اسے ناصرف کامیاب قرار دیا جائے گا بلکہ اسے باقاعدہ ایوارڈ اور نقد انعام بھی دیا جائے گا۔

اس ورلڈ کپ کی آرگنائزنگ کمیٹی کے سربراہ معین نواز گھمن کے مطابق اب تک تقریباً چار سو کبوتر بازی کے شوقین افراد اس مقابلے میں حصہ لینے کے لئے اپنا نام درج کراچکے ہیں۔ معین نواز کا کہنا ہے کہ اس بار پندرہ ممالک اس مقابلے میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ آئندہ سال ہونے والے ورلڈ کپ میں مزید ممالک بھی شامل ہوسکتے ہیں۔

اس انوکھے ورلڈ کپ کے حوالے سے جب وی اواے کے نمائندے نے کراچی کے مختلف کبوتربازی کے شوقین افراد سے تبادلہ خیال کیا تو ان میں سے ایک تجربہ کار کبوترباز جہانگیر کا کہنا تھا ” اگر دوسرے کھیلوں کے عالمی مقابلے ہوسکتے ہیں تو کبوتربازی کے عالمی مقابلے میں کیا قباحت ہوسکتی ہے۔ اس طرح کم از کم اس کھیل کو جلاملے گی اور پاکستان کا نام روشن ہوگا کیوں کہ پاکستان کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں کبوترباز موجود ہیں۔ “

کبوتربازی کے شوق کو اپنی عمر کا ایک طویل حصہ دینے والے محمد نوشاد کا کہنا ہے کہ کبوتربازی کا ورلڈ کپ ایک نئی تاریخ رقم کرے گا۔ اگر حکومت اس کھیل کی سرپرستی کرے تو یہ مزید آگے جاسکتا ہے ۔ “

محمد نوشاد کا مزید کہنا تھا کہ ان کی معلومات کے مطابق مغلیہ خاندان کی ایک شہزادی کو بھی کبوتروں سے دلچسپی تھی ۔ ایک شہزادے نے تو کبوتروں کے عوض ہی ایک کنیز کو اپنی ملکہ بنالیا تھا۔ نوشاد نے مزید کہا کہ وہ بھی اس مقابلے میں حصہ لیتے اگر انہیں کچھ دنوں پہلے اس کا علم ہوجاتا ۔

محمد نوشاد کا کہنا ہے کہ انہیں کبوتر اڑاتے ہوئے چالیس سال ہونے والے ہیں۔ انہیں یہ شوق اپنے والد سے وراثت میں ملا۔ آج محمد نوشاد نے شک بفرزون کے ایک چھوٹے سے مکان میں رہتے ہیں مگر ان کی چھت پر پورے ایک کمرے کے برابر کبوتروں کا دڑبہ بناہوا ۔ نوشاد پیشے کے اعتبار سے درزی ہیں اورکام سے جب بھی فراغت ہوتی ہے وہ کبوتروں کی دیکھ بھال میں لگ جاتے ہیں۔ ان کے پاس 250کے قریب کبوتر ہیں۔

وہ ہر روز صبح اپنی دکان جانے سے پہلے کم از کم ایک گھنٹہ کبوتر اڑاتے ہیں۔ جمعہ کو ان کی دکان بند ہوتی ہے لہذا نماز سے پہلے اور شام کے اوقات میں وہ دونوں وقت کبوتر اڑاتے اور ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ اس شوق میں ان کے دو چھوٹے بیٹے بھی برابر کا ساتھ دیتے ہیں۔

ایک اور شوقین ممتاز جو بڑا میدان ناظم آباد میں رہتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ورلڈ کپ یہ پہلا ہے تاہم اس سے قبل سن 2011ء میں چکوال میں ایک کبوتربازی کا ٹورنامنٹ ہوچکا ہے جس میں شرکت کی غرض سے وہ بھی کراچی سے پنجاب گئے تھے۔

وی او اے کے نمائندے کی تحقیق کے مطابق جنوری 2010ء میں بھی جنوبی افریقہ کے شہر ’سن سٹی' میں ایک دلچسپ "بین الاقوامی کبوتر ریس ٹورنامنٹ' ہوچکا ہے جس میں دنیا بھر کے 3311 بہترین کبوتروں نے حصہ لیا تھا۔ٹورنامنٹ میں جرمنی کے کبوتر باز جورج اوسولڈ کے کبوتر ’آرگون' نے پہلی جبکہ کویت کے کبوتر باز بدرالسینافی کے کبوتر ’السینافی' نے دوسری پوزیشن حاصل کی۔

بشکریہ:وی او اے اردو
 

عدیل منا

محفلین
آپ نے کرکٹ، فٹ بال اور ہاکی کےعالمی مقابلوں کے بارے میں تو ضرور سنا ہوگا لیکن اب ایک انوکھے ورلڈ کپ کے بارے میں سنئے۔ یہ ہے”کبوتروں کا عالمی کپ“جو آج سے 2دن بعد یعنی 3 جون کوہونے جارہا ہے۔ یہ ورلڈ کپ ہوگا شاعر مشرق کے شہر سیالکوٹ میں۔

نجی ٹی وی چینل ’اے آر وائی نیوز‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق کبوتروں کے اس ورلڈ کپ میں ایک دو نہیں پورے 15ممالک کے کبوتربازحصہ لیں گے۔ ان ممالک میں پاکستان ،بھارت ، برطانیہ، ناروے، فلپائن، یونان، بشکریہ:وی او اے اردو
اس قابلے میں جو بھی حصہ لے گا وہ اپنے کبوتر ساتھ لائے گا۔۔مگر کبوتر تو اپنے گھر اور اپنے علاقے سے مانوس ہوتا ہے؟ اس بارے میں وضاحت چاہئے۔
 

وجی

لائبریرین
کبوتر عمعوما اپنے مالک سے بھی مانوس ہوتا ہے تمام کبوتر کسی ایک دور جگہ سے چھوڑے جاتے ہیں اور انکو اپنے مالک کے پاس پہنچنا ہوتا ہے
میرا خیال ہے ایسا ہی ہوتا ہے

میں نے سن رکھا ہے کہ پاکستانی کبوتر پوری دنیا میں اچھی اڑان کے لیے مشہور ہے اور کسی کسی نسل کی ایک جوڑی لاکھ لاکھ روپے کی ملتی ہے
 
اس مقابلے میں جو بھی حصہ لے گا وہ اپنے کبوتر ساتھ لائے گا۔۔مگر کبوتر تو اپنے گھر اور اپنے علاقے سے مانوس ہوتا ہے؟ اس بارے میں وضاحت چاہئے۔
میرا نہیں خیال کہ کبوتر اپنے علاقے سے اتنا مانوس ہوتا ہے کہ وہ کسی دوسرے علاقے میں جا کر اڑان نہ بھر سکے
ویسے اس معاملے میں کسی ماہر کبوتر باز سے ہی رائے لی جاسکتی ہے:)
ویسے میں نے تو آج تک کبوتر پکڑ کر بھی نہیں دیکھا
 

عدیل منا

محفلین
میرا نہیں خیال کہ کبوتر اپنے علاقے سے اتنا مانوس ہوتا ہے کہ وہ کسی دوسرے علاقے میں جا کر اڑان نہ بھر سکے
میں نے اب تک یہی دیکھا ہے کہ کبوتر اپنے گھر کے آس پاس کے علاقے میں دائرے کی شکل میں چکر لگاتے ہیں۔اونچی اڑان والا کبوتر بھی جتنا اونچا ہی کیوں نہ چلا جائے پر رہتا اپنے گھر کے اوپریا آس پاس ہی ہے۔
اگر کوئی نیا کبوتر لائے تو اس کو ہفتہ دس دن تک نہیں اڑایا جاتا، کیونکہ ٪90 اس کے فرار ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ ہفتہ دس دن میں جب وہ مانوس ہوجاتا ہے تو تب اس کو اڑایا جاتا ہے۔
 
کراچی میں اور پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی ایسے مقابلے ہوتے ہیں۔
بلکہ ون ڈے اور ٹیسٹ جیسے مقابلے بھی ہوتے ہیں۔ اور انعامی رقم بھی خاصی بڑی رکھی جاتی ہے۔
 
Top