" کاغذ کی فریاد"

عندلیب

محفلین
" کاغذ کی فریاد"
ڈاکٹر سید عباس متقی

میرا نام کاغذ ہے ، بہت ہی معمولی چیز ہوں کہ میری کوئی وقعت ہی نہیں ہے ، ہوا کے دوش پر اڑتا پھرتا ہوں ، کچرے کوڑے میں نظر آتا ہوں ، کاغذ چننے والے بچے مجھے دھر لیا کرتے ہیں اور گدھے مجھے چر لیا کرتے ہیں ۔ میری اصل پر اگر آپ غور کریں تو مجھے سینے سے لگانا بھول جائیں ، مجھے جیب میں رکھنے سے آپ کو حیا آنے لگے ۔مجھے ہاتھ لگاتے ہوئے آپ کو گھن آنے لگے ۔ کاغذ ہی پر کیا منحصر اگر آپ اپنی اصل پر بھی غور کرنے لگیں تو شائد اپنے آپ کو بھی ایک کاغذ متصور کریں ۔ مرزا نوشہ نے میرے ذکر سے اپنے دیوان کی بسم اللہ کی ہے "کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصورکا" فرماکر انہوں نے انسان کو اس کی حقیقت سے آگاہ کیا ہے ۔ لیکن میں جب مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے عجیب عجیب مشینوں سے گزارا جاتا ہوں تو میں اس لائق بن جاتا ہوں کہ مجھے چوما جائے اور سر آنکھوں پر بٹھایا جائے ، کاغذ کو پاک صاف کرنے کی مشین تو بنالی لیکن دلوں کو پاک صاف کرنے کی ایسی کوئی مشین نہ آج تک بنی ہے اور نہ بنائی جاسکتی ہے ۔ ہاں کچھ مقامات ہیں جہاں دلوں کی پاکی و طہارت و پاکیزگی نصیب ہوتی ہے لیکن دشمن دین مذہب وہاں بھی بموں کو ڈال کر اپنی کدورت قلبی کا ثبوت دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ انسانی قلوب قیامت تک پاک صاف نہ ہونے
پائیں ۔

میں کاغذ ہوں جو کچھ مجھ پر لکھ دیا جاتا ہے اسے پڑھوا دیتا ہوں ، اب اگر پڑھنے والے جھوٹ پڑھ دیں تو میرا کیا قصور ہوسکتا ہے ۔ میرے اندر ردو بدل کی نہ کوئی حسرت ہے نہ ضرورت جو شائع ہوتا ہے محفوظ کرنے کی پوری پوری کوشش کرتا ہوں ۔ ایک حرف تو کجا ایک نقطہ کا فرق آنے نہیں دیتا ، اس لیے لوگ مجھ کو اپنی زبان سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں ، انسان کی زبان بدل سکتی ہے لیکن کاغذ پر لکھا ہو ابدل نہیں سکتا ۔ تعجب ہے جب انسان کا لکھا ہوا بدل نہیں سکتا تو پھر انسان یہ کیوں نہیں سوچتا کہ خدا کا لکھا ہوا کیوں کر بدلے گا ،اگر انسان اس پر ایمان لے آئے تو حسد کے جرا ثیم کا خاتمہ ہوجائے ، کینوں سے سینے پاک ہوجائیں لیکن انسان کو اتنی فرصت ہی نہیں کہ کاغذ اور اس کی اہمیت پر غور کرے ۔

الغرض جب میں طہارت اور نظافت کا اختیار کرلیتا ہوں تو چھاپنے والے مجھ قرآن چھاپ دیتے ہیں اور پھر عظمت و بزرگی کی اس منزل پر پہنچ جاتا ہوں لوگ مجھے آنکھوں سے لگانے اور سروں پررکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ میں اپنی حقیقت کو پہچانتا ہوں ، کوئی ، فرعون نہیں کہ اپنی حقیقت کو پہچان کربھی انا ربکم الاعلیٰ کادعویٰ کر بیٹھوں اور اس کے طفیل دریائے نیل کی آغوش میں پہنچ جاؤں ۔ میں وہی ہوں جو صدیوں سے روندا گیا ۔ پھینکا گیا ، ردی میں بیچا گیا لیکن جو چیز بک جاتی ہے وہ حقیقتا بکاؤ نہیں ہوتی ، دیہ کعنان میں بھی تو برداران یوسف کو چند ٹکوں کے عوض بیچ دیا تھا ، بازار مصر میں یوسف پر بولی لگائی گئی تھی ، عزیز مصر نے یوسف کو خرید بھی لیا تھا ، کیا آپ کو خرید لینے سے آپ کی عزت و وقار میں کوئی کمی آئی تھی ۔ ہرگز نہیں بلکہ خدا نے آپ کے نام ایک سورہ قرآن مجید میں نازل فرمایا اور اس سورہ کو "احسن القصص" کے مبارک نام سے یاد فرمایا ۔ میں بھی ایک کاغذ ہوں ، بکتا ضرور ہوں لیکن بکنے اور فروخت ہونے سے میرے وقار اور میری عظمت میں کوئی کمی نہیں آتی ۔ بلکہ میرے مبارک پرزے کی عزت کرنے والے کی مغفرت ہوجاتی ہے ۔ اللہ اللہ وہ بھی کیا دن تھے ، ہزار پانیوں سے دھویا گیا ، بیسیوں ادویات سے کھنگالا گیا ، کئی مشینوں نے مل کر مجھے کوٹا ، کاٹا چھانٹا ،پٹخا ، لادا ،دابا اور جب میری شکل دیکھنے دکھانے کے لائق ہوئی تو میرے رخ پر احادیث مبارکہ کو شائع کردیا گیا ۔ اب تو لوگوں کا یہ عالم ہے کہ میرا منھ چومتے ہیں او ر"وما ینطق عن الھوی الا وحی یوحی"
کا نعرہ مار کر مجھے اپنے سینوں سے لگا لیتے ہیں ۔ میں سوچتا ہوںکہ چومنے والے درحقیقت مجھے اس لیے چوم رہے ہیں کہ لب اقدس سے نکلے ہوئے کلمات عالیہ مجھ پر نقش اور مبارک ہونٹوں سے نکلی ہوئی باتیں مجھ پر مرقوم ہیں ۔ کسی کی نسبت سے میری عزت ہو رہی ہے ، واقعی نسبت بڑی چیز ہے ۔ نسبت سے عزت کیا چیز جنت حاصل ہوسکتی ہے ۔ یہ نسبت کی معراج ہی تو تھی جو شب معراج نعلین مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھولیا تھا ، قدوم میمنت سے جو منسلک و منسوب ہوجاتا ہے وہ عرش کیا عرش والے تک پہنچ جاتا ہے ۔ اسی بات کو تو شاعر مشرق نے خوب سمجھ لیا تھا ، تبھی تو ارشاد فرمایا تھا کہ "اگر بہ اونہ رسیدی تمام بولہبیست"

جاری ۔۔
 

عندلیب

محفلین
جب مجھ پر کوئی مصور کوئی خوب صورت تصویر اتارتا ہے تو لوگ حیرت سے منھ کھول دیا کرتے ہیں ، مصور نے رنگ و رامش کے امتزاج سے ایک دنیا کو حیرت میں ڈال دیا لیکن جب انسان آئینہ دیکھتا ہے تو حیرت میں نہیں پڑتا حالانکہ جس تصویر کو وہ آئینہ میں دیکھ رہا ہے بنانے والے نے اسے کئی تاریکیوں میں بنایا ہے اور اتنا روشن بنایا ہے کہ اس کے چہرے کے نور سے ایک عالم منور ہوسکتا ہے ،میں کاغذ ہوں مجھ پر تصویر بنانا آسان ہے لیکن خدائے عزوجل نے انسان کی تصویر قطرہ آب پر بنائی ہے اور قطرہ آب کو عزت ماٰب بنایا ہے ۔ لان شکرتم لازیدنکم ۔

مجھ پر اخبار چھپتا ہے اچھی بری خبریں چھپتی ہیں ، کوئی عبرت لیتا ، کوئی مزہ لیتا ہے ، اور دوسرے دن مجھے بے وقعت گردان کر کوڑے دان کی نذر کردیا جاتا ہے حالانکہ مجھ میں عبرت کے خزانے پوشیدہ ہیں اور علم کے دریا موج زن ہیں لیکن کوئی خبردار نہیں ۔ میری قدر اس وقت ہوتی ہے جب میں سکہ رئج الوقت ہوتا ہوں ، لوگ مجھے جیب سے گرنے نہیں دیتے اور اگر کہیں گرا پڑا ملتا ہوں تو حلت و حرمت کی پرواہ کئے بغیر مجھے اٹھالیتے ہیں اور اپنے سینے سے لگا لیتے ہیں ۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ایک نقش نے مجھے کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے ، ایک ٹھپے نے کیا معزز بنادیا ہے ، کاغذ ہویا انسان ایک ٹھپے کا محتاج ہوتا ہے ۔ کاغذ پر حکومت کا ٹھپہ ہوتو بینک میں چل جاتا ہے اور انسان پر ایمان کا ٹھپہ ہوتو جنت کا حق دار قرار پاتا ہے ، بعض ٹھپے تو نظر ہی نہیں آتے ان ٹھپوں کو نگاہوں سے محسوس کرنا پڑتا ہے ۔ اعمال کا ٹھپہ صورتوں پر اور اخلاص کا ٹھپہ روحوں پر لگتا ہے ۔ لیکن دیکھنے کو وہ آنکھ چاہیے جس میں خدا نے نور بصارت بخشا ہو ۔میرے اندر بھی ایک سنہرا تار ہوتا ہے جو روشنی کے رخ پر نظر آتا ہے ، میرے اندر ایک نور بھی ہوتا ہے جو خاص اندھیروں میں پہچانا جاتا ہے تاکہ میں جعل ساز لوگوں کے خردبرد سے محفوظ رہ سکوں ، تاہم اتنی احتیاط کے باوصف بازاروں میں نقلی نوٹوں کا چلن ملتا ہے نقلی نوٹ خواہ سارے ملک میں کیوں نہ اپنا لوہا منوالیں نقلی نوٹ نقلی نوٹ ہوتا ہے قعرمزلت ان کا نصیب اور چاہ سقران کا ٹھکانہ ہوتا ہے ۔پاریکھ جب نقلی نوٹوں کو دیکھے گا نذر آتش کردئے گا ۔

مجھ میں تو حافظ کی غزلیں اور خیام کی رباعیات شائع ہوتی ہیں جو دلوں کو گرماتی ہیں اور روح کو تڑپاتی ہیں ، میرے چہرے پر ہی سعدی کی گلستان اور جامی کی خارستان مرقوم ہے جو خلو ق کردار کو بام عروج پر پہنچاتی ہیں ۔ میرے رخ ہی پر تو رومی کے دفاتر لکھے ہیں جن کی شعاعیں انسان کی روح و رواں کو منور کرتی ہیں ۔میری صورت پر ہی میر و غالب کا کلام مرقوم ہوتا ہے ۔ جنہیں پڑھ کر لوگ سر دھنتے ہیں ۔ میرے گالوں ہی پر اقبال کی بانگ درا اورضرب کلیم لکھی ہوتی ہے جو خودی کے عرفان میں ممدومعاون ثابت ہوتی ہے ۔ اس کے باوصف میں کاغذ ہوں اور مجھے اپنی حیثیت کا عرفان حاصل ہے ، میں عجز و نیاز کا پیکر ہوں جب تک کہ کوئی مجھے خود نہیں چھیڑتا میں اپنے آپ کو الٹنے سے باز رکھتا ہوں ۔ میں خاموش رہتا ہوں اور ایک عالم مجھ میں بولتا ہے ۔ میرے اندر علم و فن کے دریا موجزن رہتے ہیں ، پھر بھی میں بازاروں ، بھٹیارخانوں اور ہوٹلوں میں حد تو یہ ہے کہ کچرے کے انبار میں پڑامل جاتا ہوں ، کوئی ہے جو میری قدر پہچانے ،کوئی ہے جو میری عظمت کو جانے اور میری بزرگی و مہتری کو سمجھنے کی کوشش کرے ۔ افسوس کہ اتنی برتری کے باوصف مجھ پر منٹو کی لغویات اور وہی وہانوی کی واہیات نقل ہوتی ہیں اور میں خون کے آنسو پی کر خاموش ہوجاتا ہوں، کاغذ سے زیادہ بھی کوئی مجبور شئے ہے جو آنکھوں سے لگائی جائے تو بھی خاموش رہتی ہے اور شعلہ آتش میں جلایا جائے تو بھی اف نہیں کرتی ۔ جب مجھ میں لوگ نعلین یا شراب کی بوتلیں چھپا کر لی جاتے ہیں تو دریائے حیرت میں غوطہ زن ہوجاتا ہوں ۔ لوگ اس پر بھی بس نہیں کرتے بلکہ میرے اندر گرم گرم تلی ہوئی مرچیاں ، بھجیے اور گلگلے مجھ میں لپیٹ دیتے ہیں تو مارے غصے کے میرامنھ بگڑ جاتا ہے ، اس وقت تو میں آپے سے باہر ہوجاتا ہوں جب کوئی پوہڑ ماں اپنے بچے کی اجابات کو مجھ میں ملفوف کرکے کچرکے ڈھیر میں بے نیازی سے پھینک آتی ہے ۔

جاری۔۔​
 

عندلیب

محفلین
میں کاغذ ہوں اپنی حقیقت کو خوب پہچانتا ہوں قراں کا جامہ پہن کر بھی میں نے اپنی اصلیت نہیں بھولی اور لوگ ہیں کہ کمخاب اور ریشم پہن کراپنی اصلیت بھول جاتے ہیں اور لگتے ہیں اترانے ۔ دیکھنے میں، بہت نحیف و نزار واقع ہوا ہوں ، اگر آپ مجھے صحیح تھام نہ لیں تو ہوا کا ایک جھونکا مجھے اڑا لے سکتا ہے ۔ اور آپ کو میرے ساتھ دوڑنا پڑے گا اور پھر کیا پتا میں کہاں کہاں سے ہوگزروں ۔ میں ایک کاغذ ہوں ہوا کے دوش پر سوار کہیں بھی جاسکتا ہوں بلکہ وہاں بھی جاسکتا ہوں جہاں آپ کی رسائی ہی ممکن نہ ہو لیکن اتنا سبک ہونے کے باوصف میں بہت سنگین واقع ہوا ہوں ۔ میرا ایک ایک پنا دس دس کروڑ کا ہوسکتا ہے ۔ جب میں کرنسی نوٹ کی شکل اختیار کرلیتا ہوں تو ایک عالم میرے پیچھے ہو لیتا ہے ۔ اب میری خاطر فساد ہوجاتا ہے ، بلوہ ہوجاتا ہے ، چاقو چل جاتے ہیں ، لوگ ایک دوسرے کو قتل کردیا کرتے ہیں ۔ چوری ڈکیتی ہوتی ہے اور پھر لوگ مجھ کو گن گن کر رکھتے ہیں ۔ تعجب تو مجھے ان لوگوں پر ہوتا ہے جو نہایت خوش لحن آواز میں جھوم جھوم کر باوضو پڑھتے ہیں "الذی جمع مالا و عددہ ، یحسب ان مالہ اخلدہ ، کلا لینبذن فی الحطمۃ" اور پھر نہایت خساست کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے گن گن کر بھی رکھتے ہیں ۔خرچ نہیں کرتے کم نصیبوں کو معلوم ہی نہیں کہ جب میں پڑا رہتا ہوں تو نرا کاغذ ہوں ، خرچ کیا جاتا ہوں تو نوٹ ہوں اور لوگ ہیں کہ مجھے نوٹ سمجھتے ہیں اور کاغذ بناکر صنادیق میں رکھ چھوڑتے ہیں ۔ افسوس کہ میں لوگوں کی تجوریوں میں لاکھوں ، کروڑوں اور اربوں کی شکل میں پڑا پڑا سڑ رہاہوں کوئی میرا پرسان حال نہیں ہے ، اور مزید افسوس اس پر ہے کہ ان کا بھی کوئی پرسان حال نہیں جنہوں نے مجھے بے کار رکھ چھوڑا ہے ۔ میں زرگرداں ہوں ذرا اک گیا تو نرا کاغذ ہوں ، میں بھی آسمان کے تاروں کی طرح اپنی چمک دمک دکھاتا ہوں چلتا رہتا ہوں اور مجھے تاروں کی طرح مدام چلتے رہنا چاہیے ، چلنا چلنا مدام چلنا صرف تاروں ہی کا کام نہیں مجھ کاغذ کا بھی کام ہے ۔
 
Top