کاسے میں زندگی کے چَونّی پڑی ہے عمر۔ ۔۔برائے اصلاح و تنقید

اسد قریشی

محفلین
کاسے میں زندگی کے چَونّی پڑی ہے عمر
شوقِ وصالِ یار میں گُزری بڑی ہے عمر
جس کو سنبھالا میں نے کسی کانچ کی طرح
کوہِ گَراں کے جیسے مجھ پر کڑی ہے عمر
ہر لمحہ اپنے آپ سے لڑتا رہا ہوں میں
لشکر سے تیری یاد کے تنہا لڑی ہے عمر
ہر لحظہ ٹھوکروں میں رکھا وقت نے مجھے
سینے میں اک صلیب کی جیسے گڑی ہے عمر
نازک ہے ٹوٹ جائے کبھی بھی یہ سلسلہ
سانسوں کی ڈور ہے کہ غموں کی لڑی ہے عمر
 

الف عین

لائبریرین
خوب اسد۔ مشکل قوافی میں ایک اچھی غزل۔ کچھ تقطیع کی پرابلم ہے لیکن شاید ٹائپو ہو تمہارا۔
کوہِ گَراں کے جیسے مجھ پر کڑی ہے عمر

اصلاح کی غرض سے کچھ تبدیلیاں تجویز کروں گا۔
کاسے میں زندگی کے چَونّی پڑی ہے عمر
یہاں چونی کی مثال کی ضرورت ہے۔ گرامر کی رو سے جملہ مکمل نہیں۔

جس کو سنبھالا میں نے کسی کانچ کی طرح
کو یوں کیا جا سکتا ہے تو ’کانچ‘ سے چھٹکارا مل جائے۔
شیشے کی طرح جس کو سنبھالے رکھا / ہوا تھا میں
سینے میں اک صلیب کی جیسے گڑی ہے عمر​
یوں درست ہو گا​
سینے میں اک صلیب کے جیسے گڑی ہے عمر​
اور واہ واہ، حاصل غزل​
ہر لمحہ اپنے آپ سے لڑتا رہا ہوں میں
لشکر سے تیری یاد کے تنہا لڑی ہے عمر
 

اسد قریشی

محفلین
خوب اسد۔ مشکل قوافی میں ایک اچھی غزل۔ کچھ تقطیع کی پرابلم ہے لیکن شاید ٹائپو ہو تمہارا۔
کوہِ گَراں کے جیسے مجھ پر کڑی ہے عمر
وضاحت فرمائیں کچھ سمجھ نہیں سکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اصلاح کی غرض سے کچھ تبدیلیاں تجویز کروں گا۔
کاسے میں زندگی کے چَونّی پڑی ہے عمر
یہاں چونی کی مثال کی ضرورت ہے۔ گرامر کی رو سے جملہ مکمل نہیں۔
یہاں چونّی کو مثال کے طور پر ہی استعمال کیا ہے، کوئی اور اگر ترکیب ممکن ہے تو بتائیں
جس کو سنبھالا میں نے کسی کانچ کی طرح
کو یوں کیا جا سکتا ہے تو ’کانچ‘ سے چھٹکارا مل جائے۔
شیشے کی طرح جس کو سنبھالے رکھا / ہوا تھا میں
بہت شکریہ، یہ بہت خوب ہے۔

سینے میں اک صلیب کی جیسے گڑی ہے عمر​
یوں درست ہو گا​
سینے میں اک صلیب کے جیسے گڑی ہے عمر​
جی بہتر، لیکن یہ 'کی' اور 'کے' سے میں یہاں کیا فرق ہے؟
اور واہ واہ، حاصل غزل​
ہر لمحہ اپنے آپ سے لڑتا رہا ہوں میں
لشکر سے تیری یاد کے تنہا لڑی ہے عمر
بہت نوازش!


بہت شکریہ جناب اعجاز عُبید صاحب۔
 

اسد قریشی

محفلین
دو باتیں!

1 ۔۔۔میں مطلع کے مصرعِ ثانی سے مطمعن نہیں۔۔۔میرے خیال میں جو مقام مصرعِ اولا کا ہے اس مقام پر مصرعِ ثانی نہیں، کچھ تجویز کریں

2۔۔۔۔۔۔۔۔ایک شعر اور عرض ہے:
کب زندگی پہ ہم کو اسد اختیار ہے
آگے اگر ہے موت تو پیچھے کھڑی ہے عمر
 

الف عین

لائبریرین
کوہِ گراں کے جیسے مجھ پر کڑی ہے عمر
کی تقطیع
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلات میں نہیں ہوتی
دیکھو۔
کوہے گ َ َ راں کجے۔
مفعول فاعلات
لیکن ’مجھ پر کڑی ہے عمر‘ محض مفعول فاعلات پر تقطیع ہوتا ہے۔ اسے مفاعیل فاعلن÷فاعلات پر تقطیع ہونا تھا۔

کاسے میں چونی کی طرح عمر پڑی ہے، یہی کہنا چاہتے ہو نا۔ لیکن یہ محض ’چونی پڑی ہے عمر‘ سے واضح نہیں ہوتا۔

صلیب ’کی طرح‘ درست ہے، لیکن صلیب ’کے جیسے‘۔
 
کوہِ گَراں کے جیسے مجھ پر کڑی ہے عمر

عروض کے لحاظ سے مصرع موزوں ہے
ارکان: مفعول فاعلاتن مفعول فاعلان

امیر خسرو کا شعر ملاحظہ ہو:
بے رحم وار چند زنی غمزہ بر دلم
وہ کیں دل است آخر آماج تیر نیست

خسرو کے دوسرے مصرعے کا وزن یہی ہے یعنی مفعول فاعلاتن والا۔
 

الف عین

لائبریرین
کوہِ گَراں کے جیسے مجھ پر کڑی ہے عمر

عروض کے لحاظ سے مصرع موزوں ہے
ارکان: مفعول فاعلاتن مفعول فاعلان

امیر خسرو کا شعر ملاحظہ ہو:
بے رحم وار چند زنی غمزہ بر دلم
وہ کیں دل است آخر آماج تیر نیست

خسرو کے دوسرے مصرعے کا وزن یہی ہے یعنی مفعول فاعلاتن والا۔
لیکن اس غزل کے دوسرے اشعار ارکان ’مفعول فاعلاتن مفعول فاعلان‘ میں کہاں تقطیع ہوتے ہیں۔
 
لیکن اس غزل کے دوسرے اشعار ارکان ’مفعول فاعلاتن مفعول فاعلان‘ میں کہاں تقطیع ہوتے ہیں۔

دونوں اوزان کا خلط جائز ہے۔ خسرو کا پہلا مصرع بھی مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ہی ہے۔
دوسرے مصرعے میں وہی تسکین اوسط سے کام لے کر ”فاعلات مفاعیل“ کی جگہ ”فاعلاتن مفعول“ کردیا ہے۔
 

طارق شاہ

محفلین
بے رحم وار چند زنی غمزہ بر دلم
وہ کیں دل است آخر آماج تیر نیست

مفعول ----- فاعلات---- مفاعیل------ فاعلن
بے رحْم --- وار چند --- زنی غمزہ --- بر دِلم

مفعول------- فاعلات----- مفاعیل ----- فاعلا ن
وہ کی دِ --- لس ت آ خ --- رِ آ ما ج ----- تی ر نیس

نیست کی " ت " تقطیع میں بوجہ اصولِ سوئم ساکن نہیں آئے گا
(دوسرے مصرع میں وہ کی جگہ اُو یا اُن ہونا چاہیے ، واللہ عالم )
 
بے رحم وار چند زنی غمزہ بر دلم
وہ کیں دل است آخر آماج تیر نیست

مفعول ----- فاعلات---- مفاعیل------ فاعلن
بے رحْم --- وار چند --- زنی غمزہ --- بر دِلم

مفعول------- فاعلات----- مفاعیل ----- فاعلا ن
وہ کی دِ --- لس ت آ خ --- رِ آ ما ج ----- تی ر نیس

نیست کی " ت " تقطیع میں بوجہ اصولِ سوئم ساکن نہیں آئے گا
(دوسرے مصرع میں وہ کی جگہ اُو یا اُن ہونا چاہیے ، واللہ عالم )

حضور ”وہ کیں دل است آخر“ آخر یہ دل ہی ہے۔
آماجِ تیر نیست= کوئی تیر کا نشانہ تو نہیں۔
آپ نے ”آخرِ آماج“ کی ترکیب بنا ڈالی ہے۔ اس سے تو شعر کا معنی ہی جاتا رہا ہے۔ :)
آماجِ تیر ہے۔ آخرِ آماج نہیں۔ :)
 

طارق شاہ

محفلین
کسرہ سے کوی فرق نہیں پڑتا
دونوں طریقہ سے تقطیع ایک سی ہو گی
آ پ توڑ کر دکھا دیں کہ غلط ہے
تشکر
 
کسرہ سے کوی فرق نہیں پڑتا
دونوں طریقہ سے تقطیع ایک سی ہو گی
آ پ توڑ کر دکھا دیں کہ غلط ہے
تشکر

کسرہ سے صرف مطلب پر ہی نہیں تقطیع بھی بدل دی ہے آپ نے
یہ لیجئے حضور درست تقطیع حاضر۔

مفعول------- فاعلاتن----- مفعول ----- فاعلا ن
وہ کی دِ --- لست آخر --- آ ما ج ----- تیر نیس
 

طارق شاہ

محفلین
شیخ صاحب
آپکی کی یہ تقطیع درست نہیں۔
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ درست ہے تو آپ کی ذاتی راے ہے
اس پر قایم رہنے کا آپ کو پورا اختیار ہے
بہت خوش رہیں
 

اسد قریشی

محفلین
کوہِ گراں کے جیسے مجھ پر کڑی ہے عمر
کی تقطیع
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلات میں نہیں ہوتی
دیکھو۔
کوہے گ َ َ راں کجے۔
مفعول فاعلات
لیکن ’مجھ پر کڑی ہے عمر‘ محض مفعول فاعلات پر تقطیع ہوتا ہے۔ اسے مفاعیل فاعلن÷فاعلات پر تقطیع ہونا تھا۔

کاسے میں چونی کی طرح عمر پڑی ہے، یہی کہنا چاہتے ہو نا۔ لیکن یہ محض ’چونی پڑی ہے عمر‘ سے واضح نہیں ہوتا۔

صلیب ’کی طرح‘ درست ہے، لیکن صلیب ’کے جیسے‘۔



شکریہ اعجاز صاحب،

یہاں تو بحث طویل ہوتی جا رہی ہے اور حاصل کچھ بھی نہیں، اگر گفتگو مفید ہوتی تو کوئی ہرج نہیں تھا، لیکن یہاں اختلاف بڑھ رہا ہے۔اس جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے ایک تجویز:
شیشے کی طرح جس کو سنبھالے ہوئے تھے ہم
کوہِ گراں کے جیسے ہمیں تو کڑی ہے عمر
مطلع میں تبدیل کردیں تو مفہوم کی وضاحت ممکن ہے؟


کاسا ہے زندگی، تو چَونّی پڑی ہے عمر
شوقِ وصالِ یار میں گُزری بڑی ہے عمر
اور مقطع بھی کچھ تبدیل کیا ہے:​
کب زندگی پہ ہم کو اسد اختیار ہے
آگے کھڑی ہے موت تو پیچھے پڑی ہے عمر
اب دیکھیئے۔
 
شیخ صاحب
آپکی کی یہ تقطیع درست نہیں۔
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ درست ہے تو آپ کی ذاتی راے ہے
اس پر قایم رہنے کا آپ کو پورا اختیار ہے
بہت خوش رہیں

درست تقطیع آپ فرما دیں۔ بِنا کسرہ کے حضور۔ :)
کوئی بھی اہل علم و عقل اس تقطیع کو غلط نہیں کہے گا۔ ہاں جو آپ نے تقطیع فرمائی وہ یقیناً غلط تھی۔
اب ماننا یا نہ ماننا یہ حسن ظن ہے۔ اور آپ کے بے دلیلی طور پر اس تقطیع کو غلط کہنے سے یہ تقطیع غلط نہیں ہوتی:)
خوش رہیں۔ :)
 

الف عین

لائبریرین
یعنی آپ چاہتے ہیں کے اس کا سر قلم کر دیا جائے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ؟:)
نہیں بھئی،یہ مطلب تو نہیں تھا۔ ویسے بعد میں یہ خیال بھی آیا کہ عمر اور زندگی بھی تو ہم معنی ہی ہیں۔ اسی کے کاسے میں وہ خود ہی کیسے پڑی ہے؟
 
Top