ڈیم

آپ کی رائے میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر ضروری ہے؟

  • نہیں

    Votes: 0 0.0%
  • معلوم نہیں

    Votes: 0 0.0%

  • Total voters
    39

مہوش علی

لائبریرین
نعمان نے کہا:
ہمارے یہاں ایک اور خامی یہ ہے کہ اگر استحصال سے متاثر ہونے والا طبقہ حقوق کا مطالبہ کرتا ہے تو ان پر غداری کے الزامات لگا دئیے جاتے ہیں۔ اگر سندھی یہ کہتے ہیں کہ جی پنجاب پانی ہتھیالے گا تو اسے ڈیل کرنے کا صحیح طریقہ یہ نہیں کہ سندھیوں کو پنجاب دشمن سمجھ لیا جائے۔ بلکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے جو بے ایمانیاں ہوئی ہیں ان کا ازالہ کیا جائے تاکہ اعتماد بحال ہو۔

پنجاب نے اعتماد کی بحالی کے لئیے کیا اقدامات کئیے ہیں؟ میں وعدوں کی بات نہیں کر رہا، اقدامات کی بات کر رہا ہوں۔ ابھی زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب حکومت سندھ نے این ایف سی ایوارڈ کا نیا فارمولا پیش کیا جس کے تحت ایوارڈ کی تقسیم پسماندگی، قومی آمدنی میں کنٹریبیوشن، ضروریات اور دیگر تمام عوامل کے تحت ہونا چاہئیے نہ کہ صرف آبادی کی بنیاد پر۔ اس فارمولے پر گرچہ پنجاب کے علاوہ تینوں صوبوں کا اتفاق ہے لیکن ایک سال گزرجانے کے باوجود حکومت پنجاب نے اسے منظور نہیں ہونے دیا۔ آخر کار چھ ماہ پہلے جنرل مشرف کو چاروں صوبوں نے صوابدیدی اختیار دیا کہ وہ اس بارے میں فیصلہ کریں اور ابھی تک جنرل نے کوئی اعلان نہیں کیا۔ چلیں اعتماد کی فضا بحال کریں، این ایف سی پر ہی دیگر صوبوں کو کچھ زیادہ رقم لینے دیں۔

نبیل بلوچستان اور سندھ کے وڈیروں اور سرداروں کی بات کرتے ہیں۔ جناب اگر سندھ اور بلوچستان کے پاس پانی ہوگا، فنڈز ہونگے تو ان حکومتوں کے منصوبوں پر عمل درآمد ہوگا۔ جن سے تعلیم، صحت اور معیشت میں بہتری آئے گی اور عوام وڈیروں کے چنگل سے نکل سکیں گے۔ ان صوبوں کو وفاق سے جو فنڈز ملتے ہیں وہ انتہائی نامناسب ہوتے ہیں۔ ان قلیل رقموں سے تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع پیدا نہیں کئیے جاسکتے بلکہ زیادہ تر رقم تو صوبوں کی انتطامی حالت پر ہی خرچ ہوجاتے ہیں۔ حکومت سندھ کو حصہ وفاق سے ملتا ہے اور جو حصہ وہ صوبائی محصولات سے حاصل کرتے ہیں ان سے تو صرف کراچی کی سڑکیں بھی صاف نہیں رکھی جاسکتیں۔ پھر اس پسماندگی کا الزام وڈیروں کو دینا صحیح نہیں ہے۔ میرے خیال میں یہ وڈیرے اور سردار پنجاب کے مخدوموں چوہدریوں اور لٹیروں سے زیادہ کرپٹ نہیں ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ نئے معاشی بوم کے نتیجے میں پنجاب تو دمک رہا ہے مگر سندھ اور بلوچستان مزید بدحال ہوتے جارہے ہیں؟

میں یہ مشورہ دونگا کہ شعیب کے فراہم کردہ لنک پر جو رپورٹ ہے اس کا فائنل چیپٹر دیکھا جائے۔ حالانکہ اس اخبار امت کی صحافتی دقعت کوئی نہیں ہے مگر پھر بھی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کالا باغ ڈیم میں چند ایک فنی نقائص موجود ہیں۔ جو پانی کی تقسیم کے تنازعے کے علاوہ ہیں۔

دوست بھائی میں نے تو یہ سنا تھا کہ منگروو فاریسٹ جنہیں ماحولیاتی خطرہ ہے وہ زیادہ تر بحیرہ عرب کی ساحلی پٹی پر انڈس بیسن کے پاس ہیں۔ اور اکثر مقامات پر وہاں اتنا پانی ہے کہ اونٹوں کا وہاں پہنچنا قابل عمل نظر نہیں آتا۔ ہاں البتہ جامعہ کراچی کے میرین ریسرچ دیپارٹمنٹ نے اس بارے میں تجربات کئیے تھے کہ منگروو جانوروں کے لئیے بہت اچھا چارہ ثابت ہوسکتا ہے۔ بحیرہ عرب میں منگروو ختم ہونے کی وجہ دریائے سندھ سے کم پانی کی آمد اور کراچی کے انڈسٹریل ویسٹ ہیں نہ کہ اونٹوں کے پیر۔

ایک اور بھائی کہتے ہیں کہ چین بلوچستان میں دلچسپی متحدہ پاکستان کی وجہ سے لے رہا ہے۔ بھائی چین کو پاکستان سے زیادہ بحیرہ عرب میں اپنے اسٹریٹیجک مفاد عزیز ہیں۔ کراچی والوں کو اگر الگ ہونا ہوتا تو کب کے ہوچکے ہوتے۔ یہ کوئی اتنا مشکل کام نہیں ہے۔ مگر جو سیدھی سی بات ہم سب نظر انداز کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ بالآخر ہم سب پاکستانی ہیں اور اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں۔ اور میں تو یہ دعوی کرتا ہوں کہ سندھ کے لوگ باقی تمام صوبے کے لوگوں سے زیادہ محب وطن ہیں۔


آپ لوگوں کے مقابلے میں میرا پاکستان سے رشتہ شاید اتنا مضبوط نہیں ہے کیونکہ میں یورپ کی پروان چڑھی ہوں۔

تمام تر بحث دیکھنے کے بعد برادر نعمان میں آپ سے اس نکتہ پر اتفاق کر سکتی ہوں کہ کالا باغ ڈیم بننے سے منگروو جنگلات ختم ہو سکتے ہیں۔

ہو سکتا ہے کہ سندھ کی ڈیلٹا کی زمینیں بھی بنجر ہو جائیں۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔

میں اس مسئلہ کو اس نقطہ نظر سے دیکھ رہی ہوں کہ بعض مواقع ایسے آتے ہیں کہ ہمیں دو Evils میں سے چھوٹے Evil کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔

آپ نے مینگروو اور ڈیلٹا کی پرابلم کا ذکر تو کر دیا، مگر یہ نہیں بتایا کہ ڈیم نہ بنانے کی صورت میں آپ کے پاس متبادل کیا ہے؟

مجھے جو چیز نظر آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ ڈیم نہ بننے کہ صورت میں سندھ کہ زیادہ زمینیں بنجر ہوں گی اور غریبی زیادہ پھیلے گی، فنڈز اور زیادہ کم ہوں گے۔۔۔۔۔

یعنی ڈیم نہ بننے کی صورت میں صرف نقصان ہی نقصان ہے اور مجموعی طور پر صرف معکوس ترقی کا عمل ہے۔

اس کے مقابلے میں ڈیم بننے کی صورت میں اگر ایک جگہ نقصان ہو گا تو دوسری طرف فائدہ بھی ہوگا جو کہ نہ صرف نقصانات کی تلافی کر دے گا بلکہ مجموعی طور پر مثبت ترقی ہو گی اور فنڈز زیادہ میسر ہوں گے۔

لہذا ڈیم کے مخالفین کا ان نقصانات کی وجہ سے ڈیم کو مسترد کر دینا میری رائے میں مثبت قدم نہیں ہے۔

[یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بہت کچھ اچھا پانے کے لیے کبھی کبھار تھوڑی بہت قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں۔ اگر ڈیم بننے سے سندھ کو مجموعی طور پر فوائد زیادہ اور نقصانات کم ہیں تو پھر ڈیم کی مخالفت صحیح نہیں۔

جہاں تک کراچی کی عوام کا تعلق ہے، تو اُن کے لیے بھی کالا باغ ڈیم انتہائی ضروری ہے۔ کراچی ایک صنعتی شہر ہے اور ایک صنعتی شہر کے لیے بجلی شہ رگ ہے۔

اگر کالا باغ ڈیم سے بجلی نہیں پیدا ہو گی تو کراچی کی عوام کیا کرے گی؟ یہ وہ نکتہ ہے جس پر ایم کیو ایم کی قیادت (یا پھر کراچی کی مہاجر عوام) نے کوئی روشنی نہیں ڈالی ہے، بلکہ وہ ہمیشہ اس حقیقت سے کترا کر گذر جاتے ہیں اور کوئی جواب نہیں دیتے۔

ہو سکتا ہے کہ اُن کے پاس شاید اس سوال کا کوئی جواب ہو بھی نہیں۔ اس صورت میں کالا باغ ڈیم کی مخالفت غیر حقیقت پسندی ہے اور ایک منفی رجحان ہے۔

ایک اور چیز عرض کر دوں کہ آپ جس اردو اخبار کے آرٹیل کے آخری حصے کا حوالہ دے رہے ہیں، انہوں نے تجویز پیش کی ہے کہ ڈیم کی بجائے کالا باغ پر بیراج بنا دیا جائے۔

مجھے اس تجویز پر حیرت ہے۔

بیراج اور ڈیم میں کیا فرق ہے؟ دونوں کا کام پانی کو ذخیرہ کرنا ہے اور اگر فرق ہے تو صرف یہ کہ ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ بجلی بھی پیدا کی جا سکتی ہے۔

لہذا ڈیم بنانے سے سندھ کو جو نقصانات ہوں گے، وہی نقصانات بیراج بنانے سے بھی ہوں گے۔

مختصر الفاظ میں یہ عرض کروں گی کہ کالا باغ ڈیم کے مخالفین حضرات کی طرف سے صرف مخالفت ہی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ بہتر ہوتا کہ وہ کالا باغ ڈیم کا کوئی صحیح متبادل بھی پیش کرتے (جبکہ نظر یہ آتا ہے ہے وہ کوئی متبادل پراجیکٹ پیش کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہیں)۔

نوٹ:

کچھ حضرات نے اخبارات کے ذریعے کالا باغ ڈیم کے کچھ متبادل پیش بھی کیے ہیں۔ لیکن اگر اُن متبادل پروجیکٹز پر نظر ڈالی جائےتو اُن پر اٹھنے والے اعتراضات کی تعداد کالا باغ کی نسبت بہت زیادہ ہے۔

میری یہ پُر خلوص دعا ہے کہ کالا باغ ڈیم کا مسئلہ پُر امن طریقے سے حل ہو جائے۔ انشاء اللہ۔
 

دوست

محفلین
بہت اچھی گفتگو چل رہی ہے بات پیش گوئی کی جہاں تک ہے تو ہر کسی کا اپنا عقیدہ ہے۔ آپ کا خیال ٹھیک ہے کہ ترقی کے لیے ہاتھ پیر ہلانا ہونگے میں نے صرف ایک بات کی تھی ذرا حوصلہ دینے کے لیے۔
نعمان بھائی مینگروز کے لیے سارے سندھ کو بنجر کردیں؟؟؟
اب یہ ہی حل ہے ہمارے پاس۔ ویسے اطلاع کے لیے عرض ہے کہ پاکستان کا پجھتر فیصد پانی تین ماہ یعنی پندرہ جون سے پندہ ستمبر تک سمندر میں چلا جاتا ہے اور باقی سارا سال دریا کو دیکھ کر تالیاں ہی بجائی جاسکتی ہیں۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ پانی ضائع ہو رہا ہے۔ اس کو ذخیرہ کر لیں ۔ میرا نہیں خیال اس کا مینگروز کو کوئی فائدہ ہوگا۔ رپورٹ جس کا میں نے ذکر کیا من وعن اخبار سے نقل کی تھی اس کی صداقت وہ لوگ جانیں جنھوں نے اسے مرتب کیا تھا۔
کراچی کو بجلی کے ای ایس سی سپلائی کرتی ہے اسے بجلی کون دیتا ہے؟؟؟ منگلا تربیلا سے ظا ہر ہے اور باقی خود پیدا کرتی ہے اگر بجلی کی کمی ہوگی جو کہ یقینًا ہو گی تو اسے مجبوًرا مہنگی بجلی پیدا کرنی اور خریدنی پڑے گی چاہے یہ حکومت کے پاس رہے یا نہ رہے نقصان تو کراچی والوں کا ہی ہے۔
ڈیم کا ڈھانچہ ایسا بنا سکتے ہیں کہ اس میں سے کوئی نہر نہ نکلے زور لگاتے رہیں بعد میں آنے والے نہر نکالنے کے لیے اس کا ایک ہی حل ہو گا کہ ڈھا کر بناؤ مگر نہر نہ نکالی تو سرحد کا وہ علاقہ سیم و تھور زدہ ہو جائے گا۔
 

نعمان

محفلین
نبیل بھائی میں وڈیروں کی حمایت نہیں کررہا میں صرف یہ بتا رہا ہوں کہ سندھ کی بدحالی میں سارا قصور وڈیروں کا نہیں ہے۔

محترمہ مہوش۔ مجھے کالا باغ پر اعتراض نہیں مجھے اعتراض اس بات پر ہے کہ سندھ کے اعتراضات کو دقعت نہیں دی جارہی۔ سندھ حکومت اور مختلف سندھی حلقوں نے عرصہ تیس سال میں حکومت کو متعدد سفارشات پیش کی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے تجاویز ہی نہیں دیں۔ بلکہ ان کی ہر تجویز کو ناقابل عمل قرار دے کر رد کردیا جاتا ہے۔ تقریبا تمام پاکستانی چینلوں پر کالا باغ کی بحث ہورہی ہے اخبارات بھی دونوں طرف کے موقف پیش کر رہے ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ وفاق سندھ کو یہ اعتبار نہیں دلا پارہا کہ پانی کی تقسیم منصفانہ ہوگی۔ صوبہ سندھ کی حدود سے پہلے نکالی گئی کوئی بھی نہر سندھ کو قبول نہیں ہے۔ سندھ یہ نہیں کہتا کہ منگروو کو بچانے کے لئیے ڈیم نہ بنائیں بلکہ گذارش یہ ہے کہ دریائے سندھ سے عالمی ماحولیاتی معیار سے کچھ کم پانی سمندر میں گرایا جائے۔ میں اس اردو اخبار کی رپورٹ سے متفق نہیں ہوں میں صرف تکنیکی نقائص کی طرف اشارہ کرنا چاہتا تھا۔

دوست بھائی، کراچی کے لئیے صرف ایک لائن براستہ جامشورو آتی ہے۔ کراچی کی بجلی کینپ (کراچی نیوکلیر پاور پروجیکٹ)، حب پاور پلانٹ، چند ایک دیگر گیس اور تھرمل پروجیکٹ، کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کے اپنے تھرمل یونت، اور کئی بڑے ادارے خود اپنے طور پر بھی ڈیزل اور سولر انرجی پروڈیوس کر رہے ہیں۔ صورتحال یوں ہے کہ ہائیڈرل کے علاوہ کراچی میں گیس اور تھرمل اور نیوکلئیر توانائی بھی دستیاب ہے جو کہ مجموعی طور پر ہائیڈرل پاور سے زیادہ ہے۔ جب کہ شہر کی ضروریات میں ہر سال تین فیصد اور آبادی میں پانچ فیصد اضافہ ہورہا ہے۔ کالا باغ بننے تک تو کراچی ایسے ہی اندھیرے میں ڈوب چکا ہوگا۔ لحاظہ نیوکلئیر انرجی کراچی کے لوگوں کا پسندیدہ آپشن ہے۔

کے ای ایس سی پچھلے کئی سالوں سے فوج کے ہاتھوں میں تھی جس دوران محکمے کے نقصانات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ یہ سب نقصانات کمپنی کی نئی انتظامیہ کراچی کے صارفین سے وصول کرے گی۔ چاہے کالا باغ بنے یا نہ بنے کراچی کو باقی پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ مہنگی بجلی ہی ملے گی۔

کراچی کی پانی کی ضروریات کے لئیے ڈیسالنیشن کا آپشن موجود ہے علاوہ ازیں کراچی کے مشرق میں جہان دریائے سندھ سمندر میں گرتا ہے وہاں بجلی اور پانی کے حصول کے لئیے چھوٹے ڈیم بنائے جاسکتے ہیں۔ جو کم وقت اور کم لاگت میں بن سکتے ہیں۔

مہوش نے ایم کیو ایم کی خاموشی کا ذکر کیا تو جناب ایم کیو ایم نے تو کے ای ایس سی کی پرائیویٹائزیشن پر بھی کوئی شور نہیں مچایا، حالانکہ پرائیویٹائزیشن کے بعد کراچی کے شہری بہت بے بس ہوگئے ہیں۔ ایم کیو ایم کا تو بس یہ ماننا ہے کہ پاک فوج کو کسی طرح کراچی کی یوٹیلیٹیز سے نکال دیا جائے، کے ای ایس سی کے بعد ان لوگوں نے واٹر بورڈ پر بھی ہاہاکار مچارکھی ہے۔ وہ بھی پرائیویٹائز ہوجائے گا تو ہم کسی سے فریاد کرنے کے لائق ہی نہیں رہیں گے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ میڈیا ایم کیو ایم کے مکمل کنٹرول میں ہے اور صرف ان کے مفاد میں اطلاعات فراہم کرتا ہے اسلئیے پراوئیٹائزیشن سے ہونے والے نقصانات کا کراچی کے لوگوں کوئی اندازہ نہیں ہے۔

کالاباغ سے کراچی کے کوئی قابل ذکر مفادات وابستہ نہیں نہ ہی اس کا کراچی کی مقامی سیاست سے کوئی تعلق ہے۔ مسئلہ دیہی سندھ کا ہے ایم کیو ایم بھی ڈیم پر اسی لئیے دوغلی پالیسی اختیار کئیے ہوئے ہے کیونکہ انہیں میرپور خاص اور حیدرآباد سے بھی الیکشن جیتنا ہوتا ہے۔ سیاسی مسائل نہ ہوتے تو ایم کیو ایم کھل کر ڈیم کی حمایت کر رہی ہوتی۔

بحث سمیٹتے ہوئے میں بس یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ بطور پاکستانی ہم سب کا فرض ہے کہ دوسرے پاکستانیوں کے ساتھ نا انصافی نہ ہونے دیں۔ چونکہ میرا تعلق صوبہ سندھ سے ہے اسلئیے میں نے یہ ضروری سمجھا کہ سندھ کے خدشات زیر بحث لائیں جائیں۔ میں معذرت خواہ ہوں اگر میرے دیگر ہموطنوں کو اس بحث سے کچھ رنج ہوا ہو۔
 

مہوش علی

لائبریرین
نعمان صاحب، مجموعی طور پر آپ کی سوچ مجھے بہت مثبت لگی۔ ماشاء اللہ۔

اگر ہم غور کریں تو معلوم ہو گا کہ انسانی فطرت کی کچھ کمزوریاں ہوتی ہیں جو بعض مرتبہ اُسے آگے نہیں بڑھنے دے رہی ہوتی ہیں۔

ہم سب متفق ہیں کہ ماضی میں پنجاب کے حکمران طبقہ کی طرف سے یا فوج کی طرف سے زیادتیاں ہوئی ہوں اور سندھ کو اُس کا مکمل حصہ نہ ملا ہو۔ ہم اس پر بھی متفق ہیں کہ سندھ کی بدحالی میں کچھ نہ کچھ حصہ وڈیروں کا بھی ہے۔

لیکن مجھے ابھی تک یہی محسوس ہو رہا ہے کہ اہلِ سندھ، اہل کراچی، اہل بلوچستان اور اہلِ سرحد ان زیادتیوں کے نام پر کالا باغ ڈیم سے انصاف نہیں کر رہے ہیں۔

دیکھیئے نعمان صاحب، آپ نے فرمایا کہ آپ کالا باغ ڈیم کے مخالف نہیں ہیں، مگر مجھے یہ بھی نظر نہیں آیا کہ آپ نے کالا باغ سے مکمل انصاف کیا ہو۔

سوال یہ ہے کہ یہ مکمل انصاف کیا ہے؟

میری نظر میں مکمل انصاف یہ ہو گا کہ آپ زیادتیوں کی بات کریں، آپ فنی نقائص پر اپنی آراء پیش کریں۔ ۔ ۔ یہ سب کچھ کریں مگر ساتھ میں کھل کر (بلکہ بہت کھل کر) ڈیم بنانے کی حمایت بھی کریں اور لوگوں کو سمجھائیں کہ ڈیم پاکستان کے مستقبل کے لیے کتنا ضروری ہے (یعنی صرف نقصانات کا ذکر کرتے رہنا اور فوائد کو سامنے نہ لانا ناانصافی و زیادتی ہے۔ اسی طرح مستقبل میں مجموعی طور پر پاکستان کو پانی و بجلی کے جو مسائل پیدا ہوں گے اُن کو مکمل طور پر نظر انداز کیے رہنا ۔ ۔ ۔ اُن پر کچھ گفتگو نہ کرنا ۔ ۔ ۔ اُن کا کوئی حل پیش نہ کرنا۔ ۔ ۔ یہ ایک مثبت رویہ نہیں کہلایا جا سکتا)

اب آتے ہیں کہ کیا کراچی کو کالا باغ ڈیم سے کوئی فائدہ ہو گا یا نہیں۔ اور چونکہ اہل کراچی کو کوئی فائدہ نہیں اس لیے کیا اُن کا یہ طرز عمل صحیح ہے کہ وہ اپنی سیاسی ساکھ بنانے کے لیے کالا باغ ڈیم کی مخالفت کریں؟

ایم کیو ایم اہل کراچی کی ایک نمائندہ جماعت ہے جس سے انکار ممکن نہیں ہے۔ (انہیں اہل کراچی کی کم از کم نصف آبادی کی حمایت حاصل ہے)۔ کالا باغ ڈیم کے حوالے سے کم از کم ایم کیو ایم کی قیادت نے منفی کردار ادا کیا ہے اور بطور پاکستانی ایک سوچ اپنانے کے دیگر لسانی قوتوں کی سیاسی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے (اور یہ کالا باغ ڈیم سے سخت نا انصافی ہے۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ صرف سندھی ہی ان کے بھائی نہیں ہیں بلکہ پنجابی بھی ان کے بھائی ہیں اور ایک کو ناجائز طور پر خوش کر کے دوسرے بھائی کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کا انہیں کوئی حق نہیں ہے)۔


مزید براں نعمان صاحب، آپ نے فرمایا ہے کہ صرف جامشورو سے ایک لائن آ رہی ہے جس سے کے ایس سی کراچی کو کچھ بجلی فراہم کر رہا ہے۔ جبکہ بقیہ بجلی کینوپ اور ڈیزل وغیرہ سے حاصل ہوتی ہے اور اس لیے کالا باغ ڈیم بننے سے کراچی کو کوئی فائدہ نہیں۔

ہو سکتا ہے کہ آپ کی یہ تھیوری درست ہو۔ مگر میں آپ کو دعوت دیتی ہوں کہ آپ اس زاویے سے دیکھیں کہ اگر کالا باغ ڈیم سے سستی اور زائد بجلی پیدا ہو، اور وہ ڈیزل کے مقابلے میں سستے نرخوں پر کے ایس سی کو پیشکش کریں تو کیا کے ایس سی اس پیشکش کو ٹھکرا کر پھر بھی ڈیزل سے مہنگی بجلی پیدا کرتی رہے گی؟

بالفرضِ محال کالا باغ سے زائد بجلی نہیں بھی پیدا ہوتی اور اس بنیاد پر اہلِ کراچی کالا باغ کی مخالفت جاری رکھتے ہیں اور اسے نہیں بننے دیتے۔۔۔۔ تو اس صورتحال کے مجموعی نتائج کو دیکھیں تو وہ یہ نکلیں گے کہ اہلِ پنجاب و سرحد و کشمیر وغیرہ بھی ڈیزل سے مہنگی بجلی پیدا کر رہے ہوں گے اور ملک کا کثیر زرِ مبادلہ اس مد میں خرچ ہوتا رہے گا اور وفاقی حکومت نے جو میگا پروجیکٹ کراچی کے لیے شروع کیے ہوئے ہیں وہ انہیں جاری نہیں رکھ سکے گی۔

مختصراً کالا باغ کی عدم موجودگی سے اہلِ کراچی کسی نہ کسی طور پر ہر صورت میں متاثر ہوں گے۔ اس حقیقت سے انکار کرنا اس بات کی علامت ہے کہ لوگ جزئیات میں پڑ کر مجموعی تصویر کو دیکھنے کی صلاحیت سے عاری ہو چکے ہیں۔

نعمان صاحب، آپ نے یہ بات بھی بیان کی ہے کہ کے ایس سی پر فوجی سربراہ رہے جنہوں نے کے ایس سی کو ترقی نہیں کرنے دیا۔ اور یہ کہ اب کے ایس سی کی پرائیٹائزیشن بھی اہلِ کراچی کے لیے نقصان دہ ہے۔

آپ کی یہ باتیں بالکل بجا ہو سکتی ہیں۔ مگر ان باتوں کو بھی بنیاد بنا کر کالا باغ کی مخالفت کرنا ناانصافی ہے کیونکہ کالا باغ کا کے ایس سی کی پرائیویٹائزیشن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
بہ صورتِ دیگر کیا آپ اس بات پر روشنی ڈال سکتے ہیں کہ کے ایس سی کی پرائیویٹائزیشن کے بعد وہ کون سے عوامل پیدا ہو گئے ہیں جن کے وجہ سے کالا باغ ڈیم کا بننا اہلِ کراچی کے لیے نقصان دہ ہے؟


آخر میں بس یہی عرض کرنا ہے کہ ہمیں اپنے ماضی اور ماضی کی غلطیوں میں پھنس کر نہیں رہ جانا چاہیے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ کالا باغ ڈیم کے مخالفین کی جانب سے جو تنقید ہو رہی ہے، وہ مثبت تنقید کی بجائے زیادہ تر منفی تنقید ہے جس کی وجہ سے مسائل حل ہونے کی بجائے مزید الجھ رہے ہیں۔

میرے سامنے صدرِ پاکستان کا یہ اعلان بھی موجود ہے کہ وہ گارنٹی دیتے ہیں کہ کالا باغ دے کوئی نہر نہیں نکلے گی۔ اس گارنٹی کو آئینی تحفظ کیسے دیا جائےِ اس پر تو بات ہو سکتی ہے، مگر اس پیشکش کو یہ کہتے ہوئے ٹھکرا دینا کہ ماضی میں ایسے وعدے توڑے گئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ یہ رویہ ہمیں آگے نہیں بڑھنے دے گا۔
 

اظہرالحق

محفلین
جی ہاں میں جذباتی ہوں ۔ ۔ ۔ اور اسکی بہت ساری وجوہات ہیں
۔ میں نے جو کچھ دیکھا ہے ، وہ اگر آپ لوگ دیکھ لیں تو شاید پاکستان پر اتنا فخر کریں کہ ۔ ۔ ۔ آپ کو لوگ دیوانہ سمجھیں
- کالا باغ ڈیم ہی وجہ نہیں ہے ہم میں انتشار کی ، اور بھی بہت سارے مسلئے ہیں ، میری نظر میں کالا باغ ڈیم ضروری ہے ، کہ اس پر ابتدائی رپورٹ اور کام (سروے) ہو چکا ہے ، یہاں پر سارے بزرجمہروں نے باتیں کیں ، مگر ایک بات کا جواب کوئی نہیں دے پایا کہ اگر “استحصالی پنجاب “ کو “زیر“ کر لیا جاتا ہے “دباؤ“ سے اور کالا باغ نہیں بننے دیا جاتا اور 2020 تک جو کچھ ہو گا اس کا جواب دہ کون ہو گا ؟ یہ سیاستدان یا وہ عوام جو ڈیم کی مخالفت میں “شھید“ ہونے کو تیار ہے ۔ ۔ ۔ ہم عوام تو کٹھ پتلیاں ہیں ، جن کی ڈوریں “لندن“ ، “دبئی“ اور “جدہ“ میں ہیں ۔ ۔ ۔ جب “وہ“ چاہیں گے جیسے وہ چاہیں گے ہم “ناچیں“ گے ۔ ۔ ۔
رہی بات حکومت کی مخالفت کی تو میرے دوستو صرف ایک “ٹیلی فونک“ خطاب کی مار ہے یہ حکومت ۔۔۔۔۔ سارے “پرویز“ “صاف“ ہو جائیں گے ۔ ۔ ۔

- تیکنیکی حوالہ صرف اتنا ہی کافی ہے ، اس ڈیم کی وجہ سے آپ سیلاب کو کنٹرول بھی کر پاؤ گے اور ، بارانی فصلوں کی کاشت میں اضافہ ہو سکے گا ، جنگلات کے حوالے سے اتنا بتا دوں ۔ ۔ ۔ سندھ کے ڈیلٹا میں سیلابی دنوں میں کٹاؤ زیادہ ہو رہا ہے ۔ ۔ ۔ اور سمندر کا پانی اندر کی طرف آ جاتا ہے جس کی وجہ سے شور زدہ علاقے میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ ۔ ۔۔

- دوسرے ڈیموں پر سوچا جانا چاہیے ، بھاشا منڈا وغیرہ بھی آپشن ہیں ۔ ۔ ۔ مگر انکی ابتدائی تحقیق پر وقت لگے گا ، اور اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ان پر کوئی نہیں بولے گا ۔؟

- ایک اور وجہ جو مجھے سمجھ آتی ہے ، اس وقت اس مسلئے کو چھیڑنے کی ، کہ عوام کی توجہ مہنگائی اور بے روزگاری کے مسلئے سے ہٹائی جائے ۔ ۔ ۔ یعنی ڈیم سے ڈیم فول بنایا جا رہا ہے اور ہم بن گئے ہیں

- میرے ایک دوست نے ایک بزرگ کا حوالہ دیا ہے ، یہ حوالے شہاب نامہ (از شہاب الدین شہاب ) اور لبیک (از ممتاز مفتی ) میں موجود ہیں لیکن سب سے بڑا شاہد میں خود بھی ہوں ۔ ۔ ۔ کہ اس وطن کا حوالہ اور ذکر ان محفلوں میں ہے ، جہاں ہمارے دل و جاں فدا ہیں ۔ ۔ کاش میں یہ سب آپ لوگوں کو دکھا سکتا ۔ ۔ ۔بتا سکتا ۔ ۔

آخر میں ایک پیارا سا گیت یاد آ گیا ۔ ۔ ۔ ذرا آج کل کے حالات کو سامنے رکھ کر پڑھیے گا اچھا لگے گا

ہم سب ہیں لہریں ، کنارہ پاکستان ہے
آنکھوں کا روشن ، ستارہ پاکستان ہے

یہ وہ دیس ہے ، جس نے ہم کو عزت دی ہے نام دیا ہے
دنیا میں ہیں ملک ہزاروں ، لیکن اس جیسا کہاں ہے
ہم کو تو پیارا، ہمارا پاکستان ہے
ہم سب لہریں ، کنارہ پاکستان ہے

جی ہاں کاش ہم سمجھ سکیں ۔ ۔ ۔ ۔۔ کہ کنارہ پاکستان ہے
 

نعمان

محفلین
جنرل مشرف کی گارنٹی کی کیا حیثیت ہے؟ آج ایک آمر ہے کل دوسرا ہوگا۔ ایک آمر گارنٹی دے گا دوسرا اسے توڑدے گا۔

میں ایم کیو ایم کی حمایت نہیں کرتا مگر ایم کیو ایم نے کالا باغ ڈیم کی کھل کر مخالفت نہیں کی وہ یہ ہی کہتے ہیں کہ سندھ کے تحفظات دور ہونا چاہئیے۔

مجھے افسوس ہے یہ کہتے ہوئے مگر حقیقت یہ ہے کہ کراچی کی عوام کو ملکی مفاد سے زیادہ اپنے شہر کے مفاد عزیز ہوتے جارہے ہیں۔ کراچی کے عوام تقریبا کالا باغ سے لاتعلق ہیں۔ اگر ڈیم بنتا ہے تو کراچی سے کوئی قابل ذکر احتجاج نہیں ہوگا۔ جس طرح سندھ کے عوام کے یہ تحفظات ہیں کہ انہیں پانی نہیں ملے گا اسی طرح کراچی کی عوام کو یہ یقین ہے کہ انہیں سستی بجلی نہیں ملے گی۔ چاہے مزید نیوکلیر پلانٹس لگیں یا سو ڈیم اور بن جائیں ہمارے بلوں سے کے ای ایس سی کا خسارہ اور حکومت پاکستان کے بجٹ خسارہ جات پورے ہونگے اس میں نہ کوئی شبہ ہے اور نہ شک۔

کراچی کے کن میگا پروجیکٹس کی بات کر رہی ہیں آپ؟ پندرہ کروڑ آبادی والے شہر میں چند فلائی اوورز کی تعمیر کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ شاید آپ کو پتہ نہ ہو کراچی کے لوگوں کو تو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ ابھی اسی سال کئی بچے گیسٹرو سے کراچی ہی میں ہلاک ہوئے ہیں۔ جرائم، دہشت گردی، مذہبی انتہا پسندوں کے حملے، مائیگریشن، اربن اسپرال، ٹرانسپورٹ، ہمارے مسائل کے لئیے تیس چالیس ارب روپے کچھ بڑی رقم نہیں ہیں۔ کراچی کے عوام کو وفاق سے کوئی خاص مدد کی امید بھی نہیں ہے۔ سندھی تو پھر بھی وفاق سے لڑ رہے ہیں کراچی کے عوام تو بس دل کی بات دل میں لئیے بیٹھے ہیں۔

جیسے میں نے پہلے دو بار عرض کیا کہ ذاتی طور پر میں ڈیم مخالف نہیں ہوں نہ ہی میں یہ کہہ رہا ہوں کہ سندھیوں کے اعتراضات کے تحت ڈیم تعمیر نہ کیا جائے۔ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ سندھیوں کے اعتراضات کو مناسب طریقے سے ہینڈل کیا جائے۔ مثال کے طور پر حکومت پنجاب پنجاب اسمبلی میں بل پیش کرے جس کے تحت ایسی قانون سازی کی جائے کہ پنجاب حکومت ڈیم سے کوئی نہر نہیں نکالے گی۔ وفاقی اسمبلی میں بھی ایسی قانون سازی کی جائے۔ سندھ حکومت کو ان کے مطالبے کے مطابق این ایف سی دے دیا جائے۔ کالاباغ کے جو نقائص ماحولیات اور سندھ کی معیشت کے حوالے سے میں نے پچھلی دو پوسٹوں میں اختصار سے عرض کئیے ہیں ان کو ہینڈل کیا جائے۔

میں پہلے بھی یہ عرض کر چکا ہوں کہ جو گارنٹی جرنل آج دے رہا ہے وہ تو کب سے دی جارہی ہے۔ آخر گارنٹی ہے کیا؟ پاکستان فوج کا اعتبار کیا ہے جو سندھی عوام جرنل کی گارنٹی قبول کریں؟ کیا جرنل اگلے سو سال تک برسر اقتدار رہے گا؟ پنجاب کے منتخب نمائندے بات کریں تو کوئی گارنٹی بنتی ہے۔ ہم تو پنجاب کو جانتے ہیں کیونکہ ہمیں پنجاب کے ساتھ رہنا ہے جرنل کا اس سے کیا لینا دینا اور وہ ہوتا کون ہے گارنٹی دینے والا؟ اس کی تو خود کی قانونی حیثیت متنازعہ ہے۔

گیت گانے سے تو کچھ بھلائی نہیں ہوگی۔ اگر سندھ کو چند بڑے ایولز سے بچنے کے خاطر ایک چھوٹا ایول قبول کرلینا چاہئیے تو ایسی ہی سوچ پنجاب کو اپنانی چاہئیے۔ اور بات اگر ناانصافی کی چھڑ چکی ہے تو ابتدا پچھلی ناانصافیوں کے ازالے سے کی جاے تاکہ اعتماد پیدا ہو۔ جرنیل کو اگر اتنا ہی سندھ کا درد ہے تو این ایف سی ایوارڈ کا ہی اعلان کردے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
نعمان، بہت شکریہ۔ تم جوانمردی سے اکیلے ہی سندھ کا کیس لڑ رہے ہو۔ یہ بتاؤ عتیق کہاں گئے؟ کہیں ناراض تو نہیں ہوگئے؟
 

اظہرالحق

محفلین
یار لگتا ہے کہ ہماری قوم نے اجتماعی خودکشی کی تیاری کر لی ہے

سندھ کی بات کر رہے ہیں سائیں آپ ۔ ۔ ۔ آپ کو پتہ ہے کہ اگر کسی بھی ڈیم کی وجہ سے سندھ کے چھوٹے ہاریوں کی زمینیں آباد ہو گئیں تو بڑے “وڈیروں“ کا کیا ہو گا؟

اور رہی بات کراچی کی اور ایم کیوایم کی ۔ ۔ ۔ اس کراچی کو تباہ کرنے والی ایم کیوایم ہے ، میں نے اپنی آنکھوں سے وہ ٹارچر سیل دیکھے ہیں جو “قائد“ کے غداروں کے لئے بنائے گے تھے ، اور عوامی جمہوریہ کراچی کے نقشہ جات 90 سے ملے تھے ، عزیزآباد کے لوہے کے گیٹ مجھے آج بھی یاد ہیں ، اور ان “مہاجر“ ماؤں اور بہنوں کے بین بھی یاد ہیں ۔ ۔ ۔ اور آج کے بڑے بڑے جلسے میں لائے جانے والے لوگوں کی بے بسی بھی میرے سامنے ہے ۔ ۔ ۔ میرے ایک بزرگ نے کہا تھا ، بیٹا اب ہم میں جوانوں کی لاشیں اٹھانے کی طاقت نہیں اسی لئے ہم اس “قائد“ کو برداشت کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔ سو ایم کیوایم کی حیثیت صرف ایک پریشر گروپ کی ہے جو کسی بھی آمر سے میل کھا سکتی ہے ، اور کبھی بھی کیس “جمہوری“ حکومت کو بھی ٹھڈا مار سکتی ہے ۔ ۔ ۔ سو اس کی بات کو کم سے کم میں سیریز نہیں لیتا ۔ ۔

سندھ کے عوام کا مسلئہ ، وڈیرہ شاہی ہے اور “پیر سائیں “ بھی

سندھ کی دھرتی پیار کی دھرتی ہے ، کاش کوئی سچل اور بھٹائی کے پیغام سمجھ سکتا ۔ ۔ ۔ ۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
اظہر الحق، پوسٹ کا شکریہ۔ اگر آپ چاہیں تو ایم کیو ایم کا ایک الگ تھریڈ میں جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
 

اظہرالحق

محفلین
نبیل نے کہا:
اظہر الحق، پوسٹ کا شکریہ۔ اگر آپ چاہیں تو ایم کیو ایم کا ایک الگ تھریڈ میں جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

ارے نہیں نبیل بھیا ، آپ کون کون سی پارٹی اور مسلئے کے لئیے الگ الگ دھاگے (تھریڈ ) پرو گے ، یہاں تو کچھ بھی الگ نہیں سب کچھ ایک سا ہی ہے اور مسلئہ بھی ایک ہی ہے ، اور وہ مسلہ ہے پاکستان

اور ویسے بھی کون اپنی روزی روٹی پر لات مارے گا ایم کیوایم کو برا کہھ کہ اور کون قائد سے غداری کرے گا ۔ ۔ ۔ چاہے اسکی اپنی فیملی ہے اس سے متاثر کیوں نہ ہو ۔ ۔ ۔ ۔

جو بھائی لوگ کچھ “پڑھ لکھہ “ گئے ہیں انکے لئے پاکستان ایک “کچرا“ ملک ہے اور وہ زور و شور سے (میری طرح ) پاکستان چھوڑ دو کی تحریک میں شامل ہونا چاہتے ہیں

اور جو بے چارے “علم“ کی نعمت سے محروم ہیں ، وہ بھی جائز ناجائز طریقے سے سرحد کے پار جانا چاہتے ہیں

تو اصل مسلہ تو پاکستان ہے ، یہ ختم سب مسلے ختم
دیکھو نا پاکستان نہ ہونے سے کتنا فائدہ ہو گا ۔ ۔ ۔ ۔ انڈین مویز پر پابندی ختم ہو جائے گی ۔ ۔ ۔ گوروں والی آزادی ہمیں بھی مل جائے گی ۔ ۔ ۔ اسلام کی “سختیوں“ اور مولویوں کی “مستیوں“ سے چھٹکارہ مل جائے گا ۔ ۔ ۔ اور پھر وہ لوگ جو کریں گے ہمیں قبول کیونکہ “امریکہ کبھی غلط نہیں کرتا “

مگر اتنا یاد رکھنا

اپنی مٹی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ مر مر پے چلو گے تو پھسل جاؤ گے


اگر آپ کو تھریڈ شروع کرنے ہیں تو یوں کریں ایک گروپ بنائیں جس کے تھریڈ یہ ہوں ۔ ۔
مسلم لیگ (الف سے ی تک)
پیپلز پارٹی ( پی ون سے لے کر پی انفینیٹی تک )
جماعت اسلامی ( جماعت سے لے کر اسلامی تک )
ایم کیو ایم ( کراچی سے لیکر لندن تک )

اور ہاں ایک الگ تھریڈ لازم ہے
فوج ( بیرکوں سے برسوں تک )

اور اگر چاہیں تو ایک اضافی تھریڈ
عوام ( ۔ ۔ ۔ ۔ سے لیکر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تک ) یہ “۔۔۔۔۔“ اسلئے کہ عوام اسے خود بھرتی ہے اور مٹاتی ہے ۔ ۔ ۔
 

شعیب صفدر

محفلین
نعمان نے کہا:
کراچی کے کن میگا پروجیکٹس کی بات کر رہی ہیں آپ؟ پندرہ کروڑ آبادی والے شہر میں چند فلائی اوورز کی تعمیر کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔
پاکستان کی آبادی کتنی ہے؟؟؟؟؟؟
ویسے میں سمجھتا ہوں کہ ڈیم بننے سے پنجاب کو اگر فائدہ زیادہ ہے تو ڈیم کی تعمیر کا نہ ہونا سندھ کے لئے باعث نقصان ہے پنجاب کے لئے نئی۔۔۔۔
سندھ کا زیر زمین پانی 70 فیصد کھارا ہے لہذا ڈیم کے بننے سے اور اسے فائدہ ہو گا اگر اس سے نہر نکال کر پانی کی تقسیم انصاف کے مطابق کی جائے (جس طرح اندرون سندھ میں آج کل ہے اس طرح نہیں)
اگر کسی پر بھی اعتماد نہ ہو تو پھر کچھ نہیں ہوسکتا
ڈیم بننے سے البتہ کئی لوگو ں کی سیاسی خودکشی ہو جائیں گی جن کی سیاست کا سارا دارومدار ہی صوبائی نفرت پر ہے۔۔۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
اظہر الحق، میرا کہنے کا صرف یہ مقصد تھا کہ اس تھریڈ میں کالا باغ ڈیم پر ہی گفتگو آگے بڑھائی جائے۔ کراچی میں ایم کیو ایم کی تاریخ الگ موضوع ہے، اس پر الگ سے بات ہو سکتی ہے۔ آپ اتنی مایوسی کی بات کیوں کرتے ہیں، اوپر ایک پوسٹ میں تو آپ بزرگوں کی دی گئی بشارتوں کا ذکر کر رہے تھے۔
 

دوست

محفلین
نبیل بھائی!
وہ میں تھا سائیں۔ مایوسی کی تو بات ہی نہیں ۔ جو پاکستان سے محبت کرتے ہیں وہ مایوس نہیں اور نہ ہونگے انشاءاللہ۔ بس کبھی کبھی دکھ ہوتا ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ اب اعتبار کیا جائے مسٹر پرویز مشرف جو بھی ہے آمر ہے یا جابر وہ یہ بات کرتا ہے کہ پرانی زیادتیوں کا ازالہ ہونا چاہیے۔
کیا پالیا ہے ہم نے ان زیادتیوں کا راگ الاپ الاپ کر۔ مانا کہ پنجاب نے ماضی میں زیادتیاں کی ہیں مگر اس کی سزا ہمیں کیوں آنے والی نسلوں کو کیوں۔ ہم چاہتے ہیں اس کا ازالہ ہو دکھ کی دواہو،زخموں پر مرحم رکھا جائے۔ اس لیے ایک بار تو اعتبار کرنا پڑے گا۔
تو میرے بھائیو اعتبار کرنے کا رسک تو لینا پڑے گا آپ ایک قدم بڑھایے تو انشاءاللہ اس بار اللہ ہمیں اور آپ کو مایوس نہیں کرے گا۔
اللہ ہمارا حامی وناصر ہو۔
 

نعمان

محفلین
شعیب بھائی معذرت میں روانی میں پندرہ کروڑ لکھ گیا۔ کراچی کی آبادی اندازا ڈیڑھ کروڑ بتائی جاتی ہے۔
 

اظہرالحق

محفلین
نبیل نے کہا:
اظہر الحق، میرا کہنے کا صرف یہ مقصد تھا کہ اس تھریڈ میں کالا باغ ڈیم پر ہی گفتگو آگے بڑھائی جائے۔ کراچی میں ایم کیو ایم کی تاریخ الگ موضوع ہے، اس پر الگ سے بات ہو سکتی ہے۔ آپ اتنی مایوسی کی بات کیوں کرتے ہیں، اوپر ایک پوسٹ میں تو آپ بزرگوں کی دی گئی بشارتوں کا ذکر کر رہے تھے۔

ارے نہیں بھائی میں مایوس نہیں ہوں ، کیونکہ مجھے تو کافی زیادہ خوش فہمیاں ہیں ( میرے دوستوں کی زبان میں ) بس کافی جذباتی واقعی ہوا ہوں ۔ ۔ ۔ اور اگر آپ میری تحریریں غور سے پڑھیں تو ان میں کافی طنز نظر آئے گا ۔ ۔ ۔ ۔ اور طنز مایوسی کی علامت نہیں ہے
 

مہوش علی

لائبریرین
اس فورم پر یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ اہل سندھ کو پنجا ب نے اور وفاق نے کھل کر ضمانتیں نہیں دیں ہیں۔
میرا خیال ہے کہ ایسی بات صرف لا علمی کی وجہ سے کہی جا رہی ہے، ورنہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
میرے خیال میں موجودہ حکومتِ وقت نے کھل کر وہ تمام اقدام اٹھائے ہیں، جنکا اُن سے تقاضا کیا گیا تھا۔ اب تو بس ہم دعاگو ہیں کہ اس ملکی منصوبے پر لوگ بلیک میلنگ نہ شروع کر دیں۔
ذیل میں جنگ اخبار سے ایک کالم پیش کیا جا رہا ہے، جہاں صدرِ پاکستان اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے کھل کر ہر وہ گارنٹی سو سو بار دینے کا وعدہ کیا ہے جو ڈیم مخالفین حضرات چاہتے ہیں۔


جنگ اخبار سے ایک کالم نے کہا:
بی ذخائر …سیاست اور عوام ,,,,قلم کی آواز …سید انور قدوائی ,
ملک میں آبی ذخائر کے حوالے سے ”رابطہ عوام“ مہم آخری مرحلہ میں داخل ہو گئی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ صدر جنرل پرویز مشرف کالا باغ ڈیم کی مخالفت کا زور توڑنے کے لئے ایک نہیں 3ڈیم بنانے کا اعلان کرنے والے ہیں۔ سیاسی قائدین کھل کر مخالفت نہیں کر رہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ ”اتفاق رائے“ پیدا کیا جائے ۔ اس سے حکومت کو بھی اتفاق ہے اور وفاقی کابینہ کا فیصلہ بھی ہے کہ آبی ذخائر بنائے جائیں۔ اس سلسلہ میں چاروں صوبوں میں اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ صدر جنرل پرویز مشرف نے دورے کئے۔ وزیراعظم بھی سب سے رابطے میں ہیں۔ سندھ میں چند افراد ایسے ہیں جنہوں نے ایک صوبے کے حوالے سے تحفظات کی بات کی ہے جس پر نہ صرف صدر مملکت نے قانونی، پارلیمانی ، آئینی اور انتظامی ضمانتیں دینے کی بات کی ہے بلکہ کہا ہے کہ ”میں سو ضمانتیں دینے کے لئے تیار ہوں“ جبکہ مسلم لیگ (ق) کے صدر چودھری شجاعت حسین کہتے ہیں کہ وہ معاہدہ پر دونوں ہاتھ ہی نہیں پیروں کے انگوٹھے لگانے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن چند لیڈر اور مقامی قوم پرست رہنما ایسے ہیں جن کی جانب سے ایسے بیانات آ رہے ہیں جن کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد تو کالا باغ ڈیم کے نہ صرف حامی تھے بلکہ اپنے دور اقتدار میں اس کی تعمیر کا اعلان بھی کر دیا تھا۔ اس کے قائدین نہ جانے کیوں اب اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کا بھی رویہ کچھ ایسا ہی ہے۔ جب یہ حقیقت ہے کہ بینظیر بھٹو کے دور میں صرف یہ کہا گیا تھا کہ اس کا نام تبدیل کر کے ”انڈس ڈیم“ رکھ دیا جائے۔ بعض حلقوں کا الزام ہے کہ یہ ساری مخالفت صرف اور صرف اس لئے ہے کہ ”نئے آبی ذخائر“ کی تعمیر کا اعلان کر کے موجودہ حکمران ”عوامی مقبولیت“ حاصل کر لیں گے اور یہ انہیں کسی صورت منظور نہیں ہے۔ اگر یہ درست ہے تو اسے ”قومی سیاست“ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تاہم مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کی جانب سے مثبت بیان آیا ہے لیکن ابھی تک پارٹی لیڈروں کو رویہ تبدیل کرنے کی اوپر سے ہدایت نہیں ملی ہے۔ واپڈا کے چیئرمین نے انکشاف کیا ہے کہ سرحد کے رہنما عبدالولی خان اور سندھ کے سید قمر الزمان شاہ کو چھ دن لگا کر بریفنگ دی گئی جس میں انہوں نے کالا با غ ڈیم کی تعمیر سے اتفاق کیا۔ ساتویں دن ”فیڈ بیک“ مانگا گیا تو ان کا ”آف دی ریکارڈ“ جواب تھا کہ وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے اس کی مخالفت کرتے رہے ہیں اس لئے ”آن دی ریکارڈ“ اس کی حمایت نہیں کر سکتے۔ تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ صدر کے دورہ سندھ سے کچھ برف پگھلی ہے اور بزرگ سیاستدان قمر الزمان یہ مان گئے ہیں کہ کالا باغ ڈیم بنایا جائے۔ مگر پہلے بھاشا ڈیم بنانے کا اعلان کیا جائے۔ نیشنل عوامی پارٹی نے نواز دور میں بھی ایک بار حمایت کا وعدہ کر کے منکر ہو گئی تھی۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد جب اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے قوم کے سامنے ایک ”گرینڈ ایجنڈا“ پیش کرنے کا فیصلہ کیا تو یہ طے پایا کہ وہ قومی اسمبلی میں عوام کے وسیع تر مفاد کے لئے خطاب کریں گے۔ ان کی یہ تقریر مرحوم الطاف گوہر نے لکھی تھی جس میں کالا باغ ڈیم بنانے کا اعلان کیا گیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اس ”اچھی تقریر“ میں اس متنازع مسئلہ کو کیوں شامل کیا گیا ہے تو میاں صاحب کا جواب تھا کہ ولی خان حمایت کرنے کے لئے تیار ہو گئے ہیں۔ اس حوالے سے اعظم ہوتی نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ حسن پیرزادہ وزیراعظم ہاؤس میں رہتے تھے اور اس سلسلے میں سرحد اسمبلی کے متعدد ارکان سے بھی نام و پیام ہوا تھا لیکن بعد میں نیپ والے اس سے منکر ہو گئے۔ یہ تشویش اور دکھ کی بات ہے کہ 52سال گزر جانے کے باوجود اس اہم قومی پراجیکٹ کو مکمل نہیں کیا جا سکا بلکہ اسے ”سیاسی مسئلہ“ بنا دیا گیا جبکہ یہ ڈیم سندھ طاس معاہدہ کا حصہ تھا اور اس وقت عالمی بنک نے ایک بڑے ڈیم کی تعمیر کے لئے مالی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس وقت کے صدر ایوب خان نے ماہرین سے مشاورت کے بعد تربیلا ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا اور یہ کہا گیا کہ کالا باغ ڈیم کم خرچ اور آسان منصوبہ ہے اسے ملکی وسائل سے تعمیر کر لیا جائے گا۔ اس وقت صوبہ مغربی پاکستان تھا کسی علاقے کی جانب سے مخالفت نہیں کی گئی۔ اس دور میں اس پر ہوم ورک مکمل کیا گیا۔ بھٹو دور میں اس پر کچھ پیش رفت ہوئی لیکن بعد میں نہ جانے کیوں اسے متنازع بنا دیا گیا۔ مرحوم صدر جنرل ضیاء الحق جب برسراقتدار آئے تھے تو اس وقت بڑے طاقتور حکمران اور ”سیاہ و سپید“ کے مالک تھے اگر وہ چاہتے تو یہ ڈیم تعمیر ہو سکتا تھا لیکن ان کے ایک قریبی ساتھی لیفٹیننٹ جنرل فضل حق اس کی راہ میں دیوار بن گئے۔ اس مارشل لاء دور میں آبپاشی کے حوالے سے لاہور میں ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی صدارت میں ہوا اس میں اس وقت کے صوبہ پنجاب کے وزیر آبپاشی عبدالرزاق نے کالا باغ ڈیم بنانے کی تجویز دی۔جس میں مرحوم صدر نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا اور اس وقت کے گورنر جنرل سوار خان سے استفسار کیا کہ یہ ”کون ہے“۔ اس گستاخی پر ان کو وزارت سے ہٹا دیا گیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بھٹو دور ہو یا ضیاء الحق کی حکمرانی اس کے بعد میاں نواز شریف، بینظیر بھٹو کسی نے ”آہنی ہاتھ“ سے اس منصوبے پر تعمیر شروع کرنے کے لئے توجہ نہیں دی۔ واپڈا کے چیئرمین شمس الملک نے اس کے حق میں آواز اٹھائی۔ ان کا تعلق صوبہ سرحد سے تھا لیکن کسی نے اس پر توجہ نہ دی۔ یہ بھی سچ ہے کہ بھٹو دور میں تھوڑا بہت کام کیا گیا اور مرحوم بھٹو اسے تعمیر کرنا چاہتے تھے مگر انہیں ”سیاسی گردو پیش“ میں مبتلا کر دیا گیا ۔ اس کے بعد سے یہ منصوبہ التواء میں پڑا ہوا ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے برسراقتدار آنے کے بعد اس مسئلہ کو زندہ کر دیا ہے۔ 2002ء میں دو کمیٹیاں قائم کی گئیں تاکہ سیاسی اور فنی طور پر جائزہ لیا جا سکے۔ ان کی رپورٹیں آ چکی ہیں۔ صدر مملکت کا کہنا ہے کہ دونوں رپورٹیں مثبت ہیں اور سفارش کی گئی ہے کہ ایک نہیں چار ڈیم بنائے جائیں لیکن مخالفت بدستور موجود ہے جبکہ دوسری جانب ایشیا کے ممالک میں نہ صرف آبی ذخائر موجود ہیں بلکہ پانی کی بچت کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت چین میں 52جاپان میں 35اور بھارت میں 29بڑے آبی ذخائر زیر تعمیر ہیں جبکہ پاکستان میں اس کی تعداد صفر ہے اس طرح پاکستان میں پانی کی بچت کی شرح صرف 13فیصد ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نئے آبی ذخائر کی ملک کو کتنی ضرورت ہے۔ محب وطن حلقے بعض دانشوروں اور سیاستدانوں کے اس اعتراض سے اتفاق نہیں کرتے کہ اس ڈیم کی تعمیر سے ایک صوبے کی بالادستی قائم ہو جائے گی۔ سیاستدانوں کے ایسے بیانات کو کسی صورت درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ صدر جنرل پرویز مشرف، وزیر اعظم شوکت عزیز آبی ذخائر کی تعمیر پر زور دے رہے ہیں اور اس حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے اور اتفاق رائے پیدا کرنے کا فیصلہ کیا گیا کیونکہ ملک کو 9ملین ایکڑ پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ اگر نئے آبی ذخائر نہ بنے تو زرخیز زمین کو گھن لگ جائے گا۔ نہ جانے کیوں ملک کے ”عظیم لیڈر“ اس اہم قومی ضرورت پر سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کوئی بات نہ ہوئی کہ حکومت مثبت قدم اٹھائے تو اس کی صرف اور صرف اس لئے مخالفت کی جائے کہ ”اچھی بات“ادھر سے کی جا رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ سیاسی جماعتوں کا یہ ”جمہوری اور آئینی حق“ ہے کہ وہ حکومت اور حکمران پارٹی کی پالیسیوں سے اختلاف کریں انہیں ٹوکیں، روکیں اور غلط کام پر ان کا ہاتھ بھی پکڑ لیں۔ اس حوالے سے ”رائے عامہ“ ہموار کرنے، جلسے، جلوس کا بھی حق حاصل ہے۔ ان کے اس جمہوری، آئینی اور قانونی حق سے کوئی نہیں روک سکتا۔ لیکن وہ امور جو قومی ہوں ان پر اختلاف کا کوئی جواز نہیں ہوتا۔ ان کا کسی حکومت ، سیاسی جماعت سے تعلق نہیں ہوتا بلکہ یہ ملک و قوم سے انتساب ہوتے ہیں۔ ڈیم بنیں گے تو زیر کاشت رقبہ میں لاکھوں ایکڑ اراضی کا اضافہ ہو گا، بجلی پیدا ہو گی۔ اس میں صوبے یا علاقے کی تمیز نہیں کی جا سکتی۔ اس حوالے سے پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے۔ اب مزید تاخیر کی گنجائش نہیں۔ فوری طور پر اعلان کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک ڈیم کی تعمیر میں پانچ سال اور دوسرے کے مکمل ہونے میں دس سال کا عرصہ لگے گا کہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔
 
ڈیم ہے یا عوام کو بے وقوف بنانے کی سازش

مجھے یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ حکمران کب تک ہمیں بے وقوف بناتے رہیں گے اور ہم عوام الو بنتے رہیں گے۔ میرے بھائی موجودہ مشرف حکومت کو زلزلے،مہنگائی اور دیگر ناکام پالیسیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے ایک ایشو کی ضرورت تھی جو اُنھیں مل گیا ہے۔ اب اخبار میں زلزہ زدگان کی امداد کی خبروں کی بجائے کالا باغ ڈیم کا ذکر زیادہ ہوتا ہے اور یہی پوری میڈیا کا حال ہے۔ مگر فوجی حکومت یہ نہیں سمجھ رہی کہ اتنے نازک وقت میں جب قوم کا نظریہ مسخ ہو چکا ہے ۔ صوبائی عصبیت کو ہوا دینا کتنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ بھئی سب سے پہلے پاکستان کہنے والے شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ قوم کی کھوکھلی بنیادوں کو سہارا دینے والا دو قومی نظریہ ختم ہونے کے بعد پنجاب، سندھ ، سرحد اور بلوچستان کا ایک ملک کی صورت میں رہنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ کیونکہ بحیثیت قوم اور کلچر ہم علیحدہ قومیں ہیں صرف اسلام ہی ہمیں جوڑے ہوئے ہے۔ لیکن اب وہ دیوار بھی ٹوٹ گئی ہے۔ کالا باغ ڈیم کے ایشو کے بعد اکثر تعلیم یافتہ اور کٹر پاکستانی لوگوں کی باتوں سے بھی اب پنجاب کے خلاف بغاوت کی بو آسانی سے محسوس کی جاسکتی ہے۔ لیکن فوج کو اس سے کیا کہ پاکستان رہے یا نہ رہے بس وہ ہمیں اسلحہ خرید کر ہم پر وانا اور کوہلو میں استعمال کرتی رہے۔ اور امریکہ سرکار خوش رہے۔
 
Top