ڈیم

آپ کی رائے میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر ضروری ہے؟

  • نہیں

    Votes: 0 0.0%
  • معلوم نہیں

    Votes: 0 0.0%

  • Total voters
    39

شعیب صفدر

محفلین
آپ اس پر اپنی رائے تحریری بھی دے سکتے ہیں۔۔۔
یہ سیاسی مسئلہ کیوں بنا؟؟؟
کیا مخالفت درست ہے؟؟؟؟؟
 

دوست

محفلین
کالا باغ ڈیم بننا چاہیے اسے آئینی تحفظ فراہم کر دیا جائے یعنی اگر کوئی فریق معاہدے سے پھرے تو اس کے خلاف قانونی عدالت کا درواذہ کھٹکھٹایا جاسکے۔ مناسب ترامیم کے ساتھ کالا باغ ڈیم میرا خیال ہے سب کے لیے قابل قبول ہونا چاہیے۔
 
ماضی کے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ اب مسئلہ اتنی آسانی سے حل ہونے والا نہیں ۔۔۔۔ اب تو کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر بعض قوم پرست رہنما سندھ کو علیحدہ ملک بنانے کی دھمکی دیتے ہیں
www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2005/12/051221_kalabagh_sen.shtml
۔۔۔ صوبہ پنجا ب کی ہمیشہ سے یہ عادت رہی ہے کہ دوسرے صوبوں کے وسائل پر عیاشی کرتا ہے اور پھر جب دوسرے صوبے اپنے حق کی بات کرتے ہیں تو وہ “پہلے پاکستان“ کا نعرہ لگاتا ہے ۔۔۔
اور رہی بات فوج کی تو پاکستانی فوج کا کردار ملک کے لئے بالکل ایسا ہے جیسے “امربیل“ ۔۔۔۔
پنجاب کی زمین کا شمار دنیا کی ذرخیز ترین زمینوں میں ہوتا ہے اور فوجی جرنیل ، چاہے وہ سندھ کے ہوں یا بلوچستان کے ۔۔ یا سرحد کے ہوں یا پنچاب کے ۔۔۔ وہ آخر زمین، جو انہیں فوج میں خدمت کے صلے میں ملتی ہے (شاید نوکری کے درمیان تنخواہ یا دیگر سہولیات کو صلہ نہیں مانتے )، پنجاب میں ہی آلاٹ کرواتے ہیں اور پھر اس کو سیراب کرنے کے لئے تمام قوانیں کو توڑتے ہوئے پانی بھی آلاٹ کروا لیتے ہیں ۔۔۔ تو پھر سندھ اور دوسرے صوبے تو بھڑکیں گے ۔۔۔۔
میں نے سنا تھا کہ برصغیر میں ایک بڑی جنگ صرف پانی کی وجہ سے ہو گی اور کہا جاتا تھا کہ یہ جنگ شاید انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہو ۔۔۔ مجھے تو یہ لگتا ہے کہ شاید انڈیا اس میں حصہ نہ لے ۔۔۔اور پاکستان اکیلا ہی اس کا شریک ہو ۔
مجھے پاکستان کا مستقبل کوئی شاندار نہیں لگتا (میرے منہ میں خاک) اور نہ ہی اس کا کوئی وجود نظر آتا ہے ۔۔۔۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں صرف پنجاب ہی رہ جائے گا ۔۔۔ سندھ ایک علیحدہ ملک بن جائے گا اور بلوچستان اور سرحد ایک علیحدہ ریاست ۔۔۔۔ (شاید آپ کو یہ نا امیدی لگے ) جس طرح بنگلہ دیش کو علیحدہ کیا گیا (یہ پانی کا مسئلہ تو نہیں تھا لیکن بنگالیوں کا خیال تھا کہ ان کے وسائل ہڑپ کئے جا رہے ہیں )۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
عتیق، کیا یہ جملہ تم نے اپنی طرف سے لکھا ہےکہ

صوبہ پنجا ب کی ہمیشہ سے یہ عادت رہی ہے کہ دوسرے صوبوں کے وسائل پر عیاشی کرتا ہے اور پھر جب دوسرے صوبے اپنے حق کی بات کرتے ہیں تو وہ “پہلے پاکستان“ کا نعرہ لگاتا ہے ۔۔۔

اس کے بعد تم بنگلہ دیش کی مثال دیتے ہو۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے کہ ان کی حق تلفی ہوتی تھی لیکن ان کے وسائل ہڑپ کیے جانے کی بات کچھ مبالغہ آرائی پر مبنی ہے۔ شیخ مجیب الرحمن نے اپنی الیکشن مہم تیز کرنے کی خاطر انتخابی جلسوں میں رندھی ہوئی آواز میں کہنا شروع کردیا تھا کہ اسے اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی خوشبو آتی ہے (جوٹ کی بو آ رہی ہے۔۔)

پاکستان کے گلے سڑے نظام کی ہر خرابی کا ذمہ دار پنجاب کو قرار دینا قرین انصاف نہیں ہے۔ اگر سندھ، سرحد اور بلوچستان کے عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں تو پنجاب میں بھی لاکھوں لوگ غربت کی حد سے نیچے جی رہے ہیں۔ پنجاب میں اقتدار پر اسی طرح ابن ا لوقتوں ، لٹیروں اور مخدوموں کا قبضہ ہے جس طرح باقی صوبوں میں سردار، پیر اور وڈیرے عوام کے ساتھ جونک بن کر چمٹے ہوئے ہیں۔

کالاباغ ڈیم کا معاملہ خالص تکنیکی ہے اور کئی دہائیوں سے اس پر اتفاق رائے کی کوشش ناکام رہی ہے۔ سندھی قوم پرستوں کی سیاست کا تمام تر دارومدار پانی کے ذخائر پر لڑائی کرنے پر ہے۔ لگتا ہے کہ یہ اتفاق رائے اس وقت حاصل ہوگا جب ملک مکمل طور پر خشک سالی کا شکار ہو چکا ہوگا۔ ہٹ دھرمی اور اناپرستی ہماری قومی تاریخ کا ہمیشہ سے المیہ رہی ہے۔ کافی عرصہ قبل بلوچستان میں ایک زرعی یونیورسٹی کے قیام کے لیے ورلڈ بینک کی جانب سے کئی سو ملین ڈالر کی امداد منظور ہوئی۔ اس کے بعد بلوچستان کے اندر ہی پشتونوں اور بلوچوں میں اس بات پر خونریز فسادات شروع ہو گئے کہ یہ یونیورسٹی کس کے علاقے میں قائم ہوگی حتٰی کہ یہ بین الاقوامی امداد منسوخ کر دی گئی۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی مثالیں موجود ہیں کہ لوگوں کو اپنا نقصان گوارا ہوتا ہے لیکن وہ کسی دوسرے کا فائدہ نہیں دیکھ سکتے۔

یہ نقطہ نظر کہ فوجی اپنی زمینیں سیراب کرنے کے لیے کالاباغ ڈیم بنا رہے ہیں، میری رائے میں حد درجے کی جہالت ہے۔ بدقسمتی سے سندھی میڈیا اس لائن کو ایک خیالی پنجابی سامراج کے خلاف ویسے ہی دہراتا ہے جیسے ہمارا قومی پریس ہر مسئلے کے پیچھے انڈیا یا اسرائیل کا ہاتھ دیکھتا ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہم لوگوں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے کچھ نہیں سیکھا۔ قومی اتحاد و یکجہتی آج بھی ہمارے اندر مفقود ہے۔ اس کی وجوہات پر الگ سے بات ہو سکتی ہے۔

میری باقی دوستوں سے گزارش ہے کہ اس مسئلے پر صوبائی عصبیت سے بالا ہو کر بات کریں۔ کسی کو میری یا عتیق کی بات بری لگی ہے تو برائے مہربانی زیادہ سخت جواب نہ دیں۔
 
نبیل! میں نے جو بھی لکھا ہے وہ سب میری اپنی رائے ہے جو غلط بھی ہو سکتی ہے ۔۔۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ آپ بھی سب سے پہلے پاکستان کی ہی بات کر رہے ہیں ۔۔۔ بیشک پاکستان کو کالاباغ ڈیم کی ضرورت ہے ۔۔۔ اور ایک کالا باغ ڈیم کے علاوہ اور بھی پانی کے ذخائر بننے چاہئیں ۔۔۔۔ لیکن بات تو وہی کی وہی کہ اس کی منصفانہ تقسیم کا کیا ہو گا ۔۔۔۔ یہ صرف ایک تکنیکی مسئلہ نہیں اور بھی ہزاروں ہیں ۔۔۔۔
اور یہ کہنا کہ اگر یہ ڈیم (اور دوسرے پانی کے ذخائر) نہ بنا تو خشک سالی کا مسئلہ درپیش ہو گا تو اس میں کوئی شک نہیں ۔۔۔۔ لیکن میرے خیال میں اگر یہ بن بھی جائیں تو پھر بھی پاکستان میں قحط سالی کا مسئلہ پیدا ہو گا چاہے دنیا کو آپ گلوبل ولیج ہی کیوں نہ کہیں ۔۔۔۔ اور اگر پاکستان نے کسی بھی طرح آبادی اور وسائل کو قابو میں نہ کیا تو ایسا قریب قریب ہوتا نظر آتا ہے ۔
اب اگر آپ صوبوں کی بات کریں تو صوبوں کو صوبائی خود مختاری کیوں نہیں دی جاتی اس کو کون روک رہا ہے ۔۔۔ آپ اگر غور کریں تو پنجاب پورے پاکستان کی بات کرتا ہے اور سندھ صرف سندھ کی بات کرتا ہے اور اسی طرح باقی صوبے اپنی بات کرتے ہیں ۔۔۔ کیا یہ پنجاب ٹھیک کرتا ہے ۔۔۔ میرے خیال میں یہی خرابی ہے جو صوبائی خود مختاری کی راہ میں آجاتی ہے ۔
اور یہاں تک بات ہے ملک کی ترقی کی تو وہ صرف اور صرف وہاں کے لوگوں کی وجہ سے ہوتی ہے ۔۔۔ پاکستان کے لوگوں کے قول وفعل میں اتنا تضاد ہے جتنا ۔۔۔۔۔ اس کے لئے تو الفاظ بھی کم ہیں ۔۔۔۔ چاہے ملازم نجی ہو یا سرکاری سب کا خیال ہے پاکستان ایک ایسی دیگ ہے جس میں سے بس کھاتے جاؤ مگر ڈھکن اُٹھا کر مت دیکھو ۔۔۔۔۔۔
پاکستان کی عوام نے پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا (اور شاید میں نے بھی) ۔۔۔ تو ایسی صورت میں چاہے من وسلوٰی ہی کیوں نہ اترے ۔۔۔ جب تک لوگ نہیں بدلیں گے حالات نہیں بدلیں گے ۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
عتیق، لگتا ہے کہ تم نعمان کے ہم عمر ہو کیونکہ بات کو اسی کی طرح الجھا دیتے ہو۔ بات پانی کے ذخائر پر ہو رہی تھی اور تم اسے صوبائی خودمختاری پر لے گئے ہو۔ اگر پاکستان کی آبادی بےقابو انداز میں بڑھ رہی ہے اور وسائل کم پڑ رہے ہیں تو کیا اس کا خاموشی سے تماشہ دیکھا جائے؟ اور کس قول و فعل کے تضاد کی بات کر رہے ہو تم؟ بھائی کچھ غصہ کم کرکے آؤ تو آگے بات کرتے ہیں۔ پاکستان کو قبول نہ کرنا بھی ایک فیشن ہی ہے۔ کیا یہ قول و فعل کا تضاد نہیں ہے کہ ہمیں جس ملک نے سب کچھ دیا اسی کا وجود ہمیں گوارا نہیں ہے۔ اچھا چلو غلطی سے الگ ملک بن گیا ہے۔ اب کیا کریں؟ واپس کر دیں اسے؟
 

نعمان

محفلین
ڈیم کے حوالے سے ایک بات اور جس پر غور کیا جانا چاہئیے وہ یہ ہے کہ سندھ کو جس آئینی تحفظ کا جھانسا دیا جارہا ہے وہ آئینی تحفظ بیس سال میں فراہم نہیں کیا جاسکا۔ اسمبلی میں قانون لانے اور اس کی توثیق میں موجودہ پارلیمنٹ کو چند منٹ سے زیادہ نہیں لگیں گے۔ اگر سندھ کے پانی کے حصے، نئی نہروں کی تعمیر اور اکیانوے کے معاہدے سے زیادہ حصہ دینے کے جو وعدے کئیے جارہے ہیں انہیں آئین پاکستان کے تحت تحفظ دے دیا جائے تو سندھ کے اعتراضات کی ہوا نکل سکتی ہے۔ مگر بیس سال میں ایسا نہیں کیا گیا۔ ان دنوں بھی پنجاب کے سیاستدان اور مشرف یہ وعدہ کئی بار دہرا چکے ہیں مگر اسے عملی شکل دینے کا ان کا کوئی ارادہ نظر نہیں آتا۔

سندھ کے دیگر اعتراضات یہ ہیں:

۱۔ زیریں سندھ کا وہ علاقہ جہاں سے دریائے سندھ سمندر میں گرتا ہے وہاں سے سکھر تک زیر زمین پانی کی تنگی ہوجائیگی۔ دریا کا بہاؤ چوڑا ہونے کی وجہ سے زیادہ بڑا رقبہ قابل کاشت نہیں رہے گا جس سے لاکھوں لوگ مسائل کا شکار ہوجائیں گے۔ مجوزہ نہریں سندھ کے مغربی علاقے سے نکلیں گی جہاں فی الحال آبادی نہیں۔

۲۔ ڈیموں میں پانی کی کمی کی وجہ سے سندھ کو عرصہ دراز سے وہ پانی نہیں مل رہا جس کا وعدہ اکیانوے میں ہوا تھا۔ پچھلے قحط کے دوران جب سندھ میں لوگ پیاس سے مر رہے تھے (یہ میں ڈرامائی افیکٹ تخلیق کرنے کے لئیے نہیں لکھ رہا) اس عرصے میں پنجاب نے اپنے حصے سے دو فیصد پانی سندھ کو دیا۔ حالانکہ سندھ کو پانی کی کمی کی وجہ سے اپنے حصے سے بہت کم پانی مل رہا تھا اور یہ صرف اس حساب کو پورا کرنے کی کوشش کی تھی مگر یہ عظیم قربانی اس زور شور سے گائی جارہی ہے جیسے پنجاب نے سندھ پر بڑا احسان کیا ہو۔ حالانکہ حقیقت حال یہ ہے کہ اکیانوے کے معاہدے کے تحت صوبوں کو پانی کی کمی کی صورت میں ایکدوسرے کی ضروریات کے حساب سے اپنے حصوں میں کمی لانی تھی۔ پنجاب کو پہلے ہی پانی کم مل رہا تھا لیکن ٹیوب ویلوں اور زیادہ موثر نہری نظام کی وجہ سے وہاں صورتحال اتنی خراب نہیں تھی جتنی سندھ میں تھی۔ سندھی اکیانوے کے معاہدے کی خلاف ورزیوں پر بہت ناراض ہیں۔ لیکن ان کی کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔ جب آپ مصیبت کی گھڑی میں ایکدوسرے سے پیٹھ پھیر لیتے ہیں تو سندھی کیسے یقین کریں کہ آپ آئندہ ایسا نہیں کریں گے؟

۳۔ سندھ کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ ڈیم بننے کے بعد سندھ کو جو پانی ملے گا اس سے تو صرف اس نقصان کی تلافی ہوگی جو منگلا اور تربیلا میں ذخیرے کی صلاحیت میں کمی سے ہوا ہے۔ اضافی پانی کا نعرہ محض ڈھونگ ہے اور حقیقت حال بھی یہی ہے۔ یہ ایسی ہی مثال ہے جیسے کسی اندھیر نگری میں ایک بادشاہ اپنی ریاست میں روٹی کی قیمت بڑھا کر ایک روپے سے دس روپے کردیتا ہے جب عوام چلانے لگتے ہیں تو پانچ روپے کم کرکے ڈھنڈورا پٹوادیتا ہے کہ دیکھا میں کتنا سخی ہوں۔

۴۔ سندھ کے لوگوں کو پنجاب کے عوام سے کوئی پرخاش نہیں۔ سندھ کے لوگ پنجاب کی حکومت، وفاقی حکومت اور پاکستان فوج پر اعتبار نہیں کرتے۔ جس میں سراسر قصور انہی لوگوں کا ہے۔ انہوں نے نظر انداز کرنے کی حد کری ہوئی ہے۔ جب انہوں نے اتنے سال ہماری پسماندگی پر فکرمند نہیں ہوئے تو یہ اچانک انکے پیٹ میں کیوں ہماری ہریالی اور خوشحالی کی مروڑ اٹھ رہی ہے؟

کراچی کے لوگوں کے اعتراضات یہ ہیں کہ اس سے منگروو کے جنگلات تباہ ہوجائیں گے۔ جہاں پہلے ہی دریائے سندھ سے پانی کم آنے کی وجہ سے بہت نقصان ہورہا ہے۔ اس سے ماحولیات کو بہت نقصان پہنچے گا۔ بجلی کے حوالے سے میں عرض کرنا چاہوں گا کہ کالا باغ سے ہوسکتا ہے بجلی سستی ہوجائے مگر کراچی کے عوام کو بجلی سپلائی حکومت پاکستان نہیں کے ای ایس سی کرتی ہے جو آئندہ چند مہینوں میں مکمل پرائیویٹائز ہوجائے گی۔ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ حکومت کے ای ایس سی کو کم نرخوں پر بجلی فراہم کرے گی اور پیٹرول کی طرح ہماری بجلی پر ناجائز منافع خوری نہیں کرے گی؟

اب کچھ آف ٹاپک باتیں:

نبیل میں آپکی اس بات سے متفق ہوں کہ پنجاب کی عوام بھی ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ لیکن سندھ میں پنجاب کے مقابلے میں بہت زیادہ غربت اور پسماندگی ہے۔ چونکہ تجزیہ نگار اور سروے رپورٹس کراچی کو بھی شہری سندھ میں شامل کرلیتی ہیں تو عموما وہ پسماندگی اعداد و شمار میں چھپ جاتی ہے۔ ایک طرف جہاں پنجاب کے چھوٹے چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں میں بھی ہسپتال اسکول اور سڑکیں تعمیر ہورہی ہیں وہاں سندھ حکومت کو این ایف سی ایوارڈ نہیں مل رہا، انہیں کالا باغ پر زیر کیا جارہا ہے، پاک فوج بلوچستان اور وزیرستان میں گولیاں چلارہی ہے۔

آبادی میں خوفناک اضافہ کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب میں لوگوں کا معیار زندگی سندھ کے مقابلے میں بہت اچھا ہے۔ کراچی کو ہٹادیں تو آپ دیکھیں گے کہ سندھ کی آبادی میں اضافہ پنجاب اور سرحد کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اس کی وجہ خاندانی منصوبہ بندی نہیں بلکہ صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی ہے۔ ہر سال سندھ میں ہزاروں بچے گیسٹرو، ٹی بی، ہیپاٹائٹس حتی کہ دست اور قے سے بھی مر جاتے ہیں۔ میرے پاس اس وقت مناسب اعداد و شمار موجود نہیں لیکن اگر آپ ادھر ادھر دیکھیں تو شاید انٹرنیٹ پر ہی آپکو اس بات کے ثبوت مل جائیں گے۔

قحط کے سالوں سے اب تک سندھ کو پنجاب نے دو فیصد پانی دیا اور کسی کو یہ غیر منصفانہ نہیں لگا۔ سندھ کا وفاق کے ریونیو میں پینسٹھ فیصد کے قریب حصہ ہے۔ کیسا ہو اگر سندھ یہ مطالبہ کرے کہ این ایف سی سے بھی ہمیں پینسٹھ فیصد حصہ دیا جائے اور ہم اس میں سے دو فیصد پنجاب کو دے دیں گے؟

اکثر سندھی (مہاجروں کے علاوہ) پاکستان سے الگ ہونے کی بات نہیں کرتے چند ناکام سیاستدان یہ باتیں کرتے ہیں اور غلطی یہ نہیں کہ وہ پاکستان سے الگ ہونے کی بات کرتے ہیں۔ غلطی یہ ہے کہ ان کے اعتراضات سنے نہیں جاتے اور ان کے احساس محرومی کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی بلکہ الٹا انہیں مورد الزام ٹہرایا جاتا ہے۔

وسائل کی منصفانہ تقسیم کا مطالبہ صوبائی عصبیت نہیں بلکہ عوام کا بنیادی حق ہے۔ صوبائی عصبیت تو یہ ہے کہ دوسرے صوبوں کے اعتراضات مکمل طور پر رد کردئیے جائیں اور ان کی آواز کو پاکستان دشمن قرار دے کر دبانے کی کوشش کی جائے۔
 

دوست

محفلین
بات کچھ تلخ ہوتی جا رہی ہے میرے سندھی بھائیوں کے اعتراض بجا ہیں۔ بے شک ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے ماضی میں بھی اور شاید اب بھی ہو رہی ہو۔ یہ ہماری کم علمی ہے کہ ہم اپنے ہی ملک کے ایک حصے سے اتنے بےخبر بس اپنا راگ الاپتے جا رہے ہیں۔
مگر میرے بھائی پانی کی سب سے زیادہ ضرورت اس وقت سندھ کو ہے۔ موجودہ ڈیموں سے پانی کی کم دستیابی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی گنجائش کم ہو چکی ہے(مٹی کیچڑ بھر بھر کے) اور مزید کم ہو جائے گی اس کا ایک ہی حل ہے کہ مزید ڈیم بنائے جائیں۔
(ویسے ایک تجویز یہ بھی تھی کہ موجودہ ڈیموں کی صفائی کی جائے مگر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کس طرح ممکن ہے اتنے بڑے ڈیم کو پہلے خالی کرنا پڑے گا تب جا کر بات بنے گے تاہم ہو سکتا ہے کوئی اور جدید تکنیک موجود ہو جس سے یہ کام خالی کیے بغیر بھی ممکن ہو میں اس بارے لاعلم ہوں۔)
کالا باغ ڈیم کے نام سے ہی سندھی بھائیوں کو چڑہوچکی ہے ان کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی گئی ہےکہ اس میں سراسر ان کا نقصان ہے میں سیاست پر بات نہیں کروں گا اور نہ ہی تکنیکی ماہر ہوں مگر ایک بات کہوں گا کل سکھر کے دورہ کے موقع پر صدر نے ہر قسم کا آئینی تحفظ فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے اس سے میرا خیال ہے فائدہ اٹھایا جائے اور مناسب قانون سازی کے ذریعے اس بات کو ممکن بنایا جائے۔
اس سلسلے میں ظاہر سی بات ہے تمام فریقین کی رائے سے ہی کام ہوگا ۔ میرا نہیں خیال اس میں کوئی برائی ہے۔ میرے بھائیو پانی کی جتنی سندھ کو ضرورت ہے پنجاب کو اتنی نہیں اس لیے اپنا ہی خیال کیجیے بھاشا ڈیم بھی تو بنانے کی بات کرتے ہو آپ اس صورت میں پانی کیا کم نہیں ہو گا اگر نہیں ہو گا تو بتایے۔ ہمارے پاس اب وقت اتنا نہیں رہا کے آپس میں دست و گریباں رہیں اور دشمن ہماری آنکھوں کے سامنے خزانہ لے اڑے ۔
یہ پانی خزانہ ہی تو ہے بھارت بھاشا ڈیم بنا رہا ہے دھڑلے سے بنا رہا ہے اور ہمارے پانی کو روکنے کے لیے بنا رہا ہے مگر ہمیں اپنے اختلافات سے فرصت ہی نہیں۔
بات لمبی ہوتی جارہی ہے اس بات پر ختم کروں گا
خدا کی قسم! اگر سندھ کے ساتھ زیادتی ہوئی باوجود اس کے کہ میں پنجابی ہوں میں سندھ کا ساتھ دوں گا اور یاد رکھیے کہ یہ میری نہیں ہر نوجوان کی آواز ہے ہمیں احساس ہے اس درد کا اور اس کا مداوا کرنا چاہتے ہیں مگر ایک بار موقع تو دیجیے صرف ایک بار پھر آپ سب کچھ کرنے میں آزاد ہونگے۔
میں سیاست دان نہیں یہ ہی یہ نعرہ یا کوئی جذباتی بات ہے یہ اصولی بات ہے اور اس بات پرسارا پنجاب قائم ہے اور رہے گا انشا اللہ ۔ ہم حق کا ساتھ دیں گے چاہے ہمیں اپنےحکمرانوں کے خلاف کیوں نا اٹھنا پڑے اور پھر دنیا دیکھے گی کہ حق کا ساتھ کس طرح دیا جاتا ہے۔
 

نعمان

محفلین
ویسے کالا باغ سے کراچی کے اتنے مفادات نہیں جتنے دیہی سندھ اور حیدرآباد کے ہیں لیکن اندرون سندھ کے لوگوں کو ہم سے یہ شکایت ہے کہ ہم وفاق میں ان کا مقدمہ نہیں لڑتے۔ اسلئیے ہم (یعنی میں اور دیگر مہاجر نوجوان ایم کیو ایم نہیں) سندھ کی بات آگے پہنچانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ پنجاب اور سرحد کی عوام کو سندھ کے مسائل کے بارے میں پتہ ہی نہیں چلنے دیا جاتا۔

دوست بھائی تمہاری بات سے مجھے بینظیر بھٹو صاحبہ کا وہ بیان یاد آگیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پنجاب کے عوام کی خاموشی کو حکومت حمایت نہ سمجھے۔ سندھ کے عوام اس بات سے آگاہ ہیں کہ ہمارے پنجابی بھائیوں کو لاعلمی میں رکھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر پنجاب کے لوگوں تک وہ تکنیکی وجوہات نہیں پہنچ پاتی جن پر سندھ کو اعتراض ہے۔ جن میں سے چند کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ چلیں تکنیکی وجوہات بھی چھوڑیں۔ ہم اس حکومت پر کیسے اعتماد کرلیں جو سندھ کو اضافی پانی دینے کے نام پر پنجاب کے چھوٹے زمینداروں کا پانی روک دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ سارا پانی چوری ہوجاتا ہے۔ لیکن پنجاب کے عوام یہ سمجھتے ہیں کہ یہ پانی سندھ کو جارہا ہے۔ خصوصا جنوبی پنجاب کے ساتھ جو ناانصافی ہوتی ہے اس سے تو پورا ملک ہی بے خبر رہتا ہے۔ جو حکومت اپنے صوبے کے لوگوں کا پانی چرا سکتی ہے وہ سندھ کے ساتھ کیا انصاف کرے گی؟ پنجاب کے جن شمال مغربی علاقوں میں کاشتکاری کی بات ہورہی ہے وہ علاقے بھی لغاریوں کے انڈر میں ہیں جن کو بیٹا وفاقی وزیر لگا ہوا ہے اور ٹی وی پر الٹے سیدھے سندھ دشمن بیانات دیتا ہے۔ سارا فائدہ تو ان لٹیروں کو ہوگا۔

جس آئینی گارنٹی کی آپ بات کررہے ہیں جس کا وعدہ صدر نے کل سکھر میں بھی کیا ہے وہ گارنٹی دینے کا وعدہ بیس سال سے کیا جارہا ہے۔ ہم فوجی کی بات کا اعتبار کیوں کریں؟ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے پہلے تو طالبان کو وزیرستان میں بسایا اب خود ہی وہاں بم گروارہے ہیں۔ بلوچوں کے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے وہ تو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ہم ڈیم بننے سے پہلے تو جھگڑ سکتے ہیں ڈیم بننے کے بعد سندھ مجبور ہوجائے گا اور پانی کی ہر تقسیم قبول کرنا مجبوری بن جائے گا۔ بھاشا ڈیم پر بھی سندھ کو اعتراضات ہیں مگر وہ اتنے شدید نہیں ان پر بات چیت ہوسکتی ہے۔ کالا باغ پر سندھی قوم پرست اقوام متحدہ کی ضمانت چاہتے ہیں جو احمقانہ حل ہے۔ پنجاب اور پاک فوج کی ضمانت شہری اور دیہی سندھ دونوں کو قبول نہیں۔ کیونکہ سندھ کے شہری علاقے پاک فوج کو اور دیہی علاقے پنجاب حکومت کو لائق اعتبار نہیں سمجھتے۔ ایم کیو ایم گرچہ ڈیم کی حامی ہے لیکن صرف ووٹ بینک کی ناراضگی کے خوف نے ان کے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سندھ میں اس مسئلے کی کیا اہمیت ہے۔
 

جہانزیب

محفلین
نعمان بلوچستان میں جو ہو رہا ہے ہم کیا اس کا ایک ہی رخ نہیں دیکھے جا رہے ہیں؟ طالبان تو خیر ایک فیشن بن رہا ہے اور طالبان بھی 1980 کے عشرے میں بسائے گئے تھے وہاں اس سے پہلے بھی تو بلوچستان آپریشن ہوا تھا؟
جس ملک میں لوگوں نے اپنی نجی جیلیں اور فوجیں بنائی ہوں اور جب ان کی غنڈہ گردی کے خلاف حکومت کوئی اقدام کرے تو قومیت کا واویلا شروع کر دیتے ہیں، اور تب ھمیں انسانی ھمدردی یاد آ جاتی ہے، جہاں لوگ راکٹ لانچر جیسے اسلحہ کو نجی استعمال میں رکھیں ان کے خلاف آپریشن میں کیا قباحت ہے؟ کیا یہ اکبر بگٹی یا اس کے چیلے ہی نھیں ہیں جو چینی انجینروں کا اغوا اور قتل میں ملوث ھیں، بلوچوں کی ترقی کا دعوی کرنے والے کو جب حکومت سے رائلٹی ملتی ہے تو اس میں سے کتنی بلوچوں پر خرچ ہو رہی ہے؟
 
اور پنجاب اگر سب کچھ کرے، گندم چینی پیدا کرے، بارڈر پر لڑے اور پھر سارے زیادتیوں کے الزامات بھی اپنے سرلے کہاں کا انصاف ہے، کہنے کو تو منہہ پھاڑ کے کہہ دیا جاتا ہے کہ پنجاب نے یہ کیا، آج ملک کی خوشحالی میں جو ذرا برابر ہے سوائے پنجاب اور کراچی کے کس کا حصہ ہوگا اس میں۔ ورنہ باقی سندھ، بلوچستان کے لوگ تو صرف اپنی نوابیات وجاگیرات ہی سنبھالے ہوئے ہیں۔

میں نے بہت سے ترقی یافتہ ملکوں میں دیکھا ہے کہ شخصیات کو مملکت پر قربان کردیا جاتا ہے، علاقوں کو سلطنت میں ضم ہونا پڑتا ہے۔ تب جا کہ قوم ایک قوم کہلاتی ہے۔ مگر افسوس کہ آج دیکھتا ہوں کہ یورپ کے 36 ممالک صرف معاشی مفاد کےلئے رنگ ونسل وہ زبان کے تفرقات مٹاکر بارڈر ختم کرکے ایک ملک ہوگے اور ہم ایک ملک کے ہوکر پنجابی، سندھی، بلوچی اور پٹھان میں تقسیم ہوگئے، لعنت ہے ہم سب پر۔ ہت تیرے کی
 

اظہرالحق

محفلین
یار ایک کام کرتے ہیں ۔ ۔ ۔

سندھو دیش بنا دیتے ہیں سندھ والے ، بلو (بلوچ لبریشن والے) آزاد بلوچستان بنا دیتے ہیں ، اور باچہ خان کے پیرو پختونستان بنا لیتے ہیں ۔ ۔ ۔ رہ گیا جائے پاکستان پنجاب میں ، پھر وہ ڈیم بنائے کچھ بھی کرے ہمیں اس سے کیا ؟

اب سندھ والوں کو کون سمجھائے یہ سادہ سی بات ۔ ۔۔ کہ جس طرح آپ انڈیا کو راوی پر ڈیم بنانے سے نہیں روک سکتے ، ایسے ہی پنجاب نہیں رکے گا (جب سندھو دیش بنے گا ) تو پھر کہاں سے لائیں گے پانی ؟؟

سرحد والے ۔ ۔ ۔ ماشااللہ ۔ ۔۔ مردان کو ڈبو دیں گے ۔ ۔ ۔نوشہرہ کو بچال لیں گے ۔ ۔ ۔ واہ ۔ ۔ ۔

رہی بات بلوچستان کی ۔ ۔ ۔ تو بلو ۔ ۔ ۔ کو جب ایران اور افغانستان کی لگیں گیں تو لگ پتا جائے گا ۔ ۔ ۔ چین بلوچستان میں دلچسپی صرف متحدہ پاکستان کی وجہ سے لے رہا ہے ۔ ۔ ۔

اور ہاں کراچی والے تو عوامی جمہوریہ کراچی بنا لیں گے ۔ ۔ ۔

اور ہو سکتا ہے پاکستان سمیٹ کر صرف اسلام آباد میں ہی رہ جائے اور کوئی بہادر شاہ ظفر اسکا حکمران ہو ۔ ۔ ۔

ارے ہاں میں تو تاریخ بھول گیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ اسلام آباد سے پٹ سن کی بو تو اس وقت آتی تھی ۔ ۔ ۔ مگر آج کل اجرک اور چادر کی نظربندی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

میں نے اس سائٹ کے علاوہ بھی بہت ساری سائیٹس میں پاکستان کو برا بھلا کہتے پاکستانیوں کو دیکھا ہے ۔ ۔ ۔ جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ بلکہ ۔ ۔ ۔ ۔ کرتے ہیں ۔ ۔۔

کیا ہم نے کبھی (ہم سے مراد آپ سب لوگ ہیں جن میں میں بھی شامل ہوں ) پاکستان کو اس پاکستانی کی نظر سے دیکھا ہے جو 1947 میں ایک خواب لے کر یہاں آیا تھا اپنا سب کچھ چھوڑ کہ ۔۔ ۔
کیا ہم نے پاکستان کو اس نظر سے دیکھا ہے ، جس نے سرحد کی طرف بڑھنے والے ٹینکوں کو اپنے سینے سے بم باندھ کر روکا تھا ۔ ۔

کیا ہم نے پاکستان کو اس نظر سے دیکھا ہے ۔ ۔ ۔ جس نے غیر ملک میں سبز ہلالی پرچم کو بلند ہوتے دیکھ کر آنکھیں نم کر لیں ؟

کاش (اس لفظ سے نفرت ہے مجھے مگر کیا کروں مجبور ہوں استعمال کرنے کے لئے ) کوئی یہ مطلب سمجھ جاتا ۔ ۔ کہ پاکستان کیا ہے کیا تھا اور کیا ہو گا (جی میں نا امید نہیں )

میں ہمیشہ کہتا ہوں

جیت ہماری ہو گی ، ہاریں گے اندھیارے
اک دن پورے ہونگے سارے خواب ہمارے
دکھ سے ہی لڑنے میں آدمی کی شان ہے
زندگی کا ہر پل اک امتحان ہے ۔ ۔ ۔

درد کا موسم ڈھل جائے گا ، سکھ کے بادل چھائیں گے
چمکے کا امید کا سورج ، خوشیوں بھرے دن آئیں گے
دکھ سے ہی لڑنے میں آدمی کی شان ہے ، زندگی کا ۔ ۔ ۔ ۔

اپنے دیس کی خاطر ہم کو ابھی بہت کچھ کرنا ہے
اس کی خاطر جینا ہے اسکی خاطر مرنا ہے
ہم کو دیس کی مٹی ، اپنی جان سے پیاری
جو ہیں دیس کے دشمن انسے جنگ ہماری
دکھ سے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (فلم : ہم ایک ہیں سے )

یہ جذباتی نغمہ نہیں ۔ ۔ ۔ حقیقت ہے ۔ ۔ ۔ پاکستان ایک نو زائیدہ قوم ہے ۔۔ ۔ اسے سمٹنے میں وقت لگے گا ۔ ۔ ۔ ۔

ہم عجب لوگ ہیں ڈیم کے نام پر ڈیم فول بن رہے ہیں ۔ ۔ ۔ بھئی ضرورت ہے تو ہے ۔ ۔ ۔ ۔ یہ باتیں جو آپ لوگ کر رہے ہیں تربیلا اور منگلا کے وقت میں بھی ہوئیں تھیں ۔ ۔ ۔

اور باچہ خان کے پیرو تو کہتے تھے ، کہ ڈیم بنے گا تو پانی سے بجلی نکال لیں گے اور کھیتوں کو سادہ اور کمزور پانی ملے گا ۔ ۔ ۔ اس وقت ایسی ہی مخالفت ہے ۔ ۔ ۔ تو کیا خیال ہے ۔ ۔۔آپ کا ؟
 

فریب

محفلین
زبردست اظہر بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔ ویسے آپ کافی جزباتی واقع ہوئے ہیں۔۔۔
شعیب صفدر بھائی نے جو link دیا ہے اپنی post میں اس کو پڑھنے کے بعد یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسلہ صرف اور صرف جاگیرداروں کی وجہ سے سیاسی بنا ہے۔۔۔۔۔ چاہے وہ جاگیردار یا وڈیرے سندھ کے ہوں پنجاب کے یا بلوچستان کے۔۔۔۔۔ وہ آپنے مفاد کی خاطر اس کو سیاسی بنا رہے ہیں۔۔۔۔ ورنہ جو جو اعتراضات کالاباغ ڈیم پر اٹھے ہیں ان کا جواب دیا جا چکا ہے۔۔۔۔
 

دوست

محفلین
ڈیم کے معاملے پر ڈیم فول بالکل بن رہے ہیں اور شاید بنتے رہیں۔ ان لوگوں نے عوام کو اس قدر گمراہ کر دیاہے کہ سندھ میں وہ خود کشیاں کرنے کی دھمکی دیتے ہیں کالاباغ ڈیم کے نام پر۔
دل کٹ جاتا ہے اندر آگ سی سلگنے لگتی ہے جب میں یہ سب سنتا ہوں۔ کون ہے جس نے یہ آگ لگائی ہے۔ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی اور ہم تقسیم در تقسیم ہوئے جارہے ہیں۔
مذہب کے نام پر تقسیم،زبان کے نام پر تقسیم صوبے کے نام پر تقسیم۔
قوم پرستوں اور خصوصًا سندھی قوم پرستوں کی تو سیاست ہی پانی پر ہے۔ پنجاب کھاگیا سندھ کے حصے کے پانی کھاگیا۔ڈیم نہیں بننے دیں گے چاہے سندھ صحرا میں بدل جائے۔ پنجاب کا کچھ نہیں جائے گا کل بھی اور آج بھی۔ پر سنتا کون ہے۔
اوپر سے پنجاب بارے اس طرح الزامات کی پوجھاڑ ہوتی ہے اس دن میرا لہجہ معذرت خواہانہ بلکہ التجایہ تھا۔
بات سے بات نکلی تو ایک دوست نے اعتراض کیا تھا کہ مینگروز اڑ جائیں گے پانی کی کمی سے۔ مینگروز جن علاقوں سے ختم ہو رہے ہیں وہاں اندازًا پچاس ہزار اونٹ چرتے ہیں جنکے پاؤں تلے روندے جانے سے یہ ختم ہو رہے ہیں ورنہ کرنڈی کا علاقہ جہاں یہ اونٹ نہیں مینگروز موجود ہیں۔یہ سب ارسا کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے جو روزنامہ ایکسپریس میں شائع ہوئی ۔ کہیں اس پر بھی نا الزام لگے کہ ارسا تو پنجاب اور وفاق کی ملی بھگت سے دوسروں کو بیوقوف بنانے کا ادارہ ہے۔
جلد ہی کالا باغ ڈیم پر عالمی ماہرین کی رپورٹس آرہی ہیں پریس میں کوشش کروں گا ان کا خلاصہ یہاں پیش کروں۔
ہم جذباتی نہیں دلیل سے بات کرنے کے قائل ہیں مگر جب اس قسم کی بات ہوتی ہے جیسے کلیجے میں چھری گھونپی جارہی ہوتو جذباتی ہو جانا پڑتا ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ گلگت،بلوچستان اور سندھ میں کون ہے جو یہ سب کرا رہا ہے وہ لوگ جو پاکستان کو پھلتاپھولتا نہیں دیکھ سکتے۔
مگر یہ وہ دیگ ہے کہ سب کھاتے جارہے ہیں مگر ختم نہیں ہورہی۔ آپ میں سے اکثر شاید بابوں پر یقین نہ رکھتے ہوں پھر بھی عرض کرتا چلوں بزرگوں نے اس کے قیام اور عروج کی پیش گوئیاں کی ہیں ۔ کچھ مشکلات ہونگی شاید کچھ سے بڑھ کرہوں مگر فتح حق کی ہوگی۔
سالار والا فیصل آباد کے قریب ایک قصبہ ہے (موجودہ نام دارلاحسان) یہاں صوفی برکت سالار والا ایک بزرگ گزرے ہیں انھیں گزرے کوئی اتنی دیر نہیں ہوئی ۔
اس بات کے راوی ممتاز مفتی ہیں جو قدرت اللہ شہاب کے ساتھ ان سے ملنے گئے تھے صوفی صاحب نے جمعہ کے خطبے میں ارشاد فرمایا تھا(کوئی دو ڈھائی سو لوگ تھے وہاں) “لوگو ایک ایسا وقت آرہا ہے جب یو این کوئی کام کرنے سے پہلے پاکستان سے پوچھے گا کہ ایسے کر لیا جائے ۔ ہم اس وقت نہیں ہو نگے اگر ایسا نہ ہوا تو آپ لوگ میری قبر پر آکر تھوکنا۔“
(یہ تو خیر ایک جملہ معترضہ تھا اصل میں یہ ایک پورا مضمون ہے ممتاز مفتی کا کوشش کروں گا اس کو پیش کر سکوں تاکہ کچھ پاکستان سے محبت کرنے والوں کو حوصلہ ہو کہ یہ کوکڑو ہے جودال میں گلتا نہیں چاہے کچھ بھی ہوجائے اس کے پیچھے بزرگوں کا ہاتھ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پاکستان سے بڑی محبت ہے جسکی مثال پینسٹھ کی جنگ میں بدر کے شہدا رضوان اللہ علیھم اجمعین اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا محاذ پر نظر آنا ہے جس کے شاہد کئی لوگ تھے۔)
 

نبیل

تکنیکی معاون
عزیز دوستو، مجھے گفتگو کچھ پٹڑی سے اترتی نظر آ رہی ہے۔ ہو سکتا ہے میں کچھ غلطی پر ہوں لیکن اگر عتیق یوں کھلے عام پنجاب کو برا بھلا نہ کہتے اور facts and figures تک محدود رہتے تو کچھ مدلل گفتگو کی جا سکتی تھی۔ اس کے باوجود میرے خیال میں ان کے پیش کردہ حقائق کو جذبات میں آ کر نظر انداز نہیں کر دینا چاہیے۔ میں نے اپنے طور پر انٹرنیٹ پر کچھ ریسرچ کرنے کی کوشش کی ہے لیکن وہاں تو لگتا ہے کہ کالاباغ ڈیم کے مخالفین نے google bombing کی ہوئی ہے۔ ہر طرف وحشت کا راج ہے۔

میرے خیال میں اس بات سے کم از کم انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان میں استحصال کی پالیسی ہمیشہ سے جاری ہے۔ مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بن جانا اسی احساس محرومی کا نتیجہ تھا۔ وہاں ہر سال لاکھوں افراد سمندری طوفان کے ہاتھوں ہلاک ہوتے تھے اور مغربی حصہ میں ان کی امداد کے لیے ناچ گانے کے پروگرام منعقد ہوتے تھے تاکہ اس کے ذریعے اکٹھے ہونے والے پیسے مشرقی پاکستان بھجوائے جا سکیں۔ وہ لوگ اس ڈرامے کو انتہائی نفرت سے دیکھتے تھے۔ خیر وہ تو اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے لیکن اس تاریخ سے ہم ہمیشہ کی طرح کوئی سبق نہیں سیکھ رہے۔ بلوچستان سے نکلنے والی سوئی گیس سے بلوچستان کے علاوہ سارے ملک کے چولہے جل رہے ہیں۔ سرحد میں پیدا ہونے والی بجلی وہاں کے اپنے عوام کو میسر نہیں ہے۔ یہ بھی کوئی راز نہیں ہے کہ اس استحصال کے پیچھے اصل ہاتھ کس کا ہے۔ اس میں پنجاب کی اسٹیبلشمنٹ کا کچھ کردار ہے تو بلوچستان کے سردار اور سندھ کے وڈیرے بھی اس میں کچھ پیچھے نہیں ہیں۔

شاکر: آپ نے جن تحاریر کا ذکر کیا ہے وہ میری نظر سے بھی گزری ہیں۔ اسکے علاوہ بھی کچھ کالم نویس مختلف اصحاب سے اپنی عقیدت کی بنا پر پاکستان کے بارے میں بلند و بالا پیش گوئیاں اور طرح طرح کی بشارتیں سامنے لاتے ہیں۔ یہ ہستیاں یقیناً اللہ کے نزدیک کوئی اونچا مقام رکھتی ہوں گی لیکن قوموں کی تاریخ بزرگوں کی پیش گوئیوں سے نہیں بنتی بلکہ یہ خود قوم کے ہاتھوں تحریر ہوتی ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کی کہانی ہمیشہ سے ایک سی رہی ہے۔ اگر دنیا میں ترقی کرنا ہے تو اس کے لیے قوم میں اتحاد و یکجہتی کا جذبہ اور تعلیم کا فروغ ضروری ہے نہ کہ بزرگوں کی پیش گوئیاں۔ یہ محض ہماری اپنی خود فریبی کا ذریعہ ہیں۔

مجھے آپ کوئی بدعقیدہ انسان مت سمجھیں۔ میں بھی بزرگوں سے بہت عقیدت رکھتا ہوں۔
 

سیفی

محفلین
ویسے اگر کالا باغ ڈیم کے نام سے کسی کو چڑ ہے تو اس کا نام “چٹا باغ ڈیم“ رکھ لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔ :D

کسی بھی مسئلے کو حل کرتے وقت دو پہلو دیکھے جاتے ہیں۔۔۔ایک تکنیکی اور دوسرا سیاسی/عوامی

تکنیکی حساب سے تو کالا باغ ڈیم ٹھیک ہو سکتا ہے۔۔۔۔مگر سیاسی یا عوامی رائے کیا ہے اس بارے میں۔۔۔۔

ہماری اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی نے پہلے کوئی اچھی مثال نہیں چھوڑی۔۔۔۔۔تربیلا کے متاثرین ابھی تک نالاں ہیں۔۔۔تو مجوزہ کالا باغ کے متاثرین کیسے حکومت پر اعتبار کرلیں گے۔۔۔۔ جب حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ سرحد اور سندھ کو کالا باغ سے کوئی نقصان نہیں ہونے دیں گے تو عوام اس لئے یقین نہیں کرتی کے اس طرح کے وعدے پہلے بھی ایفا نہیں ہوئے۔۔۔۔۔

دوسرے ہمارے نمائندگان نے کبھی ضمیر کی روشنی میں فیصلہ نہیں دیا۔۔۔۔۔پارٹی نے جو فیصلہ دے دیا سب نے قبول کرلیا۔۔۔تو اس بات کی کیا ضمانت ہو گی کہ کل کلاں پارلیمنٹ نیا قانون پاس کر لے کہ جی کالا باغ ڈیم کی سطح بلند کر لو۔۔۔۔نہر نکال لو۔۔۔تو ابھی کیئے گئے وعدے کہاں جائیں گے اور کون ان کی پابندی کروائے گا۔۔۔۔۔حکومت کے پاس سادہ اکثریت تو ہوتی ہے ناں جناب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسطرح کی یقین دہانیاں تو بھارت بھی بہگلیار ڈیم پر بھی کروا رہا ہے۔۔۔ مگر پاکستان کیوں نہیں اس پر یقین کرتا ۔۔۔۔ یہی حال سندھ اور سرحد کے عوام کا بھی ہے۔۔۔۔۔ اگر ہمارے ملک میں پہلے کئے گئے وعدوں کی پاسداری کی جاتی تو یہ صورتحال نہ دیکھنے میں آتی۔۔۔۔۔
 

نعمان

محفلین
ہمارے یہاں ایک اور خامی یہ ہے کہ اگر استحصال سے متاثر ہونے والا طبقہ حقوق کا مطالبہ کرتا ہے تو ان پر غداری کے الزامات لگا دئیے جاتے ہیں۔ اگر سندھی یہ کہتے ہیں کہ جی پنجاب پانی ہتھیالے گا تو اسے ڈیل کرنے کا صحیح طریقہ یہ نہیں کہ سندھیوں کو پنجاب دشمن سمجھ لیا جائے۔ بلکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے جو بے ایمانیاں ہوئی ہیں ان کا ازالہ کیا جائے تاکہ اعتماد بحال ہو۔

پنجاب نے اعتماد کی بحالی کے لئیے کیا اقدامات کئیے ہیں؟ میں وعدوں کی بات نہیں کر رہا، اقدامات کی بات کر رہا ہوں۔ ابھی زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب حکومت سندھ نے این ایف سی ایوارڈ کا نیا فارمولا پیش کیا جس کے تحت ایوارڈ کی تقسیم پسماندگی، قومی آمدنی میں کنٹریبیوشن، ضروریات اور دیگر تمام عوامل کے تحت ہونا چاہئیے نہ کہ صرف آبادی کی بنیاد پر۔ اس فارمولے پر گرچہ پنجاب کے علاوہ تینوں صوبوں کا اتفاق ہے لیکن ایک سال گزرجانے کے باوجود حکومت پنجاب نے اسے منظور نہیں ہونے دیا۔ آخر کار چھ ماہ پہلے جنرل مشرف کو چاروں صوبوں نے صوابدیدی اختیار دیا کہ وہ اس بارے میں فیصلہ کریں اور ابھی تک جنرل نے کوئی اعلان نہیں کیا۔ چلیں اعتماد کی فضا بحال کریں، این ایف سی پر ہی دیگر صوبوں کو کچھ زیادہ رقم لینے دیں۔

نبیل بلوچستان اور سندھ کے وڈیروں اور سرداروں کی بات کرتے ہیں۔ جناب اگر سندھ اور بلوچستان کے پاس پانی ہوگا، فنڈز ہونگے تو ان حکومتوں کے منصوبوں پر عمل درآمد ہوگا۔ جن سے تعلیم، صحت اور معیشت میں بہتری آئے گی اور عوام وڈیروں کے چنگل سے نکل سکیں گے۔ ان صوبوں کو وفاق سے جو فنڈز ملتے ہیں وہ انتہائی نامناسب ہوتے ہیں۔ ان قلیل رقموں سے تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع پیدا نہیں کئیے جاسکتے بلکہ زیادہ تر رقم تو صوبوں کی انتطامی حالت پر ہی خرچ ہوجاتے ہیں۔ حکومت سندھ کو حصہ وفاق سے ملتا ہے اور جو حصہ وہ صوبائی محصولات سے حاصل کرتے ہیں ان سے تو صرف کراچی کی سڑکیں بھی صاف نہیں رکھی جاسکتیں۔ پھر اس پسماندگی کا الزام وڈیروں کو دینا صحیح نہیں ہے۔ میرے خیال میں یہ وڈیرے اور سردار پنجاب کے مخدوموں چوہدریوں اور لٹیروں سے زیادہ کرپٹ نہیں ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ نئے معاشی بوم کے نتیجے میں پنجاب تو دمک رہا ہے مگر سندھ اور بلوچستان مزید بدحال ہوتے جارہے ہیں؟

میں یہ مشورہ دونگا کہ شعیب کے فراہم کردہ لنک پر جو رپورٹ ہے اس کا فائنل چیپٹر دیکھا جائے۔ حالانکہ اس اخبار امت کی صحافتی دقعت کوئی نہیں ہے مگر پھر بھی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کالا باغ ڈیم میں چند ایک فنی نقائص موجود ہیں۔ جو پانی کی تقسیم کے تنازعے کے علاوہ ہیں۔

دوست بھائی میں نے تو یہ سنا تھا کہ منگروو فاریسٹ جنہیں ماحولیاتی خطرہ ہے وہ زیادہ تر بحیرہ عرب کی ساحلی پٹی پر انڈس بیسن کے پاس ہیں۔ اور اکثر مقامات پر وہاں اتنا پانی ہے کہ اونٹوں کا وہاں پہنچنا قابل عمل نظر نہیں آتا۔ ہاں البتہ جامعہ کراچی کے میرین ریسرچ دیپارٹمنٹ نے اس بارے میں تجربات کئیے تھے کہ منگروو جانوروں کے لئیے بہت اچھا چارہ ثابت ہوسکتا ہے۔ بحیرہ عرب میں منگروو ختم ہونے کی وجہ دریائے سندھ سے کم پانی کی آمد اور کراچی کے انڈسٹریل ویسٹ ہیں نہ کہ اونٹوں کے پیر۔

ایک اور بھائی کہتے ہیں کہ چین بلوچستان میں دلچسپی متحدہ پاکستان کی وجہ سے لے رہا ہے۔ بھائی چین کو پاکستان سے زیادہ بحیرہ عرب میں اپنے اسٹریٹیجک مفاد عزیز ہیں۔ کراچی والوں کو اگر الگ ہونا ہوتا تو کب کے ہوچکے ہوتے۔ یہ کوئی اتنا مشکل کام نہیں ہے۔ مگر جو سیدھی سی بات ہم سب نظر انداز کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ بالآخر ہم سب پاکستانی ہیں اور اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں۔ اور میں تو یہ دعوی کرتا ہوں کہ سندھ کے لوگ باقی تمام صوبے کے لوگوں سے زیادہ محب وطن ہیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
نعمان، پوسٹ کا شکریہ۔ یہ دمکتے پنجاب والی بات کچھ شائننگ انڈیا جیسی لگی ہے۔ پورا ملک کینیڈا کی امیگریشن کے انتظار میں بیٹھا ہوا ہے۔ بیروزگاری اور بھوک سے تنگ آ کر لوگ خودکشیاں کر رہے لیکن پنجاب دمک رہا ہے۔ بات سنو۔۔مجھے مضحکہ لگ رہی ہے یہ بات کہ میں پنجاب کے عوام کی حالت کو باقی صوبوں سے بدتر ثابت کرنے کے لیے دلائل دوں۔ بہتر یہی ہے کہ گفتگو ٹریک پر رکھی جائے۔ میں نے پنجاب کے چوہدریوں اور مخدوموں کی بھی کوئی حمایت نہیں کی، اور نہ ہی مجھے سمجھ آتی ہے کہ سندھ کے وڈیروں کے خلاف بات کرنے پر کچھ لوگوں کی دکھتی رگ پر کیوں ہاتھ رکھا جاتا ہے۔ کیا یہ بات غلط ہے کہ ان وڈیروں کی زمینوں پر کام کرنے والے ہاری جانوروں سے بدتر زندگی بسر کرتے ہیں اور یہ ان کی زندگی اور عزت و آبرو مکمل طور پر ان وڈیروں کے رحم و کرم پر ہوتی ہے۔ کیا تمہیں بے نظیر بھٹو کا وہ بیان یاد ہے کہ اگر ہاری کا بیٹا ہاری نہیں بنے گا تو ہمارے کھیتوں میں ہل کون چلائے گا۔ بالکل ٹھیک کہا میڈم بھٹو نے۔ بھٹو خاندان کے بچے حکومت کرنے کے لیے پیدا ہوتے ہیں اور باقی لوگ ان کی خدمت کے لیے غلام جنتے ہیں جو ذہنی طور پر بھی ان کے غلام ہوتے ہیں۔
 
Top