ڈاکٹر نعیم چشتی کی غزلیات

رانا

محفلین
پہلا مراسلہ ہم نے تازہ ترین کے ڈیڑھ صفحے کے تجربے کے بعد کیا تھا۔ لیکن ابھی تازہ ترین کے کئی صفحات یکے بعد دیگرے کلک کرتے گئے تو کہیں چھٹے صفحے پر محفل کی معمول کی صورت نظر آئی۔ تو اب ہم امید کرسکتے ہیں کہ گولہ باری تھم چکی ہے۔:)
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

نہ زبان قیس پر جو کبھی ذکر یار ہوتا
نہ ہی لیلیٰ رسوا ہوتی نہ وہ سنگسار ہوتا

وہ شجر اگر نہ ہوتا تری خلد میں خدایا
نہ خطا ہی مجھ سے ہوتی نہ گناہ گار ہوتا

سرعام کیا ضروری تھا مرا حساب لینا
نہ یہ یوم حشر ہوتا نہ میں شرمسار ہوتا

مرا نام بھی ہےشامل ترےمیکشوں میں ساقی
نہ نظر سے تو پلاتا نہ میں بادہ خوار ہوتا

ہمیں موت گر نہ آتی کبھی ختم غم نہ ہوتے
غم یار گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا

کبھی ہم گلہ نہ کرتے کوئی اپنی زںدگی سے
ہمیں جس نےغم دیا ہے وہ جوغمگسار ہوتا

مرے دل کی بیقراری مرے ہاتھ میں لکھی تھی
نہ کسی سے آںکھ ملتی نہ میں بیقرار ہوتا

کرو میرا شکریہ تم کہ ہوئے ہو جاوداں تم
نہ میں شعر تم پہ لکھتا نہ یہ افتخار ہوتا

میں بھی اک محل بناتا ملکہ سبا کے جیسآ
جو نعیم زندگی پر مجھے اعتبار ہوتا
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

نام اس کا اپنے ہونٹوں پر سجانا چاہئے
یاد آئے وہ اگر تو گنگنانا چاہئے

وہ سمندر سےبھی گہرا آسماں سےبھی بلند
گر سمجھنا ہے اسے تو اک زمانہ چاہئے

دوستو! لوگوں کی باتوں کا برا کیا ماننا
بات کرنے کے لئے ان کو فسانہ چاہئے

مسکرائیں پھول تو ان کا غلط مطلب نہ لو
مسکرانے کے لئے ان کو بہانہ چاہئے

ہم نےکب مانگا ہےتم سےکوئی بنگلہ یا محل
سر چھپانے کے لئے کوئی ٹھکانہ چاہئے

آج تک ہم نے منایا ہے اسے ہر مرتبہ
اب اگر روٹھے ہیں ہم اس کو منانا چاہئے

اس کے دامن پر گرا کر اشک اپنے ایک دن
خون کے قطروں کو اب موتی بنانا چاہئے

بڑھ گئی ہےتیرگی موسم بھی کچھ کچھ سرد ہے
پھر کسی کے واسطے گھر کو جلانا چاہئے

جان نکلے تو مرے ہاتھوں میں تیرا ہاتھ ہو
میں ہوں شاعر موت مجھ کو شاعرانہ چاہئے

یاد کرتے کرتےاس کو تھک گیا ہوں میں نعیم
جو بھلا بیٹھا مجھے اس کو بھلانا چاہئے
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

اس کے بغیر بیت گئے ماہ و سال بھی

اک پل میں اس نے توڑ دی برسوں کی دوستی
رشتے کے ساتھ ختم ہوئی بول چال بھی

دیکھا جو برسوں بعد تو بدلا ہوا تھا وہ
بدلےہوئےتھےاسکے سبھی خدوخال بھی

آساں نہیں ہے ذہن سے یادیں نکالنا
جاتا نہیں ہے دل سے کسی کا خیال بھی

وعدہ ترا تھا گرنے نہ دے گا مجھے کبھی
میں گر رہا ہوں آ کے مجھے تو سنبھال بھی

تجھ سا کوئی حسیں نہ ہی تجھ سا کوئی ذہیں
تیری زمانے بھر میں نہیں اک مثال بھی

تیرے خرام ناز پہ دشمن بھی مر مٹے
تو نے بدل کےرکھ دی زمانےکی چال بھی

کب تک چلے گا عشق کا اے دل یہ سلسلہ
مرتے ہیں جس پہ ہم نہیں اس کو ملال بھی

آئے تھے کوئے یار میں ہم ڈھونڈنے جواب
اس سے ملے تو بھول گئے ہم سوال بھی

ایسا نہ ہو کہ قیس سا تیرا بھی حال ہو
دل کو نعیم صبر کی عادت تو ڈال بھی
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

گر چاہتےہو خوشیوں کےسانچےمیں ڈھل سکو
بدلو خود اپنے آپ کو گر تم بدل سکو

کب راستےبدلتے ہیں رہرو کے واسطے
تم اپنی راہ بدلو اگر تم بدل سکو

دنیا کی کیا مجال کہ تم کو شکست دے
تم خود جو اپنےخوف سےباہر نکل سکو

دشت وفا میں چلنےسےپہلے یہ سوچ لو
یہ دھوپ کا سفر ہےکہ شاید نہ چل سکو

چلتے ہیں کاروان تو اڑتی ہے گرد بھی
راہ وفا میں گرد سفر ہے جو مل سکو

ایسا نہیں کہ لوگ اٹھائیں نہ انگلیاں
چاہو تو لوٹ جاؤ اگر تم نہ چل سکو

بجھنےنہ پائیں دیپ دلوں سے امید کے
بدلو اگر ہواؤں کے رخ کو بدل سکو

غم سے کرو نڈھال نہ خود کو اے دوستو
حاضر ہے میرا دل بھی اگر تم بہل سکو

ایسا نہ ہو کہ آپ ہی گر جاؤ تم کہیں
تم شوق سےگراؤ مجھےگر سنبھل سکو

پہچان اپنی ذات کی گر چاہئے نعیم
اس بھیڑ میں سےنکلو اگر تم نکل سکو
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

رنگ و آہنگ الگ اس کا ہے مہکار الگ
سارے گلزاروں سے ہے اپنا یہ گلزار الگ

رنگ کتنے ہی بدلتی ہے یہ گرگٹ کی طرح
رنگ دنیا کا نظر آتا ہے ہر بار الگ

ایک ہی گھر ہے مگر اس کے ہیں وارث کتنے
حصہ داروں نے کئے ہیں در و دیوار الگ

ایسے لوگوں سے ذرا دور ہی رہنا یارو
جن کی گفتار الگ اور ہے کردار الگ

ایک سی ہوتی نہیں سوچ ہر اک انساں کی
تیرا معیار الگ ہے میرا معیار الگ

ایک مے خانہ ہے اور ایک ہی ساقی اس کا
بیٹھے رہتےہیں مگر پھر بھی یہ مے خوار الگ

پیار میں کرتے نہیں نفع و نقصان کی بات
اک اسی بات پہ یاروں سے ہوئے یار الگ

اب بھی رہتےہیں اسی چھوٹےسےگھرمیں دونوں
لیکن اب اپنی ہے دیوار سے دیوار الگ

گیت سازندے کا افسوس ادھورا ہی رہا
ساز ٹوٹا تو ہوا تار سے ہر تار الگ

قتل کر کے مجھے نکلے وہ مرے ماتم کو
سامنے چہرہ الگ ہے پس دیوار الگ

جب بھی آتی ہے مصیبت کی گھڑی ہم پہ کبھی
ہم سے ہو جاتے ہیں سب مونس و غم خوارالگ

کہیں مل جائے نہ موقعہ کسی طوفاں کو نعیم
اپنے ہاتھوں سے نہ کرنا کبھی پتوار الگ
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

دیکھا جو ہم نےچاند کو جا کر قریب سے
منظر سبھی دکھائی دیئےکچھ عجیب سے

چہکے نہ جب تلک وہ چٹکتی نہیں کلی
شکوے ہزار گل کو سہی عندلیب سے

تم نے امیر شخص چنا ہے تو کیا ہوا
کرتا ہے کون پیار یہاں پر غریب سے

میری وفا کی لاش کو پہنا دے وہ کفن
جو سرخ جوڑا تجھکو ملا ہےرقیب سے

لکھا تھا جو نصیب میں تم نے کیا وہی
تم سےنہیں ہےشکوہ گلہ ہےنصیب سے

اک آخری سہارا تھا امید کا ہمیں
قسمت نےوہ بھی چھین لیا ہےغریب سے

آکاش پر چمکتا ہےسورج بھی چاند بھی
پر منزل وفا کے ہیں رستے مہیب سے

پوچھیں گےتجھ سےدی ہمیں کس جرم کی سزا
دنیا میں ہم ملے جو دوبارہ نصیب سے

منظور تھی انہیں بھی رضا اپنے یار کی
بولےنہ کچھ بھی حضرت عیسیٰ صلیب سے

جائیں اگر وہاں پہ تو کس آس پر نعیم
دل اٹھ گیا ہے اپنا دیار حبیب سے
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

دور دنیا سے سدا رکھنا دل نادان کو
مار ڈالے گی یہ بڑھیا ایک دن مہمان کو

جو اڑاتے پھر رہے ہیں آج رندوں کا مذاق
کل وہی بیچیں گے ساغر کیلئے ایمان کو

ایک دن دینی تھی اس کو بادشاہی مصر کی
اس لئے زنداں میں ڈالا یوسف کنعان کو

بزم اہل اللہ کی ہے جیسے کشتی نوح کی
جانتے ہیں ہیچ وہ دنیا کے ہر طوفان کو

کوئی بھی اب تک سمجھ پایا نہ اسرار وجود
مسترد کرتی رہی خود عقل ہر امکان کو

جس جگہ کی خاک ہے واپس وہیں پر آئے گی
اس نے بھیجا تھا زمیں پر سوچ کر انسان کو

دوسروں کو مت دغا دے نام لے کر دین کا
ہو سکے تو ترجمے کے ساتھ پڑھ قرآن کو

کام آئی بھی ترے تو صرف دو گز کی زمیں
کیا کرے گا تو بنا کر قصر عالی شان کو

اولیاء اللہ کی ہے سرزمیں میرا وطن
یا خدا آباد رکھنا میرے پاکستان کو

دولت شعر و سخن ایک ایسی دولت ہے نعیم
جو کہ مل سکتی نہیں شمشیر سے سلطان کو
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

پھرتے ہیں وہ گلیوں میں کئے چاک گریباں
دیوانے ترے جن پہ بہت ہیں ترے احساں

گو بچھڑے ہوئے تجھ سے ہوئے کتنے زمانے
بھولے نہیں اب تک مرے دل کو ترے پیماں

پھر دل میں تری یاد کا طوفان اٹھا ہے
پھر بھیگے ہیں اشکوں میں مرے دیدہ و داماں

موقع جو ملا کر لیں گے تجدید وفا بھی
آئے تو نظر اس سے ملاقات کا امکاں

ایسا نہ ہو جاتا رہے اب جور بھی اس کا
ہم کرتے نہیں اپنے ستمگر کو پشیماں

کیا جانے کہ آ جائے وہ کب وعدہ نبھانے
کر لیتے ہیں ہر روز ہی ہم گھر میں چراغاں

پھیلاتا نہیں ہاتھ کسی اور کے آگے
یہ دل بھی ہے گویا کسی درویش کا داماں

ہم نے بھی نہ سوچا تھا کہ ہم بھی ہیں مصور
تصویر تری دیکھ کے نقاش ہیں حیراں

ناصح کو سمجھ آتی نہیں اتنی حقیقت
سمجھانے سے کب سمجھا ہے کوئی دل ناداں

ہم خود بھی نہیں چاہتے آزادی قفس سے
کھلنے کو تو کھل جائے وگرنہ در زنداں

ایسا نہ ہو لگ جاؤ غلط شخص کے ہاتھوں
خود کو نہ کرو جان نعیم اتنا بھی ارزاں
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

یہ خامشی ہے صبر و تشکر کی علامت

خاکم بدہن تجھ سے کروں کوئی میں شکوہ
یہ جور و ستم تیرا تو ہے لطف و کرامت

اے دوست کہ جس نے مجھے بدحال کیا ہے
اللہ سدا رکھے ترا حال سلامت

کر قدر مری آج اگر پاس ہوں تیرے
بے فائدہ کل ہوںگے ترے اشک ندامت

مل جائے گی اک روز ہمیں مسند شاہی
احباب اگر کرتے رہے یوںہی ملامت

رتبہ وہی ہوتا ہے جو مر کے رہے باقی
نادان ہیں جو دیکھتے ہیں ظاہری قامت

خرقۂ ریا کاری کو اب آگ لگا دے
اے شیخ اگر کرنی ہے رندوں کی امامت

کرتا رہوں دائم میں ترے نام کی تسبیح
یہ سلسلہ جاری رہے تا روز قیامت

درویش ہوں کوئی کہ میں سگ ہوں ترے در کا
ملتی ہے نصیبوں سے ترے در پہ اقامت

اخلاص و وفا اٹھ گئے دنیا سے نعیم اب
لگتا ہے بہت دور نہیں یوم قیامت
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

اس سے بچھڑے ہوئے اب ایک زمانہ ہو گیا
یہ فسانۂ محبت بھی پرانا ہو گیا

لاکھ کوشش کی شب ہجر گزرتی ہی نہیں
اے فرشتۂ اجل اب ترا آنا ہو گیا

شجر ممنوعہ سے پھل توڑ لیا تو کیا ہوا
اک ذرا واقعہ کا اتنا فسانہ ہو گیا

دوستی تیری ہمیں دوست بہت مہنگی پڑی
دل بھی ٹوٹا اور دشمن بھی زمانہ ہو گیا

تم نے گر ٹھان ہی لی ہے مری جاں جانے کی
پھر تو اے جان مری جان کا جانا ہو گیا

آج تک کہہ نہ سکا بات میں اپنے دل کی
گو مرا اس سے بہت ملنا ملانا ہو گیا

کیا ہوا ہم بھی اگر ہو گئے ہیں شہربدر
دل ہمارا تری یادوں کا ٹھکانہ ہو گیا

ہم نے بس اتنا کہا تھا کہ غرور اچھا نہیں
اک یہی بات لڑائی کا بہانہ ہو گیا

اس ستمگر کا ہے پھر نام مرے ہونٹوں پر
جس کی رہ تکتے ہوئے ایک زمانہ ہو گیا

اس کی تعبیر تو خیر الٹی ہی ہونی تھی نعیم
یہ بھی کیا کم ہے مرا خواب سہانا ہو گیا
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

یہ زندگی تو بیت گئی امتحان میں
دیکھیں کہ کیسے کٹتی ہے اگلے جہان میں

یہ سارا ٹھاٹھ باٹھ ہے دنیا کے واسطے
رکھا ہے کیا وگرنہ مری آن بان میں

اپنے بھی پوچھتے نہیں کیا حال ہے مرا
شامل نہیں ہوں جیسے کہ میں خاندان میں

کوئی نہیں جو بولے مرے حق میں ایک لفظ
جرأت نہیں ہے اتنی کسی کی زبان میں

ٹھکرا کے سبکو تھام لیا میں نے اسکا ہاتھ
جانے کہ کیا سمایا تھا میرے گمان میں

میری گذارشوں کا نہ اس پر ہوا اثر
شاید کمی تھی کوئی مرے ہی بیان میں

جب دیکھتا ہوں ماضی تو لگتا ہے خواب تھا
ہر وقت ہی گزرتا تھا کتنی ہی شان میں

اتنی بھی بیقراری مناسب نہیں اے دل
کیا وہ ہی ایک شخص ہے پورے جہان میں

خطرات سر پہ جتنے تھے سارے ہی ٹل گئے
جس روز سے میں آیا ہوں تیری امان میں

تکتا ہوں باربار میں سوئے فلک نعیم
رہتا ہے جیسے اپنا کوئی آسمان میں
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

وہ مثل سرو تھا مگر اس پہ ثمر نہ تھا
آتا جو کام میرے وہ ایسا شجر نہ تھا

میں جس کو پوجتا رہا خورشید کی طرح
وہ اک پرائی آگ تھی جس میں شرر نہ تھا

منزل قریب آئی تو مجھ سے بچھڑ گیا
وہ میرا ہمسفر تھا مرا ہم نظر نہ تھا

دونوں ہی کر رہے تھے کھڑے انتظار ہم
میں منتظر تھا جس کا مرا منتظر نہ تھا

ایسا نہیں کہ اس میں کوئی خوبیاں نہ تھیں
میرا ہی انتخاب بڑا معتبر نہ تھا

میں ایک سادہ لوح تھا وہ ہوشیار تھا
کوئی بھی حربہ اس پہ مرا کارگر نہ تھا

اپنا سمجھ کے کرتا رہا آبیاری میں
چھاؤں نہ دے سکا جو وہ میراشجر نہ تھا

جھوٹی تسلیاں سبھی دیتے رہے مجھے
مشکل جو آئی مجھ پہ کوئی چارہ گر نہ تھا

کہتا رہا میں مصلحتوں کو منافقت
دنیا میں کامیابی کا مجھ میں ہنر نہ تھا

سب ہی یزید وقت کے آگے تھے سجدہ ریز
کوئی بجز حسین تو سینہ سپر نہ تھا

اس نے ہر ایک حال میں رکھا مرا خیال
مجھ سے کبھی بھی میرا خدا بےخبر نہ تھا

ایسا نہیں کہ سنتا نہیں وہ مری صدا
شاید مری دعاؤں میں کوئی اثر نہ تھا

مدت کے بعد مجھ پہ یہ ظاہر ہوا نعیم
میں جس میں رہ رہا تھا وہ گھر میرا گھر نہ تھا
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

ہم نے برسوں جسے پوجا ہے شوالوں کی طرح
آج ہم سے وہ گریزاں ہے غزالوں کی طرح

ایسے لگتا ہے کہ یہ زندگی اک صحرا ہے
اشک تپتے ہیں مرے پاؤں کے چھالوں کی طرح

جب ضرورت پڑے کوئی وہ بلا لیتے ہیں
ہم ہیں تاریخ میں موجود حوالوں کی طرح

داستاں کوئی مکمل نہیں ہوتی ہم بن
یاد کرتے ہیں ہمیں لوگ مثالوں کی طرح

کتنی تیزی سے ہر اک سال گزر جاتا ہے
عمر باقی بھی گزر جائے گی سالوں کی طرح

الجھنیں زیست کی بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں
کسی بوسیدہ مکاں میں لگے جالوں کی طرح

تم نے ہم سے جو کئے تھے کبھی پیمان وفا
ذہن میں گونجتے رہتے ہیں سوالوں کی طرح

کٹ ہی جائے گی بہر حال شب ہجراں بھی
تری یادیں ہیں مرے ساتھ اجالوں کی طرح

آج تک مل نہ سکا کوئی بھی اس کے جیسا
جو مرے ذہن میں رہتا ہے خیالوں کی طرح

ڈھونڈنا اس کو نعیم اتنا بھی دشوار نہ تھا
تم نے ڈھونڈا ہی نہیں ڈھونڈنے والوں کی طرح
 
Top