ڈاکٹر نعیم چشتی کی غزلیات

غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

انہیں جس قدر ہم بھلاتے رہے
وہ اتنا ہمیں یاد آتے رہے

سنایا جو ہم نے انہیں حال دل
وہ ہںستے رہے مسکراتے رہے

ہمیں چاہئے تھی بس ان کی خوشی
ستم ان کے چپ چاپ اٹھاتے رہے

ہم ان کی اداؤں کو سمجھے وفا
وہ نظریں ملا کے چراتے رہے

ہماری زباں پر نہ آیا گلہ
فسانے مگر وہ سناتے رہے

خودی ہم سے کھیلا محبت کا کھیل
خودی ہم پہ تہمت لگاتے رہے

وہ از خود عنایات کرتے رہے
پر احسان کر کے جتاتے رہے

خدا جانےکیا ان کےدل میں تھا شک
خدا بن کے وہ آزماتے رہے

ہر اک شخص کو کر کےمیرےخلاف
وہ خود مجھ سے ملتے ملاتے رہے

مرض کا بہانہ بنا کر نعیم
وہ دنیا کو پاگل بناتے رہے
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

امیر شہر کا نشتر بڑا نکیلا ہے
غریب شہر کے چہرے کا رنگ پیلا ہے

بلا وجہ تو نہیں کہتا رہتا غزلیں میں
یہ تیری بزم میں آنے کا اک وسیلہ ہے

مرے عدو سے مری صلح ہو تو کیسے ہو
لباس میرا لہو سے ابھی بھی گیلا ہے

جدا جدا ہیں سبھی حسن و عشق کی رسمیں
کہ اس کی ذات ہے اور میرا اور قبیلہ ہے

بیان کیسے کریں اپنا مدعا اس سے
وہ زود رنج بھی ہے اور بہت غصیلا ہے

خود اپنےخون سےلکھا تھا خط اسےہم نے
جواب آیا یہ کاغذ بڑا رنگیلا ہے

کسی بہانے سے آخر اسے بچھڑنا تھا
یہ سارا عذر حقیقت میں ایک حیلہ ہے

سنا کے میری غزل اس نے لوٹ لی محفل
مرا تو نام تھا در اصل وہ سریلا ہے

نہیں بعید کسی روز میرے اوپر ہو
یہ میرے پاؤں کے نیچے جو ایک ٹیلہ ہے

زمانےگزرے کسی سانپ نے ڈسا تھا اسے
نعیم آج بھی امبر کا رنگ نیلا ہے
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

ہر شخص لئے پھرتا ہے اک سنگ ملامت
یہ بھی ہے غنیمت کہ ہے سر اپنا سلامت

احسان کیا جس پہ کیا وار اسی نے
آنکھوں سے ٹپکتے ہیں ابھی اشک ندامت

اتنا ہی کرو ظلم کہ جو سہہ سکو خود بھی
ایسا نہ ہو آ جائے ابھی تم پہ قیامت

اک شخص مری جان کے درپے ہے کہ شاید
بڑھ جائے اسی طرح سے اس کا قد و قامت

احساس نہ ہو جس کو وہ در اصل ہے مردہ
احساس کا مر جانا ہے مرنے کی علامت

بچ کے جو نکل آئے کرے شکر خدا کا
واعظ تری مجلس سے بچا کون سلامت

آمادۂ ایقان نہیں ہوتا کبھی دل
اوہام کو مل جائے جو جذبوں کی امامت

سورج ہے وہی اور وہی چاند ستارے
کیا اس میں برائی ہے جو ہم میں ہے قدامت

دیدار کرائیں گے ہمیں اپنا وہ پہلے
یعنی کہ قیامت ہو گی بالائے قیامت

میں آج ہوں جو کچھ بھی نعیم اسکا کرم ہے
فیضان نظر ہے یہ نہ مکتب کی کرامت
 

عرفان سعید

محفلین
پہلے میں نے مذاق سمجھ کر پرمزاح ریٹنگ دی۔ ابھی دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ مذاق نہیں حقیقت ہے۔
ڈاکٹر صاحب آستینیں چڑھا کر آئے ہیں۔
اب وقتاً فوقتاً ڈاکٹر صاحب کا کلام پڑھتے رہیں گے
لاک ڈاؤن ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ ایسے میں رفتہ رفتہ ڈاکٹر صاحب کا کلام پڑھتے رہیں گے۔
 
آخری تدوین:
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

گر میں تھا سرکشیدہ تو وہ بھی تھا سرپھرا
اس کا مزاج مجھ سے بہت مختلف نہ تھا

دیتا رہا ہر ایںٹ کا پتھر سے میں جواب
اپنا یہ حال تھا تو پھر اس سے بھی کیا گلہ

یہ زعم تھا مجھے کہ نہیں مجھ سا کوئی اور
جب وہ رہا نہ میرا مجھے تب پتہ چلا

بیساکھیاں نہ آئیں نظر جب وہ پاس تھا
جب وہ گیا تو جانا کہ میں تھا شکستہ پا

اپنی ہی بے وقوفی تھی اس کو دکھائی راہ
اس میں کہاں تھا ترک تعلق کا حوصلہ

ہم شور بھی مچائیں تو سنتا نہیں کوئی
وہ چپ رہیں تو پھر بھی زمانہ ہے ہم نوا

تبدیل کر کے رکھ دیا ہے وقت نے ہمیں
پہلےسےتم رہےنہ ہی ویسا میں رہ سکا

ایسا نہ ہو کہ جاتی رہے اب دعا سلام
بہتر ہے کر لیں راہیں ہم اپنی جدا جدا

ڈوبا سفینہ جب تو ہمیں یہ خبر ہوئی
اپنا خدا ہی تھا نہ ہی اپنا تھا ناخدا

آ جائے جب کسی پہ بھی وقت قضا نعیم
آتی نیں ہے کام دوا ہو کہ ہو دعا
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

کون یاں سچا پیار کرتا ہے
ہر کوئی کاروبار کر تا ہے

شہر ہے یہ ذہین لوگوں کا
دوست بھی چھپ کےوار کرتا ہے

جو تمہیں جتنا سیدھا سادہ لگے
اتنا اچھا شکار کر تا ہے

ہے وہی شخص کامیاب یہاں
صرف خود سے جو پیار کرتا ہے

نقد دیتا نہیں کسی کو بھی
مولوی صرف ادھار کر تا ہے

وہ تو جھوٹی قسم بھی کھا لے گا
شیخ پر اعتبار کر تا ہے

جانے والے کبھی نہیں آتے
پھر بھی دل انتظار کرتا ہے

چھوٹ جائے نہ صبر کا دامن
کیوں ہمیں بیقرار کرتا ہے

کٹ ہی جائے گی یہ بھی رات نعیم
کیوں ستارے شمار کرتا ہے
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

کچھ ہو کہ نہ ہو کوئی مجھے غم نہیں ہوتا
دل میرا کسی بات پہ برہم نہیں ہوتا

مل جائے اگر کچھ تو نہیں ہوتی خوشی بھی
کھو جائے اگر کچھ تو کبھی غم نہیں ہوتا

ہر شخص کو ہوتا نہیں جذبات پہ قابو
بس تھام کے گیتا کوئی گوتم نہیں ہوتا

وہ ضبط کی طاقت مرےرب نےمجھےدی ہے
دامن مرا اشکوں سے کبھی نم نہیں ہوتا

ہر حال میں رکھتا ہوں سفر اپنا میں جاری
گزرے ہوئے ایام پہ ماتم نہیں ہوتا

گو عجز سے سر میرا جھکا رہتا ہے ہر دم
پر ظلم کے آگے مرا سر خم نہیں ہوتا

صیاد ترے دام میں ہے کوئی تو جادو
گھر چھوڑنے کا ورنہ کسے غم نہیں ہوتا

پہنچا ہے بلندی پہ وہی شخص ہمیشہ
جس شخص کو گرنےپہ کبھی غم نہیں ہوتا

بے کار ہے انسان کی یہ ساری ترقی
گر ظلم ہی سے پاک یہ عالم نہیں ہوتا

پہچان نعیم اپنی میں رکھتا ہوں الگ سے
میں حلقۂ یاراں میں کبھی ضم نہیں ہوتا
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

روشن وہ دل میں پیار کی قندیل کر گیا
سارے غموں کو خوشیوں میں تبدیل کر گیا

ہر وقت ڈوبا رہتا ہوں میں اس کی یاد میں
مجھ کو کنول توخود کو کوئی جھیل کر گیا

جسکو سمجھ نہ پایا میں مدت کے بعد بھی
اک لفظ میں بیان وہ تفصیل کر گیا

آیا وہ سامنے تو یہ دل کچھ نہ کہہ سکا
چپ چاپ اس کے حکم کی تعمیل کر گیا

اس کی مہک سے اب بھی معطر دماغ ہے
خوشبوئیں اپنی مجھ میں وہ تحلیل کر گیا

جب تک ملا نہیں تھا مکمل نہیں تھا میں
اک شخص میری ذات کی تکمیل کر گیا

اس نے بدل کےرکھ دی مری ساری کائنات
وہ میری زیست کی نئی تشکیل کر گیا

میرے خیال سے بھی زیادہ حسیں تھا وہ
لیکن حسین تر میری تخئیل کر گیا

وہ شخص اک فرشتہ ہےانساں کےروپ میں
جو دوسروں کے خواب کی تکمیل کر گیا

انسان اس کو کہنا مناسب نہیں نعیم
انسانیت کی جو کوئی تذلیل کر گیا
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

دیکھتے دیکھتے یہ وقت گزر جائے گا
زیست کا دریا بھی اک روز اتر جائے گا

وہ تو آتا ہے یہاں خانہ بدوشوں کی طرح
موسم گل بھی بس آئے گا گزر جائے گا

میں ترے شہر کی چوکھٹ پہ کھڑا سوچتا ہوں
کون سا راستہ سیدھا تیرے گھر جائے گا

ایک دیوانہ ہے ایسا تیرے دیوانوں میں
کام جو کوئی نہ کر پایا وہ کر جائے گا

پھیکا پھیکا تیری تصویر کا پس منظر ہے
رنگ اپنے کوئی تصویر میں بھر جائے گا

سبھی میکش ہوئے رخصت میکدے سے ساقی
جس کا کوئی نہیں تجھ بن وہ کدھر جائے گا

ہم نے مشکل سے پرویا تھا جسے برسوں میں
کیا خبر تھی کہ وہ شیرازہ بکھر جائے گا

تیرے وعدے تیری قسمیں تیری یادیں تیرا غم
ساتھ میرے یہ مرا زاد سفر جائے گا

میں سمجھ پایا نہ جو اس نے کہا تھا مجھ کو
مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ مر جائے گا

شہر میں چرچا ہے ایک اور بغاوت کا نعیم
یہ بھی الزام مری جاں تیرے سر جائے گا
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

دل میں پھر کھلنے لگے پھول تمناؤں کے
آگئے یاد ہمیں زخم شناساؤں کے

کب چلی پیش ہماری کوئی دل کے آگے
یوں تو سنتے تھے ہم اقوال بھی داناؤں کے

ہم کسی اور کو اپناتے بھی اگر تو کیسے
دھوپ میں کھلتے نہیں پھول کبھی چھاؤں کے

بادِ صرصر نے مٹا ڈالے نشان منزل
نقش پا بھی نہ ملے بادیہ پیماؤں کے

اس طرح آنکھیں ہیں ویران سر شام مری
جس طرح اجڑے ہوئے رستے کسی گاؤں کے

مجھ سے کچھ دوست بس اس بات پہ کرتے ہیں حسد
کیوں مجھے آتے ہیں پیغام حسیناؤں کے

میرے زخموں کا نہیں کوئی بھی پاس ان کے علاج
کیوں سمجھ آتی نہیں بات مسیحاؤں کے

کیا بجھائیں گے مری پیاس سمندر غم کے
یہ تو خود پیاسے نظر آتے ہیں دریاؤں کے

دشت فرقت میں کھلے ہیں تری یادوں کے گلاب
جس طرح آبلے پھوٹے ہوں مرے پاؤں کے

ایک دنیا تھی نعیم اپنی خریدار مگر
بن کے یوسف نہ بکے ہاتھ زلیخاؤں کے
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

جو پاس تمہارے ہیں انہیں دید مبارک
ہم دور سے کہتے ہیں تمہیں عید مبارک

اک بار ہی آتا ہے ہر اک سال یہ موقعہ
یہ آج کا دن آج کا خورشید مبارک

جڑ جاتےہیں ٹوٹےہوئےرشتےبھی خوشی میں
سب رشتوں سبھی ناطوں کی تجدید مبارک

آئے ہیں نئے کپڑے پہن کر تجھے ملنے
دیوانوں کو فرزانوں کی تقلید مبارک

لمحات مسرت میں یہ مایوسی گنہ ہے
دل میں ہے جو موہوم سی امید مبارک

سنتےہیں بہت خوش ہے کسی اور سے مل کر
پھر بھی وہ اگر کر دے تو تائید مبارک

دیتے نہیں لب ساتھ تو تم دل میں ہی کہہ لو
اک عہد وفا کی نئی تمہید مبارک

جو چاہنے والے ہیں ہم آغوش ہوئے ہیں
خوابوں میں خیالوں میں ہمیں دید مبارک

بیٹھے ہو نعیم آج بھی گم صم سے قفس میں
پردیس کی تنہائی میں تجرید مبارک
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

جاتی نہیں ہے بادۂ مستاں کی آرزو
دل میں ہے پھر سے صحبت رنداں کی آرزو

واعظ تجھے جو کہنا ہے کہہ لے وہ شوق سے
چھوڑیں گے ہم نہ قربت جاناں کی آرزو

گزرا ہوں میں گلی سے تری تو برا نہ مان
کس کو نہیں ہے جنت رضواں کی آرزو

مرتے ہیں جس کے حسن پہ عشاق رات دن
دل میں مرے ہے اس شہ خوباں کی آرزو

ناداں ہیں ہم بھی کیسے کہ جس نے دیا ہے درد
رکھتے ہیں ہم اسی سے ہی درماں کی آرزو

اس نے کہا کہ تنگ نہ کر چھوڑ میری جاں
پھر سے سنوں یہی ہے مری جاں کی آرزو

رہتا ہوں آرزو میں تری جاں بلب مدام
ہوتی ہے پوری کب دل ناداں کی آرزو

واللہ شہر لگتا ہے زنداں ترے بغیر
اب ہو گئی ہے مجھ کو بیاباں کی آرزو

شہروں میں ہو گئے ہیں درندے مقیم اب
بیکار ہے یہاں پہ اب انساں کی آرزو

ہمراہیوں نے سست ہمیں کردیا نعیم
کرتے ہیں پھر سے چشم غزالاں کی آرزو
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

تو نے گر آگ نہ اس دل میں لگائی ہوتی
مجھ پہ آئی ہے جو مشکل وہ نہ آئی ہوتی

ان بتوں میں بھی خدا کوئی تو رہتا ہے ضرور
ان کی مٹھی میں نہ ورنہ یہ خدائی ہوتی

میں اگر مست نہ ہوتا تو بھلا کیا کرتا
تم نے آنکھوں سے نہ مے مجھ کو پلائی ہوتی

بات گر پھیل گئی ہے تو خطا ہے کس کی
بات منہ سے نہ نکلتی نہ پرائی ہوتی

دل میں جو بات ہو لب پر بھی وہی آتی ہے
دل میں ہوتی نہ تو لب پر نہ برائی ہوتی

ذرہ بھر بھی تمہیں ہوتا جو کبھی پاس وفا
تم نے اوروں سے مری کی نہ برائی ہوتی

میں سمجھتا ہوں حسینوں کی ادائیں ساری
میں وہاں جاتا تو شامت مری آئی ہوتی

معذرت کرنے سے کب چھوٹا ہوا ہے کوئی
خود بلا لیتے اگر تم تو بڑائی ہوتی

وہ بنا دیتا مجھے واعظ و ناصح یارو
مری قسمت میں اگر کوئی بھلائی ہوتی

اس نے مایوس کیا ہے کبھی تم کو بھی نعیم
ہاتھ اٹھاتے تو مراد اپنی یہ پائی ہوتی
 
ڈاکٹر نعیم چشتی

پھر اٹھی ظلم کی تلوار خدا خیر کرے
کس پہ کرتا ہے وہ اب وار خدا خیر کرے

کل تلک جس کی وفاداری پہ نازاں تھا وطن
آج وہ ٹھہرا ہے غدار خدا خیر کرے

ایک منصور نے پھر نعرہ لگایا حق کا
سج گئے پھر رسن و دار خدا خیر کرے

سوئے مقتل کون زنجیر بہ پا آتا ہے
کون چڑھتا ہے سر دار خدا خیر کرے

ایک معصوم کو سنگسار کریں گے مل کر
شہر کے سارے گنہگار خدا خیر کرے

ڈوب جائے نہ سفینہ کہیں اپنا ہمدم
پھر ہیں طوفان کے آثار خدا خیر کرے

روز دہراتے تھے جو حلف وفاداری کا
جنگ پر آج ہیں تیار خدا خیر کرے

شاید اپنے بھی نعیم آج اڑیں گے پرزے
سخت غصے میں ہیں سرکار خدا خیر کرے
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

ایک طوفان سا دنیا میں اٹھا رکھا ہے
تو نے ہر شخص کو دیوانہ بنا رکھا ہے

توہےخود مجھ میں خودی میں مری خودداری میں
اس لئے ہم نے ترا نام خدا رکھا ہے

سخت نادان ہے نافہم ہے ناواقف ہے
جس نے تجھ بن کوئی معبود بنا رکھا ہے

جز ترے دل میں کبھی اور کچھ آتا ہی نہیں
تو نے اس عشق میں کیا ہم کو بنا رکھا ہے

بند آنکھوں سےہی میں دیکھتا رہتا ہوں تجھے
تیرے دیدار میں کچھ ایسا نشہ رکھا ہے

نصف شب ہوتےہی کھل جاتی ہےاب آنکھ مری
تیری الفت نے مجھے ایسے جگا رکھا ہے

کرتا رہتا ہوں ہمہ وقت زیارت تیری
دل کے کعبے میں ترا عکس سجا رکھا ہے

دل مرا کرتا ہے اک تیری ہی تسبیح مدام
میں نے سانسوں پہ ترا نام لکھا رکھا ہے

سوچ میری لگی رہتی ہے عبادت میں تری
سر ترے سامنے سجدے میں جھکا رکھا ہے

میری نظریں سدا کرتی ہیں ترے گرد طواف
تجھے ہر فکر کے محور میں چھپا رکھا ہے

کوہکن کوئی مجھے کہتا ہے کوئی مجنوں
عشق نے تیرے یہ احوال بنا رکھا ہے

رنج و غم لاکھ سہی ہنستے رہو پھر بھی نعیم
اس طرح جینے میں مالک نے مزا رکھا ہے
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

ایسی ہوا چلی کہ مرا بام و در گیا
گھر کا دیا بچاتے ہوئے میرا گھر گیا

اتنے بھی غور سے تو مرا جائزہ نہ لے
جس کی تجھے تلاش ہے وہ کب کا مر گیا

جس نے بھلا دیا اسے رکھتا میں یاد کیوں
اس کا بھی نام ذہن سے آخر اتر گیا

ایسے جوانی آئی کہ جیسے کڑکتی دھوپ
موسم یہ گرمیوں کا بھی لیکن گزر گیا

میں چپ رہا کہ جان تھی اپنی مجھے عزیز
ہمزاد تھا وہ میرا ہی جو دار پر گیا

پہرے بٹھاؤ لاکھ تم اب دل کے اردگرد
کرنا تھا دل کے چور نے جو کام کر گیا

دانا تھے جتنے کرتے رہے کشتیاں تلاش
میں ڈوبتا ڈباتا ہوا پار اتر گیا

جس کے بغیر پل بھی گزرتا نہ تھا کبھی
دیکھے ہوئے بھی اس کو زمانہ گزر گیا

اس سے ہوا ملاپ جو بھولے گا کسطرح
اک سانحہ سا جیسے کہ جاں پر گزر گیا

کچھ تو ہوا ہے تیری بھی صحبت کا فائدہ
دنیا سمجھ رہی ہے کہ میں بھی سنور گیا

تقدیر کر رہی تھی تعاقب مرا نعیم
میں نے جدھر بھی رخ کیا طوفاں ادھر گیا
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

ہر ایک ہاتھ میں اک خارۂ ملامت ہے
خموش رہنا ہی دانائی کی علامت ہے

شکست کھا کے بھی ہمت کبھی نہیں ہاری
ترے غلام میں اتنی تو استقامت ہے

رقیب خاک ہوئے ہیں مگر میں زندہ ہوں
یہ معجزہ ہے ترا یا مری کرامت ہے

تمام جگ پہ ہےحرص و ہوس کی سرداری
یہی بہت ہے کہ ایمان ابھی سلامت ہے

ادا میں کر نہ سکا حق بںدگی اس کا
یہی ملال ہے مجھ کو یہی ندامت ہے

کیا ہے اس نے قیامت کے روز کا وعدہ
اب انتظار قیامت سے تا قیامت ہے

عبث ہے قیس سے امید ہوشمںدی کی
کہ اسکا نام ہے مجنوں جنوں علامت ہے

نئی ہے دنیا نیا رنگ و روپ لوگوں کا
مزاج یار میں اب بھی وہی قدامت ہے

وہ اس لئے ہے مرے درپئے گزند نعیم
زیاددہ اتنا بھی کیوں میرا قد و قامت ہے
 

رانا

محفلین
اتنی ساری غزلیات آپ نے ایک ہی دن میں پوسٹ کر دیں ۔ جس سے گمان ہوتا ہے کہ شاید آپ دوبارہ محفل میں آنے کے متمنی نہیں ہیں۔ :)
سر کچھ اور گمان بھی تو ہوسکتا ہے۔ مثلا ہمیں تو یہ گمان ہوا کہ آپ سمیت محفل کے شعراء کو ضرور آج بدہضمی کی شکایت ہوجائے گی۔:)
 
Top