ڈارون کا نظریہ ارتقا کیوں درست ہے؟

جاسم محمد

محفلین
ڈارون کا نظریہ ارتقا کیوں درست ہے؟
08/12/2019 ڈاکٹر خالد سہیل

پچھلی چند دہائیوں میں جب بھی میں نے مختلف مکاتبِ فکر کے مردوں اور عورتوں سے ڈارون کے نظریہِ ارتقا کے بارے میں تبادلہِ خیال کیا تو مجھے یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ ان میں سے اکثر نے یا تو اس نظریے کو سنجیدگی سے پڑھا ہی نہیں تھا اور اگر پڑھا تھا تو صحیح طریقے سے سمجھا نہیں تھا کیونکہ وہ سائنس کے سنجیدہ طالبعلم نہیں تھے۔

دنیا کے بہت سے مذاہب کے پیروکاروں کا یہ ایمان ہے کہ انسان کرہِ ارض پر جنت سے اترا ہے اور اس کی تخلیق باقی جانوروں‘ پرندوں اور مچھلیوں کی تخلیق سے مختلف ہے۔ اس مذہبی نطریے کے مقابلے میں چارلز ڈارون CHARLES DARWINنے یہ سائنسی نظریہ پیش کیا کہ انسان کی تخلیق لاکھوں سالوں کے ارتقا کا نتیجہ ہے اور انسانوں‘ جانوروں‘ پرندوں اور مچھلیوں کے آبا و اجداد مشترک ہیں۔

ڈارون کئی ممالک اور جزیروں کے سفر اور تیس برس کی تحقیق کے بعد ان نتائج تک پہنچا تھا لیکن وہ ان نتائج کو چھپوانے سے گھبراتا تھا کیونکہ اسے خطرہ تھا کہ جب اس کا نظریہ ارتقا منظرِ عام پر آئے گا تو اس کے عہد کے روایتی عیسائی پادری اس کے نظریے کو بائبل کی تعلیمات کے خلاف جانیں گے اور اس کا دائرہِ حیات تنگ کر دیں گے۔

ڈارون نے اپنے آپ کو ایک دوراہے پر اس وقت کھڑا پایا جب اس کے جونیر رفیقِ کار ایلفرڈ والیسALFRED WALLACE نے اسے اپنا ایک مضمون بھیجا اور رائے چاہی۔ ڈارون وہ مضمون پڑھ کر بہت پریشان ہوا کیونکہ اس مضمون میں والیس نے ڈارون کا نظریہ چند صفحوں میں اختصار سے بیان کر دیا تھا۔ ڈارون نے دوستوں سے پوچھا تو انہوں نے مشورہ دیا کہ ڈارون اور والیس کے مقالے ایک ہی کانفرنس میں پیش کیے جائیں تا کہ اولیت کا افتخار دونوں کو بیک وقت حاصل ہو۔ اس کانفرنس کے کچھ عرصہ بعد ڈارون نے 1858 میں اپنی مشہور کتابTHE ORIGIN OF SPECIES چھاپی۔



ڈارون کے دور کے عیسائی پادریوں کا کہنا تھا کہ بائبل میں آیا ہے کہ کرہِ ارض کی عمر چھ ہزار برس ہے اور آدم جنت سے زمین پر آیا ہے۔ڈارون نے ثابت کیا کہ انسان لاکھوں برس کے ارتقا اور NATURAL SELECTION کا ماحصل ہے۔

عیسائی دنیا میں یہ تضاد آج تک موجود ہے۔ روایتی عیسائی اور پادری ڈارون کے نظریے کو نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ وہ عیسائی تعلیمات کے خلاف ہے۔ روشن خیال عیسائی ڈارون کے نظریے کو مانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انجیل کی تعلیمات اور ڈارون کے نظریے میں کوئی تضاد نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انجیل لوک ورثہ اور اخلاقیات کی کتاب ہے سائنس کی نہیں اور ہمیں انجیل کی دیگر ادبِ عالیہ کی طرح استعاراتی تفسیرINTERPRETATION METAPHORICAL کرنی چاہیے نہ کہ لغویLITERAL ۔

عیسائیوں کی طرح مسلمانوں میں بھی دو گروہ پائے جاتے ہیں. روایتی مسلمان اور علما ڈارون کے نظریے کو نہیں مانتے اور اسے قرآنی تعلیمات کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ان کا ایمان ہے کہ آدم جنت سے زمین پر آیا تھا۔ وہ اس قرآنی آیت کا جس میں کہا گیا ہے کہ تمام انسانوں کی ابتدا ’نفس الواحدہ‘ سے ہوئی وہ ’نفس الواحدہ‘ کا ترجمہ آدم کرتے ہیں۔ روایتی مسلمانوں اور علما کے ساتھ ساتھ دوسرا گروہ روشن خیال مسلمانوں اور علما کا ہے جو قرآن کی تفسیر جدید سائنس کی روشنی میں کرتے ہیں۔ ان کی ایک مثال مسلم دانشور ابولکلام آزاد ہیں۔ انہوں نے اپنی تفسیر میں قرآن کی آیات سے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ قرآن اور ڈارون کے نظریے میں کوئی تضاد نہیں۔ انہوں نے ’نفس الواحدہ‘ کا ترجمہ آدم کی بجائےAMOEBA UNI-CELLULAR ORGANISM کیا۔

بعض مسلمانوں کا خیال ہے کہ سائنس کی تحقیق کا مذہبی کتابوں سے کوئی تعلق نہیں۔ہمیں سائنس کی تحقیق کے نتائج کو قبول کرنا چاہیے اور اس بات کی فکر نہیں کرنی چاہیے کہ آسمانی کتابیں ان سے اتفاق کرتی ہیں یا نہیں۔ ویسے بھی آسمانی کتابوں کی اتنی ہی تفسیریں ہیں جتنے عالم اور فرقے۔ بعض دفعہ وہ تفسیریں مختلف ہی نہیں متضاد بھی ہوتی ہیں۔

ڈارون کی زندگی میں ہی اس کی حمایت اور مخالفت کرنے والوں میں مناظرے ہوتے رہے لیکن وہ خاموشی سے اپنا تحقیقی اور تخلیقی کام کرتا رہا اور جہالت کی تاریکیوں میں علم و دانش کی شمعیں جلاتا رہا۔ فوت ہونے سے پہلے اس نے ایک اور کتاب لکھی جس کا نام THE DESCENT OF MAN تھا۔ اس کتاب میں ڈارون نے ثابت کیا کہ انسانوں اور حیوانوں کی بہت سی ذہنی خصوصیات مشترک ہیں اور انسانی دماغ جانوروں کے دماغ کی ارتقا یافتہ صورت ہے۔ ڈارون نے کہا کہ رحمِ مادر میں انسانی بچے کا دماغ ساتویں مہینے میں اتنا نشوونما پا چکا ہوتا ہے جتنا کہ بندر کا دماغ جوانی میں ہوتا ہے۔ اسی لیے حیوانوں اور انسانوں کی ذہنی اور جذباتی خصوصیات میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ ڈارون نے ثابت کیا کہ انسانوں کی طرح جانور بھی خوش ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے کھیلتے اور شرارت کرتے ہیں۔ خوشی کی خصوصیات کے ساتھ ساتھ جانور غم کا اظہار بھی کرتے ہیں اور جب انسانوں کی طرح خوفزدہ ہوتے ہیں تو ان کے دل زور زور سے دھڑکنے لگتے ہیں اور ان کے بال کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اگر جانوروں کا کوئی قریبی رشتہ دار فوت ہو جائے تو وہ دکھی بھی ہوتے ہیں۔ جب بندروں کے بچے یتیم ہو جاتے ہیں انہیں دوسرے بندر پالتے ہیں۔

جانور انسانوں کی طرح محبت بھی کرتے ہیں۔ کتے اپنے مالک کے بہت وفادار ہوتے ہیں۔ جانوروں کو حسن کا بھی احساس ہوتا ہے۔ مورنی کا رقص اس کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔

ڈارون کا کہنا تھا کہ جو چیز ارتقا کے حوالے سے انسانوں کو باقی جانوروں سے ممتاز کرتی ہے وہ اس کے الفاط اور زبانwords and language ہیں۔ زبان کی وجہ سے انسانوں نے شاعری اور ادب‘ سائنس اور ٹیکنالوجی‘ نفسیات اور سماجیات کو تخلیق کیا اور کلچر اور تہذیب کو فروغ دیا۔



ڈارون کے نظریے کو بیسویں صدی کے ایک ماہرِ حیاتیات رچرڈ ڈوکنز RICHARD DAWKINS نے اپنی تحقیق سے آگے بڑھایا ہے۔ اس نے اپنی کتاب THE ANCESTOR’S TALE میں یہ ثابت کیا ہے کہ اگر ہم انسانوں کے کروموسومز‘ جینز اور ڈی این اے CHROMOSOMES, GENES AND DNA کا جانوروں ‘پرندوں اور مچھلیوں کے کروموسومز‘ جینز اور ڈی این اے سے مقابلہ کریں تو ثابت کر سکتے ہیں کہ ان سب کے آبا و اجداد مشترک تھے۔

سٹیون ہاکنگ STEPHEN HAWKINGاور دیگر ماہرِ فلکیات کی تحقیق نے ہمیں بتایا ہے کہ ہماری گیلیکسی GALAXYکی عمر تقریباٌ 13.7 بلین سال ہے۔ کرہِ ارض کی عمر4.5 بلین سال اور کرہِ ارض پر زندگی کی عمر تقریباٌ 4 بلین سال ہے۔ ماہرین نے ثابت کیا ہے کہ زمین پر زندگی کی ابتدا سمندر کی گہرائیوں میں ہوئی۔ پھر زندگی سمندر سے زمین پر آئی اور لاکھوں سالوں کے ارتقا سے انسان معرضِ وجود میں آیا۔ وہ لاکھوں سال تک افریقہ میں رہا اور پھر100,000 سال پہلے وہ ہجرت کر کے دنیا میں چاروں طرف پھیل گیا۔

رچرڈ ڈوکنز نے اپنی کتاب میں اپنی تحقیق سے جو تفصیلات بیان کیں ان کے مطابق انسانوں کا‘ جو سائنس کی زبان میں HOMO SAPIENS کہلاتے ہیں‘ اپنے آبا واجداد سے کچھ اس طرح رشتہ بنتا ہے

HOMO ERECTUS سے رشتہ ۹۰۰۰۰۰ سال پہلے

CHIMPANZEES AND GORILLAS سے رشتہ5-7 ملین سال پہلے

ORANG UTANS AND GIBBONS سے رشتہ 14-18 ملین سال پہلے

OLD WORLD AND NEW WORLD MONKEYS سے رشتہ25–40 ملین سال پہلے

RHODENTS AND RABBITS سے رشتہ60—80 ملین سال پہلے

FISH AND SHARKS سے رشتہ400…500 ملین سال پہلے

FLAT WORMS, FUNGI, AMOEBA سے رشتہ600…800 ملین سال پہلے بنتا ہے۔

جدید سائنس کی اس تحقیق میں چٹانوں میں چھپے فوسلزFOSSILS نے بہت مدد کی۔ ان فوسلز میں وہ راز پائے گئے جو سائنسدانوں کی تحقیق کے لیے اہم تھے۔ ڈارون کے نظریہ ارتقا اور NATURAL SELECTION کے مطابق جو ذی حیات سخت حالات کا سامنا کر سکے وہ زندہ رہے جو مقابلہ نہ کر سکے وہ نیست و نابود ہو گئے۔

انسانوں کے خلیوں میں جو ڈی این اےDNA ہوتے ہیں اور نسل در نسل آگے جاتے ہیں ان پر یورپ کے سائنسدان برائن سائکس BRYAN SYKES نے کافی تحقیق کی۔ جب اس کی کتاب SEVEN DAUGHTERS OF EVE چھپی تو ساری دنیا نے اپنے آبا و اجداد اور اپنا شجرہ نسب جاننے کے لیے اپنا لعابِ دہن بھیجا۔ اس طرح لاکھوں لوگوں کے ڈی این اے سے یہ تحقیق نئے نتائج پیش کر رہی ہے۔ سائنس ثابت کر چکی ہے کہ انسانی بچے میں جو کروموسوم ہوتے ہیں ان میں سے دو کرموسوم جنسی کروموسوم SEX CHROMOSOME کہلاتے ہیں کیونکہ وہ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ بچہ لڑکا ہوگا یا لڑکی۔ لڑکی میں دونوں کروموسوم XX ہوتے ہیں جن میں سے ایکX کروموسوم باپ سے اور ایکX کروموسوم ماں سے آتا ہے۔ اس کے مقابلے میں لڑکوں کے دو کروموسوم XY ہوتے ہیں X ماں سے آتا ہے اورY باپ سے۔ اس لیے یہ کہنا کہ لڑکی اور لڑکے کا فیصلہ ماں کرتی سائنسی حوالے سے غلط ہے۔

SYKES کی تحقیق نے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ انسانوں نے اپنا سفر افریقہ سے شروع کیا۔ وہ لاکھوں سال وہاں رہے پھر ایک لاکھ سال 100,000 پہلے انسانوں نے ہجرت کی اور آہستہ آہستہ ساری دنیا میں پھیل گئے۔

جو لوگ ڈارون کے نظریے کو پوری طرح نہیں سمجھتے وہ کہتے ہیں کہ انسان بندروں کی اولاد ہیں۔ سائنسدان ایسے لوگوں کو بتاتے ہیں کہ ایسا کہنا کہ انسان بندروں کی اولاد ہیں سائنسی حوالے سے درست نہیں۔ سائنسی حوالے سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسانوں اور بندروں کے آبا و اجداد مشترک ہیں۔ ڈوکنز نے اپنی تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ صرف انسانوں اور بندروں کے ہی نہیں انسانوں، بندروں‘ دیگر جانوروں اور مچھلیوں کے آبا و اجداد مشترک ہیں۔ زندگی کا آغاز سمندر سے ہوا اور سب جاندار دھرتی ماں کے بچے ہیں۔



میرے وہ دوست جو سائنس اور نظریۂ ارتقا کا سنجیدگی سے مطالعہ کرنا چاہتے ہیں میں انہیں مندرجہ ذیل تین کتابیں پڑھنے کا مشورہ دیتا ہوں۔

THE DESCENT OF MAN BY CHARLES DARWIN

SEVEN DAUGHTERS OF EVE BY BRYAN SYKES

THE ANCESTOR’S TALE BY RICHARD DAWKINS

میں اپنے دوستوں کو یہ بھی بتاتا ہوں کہ جب میں خیبر میڈیکل کالج پشاور میں ایمبریولوجی EMBRYOLOGYپڑھا کرتا تھا ان دنوں مجھے یہ جان کو خوشگوار حیرت ہوئی کہ انسانی بچہ رحمِ مادر کے نو مہینوں اور سات دن میں ارتقا کے وہ سب مراحل طے کرتا ہے جو انسان نے لاکھوں سال میں طے کیے ہیں۔ انسانی بچے کی رحمِ مادر میں زندگی کا آغاز ایک خلیے سے ہوتا ہے پھر وہ مچھلی کی شکل اختیار کرتا ہے اور آخر میں انسان کی صورت میں پایہِ تکمیل تک پہنچتا ہے۔ میں ان دوستوں سے جو ڈارون کے نظریے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں مشورہ دیتا ہوں کہ اگر وہ انسانی بچے کا رحمِ مادر میں ہر ماہ الٹرا سائونڈ ULTRA SOUNDدیکھیں تو شاید اپنی رائے بدل لیں۔

بہت سے مسلمان جو ڈارون کے نظریے کو نہیں مانتے اس حقیقت سے بےخبر ہیں کہ ڈارون سے پہلے جن فلاسفروں نے ارتقا کے نظریے کو پیش کیا تھا ان میں مسلم فلاسفر ابن خلدون بھی شامل تھے۔ ابن خلدون نے اپنی مشہور تصنیف ’مقدمے‘ میں لکھا تھا

کرہَ ارض پر ارتقا لاکھوں سال سے ہو رہا ہے

پہلے یہاں صرف معدنیات تھیں

پھر نباتات بنے

پھر سمندر میں زندگی پیدا ہوئی

پھر مچھلیاں بنیں

پھر جانور بنے

پھر انسان بنے

ارتقا کی ہر منزل کی انتہا اگلی منزل کی ابتدا بنی۔

ارتقا کا نظریہ پہلے سے موجود تھا۔ ڈارون نے اس کا سائنسی ثبوت پیش کیا۔ اس طرح ارتقا کا نظریہ جو فلسفے کی کتابوں میں پیش کیا جاتا تھا سائنس کی کتابوں میں داخل ہو سکا۔ ڈارون کے بعد کئی اور سائنسدانوں نے اس نظریے کے مزید سائنسی ثبوت فراہم کیے۔

میں بھی طب اور سائنس کے بہت سے طالب علموں کی طرح ڈارون کے نظریے کو درست مانتا ہوں۔ ڈارون کے نظریے نے وہ بنیادیں مہیا کیں جس پر کارل مارکس‘ سگمنڈ فرائڈ اور رچرڈ ڈوکنز جیسے ماہرینِ حیاتات‘ نفسیات اور سماجیات نے سائنس کی بلند و بالا عمارتیں تعمیر کیں۔ چارلز ڈارون کے نظریے نے انسانی شعور کے ارتقا میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

محمد سعد

محفلین
اچھا مضمون ہے۔ اگرچہ ڈارون سے سیدھا رچرڈ ڈاکنز پر آ جانا ایسا تاثر پیدا کرتا ہے کہ جیسے درمیان میں کوئی قابل ذکر تحقیق ہوئی ہی نہیں۔
نیز یہ حصہ درست نہیں ہے۔
میں اپنے دوستوں کو یہ بھی بتاتا ہوں کہ جب میں خیبر میڈیکل کالج پشاور میں ایمبریولوجی EMBRYOLOGYپڑھا کرتا تھا ان دنوں مجھے یہ جان کو خوشگوار حیرت ہوئی کہ انسانی بچہ رحمِ مادر کے نو مہینوں اور سات دن میں ارتقا کے وہ سب مراحل طے کرتا ہے جو انسان نے لاکھوں سال میں طے کیے ہیں۔ انسانی بچے کی رحمِ مادر میں زندگی کا آغاز ایک خلیے سے ہوتا ہے پھر وہ مچھلی کی شکل اختیار کرتا ہے اور آخر میں انسان کی صورت میں پایہِ تکمیل تک پہنچتا ہے۔ میں ان دوستوں سے جو ڈارون کے نظریے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں مشورہ دیتا ہوں کہ اگر وہ انسانی بچے کا رحمِ مادر میں ہر ماہ الٹرا سائونڈ ULTRA SOUNDدیکھیں تو شاید اپنی رائے بدل لیں۔
صرف شکل کی مشابہت کو آپ ارتقاء کے مراحل کے ساتھ تشبیہ نہیں دے سکتے جن میں تبدیلیاں جینیاتی نوعیت کی ہوتی ہیں۔
 

محمد سعد

محفلین
شرلی کی کیا بات ہے یار۔ اتنی ذہنی بلوغت تو بندے میں ہونی چاہیے کہ جو شے مشاہدات و تجربات سے کئی بار ثابت ہو چکی ہو، اسے قبول کر لے۔ :rolleyes:
اگر کوئی قبول نہیں کرنا چاہتا تو پھر مسئلہ اس میں ہے، موضوع کو شرلی تو نہیں قرار دیا جا سکتا۔
 

آصف اثر

معطل
شرلی کی کیا بات ہے یار۔ اتنی ذہنی بلوغت تو بندے میں ہونی چاہیے
حضرت دوسروں کو ذہنی بلوغت کے طعنے دینے سے پہلے خود آپ کا بچپنا کب ختم ہوگا؟
اور کچھ شرم بھی بندے کو آنی چاہیے جو درجن بھر کتابیں پڑھنے کے بعد بھی یہ نہ جان سکے کہ انسان اور بندر کے شجرہ میں کیا فرق ہے۔ اوپر سے ارتقا کا شوق چر گیا ہے۔ چاہے آتا واتا کچھ بھی نہ ہو۔
 
آخری تدوین:

آصف اثر

معطل
اچھا مضمون ہے۔ اگرچہ ڈارون سے سیدھا رچرڈ ڈاکنز پر آ جانا ایسا تاثر پیدا کرتا ہے کہ جیسے درمیان میں کوئی قابل ذکر تحقیق ہوئی ہی نہیں۔
ویسے آپ والی بےمثال تحقیق کیسی رہے گی جس پر آپ نے شرمندہ ہونے کے بجائے چار پانچ صفحے ڈمپ کردیے تھے؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
سعد بھائی نکتہ صرف اتنا ہے کہ مورنی نہیں ناچتی مور ناچتا ہے خواہ اسے سائنس نچائے یا ادب یا پھر مورنی ۔ :)
 
آخری تدوین:

آصف اثر

معطل
آصف اثر
اگر آپ کو لگتا ہے کہ نظریہ ارتقاء غلط ہے تو آپ ہمارے ساتھ وہ وجوہات شئیر کر سکتے ہیں کہ جن کی بنا پر آپ یہ یقین رکھتے ہیں۔
بحیثیت ایک مسلمان کے جن نظریات اور امور کا عقائد پر اثر پڑتا ہو، سب سے پہلے انہیں شریعت کے تناظر میں پرکھا جائے گا، پھر عصری علوم اور انسانی خیالات کے تناظر میں۔
لہذا پہلے یہ طے کیا جائے کہ آپ شریعت کے تناظر میں ارتقا پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں یا نہیں؟
اگر کرنا چاہتے ہیں تو کیا آپ شریعت کے فیصلے کو انسانوں کے وضع کردہ خیالات یا متون پر فوقیت دیں گے؟
اس ضمن میں کیا دونوں کو ایک ساتھ لے کر چلا جائے یا ترتیب وار؟
چوں کہ ایک مسلمان کے نزدیک شریعت کو تمام انسانی خیالات پر فوقیت حاصل ہے لہذا ترتیب وار صورت میں پہلے شرعی نقطہ نظر پر بات ہوگی، پھر انسانی خیالات کے تناظر میں۔
اگر ایک ساتھ لے کر چلا جائے تو یہ بھی قابلِ قبول ہوگا۔ لیکن شرعی تناظر میں فیصلہ ہوجانے کے بعد انسانی خیالات کو اسی وقت یا تو رد کردیا جائے گا یا قبول۔
اور اگر آپ شرعی تناظر میں اس پر بات نہیں کرنا چاہتے تو اس کی وجہ بیان کردیں، پھر بات کو آگے لے کر بڑھا جاسکتاہے۔
 

محمد سعد

محفلین
بحیثیت ایک مسلمان کے جن نظریات اور امور کا عقائد پر اثر پڑتا ہو، سب سے پہلے انہیں شریعت کے تناظر میں پرکھا جائے گا، پھر عصری علوم اور انسانی خیالات کے تناظر میں۔
لہذا پہلے یہ طے کیا جائے کہ آپ شریعت کے تناظر میں ارتقا پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں یا نہیں؟
اگر کرنا چاہتے ہیں تو کیا آپ شریعت کے فیصلے کو انسانوں کے وضع کردہ خیالات یا متون پر فوقیت دیں گے؟
اس ضمن میں کیا دونوں کو ایک ساتھ لے کر چلا جائے یا ترتیب وار؟
چوں کہ ایک مسلمان کے نزدیک شریعت کو تمام انسانی خیالات پر فوقیت حاصل ہے لہذا ترتیب وار صورت میں پہلے شرعی نقطہ نظر پر بات ہوگی، پھر انسانی خیالات کے تناظر میں۔
اگر ایک ساتھ لے کر چلا جائے تو یہ بھی قابلِ قبول ہوگا۔ لیکن شرعی تناظر میں فیصلہ ہوجانے کے بعد انسانی خیالات کو اسی وقت یا تو رد کردیا جائے گا یا قبول۔
اور اگر آپ شرعی تناظر میں اس پر بات نہیں کرنا چاہتے تو اس کی وجہ بیان کردیں، پھر بات کو آگے لے کر بڑھا جاسکتاہے۔
یہ غلط سوچ ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا یقین یہ ہوتا ہے کہ کائنات کو جو چلا رہا ہے، اس کو اس بات سے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں کہ ہم شریعت کی اپنی اپنی خیالی حدود متعین کر کے اس میں محدود رہنے کے بجائے حقیقی دنیا کا خود مشاہدہ کریں۔ چونکہ قرآن سچ ہے تو اسے کسی قسم کا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم حقیقی مشاہدے اور ڈیٹا کی بنیاد پر زندگی کے مکینزم کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ یہ ہوتا ہے ایمان۔ اس کو ایمان نہیں کہتے جو ہر جگہ ڈرتا رہے کہ کہیں آگے سے ناپسندیدہ نتیجہ نہ نکل آئے۔
تو براہ مہربانی، اپنے ایمان کی مضبوطی کا ثبوت دیں اور حقیقی مشاہدے اور ڈیٹا کی روشنی میں ارتقاء کو غلط ثابت کریں۔ شکریہ۔
 

آصف اثر

معطل
یہ غلط سوچ ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا یقین یہ ہوتا ہے کہ کائنات کو جو چلا رہا ہے، اس کو اس بات سے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں کہ ہم شریعت کی اپنی اپنی خیالی حدود متعین کر کے اس میں محدود رہنے کے بجائے حقیقی دنیا کا خود مشاہدہ کریں۔ چونکہ قرآن سچ ہے تو اسے کسی قسم کا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم حقیقی مشاہدے اور ڈیٹا کی بنیاد پر زندگی کے مکینزم کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ یہ ہوتا ہے ایمان۔ اس کو ایمان نہیں کہتے جو ہر جگہ ڈرتا رہے کہ کہیں آگے سے ناپسندیدہ نتیجہ نہ نکل آئے۔
تو براہ مہربانی، اپنے ایمان کی مضبوطی کا ثبوت دیں اور حقیقی مشاہدے اور ڈیٹا کی روشنی میں ارتقاء کو غلط ثابت کریں۔ شکریہ۔
مجھے اس بات پر شدید حیرت ہے کہ آپ نے یہ کیسے طے کرلیا کہ میرا ایمان حقیقی ڈیٹا اور مشاہدے کو مسترد کرکے صرف اپنے مرضی کے نتائج کو قبول کرناچاہتا ہے؟
اگر آپ کے سوچ کو اس زاویے سے بیان کیا جائے تو کیسا رہے گا کہ
حقیقی مشاہدے اور ڈیٹا کو ایک ہی فریم میں دیکھنے کے بجائے اسے دو فریمز میں جانچا جائے، ایک شریعت کے تناظر میں اور ایک عصری علوم کے پیمانے پر۔
یہاں میں نے عصری علوم کی اصطلاح استعمال کی ہے نہ کہ انسانی خیالات کے الفاظ۔
یعنی جن انسانی خیالات [ارتقا] کو آپ صرف ملحدین کے نظر سے دیکھنے پر مجبور ہیں، -نوٹ کریں کہ ملاحدہ کے پاس اس کے بغیر کوئی اُلوہی توجیہ ہو ہی نہیں سکتی- تو انہیں خیالات کو کیوں نہ پہلے احکامِ الہی اور پھر عصری علوم کی نظر سے دیکھا جائے؟
کیسا رہے گا؟
 
آخری تدوین:
Top