امیر مینائی چھوڑو نہیں اے بتو حیا کو - امیر مینائی

کاشفی

محفلین
غزل
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)

چھوڑو نہیں اے بتو حیا کو
کیا منہ نہ دکھاؤ گے خدا کو

لٹکاؤ نہ گیسوئے رسا کو
پیچھے نہ لگاؤ اس بلا کو

ظالم تجھے دل دیا، خطا کی
بس بس میں پُہنچ گیا، سزا کو

کانٹوں سے کہو سنبھال لینا
آتا ہے غش اک برہنہ پاکو

بلبل کو ملی جو باغ بانی
روکے در باغ پر صبا کو

اے حضرتِ دل بتوں کو سجدہ
اتنا تو نہ بھولئیے خدا کو

گل کر گئی میری شمع تربت
کیا مو ج یہ آگئی صبا کو

کوچے میں ترے ملا یہ آرام
نیند آگئی چشم نقش پا کو

اتنا بکیئے کہ کچھ کہے وہ
یوں کھولیئے قفل مدعا کو

کہتا ہے یہ شوق قتل ہر دم
دم لینے نہ دیجئے قضا کو

کیا کیا تری چشمگیں بچائیں
دھوکے دیئے تیر بے خطا کو

دکھلا کے ہم اپنی سخت جانی
غصہ دلواتے ہیں قضا کو

ہاتھ آئے اگر نگیں حسرت
کھدوائیے نقش مدعا کو

راضی برضا ہوں اے صنم میں
جو کچھ منظور ہو خدا کو

کہتی ہے امیر اُس سے شوخی
اب مُنہ نہ دکھائیے حیا کو
 
Top