تبصرہ کتب چڑھتے سورج کے دیس میں

محمداحمد

لائبریرین
کتاب: چڑھتے سورج کے دیس میں
مصنف:ڈاکٹر آصف محمود جاہ

"چڑھتے سورج کے دیس میں" ڈاکٹر آصف محمود جاہ کا مختصر سفرنامہ ٴ جاپان ہے۔

یہ ایک مختصر سی کتاب ہے اور اسے نیشنل بک فاؤنڈیشن نے شائع کیا ہے۔ ڈاکٹر آصف محمود جاہ سندیافتہ ماہرِ طب ہونے کے ساتھ ساتھ کسٹمز ڈپارٹمنٹ میں ملازم بھی تھے اور کسٹمز کی ٹریننگ کی غرض سے 1996ء میں کم و بیش ایک ماہ کے لئے جاپان گئے تھے، اسی سفر کے دوران آپ نے یہ سفرنامہ رقم کیا۔

چونکہ یہ ایک مختصر سی کتاب ہے اس لئے مقامات اور پیش آنے والے واقعات کا ذکر اجمالی طور پر کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی زبان شائستہ و شستہ ہے اور وہ واقعات کو بیان کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔

اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ مصنف جب کبھی موضوع سے ہٹنے لگتے یا بات گھمبیر ہونے لگتی تو نہایت غیر محسوس طریقے سے بات بدل دیتے ہیں۔

جاپان میں زیادہ تر کاموں میں خواتین پیش پیش ہیں اس لیے کتاب میں جاپانی دوشیزاؤں کا ذکر کثرت سے ملتا ہے۔اس کے علاوہ جاپان کے لوگوں کی ان تھک محنت، خندہ پیشانی و خوش اخلاقی اور پابندیء وقت کا ذکر بھی جا بجا ملتا ہے۔

مصنف کا کہنا ہے کہ جاپانی کتابیں پڑھنے کےبہت شوقین ہیں۔ اس ضمن میں کتاب سے یہ اقتباس دیکھیے۔

"جاپان کے ہر شہر میں کتابوں اور رسالوں کی بڑی بڑی دکانیں ہیں ہر بک اسٹال پر لا تعداد لوگ جن میں ہر عمر و جنس کے لوگ شامل ہوتے ہیں کتابوں کی ورق گردانی کرتے نظر آتے ہیں۔بعض اوقات تو بک اسٹال پر لائبریری کا گمان ہوتا ہے ،سو فیصد کتابیں آپ کو جاپانی زبان میں ملیں گی۔ ان لوگوں کی یہ بات بہت پسند ائی کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپانیوں نے جب پے در پے حملوں کے بعد اپنے اپ کو سنبھالا دیا تو دھڑا دھڑ سارے علوم کو اپنی زبان میں منتقل کر لیا تاکہ وہ لوگ علوم میں کسی سے پیچھے نہ رہیں اسی وجہ سے آج ہر فیلڈ میں ایسی لاجواب اور بے مثال ترقی کی ہے کہ دنیا کے اکثر ترقی یافتہ ممالک بھی جاپان کے سامنے بونے نظر آتے ہیں جتنے سینیئر افسران سے ہماری ملاقات ہوئی ان میں سے اکثر انگریزی کا ایک لفظ بھی نہیں جانتے تھے مگر اج کل نوجوان طبقے میں انگریزی سیکھنے کا رجحان ذرا بڑھ رہا ہے۔"

اس اقتباس سے ہم دو بہت اہم باتیں سیکھتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ جاپانیوں نے نظام تعلیم اپنی زبان میں رکھا۔ جس سے اُن کے ہاں ہر کسی کو ترقی کے یکساں مواقع ملے۔ جب کہ پاکستان جیسے ملک میں انگریزی سمجھنے اور بولنے والوں کے لئے تو ترقی کے ان گنت مواقع موجود ہیں لیکن محض قومی زبان اردو جاننے والوں کو اس دوڑ میں شامل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔

اگر جاپان کی طرح یہاں بھی صرف اردو ہی رائج ہوتی تو معاشرے کے ہر فرد کو ترقی کے یکساں مواقع میسر آتے اور جس طرح آج کچھ لوگ انگریزی پر عبور نہ ہونے کے باعث ترقی نہیں کر پاتے ہیں، اُن کے ساتھ یہ معاملہ ہرگز نہ ہوتا۔ جب ہر معاملے میں اردو زبان ہی استعمال ہوتی تو اردو زبان بھی از خود ترقی کرتی اور دیگر ترقی یافتہ زبانوں کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہوجاتی۔

اردو کو بطور قومی زبان رائج کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ بطور عالمی رابطے کی زبان انگریزی کی اہمیت کا سرے سے انکار ہی کر دیا جائے۔ بلکہ اُ س کی اہمیت اپنی جگہ موجود ہے۔ بالخصوص آج کے دور میں، جب انٹرنیٹ پر سیکھنے سکھانے کا بہت سا مواد ہمیں انگریزی زبان میں با آسانی مل جاتا ہے۔ ایسے میں انگریزی کو بطور ثانوی زبان سیکھنا بہت سود مند بات ہے۔ تاہم انگریزی کو اردو کی جگہ نافذ کردینا یقیناً اردو کے ساتھ نا انصافی ہے۔

دوسری بات جاپانیوں کی مطالعے کی عادت ہے۔ جیسا کہ مصنف بتاتے ہیں ، جاپانی جیسے ہی فرصت پاتے ہیں کتاب پڑھنے لگتے ہیں۔ اگر یہی مطالعے کی عادت پاکستانیوں کی بھی ہوتی تو وہ انفرادی طور پر زیادہ سمجھدار ہوتے ، اُن کی سوچ کو وسعت ملتی، وہ نئی نئی چیزیں سیکھتے اور اُن کی ترقی کی رفتار دُہری ہوجاتی۔ پاکستان میں مطالعے کی عادت بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہیں۔ اور جو لوگ مطالعہ کرتے بھی ہیں تو وہ زیادہ تر فکشن وغیرہ پڑھتے ہیں، جس سے ایک خاص حد تک ہی فائدہ ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اردو زبان میں زیادہ تر کتابوں کا ذخیرہ بھی ادب اور شاعری پر ہی ہے اور اُن کتابوں سے نئے علوم سیکھنے کے مواقع کم ہی میسر آتے ہیں۔

کتاب کے آخر میں ڈاکٹر صاحب الگ سے اپنے سفر کے ماحصل (Key Takeaways) کا بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جاپان کے سفر میں، میں نے چار چیزیں بطورِ خاص سیکھیں۔

1. جاپانی وقت کی بہت قدر کرتے ہیں۔ جاپان میں ایسی کوئی تقریب نہیں ہوتی جس کے شروع ہونے اور ختم ہونے کا وقت پہلے سے نہ بتا دیا جائے۔ پھر ہر چیز اُسی حساب سے ہوتی ہے اور ایک منٹ بھی اِدھر سے اُدھر نہیں ہوتا۔ جاپان کے شہریوں کا نظم و ضبط مثالی ہے۔ جاپان میں ایک ٹیکسی ڈرائیور سے لے کر چیف ایگزیکٹو تک ہر کسی کو اپنے شیڈول کا پتہ ہوتا ہے۔ سب وے پر آنے جانے والی گاڑیاں وقتِ مقررہ پر آئیں گی اور جائیں گی۔ آپ کی گھڑی دھوکہ دے سکتی ہیں، گاڑیاں نہیں۔
2. جاپانی اپنی زبان اور ثقافت پر بہت فخر کرتےہیں۔اکثر جگہوں پر کوشش کے باوجود کوئی انگریزی لٹریچر نہیں ملتا۔ بڑے سے بڑے لوگ بھی اپنی زبان میں بات کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
3. جاپانی بہت زیادہ خوش اخلاق ہیں اور اُن کی چہرے ہمیشہ شاداں و فرحان نظر آتے ہیں۔ اگر سارا دن بھی کاموں میں مصروف رہیں تب بھی اُن کی پیشانی پر کوئی شکن نظر نہیں آتی۔
4. پورے جاپان میں آپ کو کوئی بھی موٹا یا بڑی توند والا جاپانی نہیں ملے گا۔ لڑکا ہو یا لڑکی، مرد ہو یا عورت، بوڑھے بوڑھیاں سب صحت کے اعلیٰ معیار کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ جاپانی سادہ کھانے کھاتے ہیں اور اُن کی زیادہ تر سبزیاں اور گوشت اُبلا ہوا ہوتا ہے۔ اور جاپانی تیز چلنے کے عادی ہیں۔ جس کے باعث اُن کی صحت بہت اچھی ہوتی ہے۔

دیکھا جائے تو یہ مختصر سفرنامہ پڑھنے والوں کو کم وقت میں کافی زیادہ اور دلچسپ معلومات فراہم کرتا ہے۔ تاہم یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ یہ روداد 1996 ءکی ہے اور ممکن ہے کہ بہت سی چیزیں اب بدل گئی ہوں۔

******
تحریر: محمد احمد
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
4. پورے جاپان میں آپ کو کوئی بھی موٹا یا بڑی توند والا جاپانی نہیں ملے گا۔ لڑکا ہو یا لڑکی، مرد ہو یا عورت، بوڑھے بوڑھیاں سب صحت کے اعلیٰ معیار کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ جاپانی سادہ کھانے کھاتے ہیں اور اُن کی زیادہ تر سبزیاں اور گوشت اُبلا ہوا ہوتا ہے۔ اور جاپانی تیز چلنے کے عادی ہیں۔ جس کے باعث اُن کی صحت بہت اچھی ہوتی ہے۔
جو سبق مؤلف نے چار نمبر کے مذکور نقطے سے حاصل کیا ،اس سے ظاہر ہو تا ہے کہ موصوف جاپان کے معروف پہلوانی اکھاڑوں (سومو۔ ریسلنگ)کے مناظر دیکھنے سے یکسر محروم رہے ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
جو سبق مؤلف نے چار نمبر کے مذکور نقطے سے حاصل کیا ،اس سے ظاہر ہو تا ہے کہ موصوف جاپان کے معروف پہلوانی اکھاڑوں (سومو۔ ریسلنگ)کے مناظر دیکھنے سے یکسر محروم رہے ۔

سومو ریسلنگ تو واقعی ایک الگ ہی چیز ہے۔ وہ تو شاید قصداً اپنے تن تو توش میں اضافہ کرتے ہیں۔
 
Top