چوہدری

پنجاب میں آباد قوموں اور نسلوں کے بارے میں ایک گورے کی1881 کی مردم شماری کے بارے چھپی رپورٹ نیٹ پر ملی تھی، کچھ دنوں سے میرے زیر مطالعہ ہے لیکن زیادہ وقت نہیں دے پا رہا ہوں۔
کافی محنت سے بنائی گئی رپورٹ ہے، امید ہے دلچسپی رکھنے والے محفلین اس سے لطف اٹھائیں گے۔
 

arifkarim

معطل
ملٹری میں سرنیم سے پکارنے کی وجہ سے یہ ٹھیک رہا ورنہ سویلین لائف میں پہلا نام اگر محمد ہے تو کنفیوژن کافی ہوتی کہ یونیورسٹی کے دور میں جب لوگ پاکستانی دوستوں کو محمد کے نام سے یاد کرتے تھے تو پتا ہی نہیں چلتا تھا کہ کس کا ذکر ہو رہا ہے۔
میرا پورا نام محمد عثمان ہے۔ ہائی سکول اور یونیورسٹی میں ہر کورس کے پہلے دن لیکچرار کو بتانا پڑتا کہ مجھے عثمان نام سے مخاطب کرے تا کہ سہولت رہے۔ اب بھی کبھی کبھار استفسار کرنے پر وضاحت کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں پہلا نام محمد اسی طرح ہے جس طرح یہاں مغرب میں مذہبی مڈل نیم رائج ہے۔
میں بھی تنگ آیا گیا تھا جب مجھے کاروباری خط و کتابت میں ہمیشہ "ڈئیر محمد" یا صرف "محمد" لکھا جاتا تھا، اب میں نے اپنے ای میل دستخطوں میں اپنا نام "وارث محمد" لکھا ہوتا ہے :)
محمد نام کی وجہ سے یہاں یورپ میں کافی لطیفے اور اسکینڈل موجود ہیں۔ میڈیا بھی خوب مرچ مصالحے لگا کر بتاتا رہتا ہے کہ یہ نام نئے پیدا ہونے والے بچوں میں سب سے زیادہ مقبول ہے جسے دائیں بازو کی جماعتیں اپنے پراپیگنڈہ مقاصد کیلئے استعمال کرتی ہیں۔
میرا ایک کولیگ چھٹیوں میں بمع فیملی مصر گیا۔ ساحل سمندر پرایک مصری گائیڈ سے جان پہچان ہوئی تو اسنے اسکے بیٹے کو سیر کی غرض سے ساتھ لیجانے کیلئے کہا ۔ اسے بیوی کیساتھ کچھ وقت اکیلے درکار تھا سو اسنے بھروسہ کر کے جانے دیا۔ بعد میں احساس ہوا کہ گائیڈ نے اپنا نام صرف محمد بتایا تھا اور ملک میں کئی کروڑ لوگ اس نام کے موجود ہیں۔ اگر کچھ گڑ بڑ ہوگئی تو کہاں ڈھونڈتا پھرے گا۔ بہرحال کچھ دیر بعد ہی گائیڈ لوٹ آیا اور یوں اسکی جان میں جان آئی۔
 
چوہدری ایک ٹائٹل بھی ہے اور عہدہ بھی۔
پنجاب کے حوالے سے دیکھا جائے تو برِصغیر کی قدیمی روایت کے مطابق گاؤں کا مکھیا جمہوریت کی بجائے زیادہ تر خاندانی بنیادوں پر منتخب ہوتا تھا۔ آرائیں خاندان شجاعت، ثروت، رعب داب اور انتظام و انصرام کی بہتر صلاحیتوں کے باعث زیادہ تر اس عہدے پر قابض رہے۔ انھیں پنجاب میں مکھیا کی بجائے چوہدری یا پنجابی لہجے میں چودھری کہا جاتا تھا۔
رفتہ رفتہ تمام آرائیں قطعِ نظر اس سے کہ وہ مکھیا ہیں، مکھیا کے بیٹے ہیں، دور کے رشتے دار ہیں یا نہیں ہیں، چودھری کہلانے لگے۔ یوں یہ عہدے کی بجائے ایک ٹائٹل کے طور پر سامنے آیا۔
پنجاب میں کچھ اور قوموں نے بھی انھی بنیادوں پر چودھری کا خطاب پایا مگر آرائیوں کے برعکس ان کی یہ پہچان زیادہ تر مقامی اور محدود رہی۔
چودھری کے لفظ سے پنجاب سے باہر کے ہندوستانی کبھی ناواقف نہیں رہے۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ مہاراشٹر وغیرہ میں اسی روایت کے اتباع میں یہ خطاب عام ہوا ہو گا یا کیا گیا ہو گا۔ یا پھر، جیسا کہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے، پنجاب کے چودھری مہاجرین کسی وقت یہ خطاب اپنے ساتھ ادھر لے گئے ہوں گے۔
مالی ثروت اب اس لفظ سے ویسی وابستہ نہیں رہی جیسی ہوا کرتی تھی۔ تقسیم کے وقت ہندوستانی پنجاب سے پاکستان آنے والے آرائیں اکثر نہایت عسیر الحال تھے اور آج تک ہیں مگر کہلاتے چودھری ہی ہیں۔
پس لفظ: یہ توجیہات تاریخی یا تحقیقی نہیں ہیں۔ ان کے پس منظر میں میری اپنی اپنی ثقافتی، سماجی اور نسلی فہم کارفرما ہے۔ چودھراہٹ کا جو قاعدہ میں نے بیان کیا ہے وہ دراصل اس قاعدے پر قیاس کیا گیا ہے جس سے میری قوم ('ہَرَاج' ---راجپوت سیالوں کی ایک قوم) نے جنوبی پنجاب کے علاقے میں اپنی حکومت قائم کی اور 'مہر' (مہاراج کی مختصر صورت) کا خطاب پایا۔

علم اضافہ کے لیے بے حد شکریہ سر ۔

خوش رہیے سلامت رہیے ۔
 
پنجاب میں آباد قوموں اور نسلوں کے بارے میں ایک گورے کی1881 کی مردم شماری کے بارے چھپی رپورٹ نیٹ پر ملی تھی، کچھ دنوں سے میرے زیر مطالعہ ہے لیکن زیادہ وقت نہیں دے پا رہا ہوں۔
کافی محنت سے بنائی گئی رپورٹ ہے، امید ہے دلچسپی رکھنے والے محفلین اس سے لطف اٹھائیں گے۔
۸۸۱ء کی مردم شماری، جو وکی پیڈیا کے مطابق ایک ہی وقت میں پورے ہندوستان میں ہونے والی تاریخ کی پہلی مردم شماری تھی، کی رپورٹ ۱۸۸۳ء میں شائع ہوئی۔ آپ نے جس کتاب کا حوالہ دیا ہے وہ پوری رپورٹ نہیں بلکہ صرف اس کا ایک باب ہے جو سر ڈینزل ابٹسن کی شاندار محققانہ اور عالمانہ صلاحیتوں کے باعث جداگانہ حیثیت اختیار کر گیا۔ جناب ابٹسن نے اس تحقیق میں پنجاب کی قوموں، ذاتوں اور گوتوں پر روشنی ڈالی ہے۔
میں آپ کا نہایت ممنون ہوں کہ آپ کے ربط کے وسیلے سے میری اس کتاب سے شناسائی ہوئی۔ میں اپنی قوم "ہراج" کا سراغ سرکارِ برطانیہ کی دستاویزات میں نکالنے میں اب تک ناکام رہا تھا۔ بعض لوگوں کا یہ خیال کہ "ہراج" سیالوں کی حال ہی میں متفرع ہونے والی ایک گوت ہے، مجھے مجبوراً صحیح معلوم ہونے لگا تھا۔ مگر اس کتاب نے جہاں ایک طرف ۱۸۸۱ء میں میری قوم کے جداگانہ وجود کی گواہی دی، وہیں مجھ پر مزید تحقیق کی راہیں بھی کھولیں جو نہایت حوصلہ افزا ثابت ہوئیں۔
"ہراج" کے دو انگریزی ہجے رائج ہیں۔
  1. Haraj
  2. Hiraj
میں نے اور میرے خاندان نے ہمیشہ دوسرے ہجوں کو حماقت اور جہالت پر مبنی خیال کیا کیونکہ ہراج کا لفظ "ہ" پر زبر کے ساتھ بولا جاتا ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ نیم خواندہ مقامی لوگوں نے انگریزی میں ہراج کے ہجے بگاڑ ڈالے ہیں۔ یہی تعصب دراصل میری تحقیق کے آڑے آیا۔ میں نے انٹرنیٹ پر تمام تر تلاش اول الذکر ہجوں کے ساتھ ہی کی اور دوسرے املا کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا۔ مگر اتفاقاً ہی کتابِ مذکور میں ہراجوں کا ذکر دوسرے ہجوں کے ساتھ سیال قوم کی ایک گوت کے طور پر مل گیا۔
ہم الزام ان کو دیتے تھے، قصور اپنا نکل آیا​
اب جو انٹرنیٹ کو کھنگالا ہے تو معتدبہ معلومات سرکارِ انگلشیہ کے مخطوطات سے میسر آ گئی ہیں۔ ایک دفعہ پھر آپ کا بہت بہت شکریہ!
پس نوشت: زیک سے معذرت کہ چوہدریوں کی لڑی میں راجپوتوں کی بھیرویں الاپی جا رہی ہے۔ ابھی تو ہمارا راج نہیں رہا ورنہ شاید لڑی اٹھا کے بھی لے جاتے! ;)
 

قیصرانی

لائبریرین
ملٹری میں سرنیم سے پکارنے کی وجہ سے یہ ٹھیک رہا ورنہ سویلین لائف میں پہلا نام اگر محمد ہے تو کنفیوژن کافی ہوتی کہ یونیورسٹی کے دور میں جب لوگ پاکستانی دوستوں کو محمد کے نام سے یاد کرتے تھے تو پتا ہی نہیں چلتا تھا کہ کس کا ذکر ہو رہا ہے۔
فن لینڈ منتقلی کے فوراً بعد جب میں مجسٹریٹ کے پاس رجسٹر ہونے گیا تو وہاں میں نے یہی نکتہ اٹھایا تھا کہ پاکستان میں فرسٹ نیم اور لاسٹ نیم کا کوئی خاص فرق نہیں۔ بعض کیسز میں فرسٹ نیم کو استعمال کیا جاتا ہے تو بعض جگہوں پر لاسٹ نیم کو۔ تو اسی وقت ہم نے بیٹھ کر طے کر لیا تھا کہ فن لینڈ میں فرسٹ نیم منصور لکھا اور پڑھا جائے گا جبکہ محمد کو فیملی نیم شمار کیا گیا۔ اس دن کے بعد کبھی مسئلہ نہیں ہوا کہ خودبخود ہر جگہ نام درست استعمال ہوا
 
آپ نے جس کتاب کا حوالہ دیا ہے وہ پوری رپورٹ نہیں بلکہ صرف اس کا ایک باب ہے
میں نے کسی کتاب کا حوالہ نہیں دیا۔ یہ ایک مردم شماری رپورٹ ہے اور صرف پنجاب کے بارے میں ہے۔
۔۔۔
مجھے اس کے وہ حصے زیادہ پرلطف لگ رہے ہیں جس میں انگریز نے کسی قوم یا نسل کے بارے میں اپنی یا کسی اور ساتھی یا ضلعی ڈپٹی کمشنر کی رائے چھاپی ہے۔
 
گل نوخیز اختر کے ایک کالم سے ۔۔۔۔
۔۔۔
اپنے آپ کو منوانے کے چکر میں اپنا آپ مارنا پڑرہا ہے۔ہم نے کتنی محنت سے اپنے ذائقے تبدیل کر لیے، اپنے حلئے تبدیل کر لیے، اپنے رویے تبدیل کرلیے ۔۔۔اب ہم معمولی سی بات کو تھوڑا سا گھما کر بیان کرتے ہیں ، نہ جھوٹ بولتے ہیں نہ سچ۔۔۔لیکن معاشرے میں ایڈجسٹ ہوجاتے ہیں۔اب بے شک ہماری قمیض کی بغلیں پھٹی ہوئی ہوں، پیروں میں قینچی چپل ہو، بال الجھے ہوئے ہوں لیکن ہم ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اصل میں ہم ’’رائل فیملی‘‘ سے بلانگ کرتے ہیں۔ہر کسی نے اپنے دو چار پڑھے لکھے اور امیر رشتے دار ایسے ضرور سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں جن کے نام وہ اکثر استعمال کرتے ہے تاکہ انہیں اپنے اِن رشتہ داروں کے طفیل اس معاشرے کے اہم ترین افراد میں شمار کیا جائے۔خود وہ کیاہیں۔۔۔ یہ اُنہیں بتانے کی ہمت ہے نہ سکت۔۔۔!!!
 
پنجاب میں آباد قوموں اور نسلوں کے بارے میں ایک گورے کی1881 کی مردم شماری کے بارے چھپی رپورٹ نیٹ پر ملی تھی، کچھ دنوں سے میرے زیر مطالعہ ہے لیکن زیادہ وقت نہیں دے پا رہا ہوں۔
۸۸۱ء کی مردم شماری، جو وکی پیڈیا کے مطابق ایک ہی وقت میں پورے ہندوستان میں ہونے والی تاریخ کی پہلی مردم شماری تھی، کی رپورٹ ۱۸۸۳ء میں شائع ہوئی۔ آپ نے جس کتاب کا حوالہ دیا ہے وہ پوری رپورٹ نہیں بلکہ صرف اس کا ایک باب ہے جو سر ڈینزل ابٹسن کی شاندار محققانہ اور عالمانہ صلاحیتوں کے باعث جداگانہ حیثیت اختیار کر گیا۔ جناب ابٹسن نے اس تحقیق میں پنجاب کی قوموں، ذاتوں اور گوتوں پر روشنی ڈالی ہے۔
میں نے کسی کتاب کا حوالہ نہیں دیا۔ یہ ایک مردم شماری رپورٹ ہے اور صرف پنجاب کے بارے میں ہے۔
آپ نے بقولِ خویش جس رپورٹ کا حوالہ عنایت فرمایا تھا وہ کتابی شکل ہی میں شائع ہوئی تھی۔ بندہ صرف یہ عرض کرنا چاہ رہا تھا کہ یہ دراصل (مکمل) رپورٹ نہیں بلکہ صرف اس کا ایک باب تھی۔
اب ایسی بھی کیا تیزی؟ :D:D:D
انگریز لکھتا ہے کہ راجپوت کوئی قوم نہیں ہے۔
انگریز کی بجائے جناب اپنے ہموطنوں کی آوازوں ہی پر متوجہ ہوتے تو یہ کوئی ایسی دور کی کوڑی نہ تھی۔
بادی النظر میں دیکھا جائے تو راجپوت معروف معانی میں ایک قوم معلوم نہیں ہوتے۔ انساب میں قوم عموماً کسی ایک شخص سے چلتی ہے۔ جبکہ راجپوت ہندوستان کے مختلف راجوں سے متفرع ہوئے ہیں اور قطعِ نظر علاقے یا زبان کے سبھی نے راجپوت یعنی راجے کا بیٹا کا لقب اختیار کیا ہے۔ اس طرح بظاہر نسل کا فرق پیدا ہو گیا ہے جس سے راجپوتوں کا ایک قوم ہونا مشتبہ ہو جاتا ہے۔
مگر ہندوستان کی تاریخ اور ثقافت کو بنظرِ غائر دیکھا جائے تو یہ اعتراض باقی نہیں رہتا۔ ہندوستان کے راجے کم و بیش تمام ہی اصل کے کھشتری تھے جو برہمنوں کے بعد سب سے زیادہ سماجی رتبہ رکھنے والا آریائی طبقہ تھا۔ ہندوستان میں ذات پات کے نظام نے یہ امکان تقریباً معدوم کر دیا تھا کہ کھشتریوں کے سوا کوئی اور مسندِ اقتدار پر براجمان ہو سکے۔ لہٰذا اغلب ہے کہ بعد میں ہندوستان کے مختلف علاقوں اور ثقافتوں سے جداگانہ طور پر ابھرنے والے راجپوت دراصل ایک ہی لڑی کے بکھرے ہوئے موتی ہیں۔
گل نوخیز اختر کے ایک کالم سے ۔۔۔۔
۔۔۔
اپنے آپ کو منوانے کے چکر میں اپنا آپ مارنا پڑرہا ہے۔ہم نے کتنی محنت سے اپنے ذائقے تبدیل کر لیے، اپنے حلئے تبدیل کر لیے، اپنے رویے تبدیل کرلیے ۔۔۔اب ہم معمولی سی بات کو تھوڑا سا گھما کر بیان کرتے ہیں ، نہ جھوٹ بولتے ہیں نہ سچ۔۔۔لیکن معاشرے میں ایڈجسٹ ہوجاتے ہیں۔اب بے شک ہماری قمیض کی بغلیں پھٹی ہوئی ہوں، پیروں میں قینچی چپل ہو، بال الجھے ہوئے ہوں لیکن ہم ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اصل میں ہم ’’رائل فیملی‘‘ سے بلانگ کرتے ہیں۔ہر کسی نے اپنے دو چار پڑھے لکھے اور امیر رشتے دار ایسے ضرور سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں جن کے نام وہ اکثر استعمال کرتے ہے تاکہ انہیں اپنے اِن رشتہ داروں کے طفیل اس معاشرے کے اہم ترین افراد میں شمار کیا جائے۔خود وہ کیاہیں۔۔۔ یہ اُنہیں بتانے کی ہمت ہے نہ سکت۔۔۔!!!
اگر آپ نے یہ اقتباس عمومی نکتۂِ نظر سے نقل کیا ہے تو یہ اس کا محل نہ تھا۔ اگر اسی گفتگو کے پس منظر میں ارسال فرمایا ہے جو چل رہی ہے تو مجھے کم از کم اپنے بارے میں یہ غلط فہمی دور کرنے کی اجازت دیجیے۔
نسب پہ فخر کرنا ممکن انھی کے لیے ہے جن کا عالی ہو۔ جن کا نہ ہو ان کے پاس دو راستے ہوتے ہیں۔ یا تو وہ اپنی شناخت بدل سکتے ہیں یا پھر نسب پر فخر کو ہدفِ تنقید بنا کر اپنے تئیں اس تفریق کی بنا ہی ڈھانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
پہلی صورت تو بدیہی طور مذموم ہے اور معاشرے کے تمام معاشی طبقات میں عام ملتی ہے۔ جس کے ہاتھ میں پیسا آتا ہے وہ چوہان، سید، قریشی، بھٹی وغیرہ بن جاتا ہے (روئے سخن کسی کی طرف ہو تو روسیاہ! عمومی رویے کی جانب اشارہ کرنا مقصود ہے)۔ دوسری صورت ان لوگوں میں نمو پاتی ہے جن کی تعلیم اور شعور محض پیسا کمانے والوں سے زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ لوگ شناخت بدلنے سے زیادہ شناخت مٹانے پر زور دیتے ہیں اور ویسے ہی اصولوں کو بنیاد بناتے ہیں جن کا گلِ نوخیز اختر نے ذکر کیا ہے۔ ایسے لوگوں کو نطشے کا یہ ادعا ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اخلاقیات پر زور کمزور کا روایتی ہتھیار ہے۔
جہاں تک خاص ہراجوں، یعنی میری قوم، کا تعلق ہے تو شاید آپ کو میری اس بات سے کوئی غلط فہمی ہوئی ہے:
میں آپ کا نہایت ممنون ہوں کہ آپ کے ربط کے وسیلے سے میری اس کتاب سے شناسائی ہوئی۔ میں اپنی قوم "ہراج" کا سراغ سرکارِ برطانیہ کی دستاویزات میں نکالنے میں اب تک ناکام رہا تھا۔ بعض لوگوں کا یہ خیال کہ "ہراج" سیالوں کی حال ہی میں متفرع ہونے والی ایک گوت ہے، مجھے مجبوراً صحیح معلوم ہونے لگا تھا۔ مگر اس کتاب نے جہاں ایک طرف ۱۸۸۱ء میں میری قوم کے جداگانہ وجود کی گواہی دی، وہیں مجھ پر مزید تحقیق کی راہیں بھی کھولیں جو نہایت حوصلہ افزا ثابت ہوئیں۔
میرا مقصود ہرگز یہ نہ تھا کہ میری قوم کا راجپوت ہونا مشکوک ہے۔ شبہ صرف اس امر میں تھا کہ یہ قوم اپنی جداگانہ حیثیت میں سیال راجپوتوں سے کب اور کس وقت ممتاز ہوئی ہے۔ آپ کی گفتگو سے درست یا نادرست طور پر میں یہ سمجھا ہوں کہ شاید آپ مجھے بھی ان لوگوں میں خیال کرتے ہیں جو زبردستی اپنی ڈور محلات کے کنگروں سے گانٹھنا چاہتے ہیں۔ اگر یوں ہے تو یہ محض غلط فہمی ہے۔
اگر آپ جھنگ سے ملتان کی جانب آئیں تو معمولی سی تحقیق سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ہراج کون ہیں۔ جھنگ پر سیالوں کا راج ایک ٹھوس تاریخی حقیقت ہے۔ سیالوں کے وہ بیٹے جنھیں ہراج کہا جاتا ہے، طویل عرصے سے خانیوال پر راج کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اگر سفر کی دقت گوارا نہ ہو تو راوی کے اس کنارے کی موجودہ سیاست پر کوئی اخباری کالم ہی پڑھ لیں۔ مسلم لیگ کی حکومت میں حالیہ اپ سیٹ کے باوجود ہراجوں کی قوت آپ کو سیاست کے ہر باب میں چھلکتی نظر آئے گی، باوجود اس کے کہ ہمارے بہت سے خاندان زمانے کے دستور کے موافق انتہائی گردش کا شکار بھی ہیں۔
میں اسے اپنی عین خوش نصیبی خیال کرتا ہوں کہ میں ایک ایسی قوم میں پیدا ہوا ہوں جو اپنے نسب کے معاملے میں انتہائی حساس واقع ہوئی ہے۔ اس حساسیت کی مثال آج کے جمہوری دور میں آپ کو کہیں کہیں عربوں کے علاوہ شاید نہ مل سکے۔ پنجاب بھر گھوم جائیے۔ آپ کو ایک ہراج فرد بھی ایسا نہیں ملے گا جس کا نسب مشکوک ہو۔ جو کسی دوسری قوم سے آ کر ہم میں مل گیا ہو۔ ہمارے ہاں لوگ کیا کیا قومیں نہیں بدلتے۔ مگر ذرا کوئی خود کو ہراج کہنے کی جرات کر کے تو دکھائے؟ ہراج اسے اس کے آبا سے ملوا نہ آئیں؟
یہ دعویٰ نام کا دعویٰ نہیں۔ راوی کے ان کناروں پر آپ خود بھی یہ تجربہ کر کے دیکھ سکتے ہیں۔ :):):)
 
آپ نے بقولِ خویش جس رپورٹ کا حوالہ عنایت فرمایا تھا وہ کتابی شکل ہی میں شائع ہوئی تھی۔ بندہ صرف یہ عرض کرنا چاہ رہا تھا کہ یہ دراصل (مکمل) رپورٹ نہیں بلکہ صرف اس کا ایک باب تھی۔
اب ایسی بھی کیا تیزی؟ :D:D:D
ٹھیک اے بادشاہو:bighug:
انگریز کی بجائے جناب اپنے ہموطنوں کی آوازوں ہی پر متوجہ ہوتے تو یہ کوئی ایسی دور کی کوڑی نہ تھی۔
اررے جناب انگریز کی رپورٹ کا حوالہ دیا تھا اور اسی کو لیکر آپ نے بھی گفتگو فرمائی تو اس کاذکر کیا ورنہ انگریز جائے کسی ٹھٹے کھوہ میں۔ ویسے ہموطنو کی آواز کہاں تھی بھلا :thinking:
لہٰذا اغلب ہے کہ بعد میں ہندوستان کے مختلف علاقوں اور ثقافتوں سے جداگانہ طور پر ابھرنے والے راجپوت دراصل ایک ہی لڑی کے بکھرے ہوئے موتی ہیں۔
ہائے او موتیاں آلیو۔۔۔:p
آپ کی گفتگو سے درست یا نادرست طور پر میں یہ سمجھا ہوں کہ شاید آپ مجھے بھی ان لوگوں میں خیال کرتے ہیں جو زبردستی اپنی ڈور محلات کے کنگروں سے گانٹھنا چاہتے ہیں۔
نادرست
اگر آپ جھنگ سے ملتان کی جانب آئیں
ٹکٹ بھیجیں ٹکٹ:LOL:
گر سفر کی دقت گوارا نہ ہو تو راوی کے اس کنارے کی موجودہ سیاست پر کوئی اخباری کالم ہی پڑھ لیں۔
آپ کی بات بغیر کوئی کالم پڑھے بھی تسلیم ہے۔
میں اسے اپنی عین خوش نصیبی خیال کرتا ہوں کہ میں ایک ایسی قوم میں پیدا ہوا ہوں جو اپنے نسب کے معاملے میں انتہائی حساس واقع ہوئی ہے۔ اس حساسیت کی مثال آج کے جمہوری دور میں آپ کو کہیں کہیں عربوں کے علاوہ شاید نہ مل سکے۔ پنجاب بھر گھوم جائیے۔ آپ کو ایک ہراج فرد بھی ایسا نہیں ملے گا جس کا نسب مشکوک ہو۔ جو کسی دوسری قوم سے آ کر ہم میں مل گیا ہو۔ ہمارے ہاں لوگ کیا کیا قومیں نہیں بدلتے۔ مگر ذرا کوئی خود کو ہراج کہنے کی جرات کر کے تو دکھائے؟ ہراج اسے اس کے آبا سے ملوا نہ آئیں؟
:laughing::laughing::laughing:

۔۔۔۔
راحیل فاروق صاحب۔۔۔۔ ۔ آپ ایک اچھے نثر نگار ہیں، شاعری سے بھی ہتھ پنجا کر لیتے ہیں، گفتگو بھی نہایت مناسب کرتے ہیں، اردو محفل کی مناسبت سے یہ کافی ہے۔ باقی آپ راجپوتوں میں سے ہیں یا جٹوں میں سے، اس کی 'یہاں' ضرورت نہیں رہتی ہے۔

باقی رہا گل نوخیز کا کالم تو وہ کافی لمبا چوڑا تھا، اور آج ہی فیس بک پر ایک دوست نے شئیر کیا تھا۔ گو کہ میں اسے محفل پر پہلے پڑھ چکا ہوں، لیکن اس کا آخری حصہ کافی سبق آموز ہے تو اسے یہاں شئیر کر دیا کہ لڑی میں حسب نسب وغیرہ کی بات ہوتی آ رہی تھی۔
 

جاسمن

لائبریرین
میرے خیال میں اب یہ سب کچھ گڈ مڈ سا ہو گیا ہوا ہے کیونکہ ہمارے علاقے(سیالکوٹ) میں آرائیں بھی خود کو چوہدری لکھتے ہیں اور جاٹ (جٹ)بھی۔ دوسری طرف آرائیں خود کو مہر بھی کہلواتے ہیں (جو آپ نے لکھا کہ راجپوتوں کی ایک سب کاسٹ ہے) اور میاں بھی۔ تیسری طرف لاہور کے میاں برادران کشمیری بٹ ہیں :)
ایسا ہی ہے۔ آرائیوں میں مہر بھی ہیں اور میاں بھی۔ اور شاید یہ گوت ہوتی ہے۔
 
پہلے پہل میرا خیال تھا کہ چوہدری ایک پنجابی ٹائٹل ہے۔ مگر پھر کچھ چوہدریوں (یا چودھریوں) سے ملاقات ہوئی جن کا تعلق مہاراشٹر اور حیدرآباد سے تھا۔ اب کنفیوژن ہے کہ چوہدری کیا ہے۔ کیا یہ عہدہ نما شے ہے یا اس کا ethnicity وغیرہ سے کوئی تعلق ہے؟

ٹیگ: عبدالقیوم چوہدری ، چوہدری لیاقت علی ، چوہدری ناصر حسین چودھری مصطفی اور محفل کے دیگر چوہدری۔

میں محفل کا ایک دیگر چوہدری ہوں۔
میرے مطابق
ہر جٹ چوہدری ہوتا ہے(کہلاتا ہے یا کہلا سکتاہے) ہر چوہدری جٹ نہیں ہوتا۔ (یہ ایسا ہی ہے کہ ہر اعوان مَلِک ہوتا ہے لیکن ہر مَلِک اعوان نہیں ہوتا) جٹوں کی تمام ذاتیں (قومیتیں) سکھوں میں بھی ہوتی ہیں جو زیادہ تر سردار کہلاتی ہیں اور اپنے نام کے ساتھ چوہدری بھی لکھتے ہیں۔
یہ بھی سچ ہے کہ اب بعض آرائیں بھی اپنے نام کے ساتھ چوہدری لکھتے ہیں۔ سندھ میں ہر پنجابی بولنے والے کو مقامی لوگ چوہدری صاحب کہہ کر بلاتے ہیں خواہ اس کی ذات کچھ بھی ہو
 

رباب واسطی

محفلین
چوہدری ایک ٹائٹل بھی ہے اور عہدہ بھی۔
پنجاب کے حوالے سے دیکھا جائے تو برِصغیر کی قدیمی روایت کے مطابق گاؤں کا مکھیا جمہوریت کی بجائے زیادہ تر خاندانی بنیادوں پر منتخب ہوتا تھا۔ آرائیں خاندان شجاعت، ثروت، رعب داب اور انتظام و انصرام کی بہتر صلاحیتوں کے باعث زیادہ تر اس عہدے پر قابض رہے۔ انھیں پنجاب میں مکھیا کی بجائے چوہدری یا پنجابی لہجے میں چودھری کہا جاتا تھا۔
رفتہ رفتہ تمام آرائیں قطعِ نظر اس سے کہ وہ مکھیا ہیں، مکھیا کے بیٹے ہیں، دور کے رشتے دار ہیں یا نہیں ہیں، چودھری کہلانے لگے۔ یوں یہ عہدے کی بجائے ایک ٹائٹل کے طور پر سامنے آیا۔
پنجاب میں کچھ اور قوموں نے بھی انھی بنیادوں پر چودھری کا خطاب پایا مگر آرائیوں کے برعکس ان کی یہ پہچان زیادہ تر مقامی اور محدود رہی۔
چودھری کے لفظ سے پنجاب سے باہر کے ہندوستانی کبھی ناواقف نہیں رہے۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ مہاراشٹر وغیرہ میں اسی روایت کے اتباع میں یہ خطاب عام ہوا ہو گا یا کیا گیا ہو گا۔ یا پھر، جیسا کہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے، پنجاب کے چودھری مہاجرین کسی وقت یہ خطاب اپنے ساتھ ادھر لے گئے ہوں گے۔
مالی ثروت اب اس لفظ سے ویسی وابستہ نہیں رہی جیسی ہوا کرتی تھی۔ تقسیم کے وقت ہندوستانی پنجاب سے پاکستان آنے والے آرائیں اکثر نہایت عسیر الحال تھے اور آج تک ہیں مگر کہلاتے چودھری ہی ہیں۔
پس لفظ: یہ توجیہات تاریخی یا تحقیقی نہیں ہیں۔ ان کے پس منظر میں میری اپنی اپنی ثقافتی، سماجی اور نسلی فہم کارفرما ہے۔ چودھراہٹ کا جو قاعدہ میں نے بیان کیا ہے وہ دراصل اس قاعدے پر قیاس کیا گیا ہے جس سے میری قوم ('ہَرَاج' ---راجپوت سیالوں کی ایک قوم) نے جنوبی پنجاب کے علاقے میں اپنی حکومت قائم کی اور 'مہر' (مہاراج کی مختصر صورت) کا خطاب پایا۔
قریں از قیاس
 
Top