فیض چند روز اور میری جان (فیض احمد فیض)

زونی

محفلین
چند روز اور میری جان



چند روز اور مری جان، فقط چند ہی روز
ظلم کی چھاؤں میں دم لینے پہ مجبور ہیں ہم
اک ذرا اور ستم سہہ لیں، تڑپ لیں، رولیں
اپنے اجداد کی میراث ہے معذور ہیں ہم
جسم پر قید ہے، جذبات پہ زنجیریں ہیں
فکر محبوس ہے، گفتار پہ تعزیریں ہیں
اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جیے جاتے ہیں
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
لیکن اب ظلم کی میعاد کےدن تھوڑے ہیں
اک ذرا صبر، کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں
عرصۂ دہر کی جھلسی ہوئی ویرانی میں
ہم کو رہنا ہے پر یونہی تو نہیں رہنا ہے
اجنبی ہاتھوں کا بے نام گرانبار ستم
آج سہنا ہے، ہمیشہ تو نہیں سہنا ہے

یہ ترے حسن سے لپٹی ہوئی آلام کی گرد
اپنی دو روزہ جوانی کی شکستوں کا شمار
چاندنی راتوں کا بے کار دہکتا ہوا درد
دل کی بے سود تڑپ، جسم کی مایوس پکار
چند روز اور مری جان، فقط چند ہی روز


(فیض احمد فیض)
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ زونی - بہت اچھی نظم ہے فیض صاحب کی - اب فیض صاحب جیسا کوئی میّسر نہیں -
ہم سہل پسند کون سے فرہاد تھے لیکن
اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے
(فیض)
 

زونی

محفلین

شکریہ شمشاد بھائی اور سخنور بھائی آپ نے صحیح فرمایا اب فیض صاحب جیسا طرزِ بیاں مفقود ھے،
 
Top