ظفری
لائبریرین
زندگی بڑی عجیب شے ہے ۔ انسان کبھی کسی چھوٹی سی چیز کو پانے کے لیئے مچل جاتا ہے مگر مجال ہے انسان کو وہ چیز میسر آجائے ۔ اور جب انسان تھوڑے پر قناعت کرنا چاہے تو پھر وہی حال ہوتا ہے جو چھپر پھاڑ کر ملنے پر ہوتا ہے کہ جو چھپر پھاڑ کرملا ہوتا ہے اس کے آدھے سے چھپر کی مرمت کرانی پڑتی ہے ۔ اور باقی آدھا پولیس والوں کو دینا پڑتا ہے اس لاکھ دہائی کے باوجود کہ بھائیوں ۔۔۔ میں نے کہیں سے چوری نہیں کیا ہے بلکہ اوپر والے نے چھپر پھاڑ کردیا ہے ۔ بھلا آج کے زمانے میں کون ان پرانی باتوں پر یقین کرتا ہے اور وہ بھی پولیس والے ۔
تو صاحبو ! قصہ کچھ یوں ہے کہ ہمیں زندگی میں پہلا عشق ہوا ۔ یہ میڑک کے دور کی بات ہے ۔ ابھی اس عشق کو پروان چڑھے تقریباً ساڑھے تین دن ہی ہوئے تھے کہ اچانک ایک انکشاف یہ ہوا کہ کسی اور خاتون کو بھی ہم سے عشق ہوگیا ہے ۔ یہ وہ نکتہِ آغاز تھا جس کا سب سے پہلے ہم نے اپنی آپ بیتی میں ذکر کیا ۔ مجال ہے کہ آدمی کو عشق ہوجائے اور چلو ہو بھی جائے تو پھر چھپر پھاڑ کر ملنا اس نازک معاملے میں کیا معنی رکھتا ہے ۔ پھر اس دو رخی عشق ( جسے دو رخی تلوار کہنا زیادہ مناسب رہے گا ) میں سب سے بڑا ستم یہ تھا کہ جس سے ہم نے عشق کیا اس کے سامنے ہم جوان ہوئے ۔ سو جب بھی دل کی بات کہنے کی کوشش کی تو معمر مستورات کا احترام جانے کیوں ہمارے زبان کی چاشنی بننے لگتا ۔ اور اُسے پھر ہم نے ہمیشہ باجی کہہ کر مخاطب کیا اور بعد میں کھسیا کر اپنی ادبی طبعیت کو کوستے ہوئے ٹائم وغیرہ پوچھ لیا کرتے تھے ۔ متعدد بار کوشش کی کہ اپنی دل کی بات اس دل ُروبا کو کہہ دیں مگر زبان نے بھی گویا قسم کھا رکھی تھی کہ آپا اور باجی کے علاوہ منہ سے کچھ اور نہیں اُگلنا ۔ اگر کچھ اُگلا تو پھر پھینٹی لگنا مقدر بننا تھا کہ ضیاءالحق کا دور تھا اور اس زمانے میں ویسے بھی حقوق العباد کا جذبہ نوجوانوں میں بہت عام ہوا کرتا تھا ۔ جس کے نتیجے میں ہر بس اسٹاپ پر بس کے اگلے حصے سے ( جو خواتین کے لیئے مختص تھا ) وہاں سے نوجوانوں کو برآمد کرکے ڈنڈوں اور گنوں سے تواضع کی جاتی تھی ۔ اس کارِ خیر میں نوجوانوں کیساتھ کچھ بزرگ بھی حصہ لیکراپنی کھوئی ہوئی جوانی کی بھڑاس نکال لیا کرتے تھے ۔
اسی دوران دوسرے عشق کا سانحہ ہوگیا ۔ دوسرے عشق کا سانحہ پہلے عشق کے المیے کے بلکل برعکس تھا ۔ یعنی جس سے ہمیں عشق ہوا اس کے سامنے ہم جوان ہوئے اور جسے اب ہم سے عشق ہوا ۔ وہ محترمہ ہمارے سامنے جوان ہوئیں ۔ پہلے عشق میں ہماری زبان آپا اور باجی کی چاشنی سے بھری ہوتی تھی اور دوسرے عشق میں زبان ، ِبیٹا رانی کہہ کہہ کر نہیں تھکتی تھی ۔ بہت عرصے تک سر مارتے رہے کہ اپنی زبان کو لگام دیں مگر ہر کوشش بےسود ۔ بلآخر فیض کی اس نظم سے ہم نے اپنے دل کے بناسپتی گھی کے چراغ بجھائے کہ ۔۔۔
کچھ عشق کیا ، کچھ کام کیا
پھر آخر تنگ آکر ہم نے
دونوں کو ادھورا چھوڑ دیا
خیر میڑک کا زمانہ گذر گیا ۔ چونکہ ہم اپنے دیگر دوستو کی طرح عشق کی اصل روح سے صحیح طور پر متعارف نہیں ہو سکے تھے اس لیئے کئی اچھے دوستوں کو میڑک میں چھوڑ کر آگے کالج کی دنیا میں قدم رکھا ۔ دوستوں نے ہمیں بڑی لعنت ملامت کی کہ ہم ان کو چھوڑ کر جا رہے ہیں مگر دوستو کی گریہ آوزری سے زیادہ ہمیں اپنے والدِ محترم کے اس چھتر کی فکر تھی ۔ جو انہوں نے صرف اس ارادے سے خریدا تھا کہ اگر ہم میڑک میں فیل ہوگئے تو ہماری پشت ہٹا کر یہ چھتر وہاں نصب کردیا جائے گا ۔
کالج کی دنیا ، ایک نئی دنیا تھی ۔ اسکول میں زیادہ محلہ دار یا آس پاس کے دوستوں کی بہتات تھی ۔ مگر کالج میں نئے چہرے تھے جن کا تعلق شہر کے مخلتف علاقوں سے تھا ۔ ہر چیز نئی تھی ۔ حتی کہ ہم خود کو بھی نئے نئے سے لگے ۔ اسکول میں اپنا خیال کیا رکھا ہوگا جو ہم نے کالج میں اپنے ناز اٹھائے۔ ہمارا کالج بوائز اینڈ گرلز تھا ۔ اور یوں لگتا تھا کہ جیسے سارے شہر کا حسن ، بس ہماری کلاس میں سما گیا ہے۔ ہماری کلاس میں یوں تو کئی حیسن چہرے تھے ۔ مگر جس چہرے نے ہمیں متاثر کیا اس کا ذکر کرنا شامتِ اعمال کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا کہ وہ آج کل قومی اسمبلی کی ممبر ہیں ۔ اس کی آمد گویا آمدِ بہار ہوتی تھی اور لوگ اس کو چوری چھپے دیکھتے تھے ۔ مگر خدا کی قسم ۔۔۔ ہم نے اسےکبھی چوری چھپے نہیں دیکھا ۔ بلکہ جب بھی دیکھا ٹکٹکی باندھ کر دیکھا ۔ جس پر ایک دن ہمارے پروفیسر صاحب خفا ہوگئے اور کہا کہ کہاں دیکھ رہو ۔ شرم نہیں آتی کلاس میں بیٹھ کر ایسی حرکتیں کرتے ہو ۔ ہم نے بڑی عاجزی سے عرض کیا ۔۔۔ ” سر ۔۔۔ رات سوتے ہوئے گردن توڑ ہوگیا ہے اس لیئے گردن اپنے زوایے پر قائم نہیں رہی ۔ گردن موڑنے سے قاصر ہوں اگر آپ کہیں تو کلاس سے نکل جاتا ہوں ۔ مگر آپ جیسے قابل استاد کا لیکچر سننے سے محروم ہوجاؤں گا ۔ ” پروفیسر صاحب نے تاسف بھرے لہجے میں احیتاط کی ہدایت کی اور اپنے لیکچر میں مشغول ہوگئے اور ہم موصوفہ کو لیکچر کے دوران جی بھر دیکھتے رہے ۔
ٹکٹکی باندھ کر مسلسل دیکھنے سے ہمیں واقعی گردن توڑ ہوگیا ۔ اور ساتھ یہ خوف بھی غالب آگیا کہ اگر کسی دن موصوفہ نے اپنی کرسی بدل لی تو ہمارا کیا ہوگا ۔ اس عمل سے جہاں ہماری زرافے جیسی گردن پر اثر پڑا ۔۔۔ وہاں ہماری تعلیمی قابلیت کی والدِ محترم پر قلعی بھی کھل گئی ۔ انہوں نے اپنے خریدے ہوئے چھتر سے ہمارے وہ طبق روشن کیئے جس کا مڈیکل سائنس کی کتاب میں اب تک کوئی ذکر موجود نہیں ہے ۔ اس روایتی تشدد کے نتیجے میں ، گردن توڑ کے ساتھ مذید اتنے اور توڑ ہوئے کہ پھرظالم ڈاکٹروں نے وہاں ایسی مرہم پٹی کی کہ صرف ناک سے سانس لینے کا راستہ کُھلا چھوڑا ۔ اور جب ہم کرسی پر پلاسٹر اور پٹیوں میں جکڑے بیٹھے ہوئے ہوتے تو محلے کے بچے ہمیں حرکات و سکنات سے محروم دیکھ کر جھاڑو کے تنکوں سے ہماری ناک میں گدگدی کر کے ہمیں چھینک دلانے کی کوشش کرتے اور جب ہمیں چھینک آتی تو پلاسٹر کی وجہ سے جو کچھ جڑا ہوا ہوتا تھا وہ پلاسٹر کے کُھلنے کے بعد ٹوٹی ہوئی چائینا کی پلیٹوں کی طرح برآمد ہوجاتا ۔ جس پر ڈیوٹی بھی کوئی مقرر نہیں تھی ۔ اور ہم بے پیندہ لوٹے کی طرح سجدہ ریز ہوجاتے ۔اس خاص موقع پر گلی میں ہمارا کوئی دشمن اپنے اسٹیریو پر اقبال کا شعر بغیر کسی کمرشل کے ، حبیب ولی محمد کی آواز میں بار بار دھراتا :
” تیرا دل تو ہے صنم آشنا ، تجھے کیا ملے گا نماز میں ”
ہماری شاندار تعلیمی قابلیت کو دیکھتے ہوئے والد ِ محترم کے ایک دوست نے مشورہ دیا کہ ” لونڈا ۔۔ پڑھائی میں دھیان نہیں دے رہا ہے تو اس کو کوچنگ سینڑ پر بٹھا دو ۔ ( ہمیں تو ایسا محسوس ہوا کہ کسی کوٹھے پر بٹھانے کی بات کہہ رہے ہیں ) والد صاحب نے بھی سوچا کہ صبح کالج ، شام ، کوچنگ سینٹر ۔ شاید کچھ پڑھ لے گا ۔
ابھی کوچنگ سینٹر میں دوسرا دن ہی ہوا تھا کہ اس پر نظر پڑ گئی ۔ کیا بلا کی سادگی تھی ، کیا سانولا پن تھا ۔ یعنی اوپر والے نے پھر چھپر پھاڑ کر دیا تھا ۔ صبح و شام کے اوقات آسان ہوگئے تھے ۔ کالج جاکر آنکھوں کو سیکنے کی خواہش صبح ہی صبح بیدار کردیتی تو والد صاحب بڑی حیرت سے دیکھتے اور پوچھتے کیوں خیریت ۔۔۔ ! اتنی صبح کیسے اٹھ گئے۔ ؟ کیا دودھ لینے جانا ہے ۔؟ ” اور شام کو ڈوبتے سورج جیسی شفق کو قریب سے دیکھنے کی خواہش بغیر کسی کاہلی کا مظاہرہ کیے ، کوچنگ سینٹر لے جاتی تھی ۔ دونوں جگہ وقت کی پابندی اور تعلیم میں دلچسپی اس بات کا مظہر تھی کہ میں عنقریب کراچی میں ٹاپ کرنے والا ہوں ( یہ میرے والدِ محترم کا نکتہِ نظر تھا ) ۔
ایک طرف کسی کے حسن سے ہم بے حال تھے تو دوسری طرف کسی کے سانولے پن اور سادگی نے ہماری دل کی دھڑکنوں کو بے ترتیب کیا ہوا تھا ۔ کسی طور دل کو قرار نہ تھا ۔ لگتا تھا کہ یہ اسی فقیر کی بدعا کا نتیجہ ہے جس کی لُنگی میں ایک دفعہ بچپن میں ہم نے پٹاخہ باندھ دیا تھا ۔ اور پھر اس نے دھوتی اٹھا کر جو بدعا دی تھی اس کا تذکرہ کرنا کچھ مناسب نہیں لگتا ۔ سو پہلے بھی ہم بیک وقت دو عشقِ بُتاں میں گرفتار ہوئے ۔مگر فیض کے اشارے پر دونوںکو ادھورا چھوڑنا پڑا ۔ اب پھر وہی معرکہ آن پڑا تھا ۔ ادھر جائیں تو دل ہاتھ سے نکلتا تھا ۔ اُدھر جائیں تو جگر پیٹنے کا جی کرتا تھا ۔ عجب کشمکش کا عالم تھا ۔ اب فیض بھی نہیں رہے تھے کہ ان سے کوئی دوسری نظم لکھوا لیتے ۔ اچانک ہمیں اپنے بہت ہی قریبی دوست خالد کا خیال آیا ۔ جو ہمارے ساتھ کالج میں تو پڑھتے ہی تھے مگر ساتھ ساتھ وہ اتنے ذہین تھے کہ ایک پیرائیوٹ اسکول میں نویں اور دسویں جماعت کو بھی پڑھایا کرتے تھے ۔ ہمیں پورا یقین تھا کہ ان کی ذہانت ہمارا کوئی ” ایک عشق ” متعین کردے گی ۔
( جاری ہے )
تو صاحبو ! قصہ کچھ یوں ہے کہ ہمیں زندگی میں پہلا عشق ہوا ۔ یہ میڑک کے دور کی بات ہے ۔ ابھی اس عشق کو پروان چڑھے تقریباً ساڑھے تین دن ہی ہوئے تھے کہ اچانک ایک انکشاف یہ ہوا کہ کسی اور خاتون کو بھی ہم سے عشق ہوگیا ہے ۔ یہ وہ نکتہِ آغاز تھا جس کا سب سے پہلے ہم نے اپنی آپ بیتی میں ذکر کیا ۔ مجال ہے کہ آدمی کو عشق ہوجائے اور چلو ہو بھی جائے تو پھر چھپر پھاڑ کر ملنا اس نازک معاملے میں کیا معنی رکھتا ہے ۔ پھر اس دو رخی عشق ( جسے دو رخی تلوار کہنا زیادہ مناسب رہے گا ) میں سب سے بڑا ستم یہ تھا کہ جس سے ہم نے عشق کیا اس کے سامنے ہم جوان ہوئے ۔ سو جب بھی دل کی بات کہنے کی کوشش کی تو معمر مستورات کا احترام جانے کیوں ہمارے زبان کی چاشنی بننے لگتا ۔ اور اُسے پھر ہم نے ہمیشہ باجی کہہ کر مخاطب کیا اور بعد میں کھسیا کر اپنی ادبی طبعیت کو کوستے ہوئے ٹائم وغیرہ پوچھ لیا کرتے تھے ۔ متعدد بار کوشش کی کہ اپنی دل کی بات اس دل ُروبا کو کہہ دیں مگر زبان نے بھی گویا قسم کھا رکھی تھی کہ آپا اور باجی کے علاوہ منہ سے کچھ اور نہیں اُگلنا ۔ اگر کچھ اُگلا تو پھر پھینٹی لگنا مقدر بننا تھا کہ ضیاءالحق کا دور تھا اور اس زمانے میں ویسے بھی حقوق العباد کا جذبہ نوجوانوں میں بہت عام ہوا کرتا تھا ۔ جس کے نتیجے میں ہر بس اسٹاپ پر بس کے اگلے حصے سے ( جو خواتین کے لیئے مختص تھا ) وہاں سے نوجوانوں کو برآمد کرکے ڈنڈوں اور گنوں سے تواضع کی جاتی تھی ۔ اس کارِ خیر میں نوجوانوں کیساتھ کچھ بزرگ بھی حصہ لیکراپنی کھوئی ہوئی جوانی کی بھڑاس نکال لیا کرتے تھے ۔
اسی دوران دوسرے عشق کا سانحہ ہوگیا ۔ دوسرے عشق کا سانحہ پہلے عشق کے المیے کے بلکل برعکس تھا ۔ یعنی جس سے ہمیں عشق ہوا اس کے سامنے ہم جوان ہوئے اور جسے اب ہم سے عشق ہوا ۔ وہ محترمہ ہمارے سامنے جوان ہوئیں ۔ پہلے عشق میں ہماری زبان آپا اور باجی کی چاشنی سے بھری ہوتی تھی اور دوسرے عشق میں زبان ، ِبیٹا رانی کہہ کہہ کر نہیں تھکتی تھی ۔ بہت عرصے تک سر مارتے رہے کہ اپنی زبان کو لگام دیں مگر ہر کوشش بےسود ۔ بلآخر فیض کی اس نظم سے ہم نے اپنے دل کے بناسپتی گھی کے چراغ بجھائے کہ ۔۔۔
کچھ عشق کیا ، کچھ کام کیا
پھر آخر تنگ آکر ہم نے
دونوں کو ادھورا چھوڑ دیا
خیر میڑک کا زمانہ گذر گیا ۔ چونکہ ہم اپنے دیگر دوستو کی طرح عشق کی اصل روح سے صحیح طور پر متعارف نہیں ہو سکے تھے اس لیئے کئی اچھے دوستوں کو میڑک میں چھوڑ کر آگے کالج کی دنیا میں قدم رکھا ۔ دوستوں نے ہمیں بڑی لعنت ملامت کی کہ ہم ان کو چھوڑ کر جا رہے ہیں مگر دوستو کی گریہ آوزری سے زیادہ ہمیں اپنے والدِ محترم کے اس چھتر کی فکر تھی ۔ جو انہوں نے صرف اس ارادے سے خریدا تھا کہ اگر ہم میڑک میں فیل ہوگئے تو ہماری پشت ہٹا کر یہ چھتر وہاں نصب کردیا جائے گا ۔
کالج کی دنیا ، ایک نئی دنیا تھی ۔ اسکول میں زیادہ محلہ دار یا آس پاس کے دوستوں کی بہتات تھی ۔ مگر کالج میں نئے چہرے تھے جن کا تعلق شہر کے مخلتف علاقوں سے تھا ۔ ہر چیز نئی تھی ۔ حتی کہ ہم خود کو بھی نئے نئے سے لگے ۔ اسکول میں اپنا خیال کیا رکھا ہوگا جو ہم نے کالج میں اپنے ناز اٹھائے۔ ہمارا کالج بوائز اینڈ گرلز تھا ۔ اور یوں لگتا تھا کہ جیسے سارے شہر کا حسن ، بس ہماری کلاس میں سما گیا ہے۔ ہماری کلاس میں یوں تو کئی حیسن چہرے تھے ۔ مگر جس چہرے نے ہمیں متاثر کیا اس کا ذکر کرنا شامتِ اعمال کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا کہ وہ آج کل قومی اسمبلی کی ممبر ہیں ۔ اس کی آمد گویا آمدِ بہار ہوتی تھی اور لوگ اس کو چوری چھپے دیکھتے تھے ۔ مگر خدا کی قسم ۔۔۔ ہم نے اسےکبھی چوری چھپے نہیں دیکھا ۔ بلکہ جب بھی دیکھا ٹکٹکی باندھ کر دیکھا ۔ جس پر ایک دن ہمارے پروفیسر صاحب خفا ہوگئے اور کہا کہ کہاں دیکھ رہو ۔ شرم نہیں آتی کلاس میں بیٹھ کر ایسی حرکتیں کرتے ہو ۔ ہم نے بڑی عاجزی سے عرض کیا ۔۔۔ ” سر ۔۔۔ رات سوتے ہوئے گردن توڑ ہوگیا ہے اس لیئے گردن اپنے زوایے پر قائم نہیں رہی ۔ گردن موڑنے سے قاصر ہوں اگر آپ کہیں تو کلاس سے نکل جاتا ہوں ۔ مگر آپ جیسے قابل استاد کا لیکچر سننے سے محروم ہوجاؤں گا ۔ ” پروفیسر صاحب نے تاسف بھرے لہجے میں احیتاط کی ہدایت کی اور اپنے لیکچر میں مشغول ہوگئے اور ہم موصوفہ کو لیکچر کے دوران جی بھر دیکھتے رہے ۔
ٹکٹکی باندھ کر مسلسل دیکھنے سے ہمیں واقعی گردن توڑ ہوگیا ۔ اور ساتھ یہ خوف بھی غالب آگیا کہ اگر کسی دن موصوفہ نے اپنی کرسی بدل لی تو ہمارا کیا ہوگا ۔ اس عمل سے جہاں ہماری زرافے جیسی گردن پر اثر پڑا ۔۔۔ وہاں ہماری تعلیمی قابلیت کی والدِ محترم پر قلعی بھی کھل گئی ۔ انہوں نے اپنے خریدے ہوئے چھتر سے ہمارے وہ طبق روشن کیئے جس کا مڈیکل سائنس کی کتاب میں اب تک کوئی ذکر موجود نہیں ہے ۔ اس روایتی تشدد کے نتیجے میں ، گردن توڑ کے ساتھ مذید اتنے اور توڑ ہوئے کہ پھرظالم ڈاکٹروں نے وہاں ایسی مرہم پٹی کی کہ صرف ناک سے سانس لینے کا راستہ کُھلا چھوڑا ۔ اور جب ہم کرسی پر پلاسٹر اور پٹیوں میں جکڑے بیٹھے ہوئے ہوتے تو محلے کے بچے ہمیں حرکات و سکنات سے محروم دیکھ کر جھاڑو کے تنکوں سے ہماری ناک میں گدگدی کر کے ہمیں چھینک دلانے کی کوشش کرتے اور جب ہمیں چھینک آتی تو پلاسٹر کی وجہ سے جو کچھ جڑا ہوا ہوتا تھا وہ پلاسٹر کے کُھلنے کے بعد ٹوٹی ہوئی چائینا کی پلیٹوں کی طرح برآمد ہوجاتا ۔ جس پر ڈیوٹی بھی کوئی مقرر نہیں تھی ۔ اور ہم بے پیندہ لوٹے کی طرح سجدہ ریز ہوجاتے ۔اس خاص موقع پر گلی میں ہمارا کوئی دشمن اپنے اسٹیریو پر اقبال کا شعر بغیر کسی کمرشل کے ، حبیب ولی محمد کی آواز میں بار بار دھراتا :
” تیرا دل تو ہے صنم آشنا ، تجھے کیا ملے گا نماز میں ”
ہماری شاندار تعلیمی قابلیت کو دیکھتے ہوئے والد ِ محترم کے ایک دوست نے مشورہ دیا کہ ” لونڈا ۔۔ پڑھائی میں دھیان نہیں دے رہا ہے تو اس کو کوچنگ سینڑ پر بٹھا دو ۔ ( ہمیں تو ایسا محسوس ہوا کہ کسی کوٹھے پر بٹھانے کی بات کہہ رہے ہیں ) والد صاحب نے بھی سوچا کہ صبح کالج ، شام ، کوچنگ سینٹر ۔ شاید کچھ پڑھ لے گا ۔
ابھی کوچنگ سینٹر میں دوسرا دن ہی ہوا تھا کہ اس پر نظر پڑ گئی ۔ کیا بلا کی سادگی تھی ، کیا سانولا پن تھا ۔ یعنی اوپر والے نے پھر چھپر پھاڑ کر دیا تھا ۔ صبح و شام کے اوقات آسان ہوگئے تھے ۔ کالج جاکر آنکھوں کو سیکنے کی خواہش صبح ہی صبح بیدار کردیتی تو والد صاحب بڑی حیرت سے دیکھتے اور پوچھتے کیوں خیریت ۔۔۔ ! اتنی صبح کیسے اٹھ گئے۔ ؟ کیا دودھ لینے جانا ہے ۔؟ ” اور شام کو ڈوبتے سورج جیسی شفق کو قریب سے دیکھنے کی خواہش بغیر کسی کاہلی کا مظاہرہ کیے ، کوچنگ سینٹر لے جاتی تھی ۔ دونوں جگہ وقت کی پابندی اور تعلیم میں دلچسپی اس بات کا مظہر تھی کہ میں عنقریب کراچی میں ٹاپ کرنے والا ہوں ( یہ میرے والدِ محترم کا نکتہِ نظر تھا ) ۔
ایک طرف کسی کے حسن سے ہم بے حال تھے تو دوسری طرف کسی کے سانولے پن اور سادگی نے ہماری دل کی دھڑکنوں کو بے ترتیب کیا ہوا تھا ۔ کسی طور دل کو قرار نہ تھا ۔ لگتا تھا کہ یہ اسی فقیر کی بدعا کا نتیجہ ہے جس کی لُنگی میں ایک دفعہ بچپن میں ہم نے پٹاخہ باندھ دیا تھا ۔ اور پھر اس نے دھوتی اٹھا کر جو بدعا دی تھی اس کا تذکرہ کرنا کچھ مناسب نہیں لگتا ۔ سو پہلے بھی ہم بیک وقت دو عشقِ بُتاں میں گرفتار ہوئے ۔مگر فیض کے اشارے پر دونوںکو ادھورا چھوڑنا پڑا ۔ اب پھر وہی معرکہ آن پڑا تھا ۔ ادھر جائیں تو دل ہاتھ سے نکلتا تھا ۔ اُدھر جائیں تو جگر پیٹنے کا جی کرتا تھا ۔ عجب کشمکش کا عالم تھا ۔ اب فیض بھی نہیں رہے تھے کہ ان سے کوئی دوسری نظم لکھوا لیتے ۔ اچانک ہمیں اپنے بہت ہی قریبی دوست خالد کا خیال آیا ۔ جو ہمارے ساتھ کالج میں تو پڑھتے ہی تھے مگر ساتھ ساتھ وہ اتنے ذہین تھے کہ ایک پیرائیوٹ اسکول میں نویں اور دسویں جماعت کو بھی پڑھایا کرتے تھے ۔ ہمیں پورا یقین تھا کہ ان کی ذہانت ہمارا کوئی ” ایک عشق ” متعین کردے گی ۔
( جاری ہے )