"چمن کو سینچ کر مالی نے رنگوں کی دکاں رکھ دی" اساتذہ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے، شکریہ :)

چمن کو سینچ کر مالی نے رنگوں کی دکاں رکھ دی
"اٹھا کر لاش بلبل کی گلوں کے درمیاں رکھ دی"

عدو نے پھر سنانے کو مری ہی داستاں رکھ دی
جہاں جس نے کمی دیکھی، وہاں لب پہ زباں رکھ دی

کہا سب بے وفا ہیں یاں، چلا ہوں چھوڑ کر سب کو
وہیں پر ذات میری بھی بنا کے بد گماں رکھ دی

مری پر پیچ منزل کے نشاں سارے مٹا ڈالے
اٹھا کر اُس نے منزل بھی مکاں سے لا مکاں رکھ دی

خدا جانے کہاں تک ساتھ چلتے ہیں ستم گر بھی
ہمیں تُو دیکھ، ہم نے تو ہتھیلی پر یہ جاں رکھ دی

اگرچہ ہجر پانے میں خزانے سب لٹا بیٹھا
مگر کنجی ترے غم کی بچا کر طاق داں رکھ دی

محبت میں، عقیدت میں خرد نے کچھ نہیں پایا
نہاں کی بات بھی اس نے سدا کر کے عیاں رکھ دی

محسؔن احمد
 
Top