چلو اِک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں - نوید ظفر کیانی

فرخ منظور

لائبریرین
چلو اِک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

تو انٹرنیٹ کھولے اور چیٹنگ روم جا پہنچے
کسی رومانوی چینل پہ ہوں میں منتظر تیرا
بڑے ہی مان سے تجھ سے میں پوچھوں تیرا اے ایس ایل
تو لکھے سترہ برسوں کی ، وطن انگلینڈ ہے میرا

میں لکھوں بیس کا سن ہے ، میں ٹورانٹو میں بیٹھا ہوں
یہیں اِک اشتہاری کمپنی میں جاب ہے میری
تو لکھے میں نمانی ہوں ، ادب سے شغل رکھتی ہوں
میں لکھوں ہائے اُف اللہ ، یہی تو خواب ہے میرا

تو لکھے کیٹس اور ٹیگور پر میں جان دیتی ہوں
میں لکھوں کون ہیں یہ جو رقابت پر ہیں آمادا
تو لکھے آنجہانی ہیں ، بڑے معروف شاعر تھے
میں لکھوں پارڈن می ، کیا سمجھ بیٹھا تھا میں سادا

بہت سی ہم میں باتیں ہوں ، بہت سی فقرہ بازی ہو
بہت سے جھوٹے افسانے کہیں اِک دوسرے سے ہم
یوں اِک دوجے میں کھو جائیں ، بھلا دیں ساری دنیا کو
بھلا دیں وقت کی ظالم حقیقت کو سرے سے ہم

بھلا دیں وقت کو ایسے ، خبر نہ ہو سکے یکسر
یونیورسٹی سے بیٹا اور بیٹی لوٹ آئے ہیں
تو اُن کی کھلکھلاہٹ سن کے سی پی یو کو شٹ کر دے
اُنہیں معلوم ہے ماں باپ نے جو گل کھلائے ہیں

ہمیں وہ لیلیٰ مجنوں کہہ کے چھیڑیں اور ہم بوڑھے
بہت جھینپیں ، جوانوں سے بہت شرمائیں ہم دونوں
مگر جب اگلا دن آئے ، یہی تم سے ہو فرمائش
چلو اِک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
 
مشااللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساحر کے کلام کی زمین کو خوب رنگین کیا ہے :)

ویسے اصل کلام بھی کچھ کم خوبصورت نہیں ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
حضور "مرہم پاشی" خوب کی آپ نے ;)

ویسے وہاں یہی کچھ بلکہ اس سے بھی آگے کچھ کچھ ہو رہا ہے۔ :)

ہا ہا - بالکل درست فرمایا قبلہ - میں تو صرف شاعری کے سیکشن تک محدود ہو کر رہ گیا - اس امید پر کہ شائد کسی کو اس سے دلچسپی پیدا ہو جائے ورنہ اب تو

لگتا نہیں ہے دل مرا اجڑے دیار میں
 
Top