چاند

راجہ صاحب

محفلین
چاند کبھي تو تاروں کي اس بھيڑ سے نکلے

اور مري کھڑکي ميں آئے

بالکل تنہا اور اکيلا

ميں اس کو باہوں ميں بھرلوں

ايک ہي سانس سب کي سب وہ باتيں کرلوں

جو ميرے تالو سے چمٹي

دل ميں سمٹي رہتي ہيں

سب کچھ ايسے ہي ہوجائے جب ہے نا

چاند مري کھڑکي ميں آئے، تب ہے نا

نوٹ: اس پر تبصرہ اور تجاویز کے لیے یہ دھاگہ استعمال کریں​
 

راجہ صاحب

محفلین

جو تم نے ٹھان ہي لي ہے
ہمارے دل سے نکلو گے
تو اتنا جان لو پيارے
سمندر سامنے ہوگا اگر ساحل سے نکلو گے
ستارے جن کي آنکھوں نے ہميں اک ساتھ ديکھا تھا
گواہي دينے آئيں گے
پرانےکاغذوں کي بالکوني سے بہت لفظ جھانکيں گے
تمہيں واپس بلائيں گے
کئي وعدے فسادي قرض خواہوں کي طرح رستے ميں روکيں گے
تمھيں دامن سے پکڑیں گے
تمہاري جان کھائيں گے
چھپا کر کس طرح چہرہ
بھري محفل سے نکلو گے
ذرا پھر سوچ لو جاناں
نکل تو جائو گے شايد
مگر مشکل سے نکلو گے
 

راجہ صاحب

محفلین

کوئي زنجير
آہن کي چاندي کي روايت کي
محبت توڑ سکتي ہے
يہ ايسي ڈھال ہے جس پر
زمانے کي کسي تلوار کا لوہا نہيں چلتا
يہ ايسا شہر ہے جس
ميں کسي آمر کسي سلطان کا سکہ نہيں چلتا
اگر چشم تماشا ميں ذرا سي بھي ملاوٹ ہو
يہ آئينہ نہيں چلتا
يہ ايسي آگ ہے جس ميں
بدن شعلون ميں جلتے ہيں تو روہيں مسکراتي ہيں
يہ وہ سيلاب ہے جس کو
دلوں کي بستياں آواز دے کر خود بلاتي ہيں
يہ جب چاہے کسي بھي خواب کو تعبير مل جائے
جو منظر بجھ چکے ہيں انکو بھي تنورير مل جائے
دعا جو بے ٹھکانہ تھي اسے تاثير مل جائے
کسي رستے ميں رستہ پوچھتي تقدير مل جائے
محبت روک سکتي ہے سمے کے تيز دھارے کو
کسي جلتے شرارے کو، فنا کے استعارے کو
محبت روک سکتي ہے کسي گرتے ستارے کو
يہ چکنا چور آئينے کے ريزے جوڑ سکتي ہے
جدھر چاھے يہ باگيں موسموں کي موڑسکتي ہے
کوئي زنجير ہو اس کو محبت توڑ سکتي ہے​
 

راجہ صاحب

محفلین
اس موسم ميں جتنے پھول کھليں گے
ان ميں تيري ياد کي خوشبو ہر سو روشن ہوگي
پتہ پتہ بھولے بسرے رنگوں کي تصوير بناتا گزرے گا
اک ياد جگاتا گزرے گا

اس موسم ميں جتنے تارے آسمان پہ ظاہر ہوں گے
ان ميں تيري ياد کا پيکر منظر عرياں ہوگا
تيري جھل مل ياد کا چہرا روپ دکھاتا گزرے گا

اس موسم ميں
دل دنيا ميں جو بھي آہٹ ہوگي
اس ميں تيري ياد کا سايا گيت کي صورت ڈھل جائے گا
شبنم سے آواز ملا کر کلياں اس کو دوہرائيں گي
تيري ياد کي سن گن لينے چاند ميرے گھر اترے گا

آنکھيں پھول بچھائيں گي
اپني ياد کي خوشبو کو دان کرو اور اپنے دل ميں آنے دو
يا ميري جھولي کو بھر دو يا مجھ کو مرجانے دو​
 

راجہ صاحب

محفلین
دريچہ ہے دھنک کا اوراک بادل کي چلمن ہے
اور اس چملن کے پيچھے چھپ کے بيٹھے
کچھ ستارے ہيں ستاروں کي
نگاہوں ميں عجيب سي ايک الجھن ہے
وہ ہم کو ديکھتے ہيں اور پھر آپس ميں کہتے ہيں
يہ منظر آسماں کا تھا يہاں پر کس طرح پہنچا
زميں ذادوں کي قسمت ميں يہ جنت کس طرح آئي؟
ستاروں کي يہ حيراني سمجھ ميں آنے والي ہے
کہ ايسا دلنشيں منظر کسي نے کم ہي ديکھا ہے
ہمارے درمياں اس وقت جو چاہت کا موسم ہے
اسے لفظوں ميں لکھيں تو کتابيں جگمگااٹھيں
جو سوچيں اس کے بارے ميں توروہيں گنگنا اٹھيں
يہ تم ہو ميرے پہلو ميں
کہ خواب زندگي تعبير کي صورت ميں آيا ہے؟
يہ کھلتے پھول سا چہرہ
جو اپني مسکراہٹ سے جہاں ميں روشني کردے
لہو ميں تازگي بھردے
بدن اک ڈھير ريشم کا
جو ہاتھوں ميں نہيں رکتا
انوکھي سي کوئي خوشبو کہ آنکھيں بند ہو جائيں
سخن کي جگمگاہٹ سے شگوفے پھوٹتے جائيں
چھپا کاجل بھري آنکھوں ميںکوئي راز گہرا ہے
بہت نزديک سے ديکھيں تو چيزيں پھيل جاتي ہيں
سو ميرے چار سو دو جھيل سي آنکھوںکا پہرا ہے
تمہيں ميں کس طرح ديکھوں​
 

راجہ صاحب

محفلین

تو چل اے گريہ، پھر اب کي بار بھي ہم ہي
تري انگلي پکڑتے ہيں تجھے گھر لے کے چلتے ہيں
وہاں ہر چيزويسي ہے کوئي منظر نہيں بدلا
ترا کمرہ بھي ويسے ہي پڑا جس طرح تونے
اسے ديکھا تھا چھوڑا تھا
ترے بستر کے پہلو ميں رکھي اس ميز پر اب بھي
دھرا ہے مگ وہ کافي کا
کہ جس کہ خشک اور ٹوٹے کناروں پر
ابھي تک وسوسوں اور خوشبوں کي جھاگ کے دھبے نماياں ہيں
قلم ہے جس کي نب پر رت جگوں کي روشنائي يوں لرزتي ہے
کہ جيسے سوکھتے ہونٹوں پہ پپڑي جمنے لگتي ہے
وہ کاغذ ہيں
جو بے روئے ہوئے کچھ آنسوئوں سے بھيگے رہتے ہيں
ترے چپل بھي رکھے ہيں
کہ جن کے بے ثمر تلووں سے وہ سب خواب لپٹئے ہيں
جو اتنا روندے جانے پر بھي اب تک سانس ليتے ہيں
ترے کپڑے
جو غم کي بارشوں ميں دھل کے آئے تھے
مري الماريوں کے ہنگريوں میں اب بھي لٹکے ہيں
دلاسوں کا وہ گيلا توليہ
اور ہچکيوں کا ادھ گھلا صابن
چمکتے واش بيسن ميں پڑے ہيں اور
ٹھنڈے گرم پاني کي وہ دونوں ٹونٹياں اب تک
رواں ہيں تو جنھيں اس دن
کسي جلدي ميں چلتا چھوڑ آيا تھا
دريچے کي طرف ديوار پر لٹکي گھڑي
اب بھي ہميشہ کي طرح
آدھا منٹ پيچھے ہي رہتي ہے
کلنڈر پر رکي تاريخ نے پلکيں نہيں جھپکيں
اور اس کے ساتھ آويزاں
وہ اک منظر
وہ ايک تصوير جس ميں وہ
مرے شانے پہ سر رکھتے مرے پہلو ميں بيٹھي ہے
مري گردن اور اس کے گيسوئوں کے پاس اک تتلي
خوشي سے اڑتي پھرتي ہے
کچھ ايسا سحر چھايا ہے
کہ دل رکتا ہوا چلتي ہوئي محسوس ہوتي ہے
مگر اے موسم گريہ
اسي ساعت
نجانےکس طرف سے تو چلا آيا
ہمارے بيچ سے گزرا
ہمارے بيچ سےتو اس طرح گزرا
کہ جيسے دو مخالف راستوں کا کاٹتي سرحد
کي جس کے ہر طرف بس دوريوں کي گرد اڑتي ہے
اسي اک گرد کي تہہ سي
تجھے دروازے کي بيل پر جمي شايد نظر آئے
کوئي تصوير کے اندر کمي شايد نظر آئے
تمنا سے بھري آنکھيں جو ہر دم مسکراتي تھيں
اب ان آنکھوں کے کونوں ميں نمي شايد نظر آئے
 

راجہ صاحب

محفلین

محبت کے موسم
زمانے کے سب موسمون سے نرالے
بہار و خزاں ان کي سب سے جدا
الگ ان کو سوکھا الگ ہے گھٹا
محبت کے خطے کي آب و ہوا
ماورا ان عناصرے سے جو
موسموں کے تغير کي بنياد ہيں
يہ زمان و مکاں کے کم و بيش سے
ايسے آزاد ہيں
جيسے صبح زال۔۔۔جيسے شام فنا
شب وروز عالم کے احکام کو
يہ محبت کے موسم نہيں مانتے
زندگي کي مسافت کے انجام کو
يہ محبت کے موسم نہيں مانتے
رفاقت کي خوشبو سے خالي ہو جو
يہ کوئي ايسا منظر نہيں ديکھتے
وفا کے علاوہ کسي کلام کو
يہ محبت کے موسم نہيں مانتے
 

راجہ صاحب

محفلین

آنکھوں ميں جو خواب ہيں ان کو باتيں کرنے دو
ہونٹوں سے وہ لفظ کہو جو کاجل کہتا ہے
موسم جو سنديسہ لايا اس کو پڑھ تو لو
سن تو لو وہ راز جو پياسا ساحل کہتا ہے
آتي جاتي لہروں سے کيا پوچھ رہي ہے ريت؟
بادل کي دہليز پہ تارے کيونکر بيٹھے ہيں
جھرنوں نے اس گيت کا مکھڑا کيسے ياد کيا
جس کے ہر اک بول ميں ہم تم باتيں کرتے ہيں

راہ گزر کا مومسم کا ناں بارش کا محتاج
وہ دريا جو ہر اک دل کے اندر رہتا ہے
کھا جاتا ہے ہر اک شعلے وقت کا آتش دن
بس اک نقش محبت ہے جو باقي رہتا ہے

آنکھوں ميں جو خواب ہيں ان کو باتيں کرنے دو
ہونٹوں سے وہ لفظ کہو جو کاجل کہتا ہے

 

راجہ صاحب

محفلین

تمھارا نام کچھ ايسے مرے ہونٹوں پہ کھلتا ہے
اندھيري رات ميں جيسے
اچانک چاند بادلوں کے کسي کونے سے باہر جھانکتا ہے
اور سارے منظروں ميں روشني سي پھيل جاتي ہے
کلي جيسے لرزتي اوس کے قطرے پہن کر مسکراتي ہے
بدلتي رت کسي مانوس سي آہٹ کي ڈالي لے کے چلتي ہے
تو خوشبو کے دھاگے سے مرا ہر چاک صلتا ہے
تمہارے نام کا تارا مري سانسوں ميں کھلتا ہے

تمہيں کسي الجھن ہوني گمنام سي چنتا کے جادو ميں
کس سوچے ہوئے بے نام سے لمحے کي خوشبو ميں
کسي موسم کے دامن ميںکسي خواہش کے پہلو ميں
تو اس خوش رنگ منظر ميں تمہاري ياد کا رستہ
نجانے کس طرف سے پھوٹتا ہے
اور پھر ايسے مري ہر راہ کے ہم راہ چلتا ہے
کہ آنکھوں ميں ستاروں کي گزرگاہ ہيں سي بنتي ہيں
دھنک کي کہکشائيں سي
تمہارے نام کے ان خوشنما حرفوں ميں ڈھلتي ہيں
کہ جن کے لمس سے ہونٹوں پہ جگنو رقص کرتے ہيں
تمہارے خواب کا رشتہ مري نيندوں سے ملتا ہے
تو دل آباد ہوتا ہے
مرا ہر اک چاک سلتا ہے
تمہارے نام کا تارا مري راتوں ميں کھلتا ہے
 

راجہ صاحب

محفلین

يہ عمر تمہاري ايسي ہے
جب آسمان سے تارے توڑ کے لے آنا بھي
سچ مچ ممکن لگتا ہے
شر کا ہر آباد علاقہ
اپنا آنگن لگتا ہے
يوں لگتا ہے جيسے ہر دن
ہر اک منظر
تم سے اجازت لے کر اپني شکل معين کرتا ہے
جو چاہو وہ ہو جاتا ہے جو سوچو، وہ ہو سکتا ہے
ليکن اے اس کچي عمر کي بارش ميں مستانہ پھرتي چنچل لڑکي
يہ بادل جو آج تمہاري چھت پر رک کر تم سے باتيں کرتا ہے
اک سايہ ہے
تم سے پہلے اور تمہارے بعد کے ہر اک موسم ميں يہ
ہر ايک چھت پر ايسے ہي اور اسي طرح سے
دھوکے بانٹتا پھرتا ہے
صبح ازل سے شام ابد تک ايک ہي کھيل اور ايک ہي منظر
ديکھنے والي آنکھوں کي ہر بار دکھايا جاتا ہے
اے سپنوں کي سيج پہ سونے جاگنے والي پياري لڑکي
تيرے خواب جئيں
ليکن اتنا دھيان ميں رکھنا جيون کي اس خواب سرا کے سارے منظر
وقت کے قيدي ہوتے ہيں جو اپني رو ميں
انکو ساتھ لئيے جاتا ہے اور مہميز کيے جاتا ہے
ديکھنے والي آنکھيں پيچھے رہ جاتي ہيں
ديکھو۔۔۔۔۔جيسے۔۔۔۔۔ميري آنکھيں۔۔۔۔
 
Top