چاند ہماری دیکھا دیکھی چھپن چھپائی کھیل رہا تھا

سید ذیشان

محفلین
وصل کی رات

دور افق پر کالے بادل دیو سی شکلیں بنا رہے تھے
چاند ہماری دیکھا دیکھی چھپن چھپائی کھیل رہا تھا

اجلے اجلے گال تمہارے شفق رنگ سے دمک رہے تھے
فلک کے رخساروں پہ سورج رنگ یہی بکھرا رہا تھا

بجلی چمکتی تب میں تیرا چپکے سے درشن کرتا تھا
آسماں گویا دید کے تیرے حیلے بہانے ڈھونڈھ رہا تھا

اس پل ایسا یقیں تھا مجھ کو ہم تم ہرگز جدا نہیں ہیں
سارا وجود آواز ملا کر احد کا راگ الاپ رہا تھا
 
آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
پوری نظم میں محض ردیف کا اہتمام کیوں؟
کوئی خاص وجہ نہیں ہے اس کی۔ :)
غزل کے بنیادی لوازمات میں سے ایک اس کا مقفیٰ ہونا بھی ہے۔
غیر مردف غزل تو ہوتی ہے لیکن غیر مقفیٰ نہیں۔ لیکن آزاد نظم کے لیے یہ شرط نہیں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
رخسار والے مصرع کی نشست کچھ لوز سی لگ رہی ہے ۔ییہاں بکھیرنا کچھ مس فٹ سا لگ رہا ۔شاید ک کو مشدد کرنا پڑرہا ہے ۔(یا صرف مجھے محسوس ہورہاہے۔؟)
اور ہمارے دیکھا دیکھی کی بجائے ہماری دیکھا دیکھی ہو گا ۔دمقنا بھی دمکنا ہو تا ہے۔
البتہ مجموعی ادائیگی کا تاثر مجھے بہت اچھی لگا۔
 
اگر میں نے کوئی فلم بنائی تو اس نظم کو اس میں شامل ضرور کروں گا :)
اب اس سے میری پسندیدگی کا اندازہ لگا لیں آپ بھائی جان ۔۔۔۔۔:)
 

سید ذیشان

محفلین
غزل کے بنیادی لوازمات میں سے ایک اس کا مقفیٰ ہونا بھی ہے۔
غیر مردف غزل تو ہوتی ہے لیکن غیر مقفیٰ نہیں۔ لیکن آزاد نظم کے لیے یہ شرط نہیں
فاتح بھائی یہ نظم ہے اس لئے اس کا عنوان بھی رکھا ہے۔ آپ کی اور استاد محترم کی بات سے مکمل اتفاق ہے۔
 
خیر ہے آپ پیسے نہ دیں۔ اب بهائیوں سے کیا لین دین۔ ;)
ابھی شادی ہوئی نہیں اور بچے کی ہی سوچ رہے ہم بھی ۔
لیکن بنائیں گے بھائی جان
انشاء اللہ بس ذرا اسپیس ملے پھر دیکھئے گا
کچھ نہ کچھ تو کرنا ہے ۔
دعا کیجے گا بھائی جان
میری دلی تمنا ہے یہ کہ میں بھی فلمیں بناوں ۔
 
Top