چالاک خرگوش کے کارنامے

آہ! اس میں زہر تھا
ایک دن خرگوش کو گوشت کا بہت بڑا ٹکڑا راستے میں پڑا ہوا ملا۔ وہ سے لے جانے والا ہی تھا کہ کہیں سے بھیڑیا آ ٹپکا۔
اس نے خوش دلی سے پوچھا، "کیسے مزاج ہیں خرگوش بھیّا؟"
لیکن جونہی اس کی نظر گوشت پر پڑی، اس کا لہجہ بدل گیا، "واہ کتنا عمدہ گوشت ہے! یا تو سیدھے طریقے سے تم یہ مجھے دے دو ورنہ میں دیکھتا ہوں کہ تم اسے کیسے لے جا سکتے ہو۔"
یہ کہتے ہی وہ گوشت کے حصّے بخرے کرنے بیٹھ گیا۔ خرگوش بےچارہ دل ہی دل میں پیچ و تاب کھاتا رہا۔ اسے ایک ترکیب سوجھی۔ اس نے گوشت کے گِرد دو تین چکر لگائے۔ اسے زور زور سے کئی بار سونگھا اور بولا، "بھیّا بھیڑیے! کیا یہ گوشت تمہیں ٹھیک معلوم ہوتا ہے؟"
بھیڑیے نے کوئی جواب نہیں دیا۔
خرگوش نے گوشت کے گِرد ایک اور چکّر لگایا اور اسے پنجے سے چھو کر دیکھا۔ پھر ایک زوردار ٹھوکر لگا کر بولا، "بھیڑیے بھیّا! مجھے اِس سے سڑی ہوئی بُو آ رہی ہے۔ تمہیں یہ کیسا معلوم دیتا ہے؟"
بھیڑیے نے پھر کوئی جواب نہیں دیا۔
خرگوش نے کہا، "اچھا، تم مانو یا نہ مانو۔ میں سونگھنے میں غلطی نہیں کرتا۔ یہ زہریلا گوشت ہے۔ اسے کھا کر تم بیمار ہو جاؤ گے۔"
خرگوش نے کچھ لکڑیاں اکھٹّی کیں اور آگ جلائی۔
بھیڑیے نے پوچھا، "تم یہ کیا کر رہے ہو؟"
خرگوش نے کہا، "بس دیکھتے جاؤ۔ میں ابھی دیکھتا ہوں کہ یہ گوشت کیسا ہے۔"
پھر اُس نے گوشت کا ایک ٹکڑا بھونا۔ پھر اُسے سونگھا اور چکھا۔ پھر سونگھا پھر چکھا، یہاں تک کہ وہ سارا ٹکڑا ہڑپ کر گیا۔
پھر وہ اٹھ کر ایک طرف چلا گیا، جیسے اسے کسی چیز کا انتظار ہو۔ بھیڑیا اسے غور سے دیکھتا رہا۔ اچانک خرگوش نے ایک چیخ ماری اور سینہ پکڑ کر لوٹنے پوٹنے لگا۔ اس نے چیخ کر کہا، "بھیّا بھیڑیے خاں، اس میں۔۔۔۔۔ آہ! اوہ۔۔۔۔۔ اس میں زہر تھا۔۔۔۔۔ اب جلدی سے بھاگ کر ڈاکٹر کو بلا لاؤ۔۔۔۔۔ بچاؤ۔۔۔۔۔ آہ!"
بھیڑیا دوڑتا ہوا ڈاکٹر کے پاس پہنچا۔ جونہی وہ نظروں سے غائب ہوا۔ خرگوش جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گیا اور سارا گوشت اٹھا کر اپنے گھر لے گیا۔
بھیڑیا جب واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ وہاں نہ خرگوش ہے نہ گوشت۔
ہفتے بھر خرگوش کے مکان سے طرح طرح کی لذیذ خوش بوئیں آتی رہیں اور بھیڑیا دل ہی دل میں پیچ و تاب کھاتا رہا۔
ایک دن اسے راستے میں خرگوش مل گیا۔ بھیڑیے نے غصّے سے کہا، "اے خرگوش! تمہیں مجھے یوں دھوکہ دے کر شرم نہ آئی۔"
خرگوش نے آنکھیں مل مل کر کئی بار بھیڑیے کو دیکھا، پھر جوش کے ساتھ بولا، "اخّاہ! یہ تم ہو بھیڑیے بھیّا! بہت دنوں بعد نظر پڑے۔ عید کا چاند ہو گئے ہو۔ بھابھی اور بچے کیسے ہیں؟"
بھیڑیے نے کہا، "ان سب کو تمہارا انتظار ہے۔"
بھیڑیا خرگوش کو پکڑنے کے لیے دوڑا۔ ٹھیک اُس وقت جب بھیڑیا خرگوش کو پکڑنے ہی والا تھا، خرگوش لپک کر ایک کھوکلے تنے میں گھس گیا اور تیر کی طرح دوسری طرف سے نکل کر جنگل میں غائب ہو گیا۔ بھیڑیے نے خرگوش کو تنے سے نکلتے ہوئے نہیں دیکھا تھا اور نہ اسے پتہ تھا کہ دوسری طرف بھی سوراخ ہے۔
وہ جلدی سے گھاس پھونس اور لکڑیاں اکھٹّی کر کے لایا اور اسے آگ لگا دی۔ لکڑیاں جلیں اور اس کے ساتھ ہی کھوکھلا تنا بھی جل کر راکھ ہو گیا۔
 

ماہا عطا

محفلین
بہت زبر دست میں نے ابھی ساری تو نہیں پرھیں بس دو ہی پر ھ پائی۔۔۔۔
بہت اچھی کہانیاں ہیں شکریہ شئیر کرنے کا۔۔۔۔۔۔۔۔
 
خرگوش قہقہے لگا رہا تھا
بھیڑیا خوش خوش گلشن بیگم کے گھر پہنچا، لیکن اس نے جیسے ہی اندر قدم رکھا اس کی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ خرگوش گلشن بیگم کے بچوں کے ساتھ بیٹھا ہوا قہقہے لگا رہا تھا۔ بھیڑیے کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ اس نے کئی بار آنکھیں مل مل کر دیکھا کہ کہیں وہ خواب تو نہیں دیکھ رہا، لیکن نہیں، خرگوش زندہ تھا۔ خرگوش بھیڑیے کو دیکھ کر اس کے قریب آیا اور بولا، "بھیڑیے بھیّا! تم نے جو سلوک مجھ سے کیا ہے، اس کا بہت بہت شکریہ! تم نے دوستی کا حق خوب نبھایا ہے۔"
بھیڑیا حیرانی سے خرگوش کو دیکھنے لگا۔ خرگوش نے پھر کہا، "تم نے مجھے جلا کر بہت مہربانی کی۔ اگر اب بھی موقع ملے تو مجھے ضرور جلانا۔"
بھیڑیے نے حیران ہو کر پوچھا، "وہ کیوں؟"
خرگوش ہنسا، "میں تمہیں ضرور بتاتا، لیکن تم دوسروں کو بتاتے پھرو گے۔"
بھیڑیے نے بےصبری سے کہا، "نہ نہ بھیّا! یقین کرو میں کسی کو نہیں بتاؤں گا۔ اپنی بوڑھی بیگم کو بھی نہیں۔"
خرگوش بھیڑیے کے اور نزدیک کھسک آیا اور اس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے بولا، "جب درخت جلتا ہے تو اس کے اندر کا گوند پگھل جاتا ہے۔ اگر کوئی ذرا سا گوند کھالے تو اس پر آگ اثر نہیں کرتی۔"
بھیڑیا بہت حیران ہوا۔ اسے یقین ہو گیا کہ خرگوش صحیح کہتا ہے۔ اس نے خرگوش سے درخواست کی، "بھیّا جی! مجھے بھی کسی کھوکھلے تنے کا پتہ بتاؤ۔"
خرگوش نے فوراً کہا، "ہاں ہاں، ابھی چلو۔"
خرگوش اسے لے کر ایک تنے کے پاس پہنچا۔ اسے معلوم تھا کہ یہ تنا دوسری طرف سے بند ہے۔ بھیڑیا پھنس پھنسا کر درخت میں بیٹھ گیا۔ خرگوش نے درخت کو پتّوں سے ڈھانپ دیا اور سوراخ کا منہ اچھی طرح پتھروں سے بھر دیا۔ تاکہ بھیڑیا باہر نہ نکل سکے۔ پھر اس نے پتّوں کو آگ لگا دی۔
جلد ہی بھیڑیا چلّانے لگا، "اوہ بھیّا! بڑی گرمی لگ رہی ہے۔ اوہ! ابھی تک گوند بھی نہیں نکلا۔
خرگوش درخت پر اور پتّے ڈال کر بولا، "جلدی نہ کرو۔ گوند اب نکلنے ہی والا ہے۔"
درخت جلنے لگا۔ بھیڑیے کا دم گھٹنے لگا۔ وہ پھر چیخا، "یہاں بہت گرمی ہو گئی ہے بھیّا! ابھی تک گوند بھی نہیں نکلا۔"
خرگوش نے اور پتّے درخت پر ڈال دیے اور بولا، "صبر کرو، اب نکلنے ہی والا ہے۔"
بھیڑیا جلنے لگا۔ وہ تکلیف سے چلّانے لگا، "بچاؤ۔ بچاؤ مجھے۔ میرا دم گھٹ رہا ہے۔ میں مرا۔ اوہ! ہو ہو ہو۔"
خرگوش نے ایک قہقہہ لگایا اور چلّایا، "ہاں، یہی تمہارا انجام ہے۔ گونڈ نکل رہا ہے نا؟"
لیکن اس وقت تک بھیڑیے کا دم نکل چکا تھا۔ وہ آگ میں جل کر کباب ہو چکا تھا۔
 
ریچھ کو بھی غار میں دھکیل کر بند کر دیا
ایک دن ہوا تیز چل رہی تھی۔ جانے خرگوش کو کیا سوجھی کہ اس نے اپنا کوٹ اتار کر اسے ہاتھوں میں پکڑ لیا۔ بادبان کی طرح اس میں ہوا بھر گئی اور بھیّا خرگوش کو غبارے کی طرح اڑا لے گئی۔ اسے بڑا مزا آ رہا تھا۔ وہ اڑتا ہوا کبھی ایک جگہ جاتا، کبھی دوسری جگہ۔ اچانک اس کی ٹکّر ریچھ سے ہو گئی۔ ریچھ دھم سے زمین پر گر پڑا۔ چاروں خانے چِت۔
خرگوش سہم سا گیا۔ ریچھ نے اسے مضبوطی سے پکڑ لیا اور جھنجھوڑ کر بولا، "کیوں بھاگے جا رہے ہو۔ آخر کیا مصیبت آ پڑی ہے؟"
خرگوش کانپتے ہوئے بولا، "بھاگیے بھیّا جی! میاں آدم شکاری کتّوں کے ساتھ چلے آ رہے ہیں۔"
"ہائے اب کیا کریں؟" گھبراہٹ کے مارے ریچھ کے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے۔
"بھاگیے تیزی سے۔ نہیں تو جان کی خیر نہیں بھیّا!"
خرگوش بھاگا، ریچھ اس کے پیچھے پیچھے بھاگا۔ کچھ دور چل کر اس کی ہمّت جواب دے گئی۔ وہ زمین پر بیٹھے ہوئے بولا، "مجھ سے تو بھاگا بھی نہیں جا رہا ہے۔ اب کتّے میری بوٹیاں نوچ لیں گے۔"
اور ریچھ تو سچ مچ رونے لگا۔ خرگوش نے اِدھر اُدھر دیکھ کر کہا، "اس غار میں چھپ جائیے بھیّا جی! میں اس کے منہ پر بھاری سا پتھر رکھ دوں گا۔ پھر آپ بالکل محفوظ ہو جائیں گے۔"
ریچھ آہستہ آہستہ غار تک پہنچا۔ اس کا دہانہ بہت تنگ تھا، اس لیے اسے پچک کر اندر جانا پڑا۔ خرگوش نے پتھر سے غار کا منہ بند کر دیا اور بولا، "اب مزے کرو میں چلتا ہوں۔"
ریچھ نے تنگ غار میں اِدھر اُدھر ہاتھ پاؤں مار کر کہا، "یہاں مزے کہاں بھیّا؟ مجھے تو سخت تکلیف محسوس ہو رہی ہے۔"
ریچھ سے نمٹ کر وہ جانے ہی والا تھا کہ لومڑ کو دیکھ کر اس کے ہوش و حواس اُڑ گئے۔ لومڑ اس پر حملہ کرنے ہی والا تھا۔ خرگوش نے ڈپٹ کر کہا، "خبردار! جو ہاتھ لگایا مجھے۔ دیکھتے نہیں۔ میں نے ابھی ریچھ کو غار میں بند کیا ہے۔"
لومڑ خرگوش سے مرعوب ہو کر پیچھے ہٹا۔ خرگوش پھر بولا، پوچھ لو ریچھ سے۔ کیوں بھیّا میں نے ہی تمہیں بند کیا ہے نا؟"
اندر سے ریچھ کی آواز آئی، "ہاں، سچ کہتے ہو، لیکن اندر بہت گرمی ہے بھیّا!"
خرگوش نے لومڑ سے کہا، "اب جان کی خیر چاہتے ہو تو بھاگ جاؤ جلدی سے، ورنہ تمہیں بھی ریچھ کے ساتھ بند کر دوں گا۔"
لومڑ سچ مچ ڈر گیا۔ وہ پیچھے مڑا ہی تھا کہ خرگوش چیخ کر بولا، "بھاگ جاؤ جلدی سے ورنہ تمھاری خیر نہیں۔"
اور لومڑ سچ مچ بھاگ گیا۔
اندر سے ریچھ نے کہا، "ابھی تک کوئی کتّا اِدھر نہیں آیا۔"
خرگوش بولا، "اور نہ کوئی اِدھر آئے گا۔"
"کیوں بھیّا؟" ریچھ نے حیرانی سے پوچھا۔
"یوں ہی بس!" خرگوش رکھائی سے بولا۔
"تو پھر مجھے باہر نکالو۔"
"نہیں۔۔۔۔۔ میں نہیں نکالوں گا۔"
"کیوں۔" ریچھ نے پوچھا۔
خرگوش غصّے سے بولا، "اس لیے کہ یہاں تمہارا مزار بنے گا بھیّا جی۔ سمجھ گئے نا؟"
اور ریچھ کے سمجھ میں سب کچھ آ گیا۔ اس نے بہت زور مارا، لیکن وہ تو اندر پھنسا ہوا کھڑا تھا۔
خرگوش اسے یونہی چھوڑ کر چلا گیا۔ کئی روز کے فاقے کے بعد ریچھ اسی غار میں مر گیا۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
تھینک یو انیس بھیا آپ نے بہت اچھا کام کیا۔
یہ پوری بک تو لائبریری میں جائے گی ناں
ویسے بھیا آپ اتنی ٹائپنگ کرتے ہیں آپ تو لائبریرین بن ہی جائیں۔ :)
 
تڑ تڑ تڑ تڑ، کوئی سر پر تو کوئی منہ پر
خرگوش نے اپنے دشمنوں سے نجات پا لی تھی، لیکن تیسرا سب سے چالاک اور ہوشیار دشمن ابھی زندہ تھا اور اس کے لیے کسی بھی وقت خطرے کا باعث بن سکتا تھا۔ اُدھر شیر، بھیڑیے اور ریچھ کی موت کے بعد لومڑ بھی چوکنا ہو گیا تھا۔ اس نے جان لیا تھا کہ خرگوش اگرچہ قد میں بہت چھوٹا ہے، لیکن عقل میں کم نہیں۔ عقلمند دشمن کا وار گہرا بھی ہوتا ہے اور خطرناک بھی، چنانچہ لومڑ نے فوراً ایک چال چلی۔ وہ خرگوش کے مکان پر گیا ارر دروازہ کھٹکھٹانے لگا ۔
"بھیّا خرگوش 'اے بھیّاجی!اس نے دروازے سے منہ لگا کر کہا۔
"ہاں ہاں۔"خرگوش اندر سے بولا، "ابھی حاضر ہوا۔"
خرگوش دروازے کے پاس پہنچا اور زور سے بولا، "کیا بات ہے؟کیسے تشریف لائے؟"
لومڑ نے کہا، "بھیّا مجھے معاف کر دیجیے گا، آج تک بڑا دل دُکھایا ہے آپ کا ۔ آج تو دوستی کا پیغام لے کر آیا ہوں۔"
"ارے تو میں نے تمہیں دشمن کب سمجھا ہے؟"خرگوش چالاکی سے مُسکرایا-
وہ جانتا تھا کےیہ سب بہانہ ہے۔ جیسے ہی دروازہ کھلے گا لومڑ اس پر جھپٹ پڑے گا۔ دھوکےبازوں کی نہ قسم کا کوئی اعتبار نہ دوستی کا۔
"تو پھر کل صبح ہمارے ساتھ سیر کو چلیے۔ نہر کے کنارے شلجموں کا بہت بڑا کھیت ہے۔ سیر بھی ہو جائے گی اور کھانے کا انتظام بھی۔"
"اچھا اچھا۔ کل سورج نکلنے سے پہلے تمہیں کھیت میں ملوں گا۔" خرگوش مڑ کر اندر چلا گیا۔
اس نے سوچ لیا کہ جھوٹے کی قلعی تو کھولنی چاہیے، لیکن کیا ترکیب کی جائے کہ لومڑ کا بھرم بھی کھل جائے اور اس کی جان بھی بچی رہے۔ وہ سوچتا رہا۔ آخر ایک ترکیب اس کے ذہن میں آ ہی گئی۔ اس نے ایک خرگوش کی شکل کا غبارہ لیا اور اس کو اپنے کپڑے پہنا کر اگلے دن ندی کے کنارے شلجم کے کھیت میں رکھ دیا۔ بہت سے شلجم اکھاڑ کر نقلی خرگوش کے قریب جمع کر دیے اور خود ایک جھاڑی میں چھپ کر تماشا دیکھنے لگا۔
کچھ دیر بعد لومڑ بھی آ پہنچا۔ اس نے نقلی خرگوش کو دیکھ کر آواز دی، "ہیلو! کیا حال ہیں بھیّا؟"
نقلی خرگوش خاموش کھڑا رہا۔ لومڑ اندھیرے میں نقلی اصلی کی تمیز تو نہیں کر سکتا تھا۔ وہ اپنی جگہ سے اُچھلا اور خرگوش پر کود پڑا۔
"ہا ہا۔" لومڑ قہقہہ لگا کر بولا، "بڑے عقلمند بنے پھرتے تھے۔ آج ہی کچّا چبا جاؤں گا۔"
خرگوش نے کچھ نہیں کہا۔ جیسے ہی لومڑ نے ربڑ میں دانت مارے۔ ایک زور کا دھماکہ ہوا۔ لومڑ اچھل کر ندی میں جا گرا۔ اُدھر خرگوش نے قہقہہ لگایا، "ہا ہا ہا۔ بھیّا صبح سویرے نہانے سے زکام ہو جائے گا۔"
لومڑ تیرتا ہوا کنارے کی طرف آیا، لیکن خرگوش کب غافل تھا۔ اس نے تڑ سے ایک شلجم لومڑ کی ناک پر دے مارا اور پھر تو جیسے بارش برسنے لگی۔ تڑاتڑ تڑاتڑ۔ کوئی سر پر گرا تو کوئی منہ پر، کوئی پیٹھ پر تو کوئی گردن پر۔
ایک دم اتنے بہت سے شلجم لومڑ کو لگے کہ اس کا منہ پھرنے لگا۔ وہ بد حواسی میں دوسرے کنارے کی طرف تیرنے لگا۔ بھنور میں پھنسا، ڈبکیاں کھائیں۔ ڈوبنے سے بچ رہا، لیکن پھر بھی اتنا بہت سا پانی پی گیا کہ گھنٹوں کنارے پر پر پیٹ دبا دبا کر قے کرتا رہا۔
خرگوش نے بہت سے شلجم اکھاڑے اور تھیلے میں بھر کر گھر لے گیا۔ وہاں اس نے شلجموں کا اچار بنایا، مربّہ پکایا اور شوربہ بنایا۔
شام کے وقت لومڑ پھر پہنچا اور آواز دی، "بھیّا خرگوش۔ اے بھیّا جی!"
خرگوش نے دروازے پر پہنچ کر کہا، "معاف کرنا بھیّا جی! میں نے آج آپ سے بڑی گستاخی کی۔"
لومڑ مکّاری سے مُسکرا کر بولا، "ارے! کوئی بات نہیں۔ ایسا مذاق ہوتا ہی رہتا ہے۔ کل صبح آ رہے ہو نا۔ بابو کے باغ میں سیب توڑنے کے لیے۔ صبح ہی صبح پہنچ جانا۔ سیر بھی ہو جائے گی اور۔۔۔۔۔"
"اچھا اچھا۔" خرگوش بات کاٹ کر بولا، "کل صبح سویرے پہنچ رہا ہوں۔"
اگلے دن صبح سویرے اس نے اپنے بچوں کو ساتھ لیا اور بابو کے باغ میں پہنچ گیا۔ وہ ابھی سیب توڑ ہی رہا تھا کہ لومڑ پہنچ گیا۔ بچے تو پتّوں میں چھُپ گئے، خرگوش ٹہنی پر بیٹھا رہا۔
"نیچے آؤ نا۔ وہاں بیٹھے کیا کر رہے ہو؟" لومڑ بولا، "مجھ سے اوپر نہیں چڑھا جاتا۔"
خرگوش نے جواب دیا، "مجھ سے نیچے نہیں اترا جاتا۔"
لومڑ درخت کے نیچے دھرنا مار کر بیٹھ گیا اور بولا، "کبھی تو اترو گے۔"
اچانک ایک موٹا سا سیب لومڑ کی کھوپڑی پر گرا۔ بےچارے کو دن میں تارے نظر آ گئے۔ اُدھر نظر کی تو ایک ناک پر پڑا۔ ناک پہلے ہی پچکی ہوئی تھی۔ اب اور پچک گئی۔ پھر تو بارش سی ہونے لگی۔ لومڑ آگے آگے، خرگوش اور اس کے بچے پیچھے پیچھے۔ اسے کھیتوں کے پار پہنچا کر ہی دم لیا۔ تب انہوں نے سارے سیب اکھٹّے کیے، تھیلے میں بھرے اور گھر لے گئے۔ اس شام سیب کا حلوہ پکا، مربّہ بنا اور چٹنی بنی۔
اُدھر لومڑ بھی آیا۔ اس کی ناک بھی چٹنی بنی ہوئی تھی۔ دروازے پر منہ رکھ کر بولا، "ارے بھیّا خرگوش! اے بھیّا جی!"
کھڑکی سے جھانک کر خرگوش نے دیکھا۔ لومڑ کا حلیہ دیکھ کر اسے بڑی ہنسی آئی۔ بڑی مشکل سے ضبط کر کے بولا، "کیسے مزاج ہیں؟"
لومڑ بولا، "تمھارے مذاق نے حلیہ بگاڑ دیا۔ سخت نامعقول ہو تم اور تمہارے بچے!"
خرگوش عاجزی سے بولا، "معاف کر دینا بھیّا جی۔ اب ایسی گستاخی نہیں کروں گا۔"
لومڑ مکّاری سے مسکرایا، "دوستی میں ایسا مذاق تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ کل صبح پہاڑی کے اوپر میلہ لگ رہا ہے۔ چلو گے نا؟"
"ضرور ضرور۔" خرگوش نے سر ہلا کر کہا۔
"تو پھر صبح پہنچ جانا۔"
لومڑ جانے کے لیے اٹھا ہی تھا کہ خرگوش بولا، "حلوہ پکا ہے۔ کھا کے جانا۔"
حلوے کا نام سن کر لومڑ کی رال ٹپکنے لگی۔ وہ تھوتھنی اٹھا کر اوپر دیکھنے لگا اور اچانک پہلے اوپر سے گرما گرم راکھ، دہکتے ہوئے کوئلے گرے، پھر انگیٹھی اس کی کمر پر دھب سے گری اور لومڑ چیختا ہوا بھاگا۔
اوپر سے خرگوش چیخ چیخ کر پوچھتا رہا ، "کچھ مزہ آیا؟ کچھ مزہ آیا تمہیں؟"
 
لومڑ کی کھال پر خرگوش کے بچے کھیلتے ہیں
اگلے دن دوپہر کے وقت خرگوش اپنے بچوں کو ساتھ لے کر میلہ دیکھنے گیا۔ اس نے اپنے بچوں سے کہہ دیا تھا کہ ہر طرف سے ہوشیار رہنا، کیوں کہ کمزور کا کوئی دوست نہیں ہوتا۔ سب دشمن ہی دشمن ہوتے ہیں۔
میلہ خوب تھا۔ ہر طرف رونق تھی۔ ایک طرف ہنڈولے لگے ہوئے تھے، جس کی چُوں چُوں چَر چَر سے بچوں کا دل بھی مچلنے لگا۔
اچانک ایک بچے نے دور اشارہ کیا۔ خرگوش نے غور سے دیکھا۔ لومڑ ان کی طرف جھپٹا چلا آ رہا تھا۔ خرگوش جھٹ ہنڈولے والے کے پاس پہنچا اور بولا، "بڑے میاں! ہم ذرا اوپر سے میلے کا نظارہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں اوپر پہنچا کر ہنڈولا روک دینا۔ جتنی دیر ہم اوپر رہیں گے، تمہیں معاوضہ دیں گے۔"
ہنڈولے والا مان گیا۔ اس نے خرگوش اور اس کے بچوں کو ہنڈولے میں بٹھا کر اوپر پہنچا دیا اور ہنڈولا روک دیا۔ اب خرگوش اور اس کے بچے بالکل محفوظ تھے۔
کچھ ہی دیر میں وہاں لومڑ بھی آ پہنچا۔ اس نے ڈانٹ کر کہا، "اے بڈھے! یہ ہنڈولا کیوں روک رکھا ہے تم نے۔ مجھے بھی اس میں بیٹھا کر اوپر کی سیر کراؤ۔"
ہنڈولے والے کو بڑا غصّہ آیا۔ اس نے خرگوش کی طرف منہ اٹھا کر دیکھا۔ اُدھر سے خرگوش نے سر ہلا دیا۔
ہنڈولے والے نے لومڑ کو ہنڈولے میں بٹھایا اور زور کا جھونٹا دیا۔ آہستہ آہستہ خرگوش نیچے آتا گیا اور لومڑ اوپر ہوتا گیا۔ جب دونوں کا سامنا ہوا تو خرگوش مُسکرا کر بولا، "اب تمام دن اوپر کی سیر کرنا بھیّا جی، خدا حافظ!"
جب لومڑ اوپر پہنچا، خرگوش نیچے آ گیا تھا۔ ہنڈولے والے نے ہنڈولا روک دیا۔ خرگوش نے اسے انعام دیا اور بولا، "بڑے صاحب! یہ لومڑ ہمیں پریشان کرنا چاہتا ہے۔ مہربانی فرما کر اسے کچھ دیر اوپر ہی لٹکا رہنے دیجیے۔ اتنے ہم میلہ دیکھ کر واپس پہنچ جائیں گے۔"
خرگوش نے بٹوہ کھول کر بوڑھے آدمی کے ہاتھ پر کچھ اور روپے رکھ دیے اور جھُک کر اُسے سلام کیا۔ پھر لومڑ کی طرف دیکھا۔ اُسے بھی سلام کیا اور چل دیا۔
بےچارہ لومڑ جی ہی جی میں پیچ و تاب کھاتا رہا۔کبھی ہنڈولے والے کو گالیاں سناتا، کبھی دھمکیاں دیتا، لیکن اس کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔
آخر مجبور ہو کر لومڑ نے اوپر سے چھلانگ لگا دی۔ اس کے انچر پنچر ڈھیلے ہو گئے۔ لوگ اسے اسٹریچر پر ڈال کر ہسپتال لے گئے۔ جہاں اسے کافی دیر بعد ہوش آیا۔ شام کو پٹّیوں میں بندھا جکڑا لومڑ خرگوش کے مکان پر پہنچا۔ بےشرم تھا۔ اتنی چوٹیں کھا کر بھی چین نہیں۔
"ارے خرگوش بھیّا! اے بھیّا جی!" اس نے مری ہوئی زبان میں کہا۔
خرگوش نے جھانک کر دیکھا۔ اسے لومڑ کا حلیہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی۔ ہنس کر بولا، "کیا حال ہے؟"
"بڑا نازک ہے۔ سخت چوٹیں آئی ہیں۔" لومڑ نے کراہتے ہوئے کہا۔
"آپ نے تو ہائی جمپ لگائی تھی۔" خرگوش ہنستے ہوئے بولا۔
"وہ تو اب بھی لگاؤں گا۔" لومڑ اطمینان سے بولا۔
خرگوش سمجھ گیا کہ اب لومڑ کے سر پر قضا منڈلا رہی ہے۔ یہ جان کی بازی لگا کر پیچھے آیا ہے۔ اس لیے مانے گا نہیں۔ اس نے دیکھا کہ لومڑ کی دُم دروازے کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ وہ جھٹ نیچے اترا۔ آہستہ سے دروازہ کھولا۔ لومڑ کی دُم دروازے سے اندر آ گئی۔ پھر اس نے کھٹ سے دروازہ بند کر دیا۔لومڑ کی دُم دروازے کے تختوں میں پھنس گئی۔ وہ درد سے چلّانے لگا۔
اندر سے خرگوش کی بیوی سروتا اٹھا لائی اور ایک جھٹکے سے لومڑ کی دُم کٹ کر ان کے ہاتھ میں آ گئی۔ بےچارہ لومڑ درد سے چیختا ہوا دور تک بھاگا چلا گیا۔
رات ہو گئی تھی۔ سب بچے سو گئے۔ خرگوش نے اپنی بیوی سے کہا، "ذرا ہوشیار رہنا۔ آج لومڑ ہائی جمپ لگانے کا ارادہ رکھتا ہے۔"
خرگوش اور خرگوشنی نے سب دروازے، روشندان اور کھڑکیاں مضبوطی سے بند کردیں اور آتش دان کے نیچے آگ جلا کر اوپر پانی ابلنے کو رکھ دیا۔
خرگوش کا خیال ٹھیک نکلا۔ آدھی رات کو چھت پر لومڑ کے قدموں کی چاپ سنائی دی اور وہ دونوں ہوشیار ہو کر بیٹھ گئے۔
لومڑ نے ہر طرف دیکھا۔ دروازے اور روشندان بند پا کر بہت مایوس ہوا۔ آخر اس نے چمنی کے راستے اندر کُودنے کا پروگرام بنایا اور وہ دھڑام سے کُود گیا۔
نیچے دیگ تھی اور اس میں پانی ابل رہا تھا اور پانی میں لومڑ ابل کر رہ گیا۔
تب خرگوش اور خرگوشنی نے اسے دیگ سے باہر نکالا۔ اس کی کھال الگ کی اور گوشت باہر پھینک دیا۔ کہتے ہیں آج بھی خرگوش کے مکان میں لومڑ کی کھال ہے، جس پر اس کے بچے کھیلتے ہیں۔
خرگوش کے سب دشمن ختم ہوگئے تھے۔ وہ عرصۂ دراز تک چین اور سکون سے رہتا رہا۔
٭٭ختم شد٭٭
 
کتاب تمام ہوئی۔۔۔:)
معراج صاحب کی بقیہ دو کتب بھی اسی مہینے یونیکوڈ کر دوں گا۔ ایک کتاب "چالاک خرگوش کی واپسی" تو قیصرانی بھائی یونیکوڈ کر رہے ہیں۔ اس میں تھوڑا بہت میرا حصّہ بھی ہوگا۔ دوسری کتاب "علامہ دانش کے کارنامے" جس کے تین باب میں پوسٹ کر چکا ہوں بھی جلد مکمل ہو جائے گی۔
 
تھینک یو انیس بھیا آپ نے بہت اچھا کام کیا۔
یہ پوری بک تو لائبریری میں جائے گی ناں
ویسے بھیا آپ اتنی ٹائپنگ کرتے ہیں آپ تو لائبریرین بن ہی جائیں۔ :)
بچے لائبریرین بن کر پھنس جاؤں گا۔:)
میں علی عمران کی طرح فری لانسر ہوں۔۔۔:)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
کتاب تمام ہوئی۔۔۔ :)
معراج صاحب کی بقیہ دو کتب بھی اسی مہینے یونیکوڈ کر دوں گا۔ ایک کتاب "چالاک خرگوش کی واپسی" تو قیصرانی بھائی یونیکوڈ کر رہے ہیں۔ اس میں تھوڑا بہت میرا حصّہ بھی ہوگا۔ دوسری کتاب "علامہ دانش کے کارنامے" جس کے تین باب میں پوسٹ کر چکا ہوں بھی جلد مکمل ہو جائے گی۔
انیس بھائی بہت عمدہ کام آپ کر رہے ہیں۔ جزاکٔ اللہ
 

الف عین

لائبریرین
انیس تو ایسی تیز رفتاری سے جا رہے ہیں کہ مجھے صرف ان کے کام کے لئے مصروف ہونا پڑے گا، دوسروں کی ارسال کردہ کتابوں کو مکمل چھوڑ کر!!!۔ شکریہ انیس الرحمن۔ تمہارا شکاریات کا بلاگ بھی میرے زیر نظر ہے۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
بچے لائبریرین بن کر پھنس جاؤں گا۔:)
میں علی عمران کی طرح فری لانسر ہوں۔۔۔ :)
ارے انیس بھیااا
پتا ہے پہلے میں بھی یہی سمجھتی تھی۔ بہت ڈرتے ڈرتے میں نے کہا تھا ٹھیک ہے مجھے لائبریرین بنا دیں۔ لیکن اب اچھا لگتا ہے۔
اور بھیا ایسا نہیں ہوگا کہ جب بھی کوئی پراجیکٹ شروع ہو آپ کو اس میں ضرور حصہ لینا ہے اور آپ کی ذمہ داری ہے۔۔نہیں بلکہ اگر آپ اس دوران مصروف ہیں یا نہیں کر سکتے تو آپ سمپلی کہہ دیجئے آپ کو فورس نہیں کیا جائے گا۔ :)
بہرحال آپ کی مرضی بھیا میں تو ایسے ہی بتا رہی تھی کہ میں بھی ڈرتی تھی ہی ہی ہی
 
Top