چائے ۔۔۔۔۔پانی از نعیم نیازی

راجہ صاحب

محفلین
کوئی مانے یا نہ مانے لیکن فلاسفر میاں مصر ہیںکہ مشہور اصطلاح '' چائے ۔پانی'' بادی النظر میں جڑواںبہن بھائی کا تاثر دیتی ہیں ۔ حالانکہ جب سے جڑواں ایرانی بہنوں لالہ اور لادن کے جسمانی طور پر علیحدگی والے آپریشن کی جان لیوا ناکامی کی خبر ، میڈیا سے نشر ہوئی ہے جڑواں اشیاء سے سب کا اعتماد ڈانواں ڈول ہو گیا ہے ۔ بلکہ اب تو لفظ جڑواں سنتے ہی جھرجھری سی آنے لگتی ہے ۔
جڑواں اشیاء کی علیحدگی ممکن یا ناممکن ؟ یہ تو ڈاکٹر یا سائنسدان حضرات کا دردِ سر ہے ۔ لیکن فلاسفر کا عقیدہ ہے کہ (جڑواں )اصطلاح '' چائے ۔ پانی '' کو جدا کرنا قطعی ناممکن ہے ۔۔۔۔۔۔کیونکہ چائے ۔پانی۔۔۔۔۔ جنم جنم کے ساتھی ہیں ۔مثلاََ چائے کے اجزاء ترکیبی کو ہی لے لیجئے۔۔۔۔۔پانی کا عنصر اس میں غلبہ رکھتا ہے ۔ دوسرا اہم جزو دودھ ہے جو بذات خود80%پانی پر مشتمل ہے ۔
پس ثابت ہوا کہ ''چائے ۔ پانی '' ایک ہیں اور ہمیشہ ایک ہی رہیں گے ۔ بلکہ بقول فلاسفر میاں ۔۔۔۔۔گوشت کو ناخن سے جدا کیا جا سکتا ہے لیکن '' چائے ۔ پانی '' کی علیحدگی از بس دشوار ہے ۔
کہتے ہیں چائے ، برصغیر پاک و ہند میں ۔۔۔۔انگریز لائے ۔۔۔۔انگیریز تو چلے گئے لیکن چائے یہاں کے باسیوں کو جونک کی طرح چمٹ گئی ۔ اب حالت یہ ہے کہ چائے ۔۔۔۔۔کمبل کی طرح ہمارے ساتھ لپٹ گئی ہے ۔ ہم مائع شکل کے اس کمبل سے جان چھڑانہ چاہتے ہیں ۔ لیکن یہ ہمیں چھوڑتی ہی نہیں ۔۔۔۔۔دفتر ہوں ۔ کارخانے ہوں ۔۔۔۔۔بازار ہوں ۔۔۔۔سماجی اجتماعات ہوں یا خاندانی تقریبات '' چائے ۔ پانی '' ہر جگہ موجود ہیں ۔
سرکاری دفتر میں ''چائے ۔پانی'' کی اصطلاح ذو معنی ہے ۔ جب آپ کسی سرکاری اہلکار سے کوئی جائز ناجائز کام نکلوانے جاتے ہیں تو آپ سے ''چائے۔پانی '' کا مطالبہ کیا جاتا ہے ۔ معنوی طور پر اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اگر کام نکلوانا ہے تو بصورت کیش متعلقہ اہلکار کی مٹھی گرم کریں ۔ ویسے بھی ہمارے دفاتر میں بالعموم سارا دن'' چائے '' چلتی رہتی ہے کوئی اور کام ہو نہ ہو ۔۔۔۔۔۔بڑے تواتر سے چائے کے ''مگے پر مگے'' حلق میں انڈیلے جاتے ہیں ۔ ایک افسر مجاز اور ان کے ماتحت کا ایک واقعہ ہمیں کبھی نہیں بھولے گا ۔ ایک دفتر کے کرتا دہرتا '' ہذا من فضل ربی'' سے ہاتھ رنگنے میں خاصے معروف تھے ۔ ایک دفعہ ایک پارٹی نے اپنے پروجیکٹ کی منظوری کے سلسلے میں ان سے براہ راست رابطہ کیا اور حسب موقعہ ، معقول نذرانہ پیش کیا ۔ دفتری قواعد کے مطابق ، فائل ان کے ماتحت افسران و کلرکان کے چینلز طے کر کے ان تک پہنچنا تھی ۔ متعلقہ کلرک نے فائل روک لی ۔ اور پارٹی سے اپنے حصے کا '' چائے ۔ پانی ''مانگا ۔
پارٹی کی ، سربراہ دفتر سے براہ ِراست ڈیل ہو چکی تھی ۔ وہ چیں بچین ہوئی اور افسر سے شکایت کی ۔ کہ آپ کا ماتحت رشوت مانگتا ہے ۔ افسر نے فرطِ غیض سے ، ریوالونگ چیئر کو کئی مرتبہ گھمایا اور ایک طویل ''بیل'' دی ۔۔۔۔۔چپڑاسی اندر آیا تو حلق کے بل چنگھاڑے ''۔۔۔۔۔۔ذرا بلاؤ تو '' سالے بابو '' کو دفتر میں بیٹھ کر سرعام رشوت مانگتا ہے ''۔۔۔۔۔۔
چپڑاسی نے کلرک بادشاہ سے کہا ۔۔۔۔بابو جی ، آج آپ کی خیر نہیں ہے ۔ پارٹی نے صاحب سے آپ کی شکایت کر دی ہے ۔ باس سراپا شعلہ بنے ہوئے ہیں ۔ اور آپ کو طلب کیا ہے ۔
کلرک نے چپڑاسی کی بات سن کر لاپرواہی سے کندھے اچکائے اور کہا ۔۔۔۔۔''نیورمانڈ'' ۔۔۔۔۔تم چلو ، میں خود باس سے نمٹ لیتا ہوں ۔۔۔۔۔۔'' کلرک بادشاہ اندر داخل ہوا تو باس نے درشت لہجے میں کہا ۔۔۔۔۔۔''تم نے فلاں پارٹی کی فائل دودن سے کیوں دبا رکھی ہے ؟ ۔۔۔۔۔۔۔یوں دن دھاڑے رشوت مانگتے ہوئے شرم نہیں آتی تمہیں ؟؟؟''۔
'' سر جی جہاں تک رشوت کے مطالبے کا تعلق ہے تو عرض ہے کہ اس حمام میں ہم سب ہی ننگے ہیں''۔
کہتے ہیں ، کلرک بادشاہ کے الفاظ میں ایسا جادو تھا کہ افسر مجاز کا غصہ صابن کی جھاگ کی طرح بیٹھ گیا ۔
 

راجہ صاحب

محفلین
اسی طرح ایک اور بابوجی (کلرک )۔۔۔۔۔ایک ''ذرخیز '' محکمہ میں سروس کرتے تھے ۔ ان کی بیگم کو بھی معلوم تھا کہ اس کے مجازی خدا دھن دولت والے آفس میں متعین ہیں ۔ ایک بار ایسا ہوا کہ سارا دن فائلوں میں مغز کھپانے کے بعد ، موصوف نے دفتر سے چھٹی کی تو ان کا سر،مارے درد کے پھٹا جا رہا تھا ۔
گھر میں داخل ہوتے ہی انہوں نے ہانک لگائی ۔۔۔۔۔۔۔'' بیگم ! چائے ۔ پانی '' ۔۔۔۔بیوی نے گھور کر انکی طرف دیکھا اور تیوری چڑھا کر بولی ۔۔۔۔''عقل کے ناخن لیجئے سرتاج '' یہ سرکار کا دفتر نہیں ، آپ کا اپنا گھر ہے ، ''چائے ۔پانی '' کس حساب سے مانگا جا رہا ہے؟''۔
'' اوہ ساری ۔۔۔۔۔نیک بخت ، میں دراصل کہہ رہا تھا ۔ چائے ۔۔۔۔۔۔پانی ۔۔۔۔۔یعنی چائے (کپ میں) ڈال کر لے آ۔''۔۔۔۔۔
چائے ۔۔۔۔۔۔دراصل پانی کی ترقی یافتہ شکل ہے ۔ چونکہ دونوں کا منبع ایک ہی ہے لہٰذا ہیئت اور نام کی تبدیلی کے باوجود ، دونوں کے خواص اور اوصاف، ندی کے کناروں کی طرح ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔ پانی کی خوبی یہ ہے کہ جس برتن میں ڈالا جائے ۔ اسی کی شکل اختیار کر لیتا ہے یہی خوبی چائے میں بھی آ گئی ہے ۔ اس خاصیت سے ہمیں اپنے قومی سیاستدان یاد آ جاتے ہیں ۔ جن کا وطیرہ یہ ہے کہ جو پارٹی برسراقتدار آتی ہے ۔ اسی کا دم بھرنے لگتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ہرجائی پن یا برتن کی شکل میں ڈھلنے کی یہ خوبی شاید'' چائے۔پانی'' سے ہی ان کے مزاجوں میں آئی ہے ۔
چائے کا ادب اور ادیب سے گہرا رشتہ ہے ۔ بلکہ سچ پھوچھیے تو صرف ادیبوں ہی پر کیا موقوف؟ جملہ صاحبانِ قلم ، خواہ وہ شاعر ہوں ، نثر نگار ہوں ، یا نقاد۔۔۔۔۔۔چائے کے متوالے نظر آتے ہیں ۔ لاہور کا تاریخی چائے خانہ المعروف ''پاک ٹی ہاؤس''نصف صدی تک ادبی سرگرمیوں کا محور رہا ۔۔۔۔۔کئی شاعروں کا تو یہ حال تھا کہ جب تک'' پاک ٹی ہاؤس'' میں حاضری نہیں دیتے تھے ، ان پر آمد کا سلسلہ ہی شروع نہ ہوتا ۔گویا '' پاک ٹی ہاؤس '' میں آمد ۔۔۔۔غیب سے مضامین کی ، اُن کے جزیرہ ذہن پر '' آمد'' سے منسلک تھی ۔
رات گئے تک وہاں بڑی بڑی ادبی محفلیں جمتیں ۔۔۔۔۔۔یقیناََ یہ گہما گہمی اور رونقیں چائے کی مرہونِ منت تھیں ورنہ اہلِ قلم کسی نہاری ہاؤس ۔ چرغہ گھر یا کولڈڈرنک کارنر کا رخ بھی کر سکتے تھے۔
چائے ۔۔۔۔۔لسی کا نعم البدل ہے ۔ پرانے زمانے میں جب ریڈیواور ٹی وی پر کمرشل سروس کا آغاز نہیں ہوا تھا تو عوام چائے نوشی کے آداب سے خاطر خواہ آگہی نہیں رکھتے تھے ۔۔۔۔۔۔لیکن جب سے الیکٹرانک میڈیا نے کمرشل سروس شروع کی ہے ۔ اور چائے کمپنیوں نے ان اشتہارات میں دلنشین چہروں والے ماڈلز (خواتین و حضرات) کو کاسٹ کر کے ، پرکشش اشتہار دینا شروع کئے ہیں ۔
تو عام لوگ بھی بڑے سولائزڈ(Civilized) اور کلچرڈ (Cultured) بن گئے ہیں ۔ بلکہ اب تو عالم یہ ہے بڑے تو بڑے ، شیر خوار بچے بھی چائے پینے کے آداب اور ضوابط سے آشنا ہو چکے ہیں ۔
ذوقِ سلیم اور حسِ لطیف کے حامل مرد و زن تو عملی زندگی میں ان اشتہاری سٹائلز کی باقاعدہ نقالی کرنے لگے ہیں ۔ ذرا چشمِ تصور سے نظارہ کیجئے ۔۔۔۔۔۔۔ صاحب دفتر سے چھٹی کرکے تھکے ہارے گھر میں وارد ہوتے ہیں ۔ اور ڈرائنگ روم کے اندرداخل ہوتے ہی ، بڑے ترنم سے فلمی لے میں ہانک لگاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
صاحب: مائی ۔۔۔۔۔ڈار۔۔۔۔۔لنگ۔۔۔۔۔۔۔سنئے تو ذرا
بیگم : میرے سر کے تاج ۔۔۔۔۔ حاضر ہے کنیز۔۔۔۔کہیئے لاؤں کیا ؟؟؟
صاحب: گرما گرم چائے چاہیے ۔
بیگم: کونسی جناب ؟
اب یہ صاحب کے مزاج پر منحصر ہے ۔ کہ وہ کس برانڈ یا قسم کی چائے لانے کی فرمائش داغتے ہیں ۔ جن لوگوں کو کمرشل اشتہارات سے رغبت نہیں ہے ۔وہ تو اپنی پسند اور ذوق کے مطابق سبز چائے ۔ہلکے دودھ والی ۔ (گائے یا بھینس کے ) گاڑھے دودھ والی ۔ ٹیٹراپیک والی یا دودھ پتی ، ملائی والی چائے لانے کو کہیں گے ، لیکن متاثرین کمرشل سروس کیلئے یہ مقام سخت آزمائش کا ہے ۔۔۔۔۔دراصل یہ صاحب مزاج کے ذائقہ زبان کا امتحان نہیں ہے بلکہ اس کے ٹی وی کمرشل سروس کے اشتہارات سے متاثر ہونے کا ٹیسٹ ہے ۔ وہ جس چائے کمپنی کے اشتہار میں جلوہ آراء ہونے والی حسینہ دلربا سے زیادہ متاثر ہونگے ، اسی کی ڈیمانڈ کریں گے۔۔۔۔۔شکی مزاج بیگمات ایسے ہی موقعوں پر شوہر کے ہرجائی پن کی چوری پکڑتی ہیں ۔ چنانچہ کمزور قسم کے شوہر بادل نخواستہ ، عموماََ اس کمپنی کی چائے کا نام زبان پر لاتے ہیں جس کی ماڈل (گرل)رنگ و روپ میں افریقی دوشیزاؤں کے ہم پلہ ہو گی ۔ گھر داماد ایسے موقعوں پر بالعموم یہ جواب دیتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔''جانی ، وہی جو آپ کو پسند ہے ۔''
 

راجہ صاحب

محفلین
''یہی تو ہے وہ اپنا پن ۔۔۔۔۔۔مرے ہم جس پہ جانِ من۔۔۔۔۔اور تم پہ واراتن من دھن۔''
چائے اور مشروبات تیار کرنے والی کمپنیاں اپنے پراڈکٹس(چائے۔ پانی) کیلئے ایڈورٹائزمنٹ یعنی پروپیگنڈے کا سہارا لیتی ہیں ۔ یہ منافقانہ پروپیگنڈا ہر وقت اور ہر جگہ کیا جاتا ہے ۔ حتیٰ کہ عوامی بیت الخلاء کی اندرونی و بیرونی دیواریں بھی اس اشتہار بازی سے محفوظ نہیں ہیں ۔ لیکن اب ، نہ جانے کس کی شہہ پر جدید ریسرچ کے ماہر پروفیسروں اور ڈاکٹروں سے اس ایڈورٹائزمنٹ کو بے اثر بنانے کا بیڑا اٹھا لیا ہے ؟ بسم اللہ ، کرہ ارض کی کمزور مخلوق یعنی عورت سے کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ کیونکہ سب جانتے ہیں کہ ماڈرن خواتین اپنی اصل عمر چھپانے کیلئے '' سمارٹ نیس'' یعنی دبلے پن '' پر مرتی ہیں ۔ اور موٹاپے سے ان کی جان جاتی ہے ۔ چنانچہ جدید ریسرچ کے ان ماہرین نے خواتین کی اسی نفسیاتی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کی ٹھانی ہے ۔
ہر عورت فطرتاََ کم عمر نظر آنا چاہتی ہے ۔ اگر کسی اڈھیر عمر خاتون کے ہاتھ الہ دین کا چراغ لگ جائے تو وہ چراغ کے ''جن'' سے سب سے پہلا مطالبہ یہی کرے گی کہ اگر ممکن ہو تو جھٹ پٹ عالم برزخ چلا جائے اور حکیم اجمل خان مرحوم کی روح سے کوئی ایسا تیربہدف نسخہ پوچھ آئے جسے کھاتے ہی اس کی جسمانی کایا پلٹ جائے اور ازسر نو، کنواری دلاری بن جائے ۔۔۔۔۔۔ ان ماہرین نے خواتین کے اسی ''جنون '' کو مد نظر رکھ کر حکمت عملی تیار کی ہے ۔ سب سے پہلے تو خواتین کو ''کم خواری '' کی تبلیغ کی گئی ہے اور انہیں یہ نکتہ ذہن نشین کرایا گیا ہے کہ اگر جسم کے بے پناہ پھیلاؤکو روکنا ہے تو عمر کے حساب سے جسم کو درکار کیلوریز کی حد سے تجاوزنہ کیا جائے ۔۔۔۔۔''کیلوریز'' کو قومی زبان میں'' حرارے'' کہتے ہیں ۔ ''حراروں کو مقررہ حد ود کے اندر رکھنے کے چکر میں '' خواتین'' کو اپنے مالاکوت و مشروبات کی جبری ڈاؤن سائرنگ کرنا پڑتی ہے چنانچہ وہ خواتین جو دن بھر میں چائے کافی کے اَن گنت کپ نوش کرنے کی عادی تھیں ۔ اب وہ بھی بادل نخواستہ ان مشروبات کے استعمال میں کفایت شعاری کرنے لگ گئی ہیں ۔ اس کفایت شعاری کا سب سے زیادہ نقصان چائے کمپنیوں کو ہوا ہے جن کے دھندے میں مندے کا رجحان پیدا ہو گیا ہے ۔
دیکھئے ، اب چائے کمپنیاں اس ناپسندیدہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے کیا لائحہ عمل اپناتی ہیں ؟؟؟
چائے تو روز اول سے ہی قیمتاََ ملتی چلی آئی ہے ۔ لیکن اب پانی بھی بکنا شروع ہو گیا ہے ۔ پانی کے علاوہ چینی، رنگ اور کیمیائی اجزاء پر مشتمل اس محلول کو مشروب کا نام دیا جاتا ہے ۔ ہر سال جون کے مہینے میں حکومت جب سالانہ بجٹ یا میزانیہ پیش کرتی ہے تو اس مشروب پر بھی کسی نہ کسی بہانے ٹیکس عائد کر دیا جاتا ہے ۔ شاید اس کا سبب یہ ہو کہ ارباب اختیار اس رنگین مائع کا شمار تعیسات میں کرتے ہیں ۔
کیمیائی اجزاء والے اس ذائقہ دار پانی کو پی کر ڈکار بھی آتے ہیں ۔۔۔۔۔کہتے ہیں ، جو پیٹو ابنِ آدم ، تین آدمیوں کا کھانا شکم رسید کر کے بھی ڈکار تک نہیں لیتا وہ عجیب وغریب رنگ و ذائقے والے اس پانی کی کی 250ملی لیٹر بوتل کے چند گھونٹ بھر لے تو بھینسے کی طرح ڈکارنا شروع کر دیتاہے ۔
گیس ۔پانی اور وائٹ پوائزن(چینی) کے اس مکسچر کا قیمتاََ بکنا تو سمجھ میں آتا ہے کہ اس کی تیاری میں استعمال ہونے والے اجزاء مفت میں نہیں ملتے لیکن اب تو کمیٹی کے نل سے بھری ہوئی سادہ پانی کی بوتلیں بھی بکنے لگی ہیں ۔ یار لوگ۔۔۔۔۔پینے والوں کو اپنے دام میں پھنسانے کی لئے اس بے رنگ و بے ذائقہ آب سادہ کو بڑے پر کشش نام دے دیتے ہیں ۔ انگلش میڈیم سکولوں میں پڑھے ہوئے ''جنٹلمین'' اسے ''منرل واٹر'' کہتے ہیں ۔ جبکہ اردو، سرائیکی اور دیگر علاقائی بولیاں بولنے والے اسے ''آب حیات'' ۔ '' جرعہ،کوثر'' یا '' سر چشمہ قوت و توانائی ''کہتے ہیں ۔ حالانکہ یہ سادہ پانی مذکورہ خواص سے بالکل پاک صاف ہوتا ہے ۔
 

راجہ صاحب

محفلین
ہمارے ایک فلم ساز دوست ہیں جو ماضی میں یکے بعد دیگرے تین فلاپ فلمیں بنا کر اپنی معشیت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا چکے ہیں ۔ فلموں کا خسارہ پورا کرنے کیلئے گزشتہ دو ماہ سے وہ ملکی و غیر ملکی ماہرین اقتصادیات سے مہنگے مہنگے مشورے کئے جا رہے تھے ۔ اس کے باوجود کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پائے تھے ۔
اب انہوں نے ایک شناسا ''لے مین '' (Layman) کے مشورے پر '' سادہ پانی '' میں سرمایا کاری کا پروگرام بنایا ہے ۔ وہ کہتے ہیں میں اپنی فرم کے سپلائی کردہ پانی کا نام '' آب معدنیات'' رکھوں گا۔
کسی نے پوچھا ۔'' پانی تو مائع ہے جبکہ معدنیات ٹھوس چیزوں کو کہتے ہیں ۔ ان متضاد خواص والی چیزوں کو یکجا کس طرح کریں گے ؟''۔
بولے ۔۔۔۔۔۔'' ڈاکٹر حضرات کہتے ہیں ۔ انسانی جسم لوہا(فولاد) ۔ کیلشیم ۔ میگنیشیم ۔ سلفر ۔ اور فاسفورس وغیرہ کا گودام ہے ۔ آب معدنیات بادی النظر میں یہی تاثر دیتا ہے ۔ کہ یہ پانی انسانی جسم کو مطلوبہ معدنی اجزاء سے مالامال ہے ۔
میرا دل کہتا ہے یہ کاروبار ہفتوں میں دلدر دور کر دے گا ۔ اور ہم مالامال ہو جائیںگے ۔
طلوع ہونے والے ہر دن کے ساتھ '' چائے ۔ پانی '' کی مقبولیت بڑھتی جا رہی ہے ۔
حکومت۔۔۔۔۔مختلف شعبوں میں '' کارکردگی '' اور مقبولیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے ، ہر سال ۔۔۔۔۔۔۔''مستحق'' بلکہ منظورِ نظر افراد میں ''پرائیڈ آف پرفارمنس'' بانٹتی ہے ۔ لیکن مقام حیر ت ہے ۔کہ وہ ''ابتدائی '' شخص ابھی تک اس اعزاز سے کیوں محروم ہے ؟ جس نے پہلے پہل ''چائے ۔ پانی '' کی اصطلاح دفاتر میں روشناس کر وائی تھی ۔ کہتے ہیں ماضی قریب میں ، ادب کے شعبے میں، ی ایوارڈ ایسے اہلِ قلم ، حضرات کو بھی مل چکا ہے ، جنہوں نے گزشتہ تیس سال کے دوران کچھ بھی نہیں لکھا ۔ حالانکہ اگر ''چائے ۔پانی'' کی گزشتہ تیس سالہ کاکردگی کو مدِنظر رکھا جائے تو ظاہر ہو گا کہ گزشتہ تیس سال تو کیا ، پچھلے چھپن سال کے دوران ۔۔۔۔۔اس کی ''پراگرس'' اور ''پرفارمنس'' نے ہر سال اپنے سابقہ ریکارڈ توڑے ہیں ۔




٭٭٭٭٭٭​
 

شمشاد

لائبریرین
لیکن راجہ صاحب یہ تو ادبی سرقہ کہلائے گا۔ کسی کی تحریر بغیر اجازت کے چھاپنا کاپی رائٹ کے اصول کے خلاف ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
ابھی دوسری جگہ یہی لکھ کر آیا تھا کہ ادھر ادھر تحریریں بکھیرنے سے فائدہ؟؟ با قاعدہ کوئی کتاب، کاپی رائٹ سے آزاد، یا مصنف سے اجازت لے کر ٹائپ کریں تو بات بھی ہے۔ یہ تو محنت کا مکمل ضیاع ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
اخبارات اور رسائل کے کاپی رائٹ ہوتے ہیں۔ انہوں نے صاحبِ تحریر سے پیسے دے کر تحریر خریدی ہوتی ہے۔
 
Top