پی ڈی ایم پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پاکستان تحریک جمہوریت) جلسہ آن لائن دیکھیں

شمشاد

لائبریرین
اس سے زیادہ اچھا تبصرہ اور بھلا کیا ہو سکتا ہے۔

IMG-2549.jpg
 

بابا-جی

محفلین
اس سے زیادہ اچھا تبصرہ اور بھلا کیا ہو سکتا ہے۔

IMG-2549.jpg
میرے سیاسی مُرشد امبر شہزادہ کو بنا دو شمشاد جِی۔ یہاں کیا، پُوری دُنیا میں اِقتدار میں آنے کے جو رنگ ڈھنگ ہیں، وُہ نیا بندہ سیکھتے سیکھتے ہیں باوا بن جاتا ہے۔ اس لیے ان میں سے زیادہ تر وزیر مشیر بننے قابل رہ جاتے ہیں یا سینٹ کا ٹکٹ لے لِیا حد سے حد۔ کُچھ سیاسی خاندان اِس لیے ہٹ ہو گئے کہ سیاسی شہادت کسی کو گھرانے میں سے مِل گئی، کُچھ کو اسٹیبلشمنٹ خُود آگے لے آئی مال پانی لے کر اور کچھ کو انتقاماً آگے لایا گیا۔ اب اور کہاں سے قیادت آئے گی، اگلے لیڈر پہلے سے سامنے آ رہے ہیں اور ٹریننگ کے لِیے باجوہ اور دُوسرے جرنیل کبھی کبھار اپنے پاس بُلاتے رہتے ہیں جیسا کہ پچھلے دنوں بلاول کو بُلایا، مولانا فضل کے بیٹے کو بُلایا۔ نون لیگ سے بھی بعضوں کو بُلایا گیا پر اُدھر ابھی شہباز اِن ہے۔ اور کوئی طریقہ ہے تو بتائیں۔ میرے سیاسی مُرشد چالیس سال سے الیکشن لڑ رہے ہیں اور پچھلے الیکشن میں اُنہیں 33 ووٹ مِلے یاسمین راشد لاکھوں ووٹ لے کر بھی ہار گئیں۔ نُون لیگ کا جو اُمیدوار جیتا، اُس کا نام بھی مُجھے یاد نہیں، کوئی وحید بٹ تھا شاید۔ اور، حتیٰ کہ اُس کی بھی پارٹی اور قومی منظرنامے پر کوئی حیثِیت نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
مریم اور بلاول اور آصفہ کا مُستقبل روشن لگتا ہے، فی الحال کپتان بہتر چوائِس ہے۔
اب اور کہاں سے قیادت آئے گی، اگلے لیڈر پہلے سے سامنے آ رہے ہیں اور ٹریننگ کے لِیے باجوہ اور دُوسرے جرنیل کبھی کبھار اپنے پاس بُلاتے رہتے ہیں جیسا کہ پچھلے دنوں بلاول کو بُلایا، مولانا فضل کے بیٹے کو بُلایا۔ نون لیگ سے بھی بعضوں کو بُلایا گیا پر اُدھر ابھی شہباز اِن ہے۔ اور کوئی طریقہ ہے تو بتائیں۔
نئی لیڈرشپ بھی وہیں سے آئے گی جہاں سے کپتان عمران خان آیا۔ یعنی پارٹی میں الیکشن لڑ کر اوپر آئے گی۔ عین ممکن ہے جب عمران خان، شاہ محمود قریشی، اسد عمر دنیا میں نہ ہوں اس وقت پارٹی کی قیادت حماد اظہر، مراد سعید، فیصل جاوید خان جیسے جوان کر رہے ہوں۔ تحریک انصاف میں دیگر جماعتوں کی نسبت موروثی سیاست نہیں ہے۔ یہاں جو کام کرے گا، پارٹی میں مقبول ہو گا وہ لیڈر بن جائے گا جیسا کہ مغربی جمہوری جماعتوں ہوتا ہے۔ جرنیلوں کو اگر سلیکٹ کرنا ہے تو وہ بھی انہی میں سے کرنا ہوگا۔ نہ ان کہ ان کرپٹ خاندانی سیاسی کمپنیز میں سے:
BE3-C2-BF6-3114-41-FA-979-C-07-E1-C354-C2-E1.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
میرے سیاسی مُرشد امبر شہزادہ کو بنا دو شمشاد جِی۔ یہاں کیا، پُوری دُنیا میں اِقتدار میں آنے کے جو رنگ ڈھنگ ہیں، وُہ نیا بندہ سیکھتے سیکھتے ہیں باوا بن جاتا ہے۔ اس لیے ان میں سے زیادہ تر وزیر مشیر بننے قابل رہ جاتے ہیں یا سینٹ کا ٹکٹ لے لِیا حد سے حد۔ کُچھ سیاسی خاندان اِس لیے ہٹ ہو گئے کہ سیاسی شہادت کسی کو گھرانے میں سے مِل گئی، کُچھ کو اسٹیبلشمنٹ خُود آگے لے آئی مال پانی لے کر اور کچھ کو انتقاماً آگے لایا گیا۔ اب اور کہاں سے قیادت آئے گی، اگلے لیڈر پہلے سے سامنے آ رہے ہیں اور ٹریننگ کے لِیے باجوہ اور دُوسرے جرنیل کبھی کبھار اپنے پاس بُلاتے رہتے ہیں جیسا کہ پچھلے دنوں بلاول کو بُلایا، مولانا فضل کے بیٹے کو بُلایا۔ نون لیگ سے بھی بعضوں کو بُلایا گیا پر اُدھر ابھی شہباز اِن ہے۔ اور کوئی طریقہ ہے تو بتائیں۔ میرے سیاسی مُرشد چالیس سال سے الیکشن لڑ رہے ہیں اور پچھلے الیکشن میں اُنہیں 33 ووٹ مِلے یاسمین راشد لاکھوں ووٹ لے کر بھی ہار گئیں۔ نُون لیگ کا جو اُمیدوار جیتا، اُس کا نام بھی مُجھے یاد نہیں، کوئی وحید بٹ تھا شاید۔ اور، حتیٰ کہ اُس کی بھی پارٹی اور قومی منظرنامے پر کوئی حیثِیت نہیں۔
فی الحال تو مقابلہ متحدہ اپوزیشن سے ہے جس میں وہ ناکام ہو چکی ہے۔ فوج بھی اسی کو سلیکٹ ہونے کا موقع دیتی ہے جو عوام میں پہلے سے مقبول ہو۔

پی ڈی ایم لاہور جلسے کے بعد بری طرح بے نقاب ہوگئی، وزیراعظم
ویب ڈیسک 3 گھنٹے پہلے
2117210-imrankhan-1607942716-558-640x480.jpg

عوام کے سامنے جعلی بیانیے کی مکمل حقیقت آشکار ہوگئی، عمران خان

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل جماعتیں لاہور جلسے کے بعد بری طرح بے نقاب ہوگئیں اور عوام کے سامنے جعلی بیانیے کی مکمل حقیقت آشکار ہوگئی۔

اسلام آباد میں وزیراعظم کی زیر صدارت پارٹی رہنماؤں کا اہم اجلاس ہوا جس میں عمران خان نے پی ڈی ایم جلسے سمیت قومی معاملات پر قریبی رہنماؤں سے مشاورت کی۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پی ڈی ایم جماعتیں جلسے کے بعد بری طرح ایکسپوز ہو گئیں، عوام کے سامنے جعلی بیانیے کی مکمل حقیقت آچکی۔

حکومتی رہنماؤں نے کہا کہ استعفوں کے معاملے پر پوری پی ڈی ایم کنفیوژن کا شکار ہے، جلسے میں مداخلت نہ کرنے کا حکومتی فیصلہ درست تھا، گلگت انتخابات اور جلسوں میں ناکامی کے بعد پی ڈی ایم بیانیہ دم توڑ چکا۔
 

احسن جاوید

محفلین
اس سے زیادہ اچھا تبصرہ اور بھلا کیا ہو سکتا ہے۔

IMG-2549.jpg
پہلے نقطے میں اس بے بی کا بالکل کوئی قصور نہیں ہے۔ اپنے معاشرے کی طرف نظر دوڑائیں۔ معاشرے میں صرف وہی کام قابل قبول ہوتے ہیں جسے معاشرتی قبولیت (سوشل ایکسپٹینس) حاصل ہو۔ اس بے بی کو اگر اسی حالت میں بھی الیکشن لڑوایا جاتا تو یہ ان سب بیرسٹروں اور پڑھے لکھے طںقے سے زیادہ ووٹ حاصل کرتا۔ اس لیے بے بی یا انہیں کوسنے کی بجائے اپنی گھٹیا معاشرتی اقدار ٹھیک کریں جہاں شخصیت اور خاندان پرستی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور زبردستی بھری جاتی ہے۔ مسئلے کی جڑ پہ بات کریں، پودے کی شاخوں کے آخری سروں کو کاٹ دینے کی بات کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہونے والا۔
اگر آپ کے دوسرے بیانیے کو جو آخر میں پیلے بیک گراؤنڈ میں درج ہے درست مان لیا جائے تو پھر انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اگر اتنی کثیر تعداد میں درسگاہیں، کتابیں، جدید ٹیکنالوجی جو ہر لمحہ باخبر رکھتی ہے ان سب کے باوجود آج کے بیرسٹرز، پڑھے لکھے، وڈیرے، کھاتے پیتے اور عوام کی مفلوجیت کی یہ حالت ہے تو پھر 1945 میں ان سب کا کیا حال ہو گا جس نے قائد کو سپورٹ کیا اور اگر تھوڑا آگے چل کر جذبات سے باہر نکل کے منطقی انداز میں سوچا جائے تو پھر اس لیڈر کا کیا معیار ہو گا جس کو ویسی عوام نے سپورٹ کیا۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
بالکل بھی نہیں۔ یہ ایک سماجی معاملہ ہے اور کسی ایک فرد یا مخصوص افراد پہ اس کا بوجھ نہیں ڈالا جا سکتا۔
پاکستان کی تاریخ میں بڑے بڑے سائنسدان، ماہرین معیشت، گلوکار، کھلاڑی وغیرہ آئے اور تاریخ کے جھروکوں میں گم ہو گئے۔ پھر ان کرپٹ سیاسی لیڈروں میں ایسا کیا ہے جو پاکستانی قوم نسل در نسل ان کی غلامی کر رہی ہے؟
 

احسن جاوید

محفلین
پاکستان کی تاریخ میں بڑے بڑے سائنسدان، ماہرین معیشت، گلوکار، کھلاڑی وغیرہ آئے اور تاریخ کے جھروکوں میں گم ہو گئے۔ پھر ان کرپٹ سیاسی لیڈروں میں ایسا کیا ہے جو پاکستانی قوم نسل در نسل ان کی غلامی کر رہی ہے؟
مسئلہ لیڈرز کا نہیں ہے بلکہ سوشل آرڈر کا ہے اور اسے صرف تعلیم سے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔ تحریک انصاف کا کلیہ اس ضمن میں کارگر نہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
سپوٹر تو اس لئیے تعلیم یافتہ ہیں کہ عمران خان صاحب کی سوچ اعلیٰ

یکساں نصاب: کیا سیاست دانوں، جرنیلوں اور بیوروکریٹس کے بچے بھی ایک ہی نصاب پڑھیں گے؟

13.08.2020
53447406_101.jpg


پی ٹی آئی حکومت کے وزراء کی طرف سے یکساں تعلیمی نصاب متعارف کرانےکی کوشش کو بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس نصاب سے ملک میں تعلیم کا معیار بہتر ہوگا یا مزید خراب؟
پاکستان کے وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا ہے کہ نیا یکساں نصاب اگلے تعلیمی سال سے پورے ملک میں نافذ ہوگا اور اس کا نفاذ پہلی سے پانچویں جماعت تک اردو میں ہوگا۔

اس نصاب تعلیم پر مختلف حلقوں کی طرف سے زبردست تنقید ہورہی ہے اورکئی یہ سوال کر رہے ہیں کہ آیا سیاست دان، جرنیل، ججز اور بیورکریٹس بھی اپنے بچوں کو یہ نصاب تعلیم پڑھائیں گے یا نہیں۔ یا پھر یہ نصاب صرف غریب بچوں کے حصے میں آئے گا، جن کی اکثریت سرکاری اسکولوں میں پڑھتی ہے؟

امیر اور غریب کے لیے الگ الگ تعلیم

پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ یہ نصاب امیر اور غریب سب بچوں کے لیے ہے۔ پارٹی کے ایم این اے محمد بشیر خان کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان کہیں گے کہ پارٹی کے رہنما اور اراکین اسمبلی بھی اپنے بچوں کو یہ نصاب پڑھائیں، تو وہ سب لبیک کہیں گے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’عمران خان نے اس نصاب کی برابری کے لیے بائیس سال جدوجہد کی اور اب یا امیر ہو یا غریب سب بچے یہ نصاب پڑھیں گے۔ اس کو ہم سرکاری اور نجی تمام اداروں میں نافذ کریں گے تاکہ تعلیم میں طبقاتی تفریق ختم ہو۔‘‘

41574832_101.jpg


تبدیلی کی ابتدا اپنے گھر سے

https://amp.dw.com/ur/یکساں-نصاب-کی...ٹس-کے-بچے-بھی-ایک-ہی-نصاب-پڑھیں-گے/a-54555773
 

احسن جاوید

محفلین
تمسخر اڑانے سے پہلے سوچ لیا کریں کہ ہمارے پاس ہر دعوے کا حوالہ موجود ہے


اسے ریشنلائزیشن کہتے ہیں یہ حقیقت نہیں ہے۔ آپ کی غیر جانب داری کی نص اسی دن کٹ جاتی ہے جب آپ کا جھکاؤ کسی ایک طرف ہوتا ہے۔ تعلیم تو پاکستان میں حقیقی معنوں میں آئی ہی نہیں ہے۔ ان میں سے کتنے فیصد لوگ جمہوریت کو سمجھتے ہیں؟ پولیٹیکل اور سوشل آرڈر کو سمجھتے ہیں؟ آئین اور اس کی اہمیت کو سمجھتے ہیں؟ سچ تو یہ ہم میں سے اکثر نے اس کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہے نہیں بلکہ جب سے آنکھ کھولی جو دیکھا اسی کو حقیقت سمجھ لیا پھر چاہے وہ معاشرہ ہو یا سیاست یا مذہب اور تاریخ جو کہ قوم کی یاداشت ہوتی ہے اول تو پڑھائی ہی نہیں جاتی لیکن جو پڑھائی جاتی ہے وہ ایک خاص نیریٹیو جنریٹ کرنے کے لیے ڈسٹورٹ کر دی جاتی ہے۔ اس لیے تحریک انصاف کے سپورٹرز ہوں یا کسی اور پارٹی کے، تعلیم یافتہ ہوں یا غیر تعلیم یافتہ، غلامی کے پیمانے میں ذرا بھی فرق نہیں۔
آپ انہی گراف کو اگر خود غور سے دیکھ لیتے تو مجھے یہ بات کہنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ بھٹو کے ساتھ بھی اس وقت کا تعلیم یافتہ طبقہ تھا، پھر کیا ہوا؟ معاشرے اور تاریخ کی عینک سے اگر بغور دیکھا جائے تو پاکستان میں رائج پولیٹیکل آرڈر کو سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ نوجوان طبقہ ہمیشہ نئے چہرے کی تلاش میں ہوتا ہے اور اس کی کمی اوریٹرز اور ڈیماگاگز آ کر پوری کرتے ہیں۔ نوجوان سمجھتے ہیں بس یہ آ کر سب سیٹ کر دے گا کیونکہ یہ طبقہ خود ابھی حقیقی میدان میں اترا ہی نہیں ہوتا، زندگی اور زمانے کے مسائل ابھی سمجھے ہی نہیں ہوتے اس لیے ریڈکشنسٹ اپروچ اور ریٹورک کے ذریعے انہیں پھسلانا آسان ہوتا ہے۔
 
آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
13 دسمبر کا پی ڈی ایم کا جلسہ بری طرح ناکام ہونے پر پاکستان کے تمام ٹی وی اسٹیشن ٹاک شو میں اسی پر بات کر رہے ہیں۔
گیارہ جماعتیں بُری طرح ناکام ہوئیں۔
 
Top