پی ٹی ایم رہنما محسن داوڑ کی ساتھیوں کے ہمراہ میرانشاہ میں چیک پوسٹ پر فائرنگ

آصف اثر

معطل
ہمیں حیرت ہے کہ اس تمام واقعے میں ریاست (اسٹیبلشمنٹ) بمقابلہ پی ٹی ایم بھرپور انداز میں نظر آئی لیکن حکومت ِِ وقت یوں غائب ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔

وزیراعظم، وزیرِ داخلہ، وزیرِ دفاع ، کے پی کے حکومت سب کو سانپ سونگھ گیا ہے۔
کیا واقعی یہ سب لوگ نمائشی ہیں؟
بالکل۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہمیں حیرت ہے کہ اس تمام واقعے میں ریاست (اسٹیبلشمنٹ) بمقابلہ پی ٹی ایم بھرپور انداز میں نظر آئی لیکن حکومت ِِ وقت یوں غائب ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
وزیراعظم، وزیرِ داخلہ، وزیرِ دفاع ، کے پی کے حکومت سب کو سانپ سونگھ گیا ہے۔
کیا واقعی یہ سب لوگ نمائشی ہیں؟
پتا نہیں عوام سوئی ہے یا جان بوجھ کر جاگنا نہیں چاہتی:
’’وزیر دفاع پرویز خٹک نے شمالی وزیرستان میں فوجی چیک پوسٹ پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عوام کی تکالیف اور مشکلات کو جواز بنا کر اِس پر کسی قسم کی سیاست یا لاقانونیت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ 'ایک گروپ نے پوسٹ پر براہ راست فائرنگ کی، سپاہیوں نے پہلے اُنہیں پرامن طریقے سے منتشر کرنے کی کوشش کی، پھر اُن کے فائر کے جواب میں ہوائی فائرنگ کے ذریعے منتشر کرنے کی کوشش کی، مگر جب اُن کے فائر سے 5 جوان زخمی ہوئے تو پوسٹ پر موجود سپاہیوں نے اپنے دفاع میں جوابی فائر کیا، جس سے ہجوم میں کچھ ہلاکتیں بھی ہوئیں۔'
پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ 'یہ ایک افسوسناک واقعہ ہے جو کہ نہیں ہونا چاہیے تھا، جبکہ بدقسمتی سے اس عمل کی قیادت ہمارے دو اراکین قومی اسمبلی کر رہے تھے۔'‘‘
'عوام کی تکالیف کو جواز بناکر سیاست،لاقانونیت کی اجازت نہیں دی جائے گی' - Pakistan - Dawn News

’’رہنما مسلم لیگ (ن) کی تقریر پر وفاقی وزیر مراد سعید نے جواب میں کہا کہ سابق حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہم بے گھر ہوئے، ان سب کا احتساب کرنا ہوگا جنہوں نے فاٹا کو ترقی نہ دی۔ ہم بھارتی جہاز گرا رہے تھے اور یہاں ایک پارٹی کا لیڈر بھارتی موقف بیان کررہا تھا، ہم دشمن کے طیارے گراتے ہیں یہاں کسی اور کے بیانیے کی بات ہوتی ہے، نقیب اللہ محسود کا قاتل راؤ انوار آج کہاں ہے، بلاول بھٹو زرداری کو بتانا چاہتا ہوں کہ راوٴ انوار تمہارے باپ کا بہادر بچہ ہے جب کہ نقیب اللہ کی شہادت کے بعد ہی پی ٹی ایم بنی تھی۔
مراد سعید نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں جو واقعہ ہوا اس کی فوٹیجز موجود ہیں، محمود اچکزئی اور محسن داوڑ تو سرحد پر خاردار تاریں لگانے کے خلاف تھے ، یہ لوگ نہیں چاہتے تھے ہماری سرحدیں محفوظ ہوں، افغانستان سے ’را‘ اور ’این ڈی ایس‘ کا گٹھ جوڑ یہاں دہشت گردی کرتا ہے، محسن داوڑ جواب دیں کہ ان کا افغان خفیہ تنظیم این ڈی ایس سے کیا تعلق ہے ورنہ ان کو بے نقاب کردوں گا۔ اب پاک فوج کو گالیاں دینے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔
مراد سعید کی تقریر کے دوران اپوزیشن ارکان نے شور شرابا شروع کردیا اور نعرے لگاتے ہوئے ایوان سے واک آوٴٹ کردیا۔‘‘
شمالی وزیرستان واقعے پر قومی اسمبلی میں گرما گرمی، اپوزیشن کا واک آؤٹ - ایکسپریس اردو

یاد رہے کہ حکومت اس سارے معاملہ میں فریق نہیں ہے۔ پی ٹی ایم کی تحریک آرمی چیک پوسٹس کے خلاف ہے۔ حکومت کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
“میں نے اور علی وزیر نے دو آرمی چیک پوسٹ عبور کیے جس کے بعد آرمی نے فائرنگ کی” محسن داوڑ کا میڈیا کے سامنے آن ریکارڈ بیان
 

سید ذیشان

محفلین
جس قسم کی وڈیوز سوشل میڈیا پر دیکھنے میں آ رہی ہیں اس سے تو آرمی کے بیانیہ کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔ آرمی کو بھی چیک پوسٹ پر حملے کی وڈیو جاری کرنی پڑے گی۔ سمارٹ فون کے زمانے میں سچ زیادہ دیر چھپا نہیں رہ سکتا۔
 

جاسم محمد

محفلین
اب وہ دور نہیں رہا جب جھوٹی خبریں چلا کر ہمدردیاں سمیٹی جاتی تھیں۔
فی الحال تو دونوں اطراف سے ہی ہمدردیاں سمیٹی جا رہی ہیں۔
فوج کا موقف: پی ٹی ایم مظاہرین نے چیک پوسٹ پر حملہ کیا۔ فوجی جوان زخمی کئے۔ جوابی کاروائی پر مظاہرین زخمی اور ہلاک ہوئے۔
پی ٹی ایم کا موقف: فوج نے پی ٹی ایم مظاہرین پر بلا اشتعال فائرنگ کی۔ یہ ریاستی دہشت گردی ہے۔
حقائق: پی ٹی ایم مظاہرین کے پاس کوئی اسلحہ موجود نہیں تھا۔ اراکین قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر ایک دھرنا میں شرکت کیلئے گئے تو راستہ میں دو مقامات پر فوج نے چیک پوسٹ بنا کر راستہ روکا ہوا تھا۔ ان کو زبردستی عبور کر کے جب وہ مظاہرین تک پہنچے تو پیچھے سے فوج نے فائرنگ کر دی۔
یاد رہے کہ نہتے مظاہرین پر گولیاں چلانا قانونا جرم ہے۔ اسی طرح سیکورٹی حدود زبردستی عبور کرنا بھی قانونا جرم ہے۔ ایسا کرنے پر قانون ریاست کو حق دیتا ہے کہ مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے۔
جب عمران خان اور قادری کے دھرنا شرکا نے ریڈ زون میں سیکورٹی حد عبور کی تھی تو ان کےخلاف طاقت کا استعمال ہوا تھا۔ ماڈل ٹاؤن میں بھی جب پی اے ٹی کے مظاہرین نے سیکورٹی بند ہٹانے کی کوشش کی تھی تو حکومت نے بے دریغ طاقت کا استعمال کیا تھا۔ اسی طرح لاک ڈاؤن کے وقت بنی گالہ کے باہر سیکورٹی پوسٹ کی خلاف ورزی کرنے والوں کو جیلوں میں ڈالا گیا تھا۔
سیکورٹی چیک پوسٹس کے قانونی یا غیرقانونی ہونے کا تعین صرف عدالتیں کر سکتی ہیں۔ عوام کو یہ حق نہیں کہ خود ہی سے ان کو غیرقانونی قرار دے کر قانون اپنے ہاتھ میں لے لے۔ اور ریاست کی طرف سے جواب کاروائی پر مظلوم بن جائے۔
فوج نے مظاہرین پر گولیاں چلائیں غلط کیا۔ مظاہرین نے آرمی چیک پوسٹس زبردستی عبور کی غلط کیا۔ اب عدالتیں دونوں فریقین کو سزائیں سنا کرانصاف کریں۔
 

جان

محفلین
فی الحال تو دونوں اطراف سے ہی ہمدردیاں سمیٹی جا رہی ہیں۔
فوج کا موقف: پی ٹی ایم مظاہرین نے چیک پوسٹ پر حملہ کیا۔ فوجی جوان زخمی کئے۔ جوابی کاروائی پر مظاہرین زخمی اور ہلاک ہوئے۔
پی ٹی ایم کا موقف: فوج نے پی ٹی ایم مظاہرین پر بلا اشتعال فائرنگ کی۔ یہ ریاستی دہشت گردی ہے۔
حقائق: پی ٹی ایم مظاہرین کے پاس کوئی اسلحہ موجود نہیں تھا۔ اراکین قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر ایک دھرنا میں شرکت کیلئے گئے تو راستہ میں دو مقامات پر فوج نے چیک پوسٹ بنا کر راستہ روکا ہوا تھا۔ ان کو زبردستی عبور کر کے جب وہ مظاہرین تک پہنچے تو پیچھے سے فوج نے فائرنگ کر دی۔
یاد رہے کہ نہتے مظاہرین پر گولیاں چلانا قانونا جرم ہے۔ اسی طرح سیکورٹی حدود زبردستی عبور کرنا بھی قانونا جرم ہے۔ ایسا کرنے پر قانون ریاست کو حق دیتا ہے کہ مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے۔
جب عمران خان اور قادری کے دھرنا شرکا نے ریڈ زون میں سیکورٹی حد عبور کی تھی تو ان کےخلاف طاقت کا استعمال ہوا تھا۔ ماڈل ٹاؤن میں بھی جب پی اے ٹی کے مظاہرین نے سیکورٹی بند ہٹانے کی کوشش کی تھی تو حکومت نے بے دریغ طاقت کا استعمال کیا تھا۔ اسی طرح لاک ڈاؤن کے وقت بنی گالہ کے باہر سیکورٹی پوسٹ کی خلاف ورزی کرنے والوں کو جیلوں میں ڈالا گیا تھا۔
سیکورٹی چیک پوسٹس کے قانونی یا غیرقانونی ہونے کا تعین صرف عدالتیں کر سکتی ہیں۔ عوام کو یہ حق نہیں کہ خود ہی سے ان کو غیرقانونی قرار دے کر قانون اپنے ہاتھ میں لے لے۔ اور ریاست کی طرف سے جواب کاروائی پر مظلوم بن جائے۔
فوج نے مظاہرین پر گولیاں چلائیں غلط کیا۔ مظاہرین نے آرمی چیک پوسٹس زبردستی عبور کی غلط کیا۔ اب عدالتیں دونوں فریقین کو سزائیں سنا کرانصاف کریں۔
آپ چاہے کتنے ہی بڑے منصف بننے کی کوشش کیوں نہ کریں آپ کے بیانیے میں فوج کی حمایت صاف جھلک رہی ہے۔ پی ٹی آئی نے تو پوری کوشش کی تھی اپنے دھرنے میں بندے مروا کر ہمدردیاں سمیٹنے کی لیکن ایسا ہو نہ سکا۔ نہتے لوگوں پر فائر کھولنا یقیناً عالمی انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے چاہے آپ اس کی کوئی بھی دلیل پیش کریں۔ چاہے وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن ہو، سانحہ ساہیوال ہو یا موجودہ پی ٹی ایم کا سانحہ ہو۔ آپ قانون اور انصاف کی بات کرتے ہیں تو پہلے اول الذکر دونوں کیسز میں جو قانونی تقاضے پورے کیے گئے ہیں اور انصاف دیا گیا ہے وہی سب کچھ یہاں بھی ہونا ہے۔ بس "گھبرانا نہیں ہے"۔
 

جاسم محمد

محفلین
پی ٹی آئی نے تو پوری کوشش کی تھی اپنے دھرنے میں بندے مروا کر ہمدردیاں سمیٹنے کی لیکن ایسا ہو نہ سکا۔
یہی بغض یا تعصب پی ٹی ایم سے متعلق کیوں نہیں ہے؟
اگر لاشوں پر کامیاب سیاست ہو سکتی تو آج پی اےٹی والے 5 سال بعد بھی انصاف کیلئے مارے مارے نہ پھر رہے ہوتے۔
 
آخری تدوین:

جان

محفلین
یہی بغض یا تعصب پی ٹی ایم سے متعلق کیوں نہیں ہے؟
اگر لاشیں گرا کر کامیاب سیاست ہو سکتی ہے تو آج پی اےٹی والے 5 سال بعد بھی انصاف کیلئے مارے مارے نہ پھر رہے ہوتے۔
لاشیں گرا کر سیاست کامیاب ہو یا ناکام اصل سوال یہ نہیں ہے بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ نہتے لوگوں پہ اندھا دھند فائرنگ کی ہی کیوں جائے چاہے ان کا مقصد اور بیانیہ کچھ بھی ہو۔
وہ تحریک پی اے ٹی والوں کی تھی ہی نہیں، جس کی تھی ان کو مطلوبہ نتائج نہ دے سکی۔ پی اے ٹی تو محض فرنٹ اینڈ تھا، ڈور تو کسی اور کے پاس تھی۔ انصاف مہیا کرنا ریاست کا کام ہے اور ریاست طاقتور کو روکنے میں اور اسے انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے میں مکمل ناکام اور بے بس ہے۔
 
آخری تدوین:

فلسفی

محفلین

اسی ویڈیو کو 37 سیکنڈ پر روک کر دیکھیں کیا نظر آ رہا ہے؟

فرشتے نہ فوج میں ہیں اور نہ ہی پی ٹی ایم میں، البتہ کچھ دشمن طاقتیں ان حالات سے فائدہ ضرور اٹھا رہی ہیں لیکن طرفین کی عقل اس وقت شاید کام نہیں کر رہی۔ اللہ ہمارے ملک پر اور اس کے رہنے والوں پر رحم فرمائے۔ آمین
 

جاسم محمد

محفلین
اسی ویڈیو کو 37 سیکنڈ پر روک کر دیکھیں کیا نظر آ رہا ہے؟
اس میں کیا ہوا ہے فلسفی بھائی؟
37 سکینڈ پر پی ٹی ایم مظاہرین کے پاس اسلحہ موجود ہے۔
Capture.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
خرکمر چیک پوسٹ پر کیا ہوا؟ مسلح کون تھا، بڑا سچ سامنے آگیا
Last Updated On 28 May,2019 10:22 pm

493727_68471719.jpg

اسلام آباد: (دنیا نیوز) پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) رہنما کے ساتھی ڈاکٹر عالم نے ویڈیو بیان میں اعتراف کیا ہے کہ محسن داوڑ چیک پوسٹ حملے کے وقت مسلح گروہ کیساتھ آیا تھا۔

تفصیلات کے مطابق جتنا جھوٹ پھیلائیں، سچ چھپ نہیں سکتا۔ خرکمر چیک پوسٹ پر کیا ہوا؟ مسلح کون تھا، بڑا سچ سامنے آ گیا ہے۔ اس سچائی کی گواہی خود پی ٹی ایم رہنما محسن داوڑ کے اپنے ساتھی نے دے دی ہے۔ محسن داوڑ کے ساتھی ڈاکٹر عالم نے اعتراف کیا ہے کہ اس وقت محسن داوڑ مسلح تھا۔

پی ٹیم ایم رہنما کے ساتھی ڈاکٹر عالم نے ویڈیو انٹرویو میں حقیقت بیان کرتے ہوئے بتایا کہ چیک پوسٹ پر حملے کے وقت محسن داوڑ مسلح گارڈ کے ساتھ تھا۔

مسلح ہو کر یہ گروہ چیک پوسٹ پر کیا کرنے آیا تھا؟ ثابت ہو گیا کہ محسن داوڑ اور علی وزیر کی کمان میں گروہ چیک پوسٹ پر حملہ آور ہوا۔

ادھر پی ٹی ایم کے دوسرے رہنما علی وزیر کی لوگوں کو چیک پوسٹ پر حملے کیلئے اکسانے کی ویڈیو سامنے آ گئی ہے۔ چھپے ہونے کے دوران بنائی گئی ویڈیو میں محسن داوڑ نے 2 بیئریرز عبور کرنے کا اعتراف کیا۔

یاد رہے کہ گزشتہ دنوں محسن داوڑ اور علی وزیر گروپ نے شمالی وزیرستان میں چیک پوسٹ پر حملہ کر کے 5 فوجیوں کو زخمی کر دیا تھا، ان میں سے ایکک زخمی جوان گل خان شہید ہو گیا تھا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق شہید سپاہی گل خان جمرود ضلع خیبر کا رہائشی تھا۔ شہید سپاہی گل خان نے پسماندگان میں تین بیٹے اور ایک بیٹی سوگوار چھوڑی ہے۔

محسن داوڑ نے ساتھیوں کے ہمراہ خرکمر میں چیک پوسٹ پر فائرنگ کی تھی۔ یہ لوگ دہشت گردوں کے سہولت کار کو چھڑانا چاہتے تھے۔ فائرنگ کے تبادلے میں شرپسندوں کے تین ساتھی ہلاک جبکہ دس زخمی ہو گئے تھے۔ اس موقع پر علی وزیر کو آٹھ ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا گیا لیکن محسن داوڑ فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا۔

آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ چیک پوسٹ پر موجود جوانوں نے انتہائی تحمل اور صبر کا مظاہرہ کیا لیکن علی وزیر اور محسن داوڑ کے گروپ نے چیک پوسٹ پر براہ راست فائرنگ اور اشتعال انگیز تقاریر کیں۔ فائرنگ کے تبادلے کے نتیجے میں ان کے تین ساتھی ہلاک جبکہ 10 زخمی ہوئے۔ تمام زخمیوں کو آرمی ہسپتال میں طبی امداد کے لیے منتقل کیا گیا۔

دوسری جانب افغان میڈیا کی جانب سے شمالی وزیرستان معاملے پر شرپسندی کرنے اور سوشل میڈیا پر جعلی تصاویر جاری کرنے پر معذرت بھی کی گئی تھی۔

پاجوک افغان نیوز نے پی ٹی ایم کے مظاہرے کے حوالے سے پراپیگنڈہ تصویر جاری کی تھی۔ سوشل میڈیا پر کسی اور واقعے کے زخمیوں کی پرانی تصاویر کو آج کے واقعہ سے جوڑ کر پراپیگنڈہ کیا جا رہا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
میں بھی افغان ہوں
27/05/2019 حامد میر



”میں افغان تھا، میں افغان ہوں اور میں افغان رہوں گا“۔

یہ الفاظ عوامی نیشنل پارٹی کے صدر اسفند یار ولی نے 2016 میں کہے تھے جس پر کچھ محبِ وطن بھڑک اُٹھے اور اُنہوں نے اسفند یار ولی پر غداری کا الزام لگا کر اُنہیں افغانستان جانے کا حکم دیا لیکن اے این پی کے صدر نے یہ حکم نظر انداز کر دیا تھا۔ اُنہوں نے یہ الفاظ اپنی پارٹی کے سابق رکنِ صوبائی اسمبلی شعیب خان کی یاد میں منعقدکیے گئے جلسے میں کہے تھے۔ صوابی کا شعیب خان اپنے علاقے میں بابائے صوابی اور ملنگ بابا کے نام سے مشہور تھا۔

جب سوات سے شمالی وزیرستان اور بنوں سے پشاور تک ہر دوسرے دن بم دھماکے ہو رہے تھے تو یہ اے این پی تھی جو پاکستان کی سیکورٹی فورسز کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ بشیر بلور سے لے کر شعیب خان تک اے این پی نے سات سو سے زائد کارکن پاکستان پر قربان کر دیے لیکن پاکستان سے محبت کے دعویداروں کو یہ قربانیاں نظر نہیں آتیں۔ وہ اسفند یار کو غدار کہتے ہیں کیونکہ اُسے اپنے افغان ہونے پر فخر ہے۔ کچھ دن پہلے اسلام آباد میں ایک دس سالہ بچی فرشتہ کو اغوا کر کے قتل کر دیا گیا۔ اغوا کے پانچ دن بعد اُس بچی کی لاش ملی تو لواحقین نے پولیس کے خلاف احتجاج کیا کیونکہ اسلام آباد پولیس کے اہلکاروں نے بچی کے والد کی شکایت پر مقدمہ درج کرنے کے بجائے مظلوم والد سے تھانے کی صفائی کا کام لینا شروع کر دیا۔ لواحقین کے احتجاج میں کچھ سیاسی جماعتیں بھی شامل ہو گئیں۔ ایک ٹی وی چینل نے دعویٰ کر دیا کہ فرشتہ کا خاندان پاکستانی نہیں بلکہ افغان ہے۔ پھر کیا تھا۔ سوشل میڈیا پر پاکستان اور اسلام کا نام لے کر گالم گلوچ کرنے والے محبِ وطن پاکستانی اور مجاہدینِ اسلام میدان میں آ گئے اور اُنہوں نے یہ نعرہ لگا دیا ”افغانی بھگاؤ پاکستان بچاؤ“۔

جواب میں فرشتہ کے لئے انصاف مانگنے والوں نے یہ کہنا شروع کر دیا ”میں بھی افغان ہوں“۔ جب بھی کوئی پختون اپنے آپ کو افغان کہتا ہے تو پنجاب سے تعلق رکھنے والے پاکستانیت کے کچھ علمبردار اُسے غدار قرار دے کر افغانستان چلے جانے کا حکم دینے لگتے ہیں۔ یہ وہ رویہ ہے جس کے باعث 1971 ءمیں بنگالی پاکستان سے علیحدہ ہو گئے تھے لیکن افسوس کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان سے محبت کے نام پر اس پاکستان دشمنی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارا نظامِ تعلیم ہے۔ ہم اپنے بچوں کو اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں صحیح تاریخ نہیں پڑھاتے۔ صحیح تاریخ نہ پڑھانے کی وجہ یہ ہے کہ اگر نئی نسل کو پتہ چل گیا کہ ہمارے اصل ہیرو اور ولن کون ہیں تو پھر پاکستان پر ایک مخصوص طبقے کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی۔

ستم ظریفی دیکھئے کہ افغان دراصل پاکستان کا حصہ ہے لیکن پاکستانیت کے علمبردار اپنے آپ کو افغان کہنے والوں کو غدار قرار دے ڈالتے ہیں۔ اس جہالت کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے لفظ پاکستان کی تاریخ کو بھی ایمانداری سے اپنے تعلیمی نصاب میں شامل نہیں کیا۔ ہم اپنے نصاب میں یہ تو بتاتے ہیں کہ دو قومی نظریے کی ابتداء سر سید احمد خان نے کی تھی، جنہوں نے مسلمانوں اور ہندوؤں کو دو علیحدہ قومیں قرار دیا لیکن جمال الدین افغانی کو اہمیت نہیں دی جنہوں نے وسط ایشیا سے شمال مغربی ہندوستان تک ایک علیحدہ مسلم جمہوریت کی تجویز پیش کی۔ پھر 1890 میں عبدالحلیم شرر نے ہندوستان کو ہندو اور مسلم اضلاع میں تقسیم کرنے کی تجویز دی۔ اکبر الٰہ آبادی، مولانا محمد علی جوہر، حسرت موہانی اور مولانا اشرف علی تھانوی نے 1905 اور 1928 کے درمیان بار بار علیحدہ مسلم مملکت کی تجویز پیش کی۔ 1928 میں کپواڑہ کے علاقے ہندواڑہ سے تعلق رکھنے والے ایک کشمیری صحافی غلام حسن شاہ کاظمی نے ”ہفت روزہ پاکستان“ کے نام سے ڈیکلریشن کے لئے ایبٹ آباد میں درخواست دی تھی۔

علامہ اقبالؒ نے 1930 میں اپنے خطبہ الٰہ آباد میں تفصیل سے پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو علیحدہ ریاست بنانے کی تجویز دی۔ ہمارے تعلیمی نصاب میں لفظ پاکستان کا خالق چوہدری رحمت علی کو قرار دیا جاتا ہے۔ اُنہوں نے 1933 ءمیں ایک کتابچہ NOW OR NEVER کے نام سے شائع کیا تھا جس میں لفظ پاکستان کی تشریح کی گئی۔ یہ کتابچہ ”پاکستان موومنٹ“ نامی تنظیم نے شائع کیا جس کے صدر اسلم خٹک اور سیکرٹری چوہدری رحمت علی تھے۔ اس کتابچے کے مطابق لفظ پاکستان میں پ کا تعلق پنجاب، الف کا تعلق افغان، ک کا تعلق کشمیر، س کا تعلق سندھ اور تان کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ ”پاکستان موومنٹ“ نامی اس تنظیم میں خواجہ رحیم بھی شامل تھے اور انہوں نے اس نام کی منظوری علامہ اقبالؒ سے لی تھی۔ ڈاکٹر جہانگیر تمیمی کی تصنیف ”اقبالؒ، صاحب حال“ کے مطابق علامہ اقبالؒ نے 22 نومبر 1937 کو لفظ پاکستان مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے سامنے استعمال کیا اور کہا ”پاکستان ہی مسلمانوں کے مسائل کا واحد حل ہے“۔

علامہ اقبالؒ کو تصور پاکستان کا خالق بھی کہا جاتا ہے لیکن افسوس کہ پاکستانیت کے اکثر علمبردار افغانوں کے بارے میں شاعر مشرق کے خیالات سے نابلد ہیں۔ علامہ اقبالؒ کا افغانستان اور پشتو زبان کے بارے میں بڑا گہرا مطالعہ تھا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک استاد شیخ عطاءاللہ نے بڑی محنت سے علامہ اقبالؒ کے ساڑھے چار سو سے زائد خطوط تلاشکیے اور ”اقبال نامہ“ کے نام سے شائع کر دیے۔ یہ کتاب سب سے پہلے 1944 میں شائع ہوئی تھی۔

اب اسے اقبال اکادمی پاکستان نے دوبارہ شائع کیا ہے۔ اس کتاب میں خالد خلیل کے نام علامہ اقبالؒ کا ایک خط شامل ہے جس میں شاعر مشرق نے پشتو بولنے والے افغان اور پٹھان کو ایک ہی قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ افغان دراصل یہودی النسل ہیں، اِس لئے پشتو میں عبرانی زبان کے کئی الفاظ ہیں۔ اس خط میں خوشحال خان خٹک کی بہت تعریف کی گئی ہے۔ علامہ اقبالؒ نے ”خوشحال خان کی وصیت“ کے نام سے اپنی نظم میں کہا تھا

قبائل ہوں ملت کی وحدت میں گم

کہ ہو نام افغانیوں کا بلند

محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے

ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

اور پھر ایک اور جگہ کہا کہ

آسیا یک پیکر آب و گل است

ملتِ افغان در آں پیکر دل است

یعنی ایشیا ایک جسم ہے تو افغان اس جسم میں دل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اقبال نے کہا تھا ”افغان باقی، کہسار باقی۔ الحکم للہ، الملک للہ“۔ یہ افغان صرف وہ نہیں جو افغانستان میں رہتے ہیں بلکہ یہ پاکستان میں بھی رہتے ہیں جن کو پختون اور پٹھان کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر محمد نواز خان محمود اپنی کتاب ”فرنگی راج اور غیرت مند مسلمان“ میں لکھتے ہیں کہ افغان، پشتون یا پٹھان کی نسل بنی اسرائیل(حضرت یعقوب علیہ السلام) سے ہے، اُنکے جدِ امجد کا نام افاغنہ تھا جو بنی اسرائیل کے بادشاہ طالوت کا پوتا تھا۔

اگر کوئی پاکستانی پشتون اپنے آپ کو افغان کہتا ہے تو کسی کو غصے میں آنے کی ضرورت نہیں یہ اُس کی پہچان ہے۔ جس طرح پنجابی بھارت میں بھی رہتے ہیں، پاکستان میں بھی رہتے ہیں، سندھی بولنے والے بھارت میں بھی ہیں، بلوچی بولنے والے افغانستان اور ایران میں رہتے ہیں، اُسی طرح پشتو بولنے والا پاکستانی اپنے آپ کو افغان کہہ دے تو مسکرا کر اُسے گلے لگایئے اور کہہ دیں میں بھی افغان ہوں کیونکہ آج کے پاکستان میں رہنے والوں کے اکثر بزرگوں کو حضرت داتا گنج بخشؒ، حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ، حضرت معین الدین چشتیؒ اور لال شہباز قلندرؒ نے مسلمان کیا اور یہ صوفیاء افغان تھے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہمیں حیرت ہے کہ اس تمام واقعے میں ریاست (اسٹیبلشمنٹ) بمقابلہ پی ٹی ایم بھرپور انداز میں نظر آئی لیکن حکومت ِِ وقت یوں غائب ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
وزیراعظم، وزیرِ داخلہ، وزیرِ دفاع ، کے پی کے حکومت سب کو سانپ سونگھ گیا ہے۔
کیا واقعی یہ سب لوگ نمائشی ہیں؟
اب تو پوری کابینہ میدان میں آگئی ہے۔ اب کیا کہیں گے؟

وفاقی کابینہ کی فوجی چیک پوسٹ پر حملے کی مذمت، شہید جوان کو خراج عقیدت
200403_55159_updates.jpg

کابینہ اجلاس میں بجٹ سے متعلق ابتدائی دستاویز پرغور کیا گیا اور 11 جون کو بجٹ پیش کیا جائے گا: معاون خصوصی برائے اطلاعات کی پریس کانفرنس — فوٹو: پی آئی ڈی
اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں گزشتہ دنوں شمالی وزیرستان میں خارکمر چیک پوسٹ پر حملے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔

وفاقی کابینہ نے حملے میں شہید فوجی جوان کو خراج عقیدت پیش کیا، بجٹ سے متعلق ابتدائی دستاویز پر غور ہوا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ 11 جون کو بجٹ پیش کیا جائے گا۔

وزیراعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے وفاقی کابینہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں بتایا کہ وفاقی کابینہ نے چیک پوسٹ پر حملے کی مذمت کی ہے، افواج پاکستان اور زخمیوں سے اظہار یکجہتی کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جن کو شمالی وزیرستان کی ترقی چبھتی ہے، انہوں نے امن کو داؤ پر لگایا، اس قسم کے واقعات علاقے کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں، بین الاقوامی ہاتھوں میں کھیل کر کچھ افراد نے معصوم قبائلیوں کو سیاست کا ایندھن بنانے کی کوشش کی۔


یاد رہے کہ گزشتہ دنوں ارکان قومی اسمبلی محسن جاوید داوڑ اور علی وزیر کی قیادت میں ایک گروہ نے شمالی وزیرستان کے علاقے بویہ میں خارکمر چیک پوسٹ پر حملہ کیا تھا۔

چیک پوسٹ پر حملے کے نتیجے میں 5 اہلکار زخمی ہوئے جب کہ فائرنگ کے تبادلے میں 3 حملہ آور مارے گئے اور 10 زخمی ہوئے تھے۔ رکن قومی اسمبلی علی وزیر کو کئی لوگوں کے ساتھ حراست میں لیا گیا تھا بعد ازاں انہیں 8 روزہ ریمانڈ پر سی ٹی ڈی کے حوالے کیا گیا۔

وزیراعظم کی بچوں کے ساتھ جنسی استحصال سے متعلق قوانین میں ترمیم کی ہدایت
فروس عاشق اعوان نے بتایا کہ انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے بچوں کے جنسی استحصال میں اضافہ ہوا ہے، کابینہ اجلاس میں بچوں کے جنسی استحصال کے قوانین میں ترمیم پر غور کیا گیا، وزیراعظم نے بچوں کے ساتھ جنسی استحصال سے متعلق قوانین میں ترمیم کی ہدایت کی ہے، بچوں کو انٹرنیٹ پر فحش مواد سے محفوظ بنانے کی حکمت عملی بنائی جائے گی۔

معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ کچھی کینال کے فنڈز میں کرپشن پر سی سی آئی کے فیصلے کو ایف آئی اے کے حوالے کرنے کی ہدایت کی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کابینہ اجلاس میں بجٹ سے متعلق ابتدائی دستاویز پر بھی غور کیا گیا اور 11 جون کو بجٹ پیش کیا جائے گا، آئندہ بجٹ میں ہماری توجہ معیشت کی بہتری اور بیرونی قرضے ہوں گے، بجٹ میں عام آدمی متاثر نہ ہو،اس پر بھی غور کیا گیا۔

200403_6964360_updates.jpg

وفاقی کابینہ کا اجلاس — فوٹو: عمران خان آفیشل
فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے سگریٹ انڈسٹری کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا فیصلہ کیا ہے، سگریٹ انڈسٹری سے حاصل ہونے والا ٹیکس صحت کے بجٹ پرخرچ کیا جائے گا، صوبائی اداروں کے وفاق کے پاس آنے کے بعد اِن اداروں کے بجٹ کے لیے مکینزم بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
 
Top