پیر مہر علی شاہ سیمینار --- حمید نظامی ہال

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
میں نے سنا ہے کچھ مسلک کے لوگ اپنے بچوں پر سخت پابندی لگا دیتے ہیں کے وہ دوسرے مسلک کے بارے میں نا پڑھے تا کہ انھیں حق کا پتہ نا چلے اور بچوں کو غلط راہ پر لگا کر جب ان کی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے پھر ان کو چھوڑا جاتا ہے جس طرح ہر انسان کسی دوسرے انسان کے دل کا حال نہیں جان سکتا ہو شانِ پیر مہر علی شاہ کو کیا پیچھانے گا اگر پیر مہر علی شاہ صاحب نا ہوتے تو اپنے آپ کو نبی ظاہر کرنے والے قادیانیوں کے لیڈ سے مناظرہ کرنے والا کون ہوتا جب اس نے خود کو نبی کہا تھا اس وقت پیر مہر علی شاہ صاحب ہی تھے جنوں نے اس کو جھوٹا ثابت کیا
 

زیک

مسافر
انگریزوں کی اسلام کے خلاف سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے

کیا کوئ بتا سکتا ہے کہ انگریزوں کا مقابلہ انہوں نے کیسے کیا؟ قادیانیت کو چھوڑ کر۔

جو نہیں مانتے وہ خدا اور نبی کو بھی نہیں مانتے میں بحث نہیں کرنا چاہتا

بات پیر مہر علی شاہ تک ہی رکھیں۔ شکریہ۔
 

زینب

محفلین
میں نے سنا ہے کچھ مسلک کے لوگ اپنے بچوں پر سخت پابندی لگا دیتے ہیں کے وہ دوسرے مسلک کے بارے میں نا پڑھے تا کہ انھیں حق کا پتہ نا چلے اور بچوں کو غلط راہ پر لگا کر جب ان کی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے پھر ان کو چھوڑا جاتا ہے جس طرح ہر انسان کسی دوسرے انسان کے دل کا حال نہیں جان سکتا ہو شانِ پیر مہر علی شاہ کو کیا پیچھانے گا اگر پیر مہر علی شاہ صاحب نا ہوتے تو اپنے آپ کو نبی ظاہر کرنے والے قادیانیوں کے لیڈ سے مناظرہ کرنے والا کون ہوتا جب اس نے خود کو نبی کہا تھا اس وقت پیر مہر علی شاہ صاحب ہی تھے جنوں نے اس کو جھوٹا ثابت کیا

یہ کریڈیٹ اللہ جانے کس کس کے حصے میں جاتا ہے پر میں یہ ہر گز نہیں مانتی کہ "ناہوتے تو"۔۔۔تو کوئی اور یہ کام کرتا اگر انہوں‌نے کیا بھی تو ۔۔پھر بھی اگر ایسا ہوا تو بھی کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
 

آبی ٹوکول

محفلین
ایک یہ ہیں جو نہیں مانتیں اور ایک وہ شہباز شریف ہے جو کہ نہیں مانتا ہر جگہ بس میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا
 

شاہ حسین

محفلین
کہتے ہیں عشق نام کے گزرے تھے ایک بزرگ
ہم لوگ بھی مرید اسی سلسلے کے ہیں۔

:lovestruck:


خیال خاطرِ احباب چاہئے ہر دم۔
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو​
 

خرم

محفلین
ظفری بھیا نے بہت خوب کہا کہ اصل رشتہ تو صرف استاد اور شاگرد کا ہوتا ہے۔ تمام انبیاء علیہم السلام نے بھی یہی فریضہ نبھایا۔ لوگوں کو علم دیا۔ ایک خالق کا اور ان باتوں کا جو مقصد تخلیق ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب دعا کی تو فرمایا کہ "اے ہمارے رب اور ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجنا جو انہیں تیری آیتیں پڑھ کر سُنائے اور انہیں پاک کرے اور انہیں کتاب و حکمت کا علم دے" گویا کتاب اور حکمت کی تعلیم صرف کتاب کے دے دینے سے حاصل نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ہوتا تو کسی نبی یا کسی رسول کی ضرورت ہی نہ رہتی۔ ایک فرشتہ آکر کتاب دے جاتا اور مخلوق اس کتاب کی پیروی کرتی رہتی۔ رسالت اور نبوت کی ضرورت ہی اس لئے تھی کہ ایک نمونہ چاہئے تھا، ایک واسطہ چاہئے تھا جو اللہ کے احکامات نہ صرف مخلوق تک پہنچائے بلکہ ان کے درمیان رہ کر ان احکامات پر عمل کرکے دکھائے تاکہ مخلوق اس کی پیروی کرکے منزل مقصود تک پہنچے۔ اسی ایک مقصد کے لئے تمام انبیاء و رُسل تشریف لائے اور سب سے آخر میں سرور کائنات حضرت محمد مصطفٰے صل اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور نبوت و رسالت کو مقام تکمیل تک پہنچا دیا۔ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اب کسی نئے پیغام اور کسی نئی شریعت کی ضرورت نہ رہی کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے دین کی تکمیل کردی۔ لیکن آقائے نامدار صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس جہانِ فانی سے ظاہری طور پر پردہ فرمانے کے بعد بھی مخلوق کی ہدایت کی ضرورت تھی۔ اس مقصد کے لئے حکم ہوا کہ ان کی پیروی کرو جو اللہ کے راستے کی طرف بلاتے ہیں۔ اب اللہ کی طرف بلانے کا راستہ صرف ایک ہے اور وہ ہے اسوۃ رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ اب جیسے کوئی بیمار اسی حکیم سے دوا لے گا جو اس کے نزدیک سب سے زیادہ علم والا ہو بعینہ دین کے معاملے میں ایک سمجھدار شخص صرف اسے اپنا راہبر بنائے گا جس کا قول و عمل اسوۃ رسول کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق ہو۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ "غنیۃ الطالبین" میں فرماتے ہیں کہ "پیر کامل وہ شخص ہے جس کی ایک سُنت بھی قضا نہ ہو"۔ اب جب انسان ایسے آدمی کی تلاش کرتا ہے اور اسے اپنا مقصود حاصل ہوتا ہے تو بحیثیت مسلمان اس کا یہ فرض ہے کہ اس شخص کی تقلید کرے تاکہ اس کی ذات بھی اسوۃ رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کانمونہ بن جائے۔ یہ منزل دنیا کی تمام منازل سے زیادہ کٹھن ہے کہ اس میں انسان کا مقابلہ اپنے نفس اور شیطان سے ہوتا ہے۔ یہ دونوں ترغیب، تحریص، دلائل و شکوک کے ذریعے ہر موڑ پر اُسے بہکا کر، پھسلا کر اس راہ سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ انسان اپنی ناقص عقل و فہم کی پیروی چھوڑ کر اپنے راہبر کی پیروی کرے تاکہ نفس اور شیطان کے جال اور پھندوں سے بچ کر منزل پا سکے وگرنہ عروج جتنا زیادہ ہوگا زوال بھی اتنا ہی شدید ہوتا ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ جب آپ مُرید ہو جائیں تو پھر اپنے مرشد کے احکام کی پیروی کریں۔ ہاں اگر کوئی پیر بن کر آپ سے خلاف شرع مطالبات کرتا ہے یا اس کا کوئی عمل خلاف شرع ہے تو یہ لازم ہے کہ اس پیر سے بیعت توڑ کر کسی ایسی جگہ استوارکی جائے جہاں اسوۃ رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کاملاَ عمل ہو۔ ایک غلط حکیم کے شکنجے میں‌پھنسنے کا علاج یہ نہیں‌ہوتا کہ گھر بیٹھ کر نیم حکیمی شروع کر دی جائے۔ بلکہ عقلمند انسان پہلی غلطی سے بچتے ہوئے مزید بہتر حکیم کی تلاش کرتا ہے اور جہاں طلب سچی ہو وہاں مراد بھی مل جاتی ہے بفضل خدا۔
باقی جہاں تک بات ہے اولیاء کرام کی کاوشوں‌کی تو ہر ولی اپنے زمانے اور اپنی اہلیت کے مطابق احکام الٰہی کی تعمیل و تکمیل میں زندگی بسر کرتا ہے۔ اصل مقصد ان کی کاوشوں کا دنگل کروانا نہیں بلکہ ان کی زیر ہدایت اللہ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی میں سفر حیات طے کرنا ہے اور اسی پر توجہ ہونی چاہئے۔ ڈبہ پیروں کی موجودی تو سچ ہے اور رہے گی۔ اگر جھوٹے خُدا موجود ہوں تو کیا خُدا کی موجودی سے ہی انکار کر دیا جائے؟ نقل اسی چیز کی ہوا کرتی ہے جس کی اصل موجود ہو۔ سو اگر نقلی پیر موجود ہیں‌تو اصلی ڈھونڈ نکالئے۔ اتنا بتادوں کہ اصل ایک دو نہیں ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں۔ شاید آپ کے مکان میں مزدوری کرنے والا ایک مزدور، ایک جوتا گانٹھنے والا موچی، ایک دوکاندار اور یقیناَ ایک خانقاہ کا رکھوالا۔ لیکن اصل کو تو تلاش کرنا پڑے گا۔ گھر بیٹھے "سب چور ہیں" کہہ دینے سے جان چھوٹ‌تھوڑا ہی جاتی ہے اگرچہ نسخہ کافی آسان ہے۔
 
Top