پیروی دَیر کی اور لب پہ مدینے والے ۔ برائے اصلاح

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
الف عین ، یاسر شاہ ، محمد احسن سمیع راحلؔ

پیروی دَیر کی اور لب پہ مدینے والے
کیا یہی طور ہیں الفت کے قرینے والے

صبر کے گھونٹ جو پیتے ہیں بہ عذرِ تقدیر
صبر کے گھونٹ نہیں، زہر ہیں پینے والے

پھول کھل سکتے ہیں صحراؤں میں اب بھی لیکن
آہ وہ لوگ رہے اب نہ قرینے والے

بے خبر حال سے ماضی سے گریزاں بھی ہو
تجھ کو معلوم نہیں طور ہی جینے والے

دل ترا پائے تو پائے بھی یہ تسکین کہاں
جب تلک روگ ترے دل میں ہیں کینے والے

اب مرے زخم مری روح تلک جا پہنچے
اب یہ سلنے کے نہیں چاک یہ سینے والے

موجِ دریا میں وہ غرقاب ہوئے ہیں آخر
نا خدا سے ہوئے بدظن جو سفینے والے

جن کا دل درد سے معمور سدا رہتا ہے
چاکِ دل کو ہیں وہی لوگ تو سینے والے

دل کے ہر روگ سے پاتے ہیں وہی لوگ نجات
عشق کے جام جو پیتے ہیں مدینے والے​
 
پیروی دَیر کی اور لب پہ مدینے والے
کیا یہی طور ہیں الفت کے قرینے والے
پہلے مصرعے میں نام، یا ذکر وغیرہ کی کمی کھل رہی ہے مجھے۔

پھول کھل سکتے ہیں صحراؤں میں اب بھی لیکن
آہ وہ لوگ رہے اب نہ قرینے والے
آہ اب لوگ کہاں ویسے قرینے والے ۔۔۔ کیسا رہے گا؟

بے خبر حال سے ماضی سے گریزاں بھی ہو
تجھ کو معلوم نہیں طور ہی جینے والے
شتر گربہ در آیا ہے، نظر ثانی کر لیجیے۔
معلوم کی جگہ آتے کر لیں تو بہتر نہیں؟ مثلا ، طور آتے ہی نہیں تجھ کو تو جینے والے
اب مرے زخم مری روح تلک جا پہنچے
اب یہ سلنے کے نہیں چاک یہ سینے والے
اب، مرے اور یہ کی تکرار بھلی نہیں لگ رہی ۔۔۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
پیروی دَیر کی اور لب پہ مدینے والے
پہلے مصرعے میں نام، یا ذکر وغیرہ کی کمی کھل رہی ہے مجھے۔
پیروی دیر کی اور لب پہ، مدینے والے
یعنی کہ ہونٹوں پر تو "مدینے والے، مدینے والے" ہے اور پیروی دیر کی کی جا رہی ہے۔
کیا خیال ہے کوما دینے سے وضاحت ہو جائے گی، آپ کیا کہتے ہیں۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
اب مرے زخم مری روح تلک جا پہنچے
اب یہ سلنے کے نہیں چاک یہ سینے والے
اب، مرے اور یہ کی تکرار بھلی نہیں لگ رہی ۔۔۔
احسن بھائی، دونوں مصرعوں میں سے کسی ایک میں "اب" کی کمی سے بات ادھوری ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ذرا نظرِ ثانی فرمائیں۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
پیروی دَیر کی اور لب پہ، مدینے والے
کیا یہی طور ہیں الفت کے قرینے والے

صبر کے گھونٹ جو پیتے ہیں بہ عذرِ تقدیر
صبر کے گھونٹ نہیں، زہر ہیں پینے والے

پھول کھل سکتے ہیں صحراؤں میں اب بھی لیکن
آہ! اب لوگ کہاں ویسے قرینے والے

بے خبر حال سے ماضی سے گریزاں بھی ہو
طور آتے ہی نہیں تجھ کو تو جینے والے

دل ترا پائے تو پائے بھی یہ تسکین کہاں
جب تلک روگ ترے دل میں ہیں کینے والے

اب مرے زخم مری روح تلک جا پہنچے
اب یہ سلنے کے نہیں چاک یہ سینے والے

موجِ دریا میں وہ غرقاب ہوئے ہیں آخر
نا خدا سے ہوئے بدظن جو سفینے والے

جن کا دل درد سے معمور ہوا کرتا ہے
چاکِ دل کو ہیں وہی لوگ تو سینے والے

دل کے ہر روگ سے پاتے ہیں وہی لوگ نجات
عشق کے جام جو پیتے ہیں مدینے والے​
 
آخری تدوین:

اکمل زیدی

محفلین
واہ ارشد صاحب نے تو شاید سہوا اوپر کمنٹ میں خوبصورت کو خونصورت کہہ دیا مگر یہی مجھے جچا ہوا لگ رہا ہے کہ کلام آپ نے واقعی خونصورت پیش کیا ہے یعنی خون کی روانی سے جو سوچ کو ملے جاودانی تو وہ پیش ہوئے نعت کی زبانی پُر معنی بمعہ روانی ۔۔۔۔بہت ساری داد قبول کیجیئے ۔۔۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
واہ ارشد صاحب نے تو شاید سہوا اوپر کمنٹ میں خوبصورت کو خونصورت کہہ دیا مگر یہی مجھے جچا ہوا لگ رہا ہے کہ کلام آپ نے واقعی خونصورت پیش کیا ہے یعنی خون کی روانی سے جو سوچ کو ملے جاودانی تو وہ پیش ہوئے نعت کی زبانی پُر معنی بمعہ روانی ۔۔۔۔بہت ساری داد قبول کیجیئے ۔۔۔
ارشد چوہدری ، اکمل زیدی آپ دونوں دوستوں کا بہت شکریہ، سلامت رہیں
 

سیما علی

لائبریرین
دل ترا پائے تو پائے بھی یہ تسکین کہاں
جب تلک روگ ترے دل میں ہیں کینے والے

اب مرے زخم مری روح تلک جا پہنچے
اب یہ سلنے کے نہیں چاک یہ سینے والے
سبحان اللہ بہت اعلیٰ کلام
کیسی دل پر اثر کرنے والی بات بھلا دل میں کینہ ہو تو تسکین کیونکر ملے ۔۔
مالک برحق کے حضور دعا ہے اجر عظیم عطا فرمائے آمین
دل کے ہر روگ سے پاتے ہیں وہی لوگ نجات
عشق کے جام جو پیتے ہیں مدینے والے
بیشک بیشک وہی ہر روگ سے نجات پاتے ہیں جو دل سے آپ ﷺکی پیروی کرتے ہیں ۔۔۔
 

یاسر شاہ

محفلین
روفی بھائی السلام علیکم
ماشاء الله اچھی کاوش ہے -لیکن بات یہ ہے کہ اب کی غزل میں آمد کم اور آورد زیادہ محسوس ہوتی ہے،آپ سے ہم توقع زیادہ رکھتے ہیں -

غزل دیکھتے ہیں :

پیروی دَیر کی اور لب پہ مدینے والے
کیا یہی طور ہیں الفت کے قرینے والے

دوسرا مصرع توجہ چاہتا ہے -میری ناقص رائے یہ ہے کہ طور میں قرینے کا مفہوم بھی شامل ہی ہوتا ہے -لہٰذا اتنی عبارت:کیا یہی طور ہیں الفت والے : کافی و شافی ہوتی جسے آپ نے طویل کر دیا ہے -اسے یوں کیا جاسکتا ہے :

یوں جیا کرتے ہیں کیا عشق میں جینے والے


صبر کے گھونٹ جو پیتے ہیں بہ عذرِ تقدیر
صبر کے گھونٹ نہیں، زہر ہیں پینے والے

:بہ عذرِ تقدیر: بھرتی کا لگ رہا ہے اس کی جگہ :تسلیم و رضا: لانے کی کوشش کریں -

پھول کھل سکتے ہیں صحراؤں میں اب بھی لیکن
آہ! اب لوگ کہاں ویسے قرینے والے


:پھول صحراؤں میں کھلانا: محض :قرینے والے : کا کام کیونکر ہے -ربط کچھ کمزور ہے بین المصرعین -پھر :ویسے: بھی کھٹک رہا ہے کہ جب تک جیسے کا ذکر نہ ہو ویسے کا ذکر بے محل لگتا ہے -چنانچہ کہتے ہیں :جیسے تم ہو ویسے اب لوگ کہاں : یا :جیسے پائے تم نے کھلائے ویسے پائے ہم نے پھر نہ کھائے : وغیرہ وغیرہ -

دوسرے مصرع کو یوں بھی کیا جا سکتا ہے :

مر گئے لوگ وہ جگ کے لیے جینے والے


بے خبر حال سے ماضی سے گریزاں بھی ہو
طور آتے ہی نہیں تجھ کو تو جینے والے

شتر گربہ ابھی دور نہیں ہوا -دوسرے مصرع میں: تم کو : کر دیں یا پہلے مصرع کے آخر میں :ہے : لے آئیں -

دل ترا پائے تو پائے بھی یہ تسکین کہاں
جب تلک روگ ترے دل میں ہیں کینے والے

میری ناقص رائے میں پہلا مصرع یوں ہونا چاہیے

دل ترا پائے بھی تو پائے یہ تسکین کہاں


کینہ خود ایک روگ ہے -روگ کینے والے کونسے ہوتے ہیں ؟

اب مرے زخم مری روح تلک جا پہنچے
اب یہ سلنے کے نہیں چاک یہ سینے والے

اس پہ بات ہو چکی -:یہ: کی تکرار کھٹکتی ہے -پھر دونوں بار :یہ : سے اشارہ چاک کی طرف ہو رہا ہے- سینے (دل )کی طرف ہوتا تو: اس سینے : ہونا چاہیے تھا -ایک تجویز تو دے چکا :اب تو سلنے کے نہیں ...........: اس کے علاوہ ایک اور مشوره بھی دیکھ لیں :

اب سلیں گے نہیں کیا چاک یہ ........

موجِ دریا میں وہ غرقاب ہوئے ہیں آخر
نا خدا سے ہوئے بدظن جو سفینے والے

اچھا ہے -

جن کا دل درد سے معمور سدا رہتا ہے
چاکِ دل کو ہیں وہی لوگ تو سینے والے

ٹھیک -

دل کے ہر روگ سے پاتے ہیں وہی لوگ نجات
عشق کے جام جو پیتے ہیں مدینے والے

واہ -


الله تعالیٰ آپ کو خوش و خرم بصحت و عافیت رکھے -آمین
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
روفی بھائی السلام علیکم
ماشاء الله اچھی کاوش ہے -لیکن بات یہ ہے کہ اب کی غزل میں آمد کم اور آورد زیادہ محسوس ہوتی ہے،آپ سے ہم توقع زیادہ رکھتے ہیں -

غزل دیکھتے ہیں :

پیروی دَیر کی اور لب پہ مدینے والے
کیا یہی طور ہیں الفت کے قرینے والے

دوسرا مصرع توجہ چاہتا ہے -میری ناقص رائے یہ ہے کہ طور میں قرینے کا مفہوم بھی شامل ہی ہوتا ہے -لہٰذا اتنی عبارت:کیا یہی طور ہیں الفت والے : کافی و شافی ہوتی جسے آپ نے طویل کر دیا ہے -اسے یوں کیا جاسکتا ہے :

یوں جیا کرتے ہیں کیا عشق میں جینے والے


صبر کے گھونٹ جو پیتے ہیں بہ عذرِ تقدیر
صبر کے گھونٹ نہیں، زہر ہیں پینے والے

:بہ عذرِ تقدیر: بھرتی کا لگ رہا ہے اس کی جگہ :تسلیم و رضا: لانے کی کوشش کریں -

پھول کھل سکتے ہیں صحراؤں میں اب بھی لیکن
آہ! اب لوگ کہاں ویسے قرینے والے


:پھول صحراؤں میں کھلانا: محض :قرینے والے : کا کام کیونکر ہے -ربط کچھ کمزور ہے بین المصرعین -پھر :ویسے: بھی کھٹک رہا ہے کہ جب تک جیسے کا ذکر نہ ہو ویسے کا ذکر بے محل لگتا ہے -چنانچہ کہتے ہیں :جیسے تم ہو ویسے اب لوگ کہاں : یا :جیسے پائے تم نے کھلائے ویسے پائے ہم نے پھر نہ کھائے : وغیرہ وغیرہ -

دوسرے مصرع کو یوں بھی کیا جا سکتا ہے :

مر گئے لوگ وہ جگ کے لیے جینے والے


بے خبر حال سے ماضی سے گریزاں بھی ہو
طور آتے ہی نہیں تجھ کو تو جینے والے

شتر گربہ ابھی دور نہیں ہوا -دوسرے مصرع میں: تم کو : کر دیں یا پہلے مصرع کے آخر میں :ہے : لے آئیں -

دل ترا پائے تو پائے بھی یہ تسکین کہاں
جب تلک روگ ترے دل میں ہیں کینے والے

میری ناقص رائے میں پہلا مصرع یوں ہونا چاہیے

دل ترا پائے بھی تو پائے یہ تسکین کہاں


کینہ خود ایک روگ ہے -روگ کینے والے کونسے ہوتے ہیں ؟

اب مرے زخم مری روح تلک جا پہنچے
اب یہ سلنے کے نہیں چاک یہ سینے والے

اس پہ بات ہو چکی -:یہ: کی تکرار کھٹکتی ہے -پھر دونوں بار :یہ : سے اشارہ چاک کی طرف ہو رہا ہے- سینے (دل )کی طرف ہوتا تو: اس سینے : ہونا چاہیے تھا -ایک تجویز تو دے چکا :اب تو سلنے کے نہیں ...........: اس کے علاوہ ایک اور مشوره بھی دیکھ لیں :

اب سلیں گے نہیں کیا چاک یہ ........

موجِ دریا میں وہ غرقاب ہوئے ہیں آخر
نا خدا سے ہوئے بدظن جو سفینے والے

اچھا ہے -

جن کا دل درد سے معمور سدا رہتا ہے
چاکِ دل کو ہیں وہی لوگ تو سینے والے

ٹھیک -

دل کے ہر روگ سے پاتے ہیں وہی لوگ نجات
عشق کے جام جو پیتے ہیں مدینے والے

واہ -


الله تعالیٰ آپ کو خوش و خرم بصحت و عافیت رکھے -آمین
بہت بہتر۔۔ شکریہ
اب استاد صاحب کی رائے بھی آ جائے، پھر آپ تینوں احباب کی رائے کی روشنی میں دوبارہ کوشش کرتا ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
مطلع تو مجھے پسند نہیں آیا، ؎کیا یہی طور ہیں الفت کے قرینے والوں کے؎ درست ہوتا، محض قرینے والے تک بات مکمل نہیں لگتی۔

صبر کے گھونٹ جو پیتے ہیں بہ عذرِ تقدیر
صبر کے گھونٹ نہیں، زہر ہیں پینے والے
دوسرا مصرع نا مکمل لگ رہا ہے یہ بھی۔ پینے والے سے اگر خطاب ہے تب بھی واضح نہیں، ردیف بہر حال فٹ نہیں ہو رہی
پھول کھل سکتے ہیں صحراؤں میں اب بھی لیکن
آہ! اب لوگ کہاں ویسے قرینے والے
خوب
بے خبر حال سے ماضی سے گریزاں بھی ہو
طور آتے ہی نہیں تجھ کو تو جینے والے
جینے والے طور؟ جینے والوں کے طور ہوتا تو بہت خوب ہوتا
شتر گربہ تو پہلے مصرع میں آخری لفظ کو تو میں بدلنے سے دور ہو سکتا ہے
یا ایک تجویز
بے خبر آج سے بھی، کل سے گریزاں بھی تو
دل ترا پائے تو پائے بھی یہ تسکین کہاں
جب تلک روگ ترے دل میں ہیں کینے والے
والے ردیف یہان بھی اچھا نہیں لگ رہا
اب مرے زخم مری روح تلک جا پہنچے
اب یہ سلنے کے نہیں چاک یہ سینے والے
سینے والے چاک کہنا بھی محاورہ کے خلاف ہی ہے
موجِ دریا میں وہ غرقاب ہوئے ہیں آخر
نا خدا سے ہوئے بدظن جو سفینے والے
ٹھیک
جن کا دل درد سے معمور ہوا کرتا ہے
چاکِ دل کو ہیں وہی لوگ تو سینے والے

دل کے ہر روگ سے پاتے ہیں وہی لوگ نجات
عشق کے جام جو پیتے ہیں مدینے والے
درست
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
الف عین ، یاسر شاہ ، محمد احسن سمیع راحلؔ

اصلاح کے بعد۔

پیروی دَیر کی اور لب پہ، مدینے والے
یوں جیا کرتے ہیں کیا عشق میں جینے والے

اشک پیتے ہو جو قسمت کا لکھا جان کے تم
صبر کے گھونٹ نہیں، زہر ہو پینے والے

پھول کھل سکتے ہیں صحراؤں میں اب بھی لیکن
یا
اپنے اشکوں سے کھلاتے تھے جو صحراؤں میں پھول
آہ! اب لوگ کہاں ویسے قرینے والے

بے خبر حال سے ماضی سے گریزاں بھی ہو
طور آتے ہی نہیں تم کو تو جینے والے

چین ملتا نہیں بیمار کو بیماری میں
کس طرح چین بھلا پائیں گے کینے والے

اب مرے زخم مری روح تلک جا پہنچے
اب تو سلنے کے نہیں چاک یہ سینے والے

موجِ دریا میں وہ غرقاب ہوئے ہیں آخر
نا خدا سے ہوئے بدظن جو سفینے والے

جن کا دل درد سے معمور ہوا کرتا ہے
چاکِ دل کو ہیں وہی لوگ تو سینے والے

دل کے ہر روگ سے پاتے ہیں وہی لوگ نجات
عشق کے جام جو پیتے ہیں مدینے والے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
جینے والے ور اور سینے والے چاک سے میں اب بھی مطمئن نہیں
باقی اشعار خوب ہو گئے ہیں
اپنے اشکوں۔۔۔ والا متبادل بہتر ہے مگر اسے اپنی اشکوں لکھا گیا ہے
 
Top