پیا رنگ کالا از بابا یحیٰ خان

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
سونا بنانے کے لیے کاٹھ کباڑ کی حاجت نہیں ہوتی، صرف نگاہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ سونا پڑا رہے تو مٹی ہےبندھ جائے تو سنگھار، پیٹ پڑے تو روٹی ہے۔ سُوکھی روٹی کا ایک ٹُکڑا، سونے کے پہاڑ پر بھاری ہے اگر بُھوک سچی ہو۔ سونے کی سلطنت ایک سانس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی اگر جان بچتی ہو ۔ فقیر کے فاقے کے سامنے سونے کی کائنات بھی ہیچ ہے۔۔۔ ۔۔ سونا بنانا تو بچّوں کا کھیل ہے، اصل کام تو یہ جاننا ہے کہ ہماری تخلیق کا مقصد کیا ہے اور جب کوئی یہ جان لیتا ہے تو وہ اللہ کے امر سے کائنات کی ہر چیز پہ حق اور اِختیار حاصل کرکے بھی، امراً اور عملاً لا تعلق اور بے نیاز ہوجاتا ہے جیسے نبی پاک ﷺ اگر چاہتے تو عرب کے سارے پہاڑ اور صحرا کے سب ذرّے سونے میں تبدیل کردِیے جاتے مگر سرکارِ مدینہﷺ نے ہرگز ایسا نہیں چاہا۔ کائنات کے وارِث ہوتے ہوئے بھی قناعت، صبر اور شُکر پسند فرمایا، ادناسے ادنا کام اپنے ہاتھوں سے سَر انجام دِیے۔ لِباس، ط عام، قیام میں میانہ رَوی اور عام لوگوں کا سا اَنداز پسند فرمایا۔ رَعونت، تکبّر اور شاہانہ رسم و راہ سے ہمیشہ اغماض بَرتا۔۔۔​
پِیا رنگ کالا از بابا محمد یحیٰی خان​
صفحہ نمبر 65-66​
 

نیلم

محفلین
اِنسان کی ظاہری بصارت کے آگے چالیس رُوحانی حجاب یا پردے پڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ ہم جو کچھ دیکھتے ہیں اِن پردوں کی اَوٹ سے دیکھتے ہیں۔ جِس طرح آنکھ میں موتیا اُترآئے تو دُھندلا یا بالکل دِکھائی نہیں دیتا، مطلب یہ ہوتا ہے کہ آگے پردہ پڑ گیا ہے۔ آپریشن علاج سے وہ پردہ دُور کردیا جاتا ہے اور اِنسان پہلے کی مانند پھر دیکھنے لگتا ہے۔ بالکل ایسے ہی اللّہ کے ولی، اُس کے برگزیدہ بندے، اللّہ پاک کے اَمر سے جس کے بھی چاہیں، جب چاہیں اور جتنے چاہیں، حجاب دُور کردیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ یہ چالیس حجاب اِس طرح ہیں۔ دس ذات کے، دس کائنات کے، دس اَزل اور اَبد۔۔۔۔۔ جب تک پہلے دس حجاب یکے بعد دیگرے دُور نہ ہو جائیں، باقی حجاب نہیں اُٹھ سکتے۔ ایک دو، تین چار سے چالیس تک پہنچنا پڑتا ہے۔۔۔

پِیا رنگ کالا از بابا محمد یحیٰی خان
صفحہ نمبر 70
 

نیلم

محفلین
جب طالب و مطلوب، عاشق و معشوق، محبّ و محبوب، الُوہیّت کے رنگ میں رنگے جائیں اور کِسی ایک کو دُوسرے کی گود نصیب ہو جائے تو پھر گور کے بجائے گود میں سَونے کو جی چاہتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ماں، محبوب اور مرقد کی گود بڑی گُداز ہوتی ہے، سونے کا سَواد آجاتا ہے اور حشر تک پڑے رہنے کو جی چاہتا ہے۔

پِیا رنگ کالا از بابا محمد یحیٰی خان
صفحہ نمبر 68-67
 

نیلم

محفلین
"کاگا۔۔۔۔۔ پُوچھو کہ کہاں تک پرواز نہیں کر سکتا۔ کاگا تو سیاہ پوش درویش ہوتا ہے۔ "کیا'کیا" کی چِنتا اِسے ہر پل بے چین اور بے قرار رکھتی ہے جسے ہم"کاں'کاں" سمجھتے ہیں۔ وہ "کیا کیا' کیوں کیوں" ہے۔ وہ ہر سَمے کھوجتا رہتا ہے۔ یہ موذّنِ اوّل، اِسے اَزل اور اَبد کا گیان مِلا۔ اِسی نے اَلست، ہست اور مست کا فلسفہ سمجھایا۔ یہ چِھین اور اُچک لیتا ہے، مانگتا نہیں۔ یہ گھر دَر کا قائل نہیں، یہ رنگ رُوپ کا چولا نہیں بدلتا۔ کتّا، کبوتر رنگ سنگ بدلے مگر کاگا کا راگا کبھی نہ بدلے۔ یہ زیرک درویش مرنے کے بعد دفن کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔ کتّا روڑی، کبوتر شکم اور کاگا گور گھورا۔۔۔۔۔ "

پِیا رنگ کالا از بابا محمد یحیٰی خان
صفحہ نمبر 61-62
 

نیلم

محفلین
ظاہر سے باطن ہمیشہ مُختلف ہوتا ہے، مکان باہر سے کچھ نظر آتا ہے اور اندر سے کچھ۔ اِسی طرح اِنسان کا ظاہر کچھ ظاہر کرتا ہے اور باطن کچھ اور ہوتا ہے۔ صورت کچھ اور سیرت کچھ۔ جھونپڑا ہو یا کوئی کُٹیا، فقیروں درویشوں کی طرح یہ بھی بِھیتر سے بڑے گپت اور گمبھیر ہوتے ہیں۔ اِن کی بے سرو سامانی، سادگی اور سکوت میں ہی لاہوت ہوتا ہے۔ مسلمانوں میں کوئی صوفی فقیر ہو یا درویش اور ہندوءوں، سِکھوں، عیسائیوں، یہودیوں، بُدھوں میں کوئی رَشی منی ہو یا کوئی بیراگی جوگی، گیانی دھیانی ہو یا کوئی بھکشو، لاما، پنڈت پروہت ہو یا کوئی سینٹ پادری، اِن میں سے ہر ایک اپنے مالک کو جانتا پہچانتا ہے اور اُسی کی طرف رجوع کرتا ہے۔ کوئی ایشور، پرماتما، بھگوان، پر بھو پُکار لیتا ہے۔ کوئی گاؤ، نُور، خوشبو، روشنی، فطرت، قَدر، حقیقت، ازل ابد۔ جِسے جس رنگ اور رُوپ میں وہ نظر آیا، وہ وُہی کہلایا۔ کسی نے اُسے اپنے طورکھینچ تان کرایک خطِ مستقیم بنا لیا، کسی نے اُسے تول تھپک موڑ کر دائرہ بنا لیا، اور کسی نے مستطیل، تکون، مربع اور کسی نےاُسے بیضوی شکل دے دی۔ کسی کو کوہِ طور پہ تجلّی میں نظر آیا، کہیں وہ غارِ حراء میں وحی کے پردے میں دِکھائی دیا، کہیں معراج کی شب، عرش کی خلوت میں جلوہ افروزہوا۔ کسی کو برگد کے نیچے، کسی کو سُولی کے اوپر، کسی کو سُورج اور کسی کو مُورت میں دِکھائی دیا۔ کہیں وہ آگ میں چمکا، کہیں وہ راگ میں لَپکا۔ کسی کی صورت دیکھ کر وہ یاد آیا اور کسی کی سیرت میں اُس کا پَرتو نظر آیا۔ کسی کی تخلیق میں وہ اُبھرا اور کسی کی تحقیق میں وہ سامنے آیا۔ کسی کے طریق و وَصف سے وہ جھانکا اور کسی کے ہُنر و کَسب سے وہ ہویدا ہوا اور وُہی خُدا ہوا۔۔۔۔۔۔۔

پِیا رنگ کالا از بابا محمد یحیٰی خان
صفحہ نمبر 448
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
نیلم بہن!:AOA:
"پیا رنگ کالا" کے لیے بہت بہت شکریہ۔
ڈائون لوڈ ہو چکی۔
پڑھنا بھی شروع کردیا ہے۔
100 صفحا ت پڑھ لیے ہیں۔
دو تین روز میں مکمل پڑھ لیں گے۔
فاضل مصنف کے اسلوب اور انداز تحریر نے اس قدر متاثر کیا کہ
اب یہ سائل پھر آپ کے آگے ہاتھ پھیلائے کھڑا ہے۔
"کاجل کوٹھا" کا ربط بھی عنایت فرمادیجیے۔
عین نوازش ہوگی۔
 
نیلم بہن!:AOA:
"پیا رنگ کالا" کے لیے بہت بہت شکریہ۔
ڈائون لوڈ ہو چکی۔
پڑھنا بھی شروع کردیا ہے۔
100 صفحا ت پڑھ لیے ہیں۔
دو تین روز میں مکمل پڑھ لیں گے۔
فاضل مصنف کے اسلوب اور انداز تحریر نے اس قدر متاثر کیا کہ
اب یہ سائل پھر آپ کے آگے ہاتھ پھیلائے کھڑا ہے۔
"کاجل کوٹھا" کا ربط بھی عنایت فرمادیجیے۔
عین نوازش ہوگی۔
کاجل کوٹھا کا ربط میں ذاتی مکالمے میں بھیجتا ہوں :)
 
بابا محمد یحیٰ خان کی شخصیت ایک طسم کدہ ہے
ہزاروں پردوں میں ملفوف
پردہ اٹھائیں طلسم کا در وا ہو جائے گا
ایسا طلسم کدہ جس کا دروازہ اندر کی طرف ہی کھلتا ہے
جدھر سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ملتا
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
:AOA:
اس عنایت کے لیے بے حد شکریہ
اللہ رب العزت تا دیر آپ کا سایہ ہمارے سروں پہ قائم رکھے
اور آپ کے فیض کا دریا اسی طرح جاری رہے۔
آمین بجاہ النبی الکریم
 

سید زبیر

محفلین
" جِن خوش نصیبوں کے ہاں ہدایت اُترنے والی ہوتی ہےنا، اُن کے ہاں پہلے نیک سُگھڑ اور دین دار بیویوں کی ڈولیاں اُترتی ہیں اور جِن بد نصیبوں کی دُنیا اور دین برباد ہونے ہوتے ہیں اُن کو خُوبصورت، بے دِید و لحاظ، دین اور شرم و حیا سے بیگانہ، بازاری قِسم کی زبان دَراز عورت نُما عفریتوں کے پیچھے لگادیا جاتا ہے ۔۔۔ ۔

پیا رنگ کالا از بابا یحیٰ خان

اللہ کریم نے نیک مردوں اور نیک بیویوں کے بارے میں سورة النور میں فرمایا ہے آیت کریمہ کا پورا سیاق و سباق یہ ہے​
إِنَّ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (23) يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (24) يَوْمَئِذٍ يُوَفِّيهِمْ اللَّهُ دِينَهُمْ الْحَقَّ وَيَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ الْمُبِينُ (25) الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ أُوْلَئِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ (26) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَدْخُلُوا بُيُوتاً غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (27)​
یقیناً جو لوگ پاک دامن، بھولی بھالی مومن خواتین پر تہمت لگاتے ہیں، ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔ جو کچھ وہ کیا کرتے تھے، اس دن ان کے خلاف ان کی زبانیں، ہاتھ اور پاؤں گواہی دیں گے۔ اس دن اللہ انہیں پورا پورا بدلہ دے گا اور وہ جان لیں گے کہ اللہ ہی کھلا حق ہے۔ ایسی خبیث عورتیں ، خبیث مردوں کے لیے ہیں اور ایسے خبیث مرد، خبیث عورتوں کے لیے ہیں جبکہ پاکیزہ خواتین پاکیزہ مردوں کے لیے اور پاکیزہ مرد، پاکیزہ خواتین کے لیے ہیں۔ جو کچھ یہ لوگ کہہ رہے ہیں، وہ ان سے بری ہیں۔ ان کے لیے مغفرت اور باعزت رزق ہے۔ اے اہل ایمان! اپنے گھروں کے علاوہ اور گھروں میں بغیر اجازت کے اور اس کے رہنے والوں کوبغیر سلام کیے مت جایا کرو۔ یہی تمہارے لیے بہتر ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو۔​
اس کی روشنی میں واضح ہے کہ آیت میں کوئی آفاقی قاعدہ بیان نہیں ہو رہا ہے کہ اللہ تعالی خبیث عورتوں کو خبیث مردوں ہی کے نکاح میں دیتا ہے۔ اگر آیت میں آفاقی قاعدہ بیان ہوتا تو یہ بات خلاف واقعہ ہوتی کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض انتہائی نیک مردوں کی بیویاں گمراہ ہوتی ہیں اللہ نے نوح علیہ السلام كى بيوى كى مثال اور لوط علیہ السلام كى بيوىوں كى مثال بھی دی
'' وہ دونوں ہمارے دوصالح بندوں كے ما تحت تھيں ليكن انہوں نے ان سے خيانت كى ليكن ان دو عظيم پيغمبر وں سے ان كے ارتباط نے عذاب الہى كے مقابلہ ميں انھيں كوئي نفع نہيں ديا ''سورہ تحريم آيت 10
برعکس یہ ایک معاشرتی ہدایت ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ازدواجی تعلق کے لیے ایسے جیون ساتھی کا انتخاب کریں جو کہ طیب و طاہر ہو۔ اسی طرح جو لوگ کردار کے خراب ہوتے ہیں، وہ اپنے لیے ویسے ہی ساتھی کا انتخاب کرتے ہیں۔​
ہر فرد اپنے اعمال کا خود ہی ذمہ دار ہے البتہ نیکی کی طرف دعوت فرض ہے​
 

الشفاء

لائبریرین
اصل کام تو یہ جاننا ہے کہ ہماری تخلیق کا مقصد کیا ہے اور جب کوئی یہ جان لیتا ہے تو وہ اللہ کے اَمر سے کائنات کی ہر چیز پہ حق اور اِختیار حاصل کر کے بھی، اَمراََ اور عملاََ لا تعلق اور بے نیاز ہوجاتا ہے جیسے نبی پاک ﷺ اگر چاہتے تو عرب کے سارے پہاڑ اور صحرا کے سب ذرّے سونے میں تبدیل کردئیے جاتے مگر سرکارِ مدینہﷺ نے ہرگز ایسا نہیں چاہا۔ کائنات کے وارث ہوتے ہوئے بھی قناعت، صبر اور شُکر پسند فرمایا، ادنیٰ سے ادنیٰ کام اپنے ہاتھوں سے سَر انجام دئیے۔ لِباس، طعام، قیام میں میانہ رَوی اور عام لوگوں کا سا اَنداز پسند فرمایا۔ رَعونت، تکبّر اور شاہانہ رسم و راہ سے ہمیشہ اغماض بَرتا۔۔۔

صفحہ نمبر 65-66

مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خدا وندی۔۔۔
 

غدیر زھرا

لائبریرین
عِلمِ ریاضی میں ایک اور ایک دو ہوتے ہیں۔ عِلمِ تجارت میں یہ گیارہ اور عِلمُ العشق میں یہ ایک سے دو پھر سے ایک، اور بلآ خر یہ ایک سے زیرو ہونے کے باوجود کچھ نہیں رہتا۔ یہ ذات کی نفی ہی عشق ہے، اِس زیرو کو شَش جہات کہیں سے بھی دیکھو یہ نفی یعنی زیرو ہی نظر آتا ہے۔ اِس کو سُکیڑتے جاءو تو بلآخر ایک معدوم سانقطہ رہ جاتا ہے ۔۔۔۔۔ دین و دنیا کا ہر قلم سینہء قرطاس پہ قدرتی طور پر پہلے نقطہ ہی بناتا ہے، اِس نقطے سے پھر عِلم الاسماء کے سارے نُکتے اُبھرتے ہیں۔۔۔
پِیا رنگ کالا از بابا محمد یحیٰی خانصفحہ نمبر 148
 

غدیر زھرا

لائبریرین
انسان جب اندر سے سُکون پکڑلیتا ہے تو اسے باہر کی کچھ خبر و خواہش نہیں رہتی۔۔۔

پِیا رنگ کالا از بابا محمد یحیٰی خان
صفحہ نمبر 210
 

غدیر زھرا

لائبریرین
کہتے ہیں کہ انتظار سے بڑھ کر کوئی اذیّت اور بربریّت نہیں ہوتی۔ انتظار تو آنکھوں میں غیض کے انگارے ، دِل و دماغ میں شُبہات اور وسوسات کا دُھواں پھیلا دیتا ہے اور انتظار کرنے والا تو دُوہری دَھار کے خنجر کی مانند اپنی آتی جاتی سانسوں کے چرکے سہتا ہوا، بے دَرد ٹھہرے ہوئے سَمے کی سُولی پہ صبر کا کا لا کنٹوپ چڑھائے لٹکا ہوتا ہے۔

پِیا رنگ کالا از بابا محمد یحیٰی خان
صفحہ نمبر 610
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
ڈگ، ڈگا، ڈگ۔۔۔۔ڈگا،ڈگا،ڈگ۔۔۔۔ڈھول پیٹنے کے وقفے میں ایک گونج دار آواز اُبھری۔"اُٹھو! جاگو! مسلمانو! سحری کا وقت ہو گیا ہے۔" پیچھے والی چون پچوں کی گلیوں میں بھی ٹین کنستر کھڑکانے والامنہ پھاڑ پھاڑ کر گہری نیند میں پڑے ہوئے لوگوں کو بیدار کر رہا تھا، اگلے دس پندرہ منٹوں میں ، اس محلے علاقے کے قریب قریب ہر گھر میں چراغ اور چولھے روشن ہو چکے تھے۔لوگ حسبِ توفیق و اِستطاعت سحری کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے۔سگھڑ بیبیاں ، بالیاں خصوصاً سحری کے وقت کھانے کی تیاری میں بڑی عجلت اور مہارت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔گرم گرم پراٹھے، رات کا بچا ہوا سالن،دہی اور چائے اکثر یہی کچھ ہوتاہے۔روزہ رکھنے والے جلدی جلدی کھانے پینے ساے فارغ ہو کرنماز و تلاوت کی تیار میں لگ جاتے ہیں۔لیکن جن گھروں میں افراد کی کمی ہوتی ہے یا جہاں صرف میاں بیوی ہی رہتے ہیں وہاں اِفطاری اور سحری بڑی پھیکی، بے رونق اور ادھوری ادھوری سی رہتی ہے۔گھروں میں رونق اور ہما ہمی توہنستے مسکراتے، کھاتے پیتے،زندگی کی توانائیوں اور برکتوں سے معمور،بھر پور انسانوں اور شاداب پھولوں تروتازہ کھل کھلاتے ہوئے بچوں سے پیدا ہوتی ہے۔اِن کی باتیں حرکتیں اور شرارتیں بڑی دِل پذیر ہوتی ہیں۔اور جہاں سرے سے کوئی دھوٹا بڑا بچہ نہ ہو،وہاں کیا سحری، کیا اِفطاری اور کیسی عید کی تیاری؟۔۔۔۔وہاں کے تو درودیوار پہ بھوتوں کے سائے سے لہراتے دِکھائی دیتے ہیں۔اَندر باہر ایک بانجھ اُداسی سی چھائی رہتی ہے۔اِحساسِ محرومی کے داغ دھبےدُکھتی آنکھوں کے چٹے بن کر رہ جاتے ہیں۔
بند پتلی گلی کے سامنے ماتھے والے مکان کی یہی حالت تھی، یہاں کوئی بھی پھول سا بچہ نہ تھا۔ اس گھر میں اپنی عمر کی نمازِ عشاء کی تیاریوں میں مصروف ایک صابر و شاکر اور زندگی کی شکر دوپہرمیں سوا نیزے پہ اُترے ہوئے سورج تلے کھڑی ہوئی ایک سوبھاگیہ سی عورت رہتے تھے۔اولاد کی نعمت سے محروم لیکن یہ میاں بیوی ابھی تک خدا کی ذات سے نا اُمید نہیں ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری)
 
سبحان اللہ سبحان اللہ
کیا روح پرور اقتباس ہے
اب تک پیش کیئے گئے تمام اقتباسات پر بھاری ہے
جزاک اللہ جزاک اللہ
وجد آ گیا پڑھ کر
 
Top