پیا رنگ کالا از بابا یحیٰ خان

نیلم

محفلین
" جِن خوش نصیبوں کے ہاں ہدایت اُترنے والی ہوتی ہےنا، اُن کے ہاں پہلے نیک سُگھڑ اور دین دار بیویوں کی ڈولیاں اُترتی ہیں اور جِن بد نصیبوں کی دُنیا اور دین برباد ہونے ہوتے ہیں اُن کو خُوبصورت، بے دِید و لحاظ، دین اور شرم و حیا سے بیگانہ، بازاری قِسم کی زبان دَراز عورت نُما عفریتوں کے پیچھے لگادیا جاتا ہے ۔۔۔۔

پیا رنگ کالا از بابا یحیٰ خان
 

نیلم

محفلین
کچھ اور بھی شئیر کریں ناں نیلم بہنا
میں نے ان کی ایک بک پڑھی تھی "کاجل کوٹھا"
یہ والی نہیں پڑھی۔
بہت شکریہ عائشہ
ہاں میں نے یہ دھاگہ الگ سے اسی لیئے شروع کیا ہے اس میں پیا رنگ کالا کے اور بھی اقتباس شئیر کروں گی :)
 

نیلم

محفلین
معلوم ہوا کہ ہدایت جہاں سے ملنی ہوتی ہے ، وہیں سے ملتی ہے ۔ جہاں کسی پہنچے ہوئے بزرگ کی نگاہ کام نہیں کرتی وہاں کسی انتہائی گنہگار ، بدکار اور برے انسان کی بات بول کام کر جاتے ہیں ۔ ماں باپ کہتے کہتے تھک ، ہار، عاجز آ جاتے ہیں مگر وہی بات کوئی سجن بیلی کہہ دیتا ہے تو فوراً مان لی جاتی ہے ۔ بڑے بڑے قابل اور کوالیفائیڈ ڈاکٹروں ، معالجوں سے افاقہ نہیں ملتا اور فٹ پا تھ پہ بیٹھنے والے عطائی حکیم سے شفا نصیب ہو جاتی ہے ۔ میں نے پڑھا ہے اور بار بار میرے تجربے مشاہدے میں آیا ہے کہ اچھوں ، نیکوں اور حاجیوں نمازیوں سے کہیں زیادہ گنہگا روں ، خطا کاروں اور بروں کی بات میں اثر ہوتا ہے وہ زیادہ دلپذ یر اور دلنشین ہوتی ہیں ۔ بظاہر برے ، بدمعاش ، اجڑے ہوئے اور شرابی کبابی لوگ اچھوں ، نیکوں سے کہیں بڑھ کر وفادار اور وقت پہ کام آنے والے ہوتے ہیں ۔ اکثر اچھوں اور نیکوں کے ہاں اپنی پاک طینتی اور دین داری کا زعم و مان ہوتا ہے اور بروں ، بد کاروں ، گنہگاروں کے ہاں عجز ہی عجز ، شرمندگی ہی شرمندگی اور ہر وقت خود پہ لعن طعن اور توبہ استغفار ہوتی ہے ۔ بس یہی شرم اور خود کو مٹ مٹی سمجھنا ہی میرے اللہ کو پسند ہے ۔ کہتے ہیں کہ اتنے خالی پیٹ والے بیمار نہیں ہوتے جتنے کہ خوب برے ہوئے پیٹ والے بیمار ہوتے یا مرتے ہیں ۔ اس طرح کبھی کسی کو اپنے سے کمتر نہ سمجھو ۔ خود کو نیک ، اچھا ، عبادت گزار، ولی اللہ اور دوسروں کو برا نہ کہو کہ کون جانے ، کوئی آج کیا ہے اور کل کیا ہو گا ؟ بقول شخصے ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں ۔

محمد یحیٰی خان کی کتاب "پیا رنگ کالا" سے اقتباس
 

نیلم

محفلین
یہ مشتِ خاک انسان صرف اِسی خاک قبر میں ہی آسودہ خاطر ہوتا ہے۔ دنیا کا طمع' لالچ' حرص' اقتدار اور خواہشات کے نہ ختم ہونے والے سلسے وسیع و عریض دنیا کو اس کے لئے بہت تنگ و تاریک حبس زدہ اور چھوٹا کر دیتے ہیں۔ وہ اپنی نا آسودہ تمناؤں اور طمع و
حرص کے کمزور جال قابلِ ہضم و حصول مچھلیوں کی بجائے دیو ہیکل وہیلوں پہ پھینکنا شروع کر دیتا ہے۔ بس ' یہیں اس کا انت سرادھ ہو جاتا ہے
اور جو شروع سے ہی آرزوؤں' خواہشوں' آسانیوں اور ہوس کے آزار میں خود کو نہیں بھنساتا' دنیا کو امتحان گاہ اور چند سانسوں کی عارضی زندگی کو کسی کی امانت سمجھتا ہے تو وہ پھر اپنے جسم اور اپنی روح کو مادر بدر آزاد اور اپنی مرضی کا مالک نہیں رہنے دیتا۔ وہ مجاہدوں' مشاہدوں مراقبوں اور محاسبوں مشکلوں سے اپنے آپ کو اس قابل بناتا ہے کہ خالقِ جن و بشر' مالکِ آرض سما اس سے راضی ہو جائے۔ یہ میرے جسم پہ لدی وزنی' بے رحم زنجیریں میرے بدن کو اللہ کے احکام میں جکڑ کر رکھتی ہیں اور مجھے احساس دلاتی ہیں کہ میں محض قفس ہستی میں اسیر قیدی ہوں یہ میرے پاؤں پڑی بیڑیاں مجھے بے راہروی سے روکتی ہیں۔ یہ کھدی ہوئ تیار قبر جس میں بیٹھتا اور سوتا ہوں' لیٹ کر راحت باتا ہوں' مجھے ہمیشہ یاد دلاتی ہے کہ آخر مجھے یہیں آسودہ خاک ہونا ہے۔۔۔۔۔۔پسینہ خشک ہونے سے پہلے حق محنت ادا کر دینا' مقررہ وقت سے پہلے ہی وعدہ وفا کر دینا' اولاد کے بد راہ ہونے سے پہلے ان کا نکاح کر دینا اور مرنے سے پہلے اپنی لحد تیار کر لینا ان
لوگوں کا کام ہے جو متقی ہیں' اللہ سے حیا کرتے ہیں

بابا محمد یحیٰ خان' پیا رنگ کالا صفحۃ: 421
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
یہ مشتِ خاک انسان صرف اِسی خاک قبر میں ہی آسودہ خاطر ہوتا ہے۔ دنیا کا طمع' لالچ' حرص' اقتدار اور خواہشات کے نہ ختم ہونے والے سلسے سلسلے وسیع و عریض دنیا کو اس کے لئے بہت تنگ و تاریک حبس زدہ اور چھوٹا کر دیتے ہیں۔ وہ اپنی نا آسودہ تمناؤں اور طمع وحرص کے کمزور جال قابلِ ہضم و حصول مچھلیوں کی بجائے دیو ہیکل وہیلوں پہ پھینکنا شروع کر دیتا ہے۔ بس ' یہیں اس کا انت سرادھ ہو جاتا ہے۔اور جو شروع سے ہی آرزوؤں' خواہشوں' آسانیوں اور ہوس کے آزار میں خود کو نہیں بھنساتا' پھنساتا دنیا کو امتحان گاہ اور چند سانسوں کی عارضی زندگی کو کسی کی امانت سمجھتا ہے تو وہ پھر اپنے جسم اور اپنی روح کو مادر بدر پدرآزاد اور اپنی مرضی کا مالک نہیں رہنے دیتا۔ وہ مجاہدوں' مشاہدوں مراقبوں اور محاسبوں مشکلوں سے اپنے آپ کو اس قابل بناتا ہے کہ خالقِ جن و بشر' مالکِ آرض ارض وسما اس سے راضی ہو جائے۔ یہ میرے جسم پہ لدی وزنی' بے رحم زنجیریں میرے بدن کو اللہ کے احکام میں جکڑ کر رکھتی ہیں اور مجھے احساس دلاتی ہیں کہ میں محض قفس ہستی میں اسیر قیدی ہوں یہ میرے پاؤں پڑی بیڑیاں مجھے بے راہروی سے روکتی ہیں۔ یہ کھدی ہوئ ہوئی تیار قبر جس میں بیٹھتا اور سوتا ہوں' لیٹ کر راحت باتا پاتا ہوں' مجھے ہمیشہ یاد دلاتی ہے کہ آخر مجھے یہیں آسودہ خاک ہونا ہے۔۔۔ ۔۔۔ پسینہ خشک ہونے سے پہلے حق محنت ادا کر دینا' مقررہ وقت سے پہلے ہی وعدہ وفا کر دینا' اولاد کے بد راہ ہونے سے پہلے اُن کا نکاح کر دینا اور مرنے سے پہلے اپنی لحد تیار کر لینا ان
لوگوں کا کام ہے جو متقی ہیں' اللہ سے حیاء کرتے ہیں۔
بابا محمد یحیٰ خان' پیا رنگ کالا صفحۃ: 421
 

زبیر مرزا

محفلین
کتاب کا وزن دیکھ کرلانے کی ہمت نہیں ہوتی اور کراچی میں کچھ پڑھنے کا وقت کم ملتا ہے
اس کتاب کی تعریف بہت سنی ہے اوراب تک جوپڑھا بہترین پایا
 

نیلم

محفلین
جب فوج کا سپّہ سالار ہی عسکری جرّات وجذبے سے جُدا ہو اور ملک و ریاست کا فرمانروا عِلم و قوت، فراست اور آدابِ سیاست میں سیامی بِلّی ہو، خوفِ خُدا سے بے خوف، مصلحت کوش، تن آسان ہو اور پھر جب اللہ کے دِین اور اس کے گھروں کے رکھوالے۔۔۔۔۔۔۔ اپنی ناک تلے بےدینی اور مقدّس ہستیوں کی اَہانت کو برداشت کر جائیں تو پھر جان لو کہ وہ فوج، وہ ملک و ریاست، وہ قوم و ملّت، اور وہ شہر گاؤں یا محلّہ ضرور اپنے ایسے انجام کو پہنچیں گےکہ جس کا تذکرہ کرتے وقت مؤرخ کی انگلیوں میں بھی پسینہ آجائے گا۔۔۔۔۔۔

پِیا رنگ کالا از بابا محمد یحیٰی خان
صفحہ نمبر 133
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
نیلم آپا! کیا "پیا رنگ کالا"یہ مکمل کتاب یا اس کاربط کہیں سے مل سکتا ہے؟
آپ نے تو منشیات فروخت کرنے والوں کی طرح کچھ ایسا نشہ چٹا دِیا کہ اب تو یہ عالم ہے کہ "چھٹتی نہیں ہے ظالم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔"
یا تو جلد از جلد اکتباسات پیش کیجیے یا پھر پوری کتاب کا ربط دیجیے۔
 

نیلم

محفلین
کتاب کا وزن دیکھ کرلانے کی ہمت نہیں ہوتی اور کراچی میں کچھ پڑھنے کا وقت کم ملتا ہے
اس کتاب کی تعریف بہت سنی ہے اوراب تک جوپڑھا بہترین پایا
بے شک کتاب پڑھنے کا اپنا ہی ایک لطف ہوتا ہے۔لیکن آج کل نیٹ نے بھی بہت آسانی کر دی ہے ۔
 

نیلم

محفلین
نیلم آپا! کیا "پیا رنگ کالا"یہ مکمل کتاب یا اس کاربط کہیں سے مل سکتا ہے؟
آپ نے تو منشیات فروخت کرنے والوں کی طرح کچھ ایسا نشہ چٹا دِیا کہ اب تو یہ عالم ہے کہ "چھٹتی نہیں ہے ظالم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔"
یا تو جلد از جلد اکتباسات پیش کیجیے یا پھر پوری کتاب کا ربط دیجیے۔
میں اس دھاگے میں اقتباسات شئیر کرتی رہوں گی ۔۔ٌلیکن اگر آپ کتاب پڑھنا چا رہے ہیں تو یہ ربط چیک کر لیں
http://noo-e-urdu.com/showthread.php?157-Piya-Rang-Kala-پیا-رنگ-کالا-از-بابا-یحیٰ-خان
 

غدیر زھرا

لائبریرین
نیک پارسا لاکھ کا اور گنہگار خطا کار سوا لاکھ کا۔۔۔۔۔ اچھے کو مت چُھوؤ لیکن بُرے کو سینے سے لگا کر اِتنا بھینچو کہ وہ بھنڈی کا بیج بن کر رہ جائے۔۔۔

پِیا رنگ کالا از بابا محمد یحیٰی خان
صفحہ نمبر 194
 

نیلم

محفلین
کہتے ہیں کہ جو سازینے سانس سے زندہ ہوتے ہیں اُن کا پہلا سُر چاہے وہ کسی لَے یا انگ رنگ سے ہو، سرمدی ہوتا ہے۔ وہ آہنگ، الوہیّت رنگ ہوتا ہے۔ سانس کا تعلق دَم سے ہوتا ہے، دَم دَم مست، بانسری کے سُروں میں ایسا بانکپن، ہُوک، ہُمک، کسک، کرب اور کشش ہے وہ کسی اور ساز میں کہاں؟۔۔۔۔۔

پِیا رنگ کالا از بابا محمد یحیٰی خان
صفحہ نمبر 118
 

نیلم

محفلین
"خواہش، مرضی، تمنّا، طلب اور حرص، اِن سب چیزوں سے ہٹ کر راہ پکڑنے کا نام فقیری اور درویشی ہے۔ جو حُُکم ہوتا ہے، بلا چُوں چَراں اُس پر عمل کیا جاتا ہے۔ اندیشہء سود و زیاں دُنیا کے بندوں کے دِلوں میں ہوتا ہے، فقیروں کے ہاں محض تسلیم و رضا کی بات ہوتی ہے۔ یوں جانو کہ تم "جاننے" والے ہو اور ہم "ماننے" والے ہیں۔"
میرے منہ سے خود بخود نکل گیا۔ "جاننا اور ماننا۔۔۔۔۔؟"
"جان کر مانا، تو صِرف مانا اور اگر ایمان سے مانا تو بہت خُوب مانا۔۔۔۔۔ مومن اُسے کہتے ہیں جو اللہ کریم کو بغیر دیکھے بغیر جانے، اُس پر ایمان لائے اور کافر کہتا ہے کہ پہلے میرے سامنے آؤ، مُجھے اپنا آپ دکھاؤ۔"

پِیا رنگ کالا از بابا محمد یحیٰی خان
صفحہ نمبر 73
 

غدیر زھرا

لائبریرین
اندھیروں کے خوگر اور چاندنی کے چاہنے والے ہی جانتے ہیں کہ اِن ہردو کے جادُو کیسے سر پہ چڑھ کر بولتے ہیں۔ شبِ تار کی کالی ناگن کیسے مست ہو ہو کر ڈستی ہے او اُدھر چاند کی چم چم کرتی ہوئی نقرئی چاندنی کی چمپا بائی دِل و نگاہ میں کیسی کیسی چکا چوندی جگاتی ہے۔

پِِیا رنگ کالا از بابا محمد یحیٰی خان
صفحہ نمبر 424
 

نیلم

محفلین
سونا بنانے کیلئے کاٹھ کباڑ کی حاجت نہیں ہوتی، صرف نگاہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ سونا پڑا رہے تو مٹی ہےبندھ جائے تو سنگھار، پیٹ پڑے تو روٹی ہے۔ سُوکھی روٹی کا ایک ٹُکڑا، سونے کے پہاڑ پر بھاری ہے اگر بُھوک سچی ہو۔ سونے کی سلطنت ایک سانس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی اگر جان بچتی ہو ۔ فقیر کے فاقے کے سامنے سونے کی کائنات بھی ہیچ ہے۔۔۔۔۔ سونا بنانا تو بچّوں کا کھیل ہے، اصل کام تو یہ جاننا ہے کہ ہماری تخلیق کا مقصد کیا ہے اور جب کوئی یہ جان لیتا ہے تو وہ اللہ کے اَمر سے کائنات کی ہر چیز پہ حق اور اِختیار حاصل کر کے بھی، اَمراََ اور عملاََ لا تعلق اور بے نیاز ہوجاتا ہے جیسے نبی پاک ﷺ اگر چاہتے تو عرب کے سارے پہاڑ اور صحرا کے سب ذرّے سونے میں تبدیل کردئیے جاتے مگر سرکارِ مدینہﷺ نے ہرگز ایسا نہیں چاہا۔ کائنات کے وارث ہوتے ہوئے بھی قناعت، صبر اور شُکر پسند فرمایا، ادنیٰ سے ادنیٰ کام اپنے ہاتھوں سے سَر انجام دئیے۔ لِباس، طعام، قیام میں میانہ رَوی اور عام لوگوں کا سا اَنداز پسند فرمایا۔ رَعونت، تکبّر اور شاہانہ رسم و راہ سے ہمیشہ اغماض بَرتا۔۔۔

پِیا رنگ کالا از بابا محمد یحیٰی خان
صفحہ نمبر 65-66
 

غدیر زھرا

لائبریرین
درویش اور شعبدہ باز میں یہی ایک نُمایاں فرق ہوتا ہے کہ درویش کبھی بھی مُعجزوں، کرامتوں، کرنیوں، برکتوں اور فوق الفطرت عادات اور محیّر العقول واقعات کا اظہار و پرچار نہیں کرتا۔ وہ تو بے سوچے سمجھے کی دُعاؤں تسلّیوں سے بھی متنفّر ہوتا ہے۔ درویش کے پاس صرف اور صرف عاجزی اور تسلیم و رضا کی طاقت و دولت ہوتی ہے۔ میرے بابا جی نے مجے بتایا تھا کہ درویش وہ ہے جو ہر قسم کی صورتحال کے دَر پیش ہونے پہ بے ساختہ الحمدُ للہ کہے اور راضی برضا ہو کر اسے تسلیم کرے۔ جو بھی سر پہ پڑ جائے، اس کو مشیّتِ ایزدی جانے۔ رَبّ العزّت خود فرماتے ہیں، وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَ تُذِلُّ مَن تَشَاء۔ اس بات پہ ایمان لانے کے بعد پھر کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی۔۔۔

پِِیا رنگ کالا از بابا محمد یحیٰی خان
صفحہ نمبر 256
 
Top