انیس الرحمن
محفلین
پہیلیاں
فیض لدھیانوی
1
وہ کہنے کو تو چلتا ہے مگر ہلتا نہیں ہرگز
بنایا ہے کسی نے خوشنما صندوق جادو کا
جو راضی ہو تو بلبل کی طرح نغمے سناتا ہے
بگڑ جائے تو پھر رونا سنو تم اس سے الّو کا
2
ابھی لاہور سے نکلی ابھی ملتان میں پہنچی
اسے آتا نہیں ایک جا آرام سے رہنا
کئی چھوٹے محلے گود میں لے کر وہ پھرتی ہے
روا ہے اس انوکھی چیز کو شہر رواں رہنا
3
نہیں آپس میں یکساں اس کی دو ٹانگیں مگر پھر بھی
خوشی سے ہر گھڑی چلتے ہی رہنا کام ہے اس کا
وہ طے کرتی ہے بارہ منزلوں کو وقت پر اپنے
پہیلی خود بتادے گی تمہیں کیا نام ہے اس کا
4
بتاؤ کون ہے پردار، ان پڑھ ڈاکیا ایسا
سلیقہ ہے جسے پیغام لے کر آنے جانے کا
نکالا سب سے پہلے ڈاک لے جانے کا گرُ اس نے
مناسب ہے اسے بانی کہیں ہم ڈاک خانے کا
5
وہ دو ساتھی ہیں جن کی شکل بالکل ایک جیسی ہے
سنو تم غور سے دلچسپ حال ان کا ادھر آؤ
انہیں ہے شوق پھرنے کا ہمیں جانا ہو جب باہر
ہمارے پاؤں پڑتے ہیں کہ ہم کو ساتھ لے جاؤ
6
اگایا اس کو دہقاں نے، بنایا اس کو درزی نے
وہ سب کو ڈھانپتا ہے کوئی جاہل ہو کہ علّامہ
حقیقت ایک ہے اس کی نظر آتا ہے دو بن کر
اگر تم بوجھ لو تو آدمی ہو ورنہ پاجامہ
7
بڑی مسکین ہے لیکن غضب کی وہ شکارن ہے
بزرگوں سے سنا ہے شیر بھی ہے رشتے دار اس کا
اسے جنگل میں جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی
گھروں میں رات دن موجود رہتا ہے شکار اس کا
8
نہایت زور سے نعرے لگاتا ہے وہ بے مقصد
اسے دنیا کے سارے بےوقوفوں کا چچا سمجھو
کسی کا ظلم سہہ کر بھی خوشی سے بوجھ ڈھوتا ہے
جو اس کے نام سے واقف نہیں اس کو گدھا سمجھو