پہیلیاں

پہیلیاں
فیض لدھیانوی
1​
وہ کہنے کو تو چلتا ہے مگر ہلتا نہیں ہرگز​
بنایا ہے کسی نے خوشنما صندوق جادو کا​
جو راضی ہو تو بلبل کی طرح نغمے سناتا ہے​
بگڑ جائے تو پھر رونا سنو تم اس سے الّو کا​
2​
ابھی لاہور سے نکلی ابھی ملتان میں پہنچی​
اسے آتا نہیں ایک جا آرام سے رہنا​
کئی چھوٹے محلے گود میں لے کر وہ پھرتی ہے​
روا ہے اس انوکھی چیز کو شہر رواں رہنا​
3​
نہیں آپس میں یکساں اس کی دو ٹانگیں مگر پھر بھی​
خوشی سے ہر گھڑی چلتے ہی رہنا کام ہے اس کا​
وہ طے کرتی ہے بارہ منزلوں کو وقت پر اپنے​
پہیلی خود بتادے گی تمہیں کیا نام ہے اس کا​
4​
بتاؤ کون ہے پردار، ان پڑھ ڈاکیا ایسا​
سلیقہ ہے جسے پیغام لے کر آنے جانے کا​
نکالا سب سے پہلے ڈاک لے جانے کا گرُ اس نے​
مناسب ہے اسے بانی کہیں ہم ڈاک خانے کا​
5​
وہ دو ساتھی ہیں جن کی شکل بالکل ایک جیسی ہے​
سنو تم غور سے دلچسپ حال ان کا ادھر آؤ​
انہیں ہے شوق پھرنے کا ہمیں جانا ہو جب باہر​
ہمارے پاؤں پڑتے ہیں کہ ہم کو ساتھ لے جاؤ​
6​
اگایا اس کو دہقاں نے، بنایا اس کو درزی نے​
وہ سب کو ڈھانپتا ہے کوئی جاہل ہو کہ علّامہ​
حقیقت ایک ہے اس کی نظر آتا ہے دو بن کر​
اگر تم بوجھ لو تو آدمی ہو ورنہ پاجامہ​
7​
بڑی مسکین ہے لیکن غضب کی وہ شکارن ہے​
بزرگوں سے سنا ہے شیر بھی ہے رشتے دار اس کا​
اسے جنگل میں جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی​
گھروں میں رات دن موجود رہتا ہے شکار اس کا​
8​
نہایت زور سے نعرے لگاتا ہے وہ بے مقصد​
اسے دنیا کے سارے بےوقوفوں کا چچا سمجھو​
کسی کا ظلم سہہ کر بھی خوشی سے بوجھ ڈھوتا ہے​
جو اس کے نام سے واقف نہیں اس کو گدھا سمجھو​












 
Top